صدارتی انتخابات: امریکی جمہوریت کس طرف؟

مقدمات کے باوجود سرکردہ ارب پتی ڈونالڈ ٹرمپ کی حمایت میں کھڑے ہوگئے

اسد مرزا

ٹرمپ امریکہ کے ایسے سابق صدراور صدارتی امیدوار ہیں جنہیں
عدالت نے مجرم قرار دیا ہے
سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ’ہش منی کیس‘ میں تمام 34 شقوں میں مجرم قرار دیا گیا ہے جس میں انہوں نے ایک مبینہ معاملہ کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے کے لیے بالغ اداکار سٹورمی ڈینیئلز کو 130,000 ڈالر کی ادائیگی کا احاطہ کرنے کے لیے کاروباری ریکارڈ میں ہیر پھیر کی تھی۔
اس چونکا دینے والے فیصلے کے اعلان کے فوراً بعد کئی امریکی ارب پتیوں نے، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے حالیہ برسوں میں ڈونالڈ ٹرمپ سے دوری اختیار کرلی تھی، ایک بار پھر بالواسطہ طور پر ان کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ ان میں بل ایکمین سے لے کر اسٹیفن شوارزمین تک، امریکی ارب پتیوں بشمول ایلون مسک نے سزا کے باوجود ڈونالڈ ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
کچھ شخصیتوں کو جنہوں نے ٹرمپ کی حمایت کا وعدہ کیا ہے، انہیں 6 جنوری 2021 کو یو ایس کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے میں ان کے کردار پر عوام مسترد کر چکے تھے، لیکن اب حالات بدل چکے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ دوبارہ ان کے قریب آ گئے ہیں۔
6 جنوری کو امریکی کیپیٹل ہل پر حملے اور دیگر تین مقدمات بھی وال اسٹریٹ کے بہت سے ارب پتیوں کو ٹرمپ کی حمایت میں آگے آنے سے روک نہیں سکے۔ بعض نے کہا ہے کہ وہ صدر جو بائیڈن سے مایوس ہیں، دوسروں نے کہا ہے کہ وہ ان کی صدارت میں ملک میں بڑھتی ہوئی سامیت دشمنی (Anti-Semitism) کے بارے میں فکر مند ہیں۔
گزشتہ ہفتے بلیک اسٹون کے شریک بانی اور سی ای او ارب پتی اسٹیو شوارزمین نے کہا کہ وہ ٹرمپ کی حمایت کریں گے اور انہیں عطیات دیں گے۔ یاہو فائنانس کے مطابق، بلیک اسٹون 144.27 بلین کی مارکیٹ کیپ کے ساتھ سرمایہ کاری اور رئیل اسٹیٹ کی ایک بڑی کمپنی ہے۔ اس کے زیر انتظام $1 ٹریلین سے زیادہ کے اثاثے ہیں۔
1789 کیپیٹل کے صدر عمید ملک نے بھی ٹرمپ کی حمایت کی ہے۔ وہ نیویارک میں ٹرمپ کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے والے رہنماؤں میں سے ایک ہیں جہاں ایک رپورٹ کے مطابق، 25 ملین ڈالر تک کے عطیات مانگے گئے تھے۔Bigelow Aerospace and Budget Suites of America کے مالک رابرٹ Bigelow نے بھی ٹرمپ کی حمایت کی ہے۔ رائٹرز کے مطابق اس نے ٹرمپ کو اپنی قانونی فیس کے لیے ایک ملین ڈالر بھی ادا کیے ہیں۔
ہیج فنڈ پرشنگ اسکوائر کے سی ای او ارب پتی بل ایک مین نے کہا ہے کہ وہ بائیڈن کو ووٹ نہیں دیں گے اور اشارہ دیا ہے کہ اب وہ ٹرمپ کی حمایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے بائیڈن کی مذمت کی کیونکہ اسرائیل مخالف مظاہروں کی جو لہر پورے امریکہ میں پھیل گئی تھی، اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے صدر بائیڈن کے یہود مخالف ہونے پر ان کی تنقید کی ہے۔
جے پی مورگن کے چیئرمین اور سی ای او جیمی ڈیمن نے بھی حالیہ دنوں میں ٹرمپ کی حمایت کا عندیہ دیا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق، ٹرمپ کو سلیکان ویلی میں وینچر کیپیٹلسٹوں میں بھی تیزی سے حمایت مل رہی ہے، جو طویل عرصے سے ڈیموکریٹس کا گڑھ رہا ہے۔
سلیکان ویلی کے حامیوں میں نمایاں ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے باس ایلون مسک ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ وہ 2024 کے امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی حمایت کریں گے، وال اسٹریٹ جرنل نے اطلاع دی ہے کہ وہ حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے قریب ہو گئے ہیں اور وہ متعدد پرائیویٹ پروگراموں میں ان کی حمایت کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔
ایلون مسک کا، جو ٹرمپ کے معروف حامی ہیں، خیال ہے کہ یہ سزا انصاف کے حقیقی حصول کے بجائے سیاسی بنیاد پر دی گئی تھی۔ یہ جذبہ ٹرمپ کے بہت سے حامیوں کے ردعمل کی بازگشت کرتا ہے جو رقم کی ادائیگی سے متعلق الزامات کو ایک معمولی جرم کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ٹرمپ کی یہ اچانک حمایت کیوں؟
وفاداری کی یہ ظاہری تبدیلی ہمیں ان ارب پتیوں کے فیصلے کی بنیادی منطق پر بھی حیرت میں ڈال دیتی ہے اور ہمیشہ کی طرح جب آپ تہوں کو ہٹانا شروع کرتے ہیں تو پھر ہر اس غیر منطقی اقدام کی بنیاد یا دلیل پر حتمی جواب ملتا ہے: پیسہ یا معاشی فوائد۔ ٹرمپ نے امیروں کے لیے ذاتی انکم ٹیکس کم کرنے اور دیگر مالی ضوابط کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے جبکہ صدر جو بائیڈن اس کے برعکس معاشی پالیسیاں بنانا چاہتے ہیں۔ جب کہ کچھ ارب پتیوں نے بائیڈن کی پالیسیوں سے مایوسی اور ملک میں بڑھتی ہوئی سامیت دشمنی کو ٹرمپ کی حمایت کرنے کی وجہ بتائی ہے، مبصرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ ٹرمپ کی مجوزہ ٹیکس میں کمی کرنے کی پالیسی ہے۔
ان میں سے کچھ بزنس مینوں نے حالیہ برسوں میں ٹرمپ پر سخت تنقید بھی کی ہے۔ 6 جنوری کو امریکی کیپیٹل پر حملے کے بعد، جے پی مورگن کے باس ڈیمن نے کہا تھا کہ وہ "ہمارے ملک کے دارالحکومت میں تشدد کی شدید مذمت کرتے ہیں، اور ہمارے منتخب لیڈروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کریں اور انتخابی نتائج کوقبول کریں” بلیک اسٹون کے باس شوارزمین نے اسے جمہوری اقدار کی توہین قرار دیا تھا جسے ہم بطور امریکی بہت عزیز رکھتے ہیں۔ اور بعد میں کہا تھا کہ وہ ٹرمپ کی حمایت کبھی نہیں کریں گے۔ تاہم، اب انہوں نے کہا ہے کہ بائیڈن کے ماتحت امریکہ ’غلط سمت‘ کی طرف جا رہا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’یہود دشمنی کے ڈرامائی عروج‘ نے انہیں ٹرمپ کی حمایت کرنے پر مجبور کیا ہے۔
دی نیو ریپبلک میگزین میں اپنے تجزیے میں ٹموتھی نوح نے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہود دشمنی کا مسئلہ مکمل طور پر ٹرمپ کی حمایت پر توجہ نہیں دیتا، کیونکہ وہ برسوں سے اس تحریک سے وابستہ ہیں۔ وٹنی ٹِلسن،م نے جو پہلے ہیج فنڈ کیس کیپٹل مینجمنٹ چلاتے تھے، بلومبرگ کو بتایا کہ کاروباری رہنما ٹرمپ کی حمایت خود غرضی کی بنیاد پر کر رہے ہیں اور اس کی ظاہری وجہ اپنے منافع میں اضافہ کرنا ہے۔
دریں اثنا، ایک عجیب و غریب اور متعلقہ پیش رفت میں ٹرمپ نے اس مقدمے کے دوران اپنا موازنہ سینٹ مدر ٹریسا سے کیا اور الزامات کو ‘دھاندلی زدہ’ قرار دیا، جس نے پوری دنیا کو چونکا دیا۔انہوں نے کہا کہ ’’مدر ٹریسا ان الزامات کو شکست نہیں دے سکتی تھیں۔ الزامات دھاندلی کے ہیں۔ پوری چیز دھاندلی پر مبنی ہے‘‘ یہ تبصرے اس وقت سامنے آئے جب وہ مقدمے کی سماعت ختم ہونے کے بعد عدالت سے باہر نکل رہے تھے۔
یہ موازنہ ہمیں اپنے ملک میں کیے گئے اس دعوے کی بھی یاد دلاتا ہے جب وزیر اعظم مودی نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ سوچتے ہیں کہ وہ حیاتیاتی طور پر پیدا نہیں ہوئے تھے۔ یعنی ایک طریقے سے وہ اپنے آپ کو بھگوان ثابت کر رہے تھے۔ درحقیقت، یہ دونوں موازنے اس پرانے قول کو ثابت کرتے ہیں کہ مذہب ہمیشہ اقتدار میں موجود بدمعاشوں کی آخری پناہ گاہ ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ مذہب ان کے مخالفین اور عالمی طاقتوں کی تنقید کے خلاف ان کو ایک طرح کی قانونی حیثیت اور پردہ پوشی فراہم کرتا ہے۔ یہ اس نظریے کی مزید تصدیق کرتا ہے کہ سیاسی اشرافیہ اپنے سیاسی فائدے کے لیے مذہب کا استعمال کس طریقے سے کرتے ہیں۔
تاہم، سزا سنائے جانے کے باوجود ٹرمپ، جو فی الحال 2024 میں دوبارہ انتخاب کے لیے مہم چلا رہے ہیں، صدر منتخب ہونےکے اہل ہیں۔ ٹرمپ نے خود اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ صدارتی انتخابات میں امریکی عوام حقیقی فیصلہ سنائیں گے۔ اب تک کے بیشتر سروے یہ ظاہر کر چکے ہیں کہ ٹرمپ امریکی صدارتی انتخاب جیت سکتے ہیں۔
یہ پورا واقعہ اور اس سے منسلک پیش رفت ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کیا واقعی امریکی جمہوریت زوال پذیر ہے اور غیر منطقی بنتی جارہی ہے؟

 

***

 سزا سنائے جانے کے باوجود ٹرمپ، جو فی الحال 2024 میں دوبارہ انتخاب کے لیے مہم چلا رہے ہیں، صدر منتخب ہونےکے اہل ہیں۔ ٹرمپ نے خود اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ صدارتی انتخابات میں امریکی عوام حقیقی فیصلہ سنائیں گے۔ اب تک کے بیشتر سروے یہ ظاہر کر چکے ہیں کہ ٹرمپ امریکی صدارتی انتخاب جیت سکتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جولائی تا 13 جولائی 2024