صحافی صدیق کپن کی اٹھائیس ماہ بعد جیل سے رہائی
ملیالی صحافی کو یو پی پولیس نے اس جرم کی پاداش میں گرفتار کیا تھا جو انہوں نے کبھی کیا ہی نہیں تھا۔ انہیں بالآخر الہ آباد ہائیکورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ضمانت دے دی ۔
سمیع احمد
’’میں سفاکانہ قوانین کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھوں گا۔ انہوں نے مجھے ضمانت ملنے کے بعد بھی جیل میں رکھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے جیل میں رہنے کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے۔ یہ دو سال میرے لیے بہت ہی مشکل تھے، لیکن میں کبھی ڈرا نہیں‘‘ صدیق کپن نے جیل سے باہر آتے ہی میڈیا کے نمائندوں سے یہ بات کہی۔
وہ 5 اکتوبر 2020 کا دن تھا جب ملاپورم (کیرالا) میں مقیم صحافی کو اتر پردیش پولیس نے متھرا ٹول پلازہ سے حراست میں لیا تھا۔ وہ اتر پردیش کے ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت دری اور اس کے بعد قتل کی رپورٹنگ کرنے کے لیے وہاں جا رہے تھے لیکن یو پی پولیس انہیں صحافی ماننے کو ہی تیار نہیں تھی۔
وہ ’عظیمکم‘ نامی ایک ویب سائٹ کی معاونت کر رہے تھے۔ صدیق کپن کیرالا ورکنگ جرنلسٹ یونین کی دلی یونٹ کے سکریٹری بھی رہے ہیں۔ اٹھائیس مہینوں کے بعد اب وہ یوگی حکومت کی طرف سے قید میں رکھنے کی تمام کوششوں کے باوجود لکھنؤ ڈسٹرکٹ جیل سے آزاد ہیں۔ انہیں 21 دسمبر 2021 کو متھرا سے لکھنؤ جیل منتقل کیا گیا تھا۔ ان پر پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے منسلک ہونے اور تشدد اور امن و امان میں خلل ڈالنے کا الزام تھا۔
انہیں یو پی کی یوگی حکومت نے نہیں بلکہ ہندی میڈیا نے بھی ’کتھ‘ یا نام نہاد صحافی قرار دیا تھا۔ جیل سے آزادی کے فوراً بعد ان سے ’نام نہاد‘ ہونے کے بارے میں وہی نازیبا سوال پوچھا گیا۔ انہوں نے نہایت تحمل سے جواب دیا کہ اگر کیرالا یونین آف ورکنگ جرنلسٹس نام نہاد ہے تو کیا پریس کلب آف انڈیا بھی ’نام نہاد‘ ہے؟‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی حکومت کے خلاف ہے تو اسے نئے رجحان کے مطابق ’نام نہاد‘ اور دہشت گرد قرار دیا جائے گا۔
پچھلے سال ستمبر میں، کپن کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (UAPA) کیس میں ضمانت دی تھی۔ اس کے باوجود وہ منی لانڈرنگ کی روک تھام کے قانون (PMLA) کیس کے تازہ الزام کی وجہ سے حراست میں رہے۔ انہیں PMLA کیس میں 23 دسمبر 2022 کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ سے ضمانت مل گئی، کیونکہ عدالت نے انہیں دہشت گردی کے لیے ممنوعہ گروپ PFI کے ذریعے کی گئی 1.36 کروڑ روپے کی مبینہ غیر قانونی لین دین سے جوڑنے والے معاملے میں ’ثبوتوں کی کمی‘ پائی ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق صدیق کپن نے کہا ہے کہ ’’میں اٹھائیس ماہ بعد جیل سے باہر آیا ہوں۔ مجھے حمایت دینے کے لیے میں میڈیا کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ مجھ پر جھوٹے الزامات لگائے گئے۔ میں اب باہر ہونے پر خوش ہوں۔ یہ دو سال بہت مشکل تھے، لیکن میں کبھی نہیں ڈرا‘‘
سینئر صحافی راجدیپ سردیسائی نے لکھا کہ الزامات غیر ثابت ہونے کی وجہ سے ان کے کیس کو نصابی کتاب کی مثال کے طور پر دیکھا جائے گا کہ کس طرح سخت قوانین کا اکثر ذاتی آزادی سے انکار اور ایک سرد اثر پیدا کرنے کے لیے غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اسے افسوسناک قرار دیا۔
کانگریس کے ایک سینئر لیڈر نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ آخر کار آئین کے آرٹیکل 21 کی فتح ہوئی ہے اور کیرالا کے صحافی صدیق کپن آزاد ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ ٹرائل کورٹ کے ججوں کو عدالتی تحویل کے مطالبے سے بازآنا چاہیے جو فی الواقع مقدمے سے پہلے قید وبند کی سزا کے مترادف ہے۔‘‘
انسانی حقوق کے نامور کارکن آکار پٹیل نے کہا کہ یہ مایوس کن ہے کہ میڈیا میں انہیں ہم باقی لوگوں سے کتنی کم حمایت ملی ہے۔ نوے کی دہائی میں جب کارگل پر حملہ ہوا، تو ایک بہت ہی مختلف کہانی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کچھ کھو دیا ہے۔
انڈین امریکن مسلم کونسل (IAMC) نے جو ریاست ہائے متحدہ میں ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والا ایک گروپ ہے، ایک ٹوئٹ میں کہا ’’IAMC صحافی صدیق کپن کی اٹھائیس ماہ کی غیر منصفانہ قید کے بعد رہائی کا خیر مقدم کرتا ہے۔ ہم عدالت سے درخواست کرتے ہیں کہ کپن کے ساتھ گرفتار کیے گئے دیگر مسلم نوجوانوں کو رہا کیا جائے اور مکمل طور پر بوگس اس کیس کو خارج کیا جائے‘‘۔۔
جہدکار انیربن بلہ نے کہا ہے کہ معاملہ صرف حمایت میں کمی کا نہیں ہے بلکہ اس سے ماوراہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی وی چینلوں نے اس تعاقب کی سرگرمی سے حوصلہ افزائی کی اور صدیق کپن کو قید رکھنے میں وہ بھی شریک تھے۔
سینئر صحافی عارفہ خانم شیروانی نے ٹویٹ کیا کہ صدیق کپن کو ایک ایسے جرم میں قید کیا گیا جو اس نے کبھی کیا ہی نہیں’’ اس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ ایک صحافی اور مسلمان تھا۔‘‘
ایک ٹویٹر ہینڈل کا خلاصہ یہ تھا ’’دو ہندوستان‘‘ مہاراشٹر کانگریس سے بادل نے لکھا ’’پلوامہ کے شہداء کے قتل کا جشن منانے والے ارنب گوسوامی کو دو دن میں ضمانت مل گئی… اس دوران صدیق کپن نے UAPA ایکٹ کے تحت مقدمات میں دو سال جیل میں گزارے اور جب انہیں ضمانت ملی تو بعد میں پی ایم ایل اے ایکٹ کے تحت ان پر منی لانڈرنگ کا الزام لگا۔‘‘
ایک اور صارف نے لکھا ’’اس کی تلافی کون کرے گا؟ سپریم کورٹ اسے غلط کام کرنے پر حکومت پر چند کروڑ کا مقدمہ دائر کرنے کی اجازت دے‘‘
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 فروری تا 18 فروری 2023