صدر جمہوریہ کی تقریر میں جمہوری روایات نظر انداز

بھارت کے اعلیٰ ترین عہدے سے مودی حکومت کی تخریب کار سیاست کی تشہیر نامناسب اقدام

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

صدر مرمو کسی ایک پارٹی کی ترجمان نہیں بلکہ ملک کی پہلی شہری اور ملک کی صدر ہیں
یہ ایک عام روایت ہے کہ صدارتی خطاب حکومت کی طرف سے تیار کیا جاتا ہے، جو کہ عام طور پر سیاسی تنقید سے خالی ہوتا ہے، لیکن جس طریقے سے اپوزیشن پارٹیاں مودی حکومت کی جمہوریت مخالف پالیسیوں پر آواز بلند کر رہی ہیں اور جس شدت کے ساتھ ملک کو لاحق خطرات پر چیخ چیخ کر عوام کو آگاہ کر رہی ہیں اس پر وزیر اعظم کی مایوسی صدر جمہوریہ کی تقریر سے ظاہر ہو رہی ہے۔
صدر جمہوریہ ہند دروپدی مرمو نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے روایتی خطاب میں کہا کہ ’2024 کے انتخابات، مودی حکومت کی پالیسیوں، ان کی نیت، لگن اور فیصلوں پر عوامی اعتماد کا ثبوت ہے، عوام نے مودی حکومت کی عوامی خدمات اور بہتر گورننس پر مہر لگائی ہے جو انہوں نے گزشتہ دس سال سے جاری رکھی ہوئی ہیں‘
صدر جمہوریہ سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا سیٹوں کا کم ہونا مودی حکومت پر عوامی اعتماد کا ثبوت ہے؟ آخر ووٹروں نے مودی کی کس پالیسی پر اپنے بھروسے کی مہر لگائی ہے؟ کیا اگنی ویر اسکیم پر اپنی منظوری دی ہے، کیا نوٹ بندی پر اپنا بھروسا ظاہر ہے یا کسانی قوانین پر مہر لگائی ہے، یا منی پور جلنے اور خون بہنے پر اپنی مجرمانہ غفلت پر تائید کا اظہار کیا ہے، یا پھر الیکٹورل بانڈ اسکیم کو متعارف کرانے کے پیچھے ان کی نیک نیتی پر بھروسہ کیا گیا ہے؟ یہ وہی الیکٹورل بانڈس ہیں جن کے ذریعے انہوں نے پر بھتہ خوری کی، ان پر رشوت خوری کے الزامات لگے اور اسے سپریم کورٹ نے بھی غیر قانونی قرار دیا، ان بانڈس کی اسکیم لانچ کرنے پر کیا عوام نے ان کی پیٹھ تھپتھپائی؟
صدر جمہوریہ نے گڈ گورننس کی تعریف کی، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ وہی بے مثال لاک ڈاؤن والا گڈ گورننس ہے جس نے کروڑوں عوام کی معیشت کو تباہ و برباد کردیا، ایسا گڈ گورننس جس سے معاشرے میں فرقہ وارانہ انتشار بڑے پیمانے پر پھیلا، وہی گڈ گورننس جس سے قیمتیں خوفناک حد تک بڑھ گئیں، وہی گڈ گورننس جس نے بے روزگاری پیدا کردی، وہی گڈ گورننس جس نے پیپر لیک کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا جس سے کروڑوں طلباء کی زندگیاں اجیرن بن گئیں؟
صدر جمہوریہ نے اپنے خطاب میں گزشتہ دس سالوں میں کیے گئے اہم فیصلوں کا ذکر تک کرنا گوارا نہیں کیا۔ مثال کے طور پر انہوں نے اگنی ویر اسکیم کا تذکرہ نہیں کیا، جب کہ دفاعی سیکٹرمیں جو ’اصلاحات‘ کی گئیں ہیں ان کو تفصیل سے بیان کیا لیکن اگنی ویر اسکیم تقریر سے غائب کردی گئی۔ صدر جمہوریہ نے چھوٹے چھوٹے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا ہے جیسے سی ڈی ایس (چیف آف ڈیفنس اسٹاف) کا تقرر، آرڈیننس فیکٹریوں کی تنظیم جدید، ڈیفنس امپورٹ میں اضافہ، اتر پردیش اور تمل ناڈو میں دو ڈیفینس کاریڈورس تیار کیے جانے کا حوالہ ہے اور نیشنل وار میموریل کے قیام کا ذکر ہے، لیکن انہوں نے اگنی ویر اسکیم سے متعلق ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نہیں نکالا۔
یہ اسکیم اتنی ‘شان دار’ تھی کہ راجستھان، ہریانہ اور اتر پردیش جیسی ریاستیں جو بھاجپا کے قلعے مانے جاتے تھے، یہاں کے نوجوانوں نے اس چار سالہ گھناؤنی ملازمت کی اسکیم پر انتخابات میں غصہ نکالا۔ شاید صدر جمہوریہ کو یہ نظر نہیں آیا۔ اگنی ویر واضح طور پر حکومت کی پالیسی پر بھروسا کرنے کے قابل نہیں ہے، یہ اسکیم اسی طرح بھروسے کے قابل نہیں ہے جس طرح نوٹ بندی بھروسے کے قابل نہیں تھی، جس طرح زرعی قوانین بھروسے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ ساری اسکیمیں نریندر مودی اور ان کے کارپوریٹ مالکوں کے دماغوں کی اپچ ہیں، یہ مودی کے دماغ کی اختراع ہیں۔ شاید صدر جمہوریہ کو ایک اسکرپٹ پڑھنے کے لیے دی گئی تھی اور وہ اسے پڑھنے پر مجبور تھیں، یقیناً ان کا خطاب گمراہ کن اور آدھا سچ اور آدھا جھوٹ سے بھرا ہوا تھا۔
ایک اور مسئلہ بھی الیکشن میں چھایا رہا، وہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا مسئلہ تھا، بے روزگاری کا تناسب ایک خطرناک صورتحال اختیار کرگیا ہے، پیپر لیک نے نوجوانوں کے کیریئر کو تباہ کر دیا ہے۔ صدر جمہوریہ کی تقریر میں پیپر لیک کے بحران کو تسلیم کیا گیا لیکن بے روزگاری سے نمٹنے کے کسی ٹھوس اقدام کا ذکر نہیں گیا۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر کچھ نہیں بولا گیا، لیکن صدر جمہوریہ نے مبہم طور پر کہا کہ ’’میری حکومت میں اس ملک کے نوجوانوں کے لیے بڑے خواب دیکھنے اور ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ایک اچھا ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، پچھلے دس سال میں ایسی ہر رکاوٹ کو ہٹا دیا گیا ہے جو ہمارے نوجوانوں کے لیے پریشانی کا باعث بنے تھے۔‘‘
ستم ظریفی یہ ہے کہ صدر جمہوریہ نے صرف حکومت کی تخریب کار سیاست کی ہی تشہیر کی۔ انہوں نے کہا ’’ماضی میں، نوجوانوں کو اپنے سرٹیفکیٹ کی تصدیق کرانے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگنا پڑتا تھا لیکن اب ان کی خود ساختہ تصدیق ہی کافی ہے۔ مرکزی حکومت کے گروپ سی اور گروپ ڈی کے عہدوں پر بھرتی کے لیے انٹرویوز کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل ہندوستانی زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو غیر منصفانہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ نیو نیشنل ایجوکیشنل پالیسی کے نفاذ سے میری حکومت اس ناانصافی کو دور کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اب طلباء ہندوستانی زبانوں میں انجینئرنگ کورسس کر سکتے ہیں۔‘‘
صدر جمہوریہ نے ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے روڈ میپ دیے بغیر صرف کھوکھلی باتیں کرتی رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت کی مسلسل یہ کوشش ہے کہ ملک کے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے لیے مناسب مواقع فراہم کیے جائیں۔‘‘ لیکن کوئی روڈ میپ نہیں دیا گیا۔
صدر جمہوریہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ نوجوانوں کو کھیلوں میں نئے مواقع ملے ہیں۔ پیپر لیک کے بارے میں کہا کہ ’’چاہے یہ مسابقتی امتحانات ہوں یا سرکاری بھرتی، کسی رکاوٹ کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس عمل میں مکمل شفافیت اور پروبیٹی کی ضرورت ہے۔ کچھ امتحانات میں پیپر لیک کے حالیہ واقعات کے بارے میں، میری حکومت منصفانہ تحقیقات اور مجرموں کو سخت سزا دینے پر عمل پیرا ہے۔ اسی لیے پارلیمنٹ نے امتحانات میں غیر منصفانہ ذرائع کے خلاف سخت قانون بھی بنایا ہے۔ میری حکومت امتحان سے متعلقہ اداروں، ان کے کام کاج اور امتحانی عمل کے تمام پہلوؤں میں بڑی اصلاحات کے لیے کام کر رہی ہے۔‘‘
انتخابی تقاریر میں کیے جانے والے بلند و بانگ دعوؤں اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کچھ فرق ہونا چاہیے، صدر جمہوریہ کے رسمی الفاظ ہی سہی، ایک انتخابی جلسے کی تقریر اور صدر جمہوریہ کے خطاب میں فرق ہونا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے ان میں کوئی فرق نہیں دیکھا گیا۔
نوجوانوں کے مسائل کے حل کرنے کے دعوؤں کی طرح ہی عالمی برادری میں ہندوستان کے غلبہ کے دعوے بھی لاغر اور کمزور بنیادوں پر ہی نظر آئے۔ صدر جمہوریہ نے کہا کہ وشوا بندھو (شکر ہے، وشو گرو نہیں کہا) کے طور پر ہندوستان نے بہت سے عالمی مسائل کے حل فراہم کرنے میں پہل کی ہے، ان عالمی مسائل کا حل یوگا، جوار اور شمسی توانائی کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ حالاں کہ امریکہ اور چین یوگا اور باجرے کی وجہ سے مضبوط معیشتیں نہیں بنی ہیں، انہیں دفاعی صلاحیتوں اور سفارتی طاقت کی وجہ سے سوپر پاور سمجھا جاتا ہے۔
پھر اسی طریقے سے غربت کے خاتمے کے لیے بھی کوئی ٹھوس بات نہیں پیش کی، غربت کے خاتمے کے محض دعوے کیے گئے ہیں، وہ بھی صرف مفت راشن کی تقسیم اور بیت الخلاوں کی تعمیر تک ہی محدود نظر آتے ہیں۔
اگرچہ صدارتی خطاب میں عام طور پر سیاسی پارٹیوں پر تنقید نہیں کی جاتی ہے، لیکن صدر جمہوریہ نے کہا ’’اکثر اوقات مخالفانہ ذہنیت، تنگ نظر اور خود غرضی کی وجہ سے جمہوریت کی بنیادی روح کو بری طرح سے مجروح کیا گیا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف پارلیمنٹری سسٹم کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ قوم کی ترقی کے سفر کو بھی متاثر کرتا ہے۔‘‘
صدر جمہوریہ سے ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ حقیقت میں تنگ نظر اور خود غرض ذہنیت کے مالک کون ہیں؟ ملک میں صرف ایک مذہب کے علم بردار اور ایک نام نہاد اعلی ذات کے نگہبان کون ہیں؟ مسلمانوں سے نفرت اور ان کو کون ختم کرنا چاہتا ہے؟ آپ سارے ملک کی صدر ہیں، کسی ایک پارٹی کی نمائندگی نہیں کر رہی ہیں۔
صدر جمہوریہ نے مزید کہا کہ ’’آج پوری دنیا جمہوریت کی ماں کے طور پر ہماری عزت کرتی ہے۔ ہندوستانی عوام نے ہمیشہ جمہوریت پر مکمل اعتماد کیا ہے اور انتخابی اداروں پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ہمیں اپنی مضبوط جمہوریت کو برقرار رکھنے کے لیے ان اداروں پر اعتماد کو برقرار رکھنا اور ان کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جمہوری اداروں اور انتخابی عمل پر لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا، اس شاخ کو کاٹنے کے مترادف ہے جس پر ہم سب بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی ساکھ کو مجروح کرنے کی ہر کوشش کی اجتماعی طور پر مذمت کرنی چاہیے۔‘‘
یاد رہے کہ صدر صاحبہ اور وزیر اعظم مودی 2014 اور 2024 کے درمیان اپنی مضبوط اکثریت پر ناز کرتے رہے اور اپنے ہی اتحادیوں کو غیر مستحکم کرتے رہے، انہیں کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ حالاں کہ جمہوری نظام کو کون کمزور کرتا رہا یہ سارا ملک جانتا ہے۔ مودی کچھ سال پہلے تک جن کے پر کتر رہے تھے کیا وہ جمہوریت کو کمزور کرنا نہیں تھا؟ دراں حالیکہ انہی کے سہارے ان کی حکومت کھڑی ہوئی ہے!
صدر میڈم کی یہ بات سن کر بڑا عجیب لگا جب انہوں نے کہا کہ’’میں بھی آپ کے ساتھ اپنے کچھ تحفظات بتانا چاہتی ہوں۔ میں آپ سے گزارش کروں گی کہ ان مسائل کا خود جائزہ لیں اور ملک کو ٹھوس اور تعمیری حل بتائیں۔ کمیونیکیشن کے اس دور میں خلل ڈالنے والی قوتیں جمہوریت کو کمزور کرنے اور معاشرے میں دراڑیں ڈالنے کی سازشیں کر رہی ہیں۔ یہ قوتیں ملک کے اندر موجود ہیں اور ملک سے باہر بھی کام کر رہی ہیں۔ یہ طاقتیں افواہیں پھیلانے، لوگوں کو گمراہ کرنے اور غلط معلومات کا سہارا لیتی ہیں۔ اس صورتحال کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘‘
یہ ساری دنیا جانتی ہے کہ کون سماج میں دراڑیں ڈال رہا ہے اور کون سماج میں نفرت کے بیچ بو رہا ہے؟
صدر جمہوریہ کا خطاب تو عوام کے مسائل کا عکاس ہونا چاہیے نہ کہ حکومت کے کاموں کی تشہیر کرنے والا؟
صدر جمہوریہ کا خطاب عوامی مسائل کا حل پیش کرنے والا ہو نہ کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی تعریف کرنے والا؟
صدر جمہوریہ کا خطاب حکومت کے غلط اقدامات پر تنقید بھی کرنے والا ہونا چاہیے جو کہ نوجوانوں کی امنگوں کا ترجمان بھی ہو۔ لہٰذا صدر جمہوریہ سے ادباً گزارش ہے کہ وہ ان باتوں کی جانب بھی توجہ دیں اور آئندہ جب کبھی خطاب کریں تو ملک کے تمام مسائل کا احاطہ کریں۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جولائی تا 20 جولائی 2024