
!صدر ٹرمپ نے الٹی میٹم ختم ہونے سے پہلے ہی شب خون مار دیا
’امن قائم کرو یا سانحہ سہنے کے لیے تیار ہو جاؤ‘ ایران کو دھمکی
مسعود ابدالی
ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں میری انٹیلیجنس ڈائریکٹر کا تجزیہ غلط ہے:امریکی صدر
عراق کے WMD سے ایران کے ایٹم بم تک۔ امریکی جھوٹ کا تسلسل
اسرائیل میں خبروں پر سخت سنسر اور شہریوں کے ملک چھوڑنے پر پابندی جبکہ ایران میں صحافیوں کو کھلی چھوٹ
صدر ٹرمپ نے اپنے ناقابل اعتماد ہونے کا ایک اور ثبوت دے دیا۔ جمعرات 19 جون کی صبح صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے قصر مرمریں کی ترجمان محترمہ کیرولائن لیوٹ نے کہا تھا کہ ‘صدر ٹرمپ کے خیال میں بات چیت کے ذریعے ایرانی جوہری تنازعے کاحل ممکن ہے، اس لیے صدر ٹرمپ نے ایران میں فوجی مداخلت کے فوری امکان کو مسترد کر دیا ہے اور اس سلسلے میں فیصلہ دو ہفتے بعد کیا جائے گا۔ لیکن صرف دو دن بعد قُم کے قریب فرود یورنیم افزودگی پلانٹ، نطنز کے افزودگی کمپلیکس اور اصفہان میں جوہری تحقیقاتی مرکز کو نشانہ بنایا گیا۔
اس حملے کی تیاری ایک ہفتے سے جاری تھی۔ ایرانی اور اسرائیلی ماہرین کا خیال ہے کہ قُم کے مضافاتی علاقے فردو کا یورینیم افزودگی پلانٹ پہاڑی چٹانوں کے نیچے کئی سو فٹ گہرائی میں ہیں اور اس گہرائی تک صرف 30 ہزار پونڈ کے دیوہیکل GBU-57 بنکر بسٹر بم ہی پہنچ سکتے ہیں۔ اپنے پہلے دورِ اقتدار میں صدر ٹرمپ اس بم سے ملتا جلتا GBU-43/B ننگر ہار، افغانستان پر گرا چکے ہیں جسے بموں کی ماں یا MOAB کہا جاتا ہے۔ اکیس ہزار 700 پاونڈ وزنی اس بم میں 1800 پاونڈ بارود بھرا ہوا تھا جبکہ GBU-57 کی دھماکہ خیز قوت 5300 پاونڈ ہے۔ یہ بم 200 فٹ موٹی چٹانوں کو چیر کر نیچے پھٹتا ہے۔ ان بھاری بموں کو صرف B2 بمبار ہی لے جا سکتے ہیں۔ حملے سے ایک دن پہلے روز فاکس نیوز نے اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے خبر دی تھی کہ B2 بمبار امریکی ریاست مسوری کے وہائٹ مین اڈے سے بحرالکاہل میں امریکی کالونی گوام (Guam) پہنچا دہے گئے ہیں۔ اس سے دو دن پہلے خبر آئی تھی کہ دوران پرواز ایندھن بھرنے والے تیس KC-135 ائر ٹینکر امریکی سے مشرق وسطیٰ بھیجے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ایران کے ممکنہ جوابی حملے کی پیش بندی کے طور پر قطر کے امریکی اڈے پر موجود تمام طیارے، بحری بیڑوں پر کھڑے کر دیے گئے۔
حملے کی جو ابتدائی تفصیلات جاری ہوئی ہیں، ان کے مطابق فردو کی یورینیم افزودگی تنصیبات کو چھ GBU-57 بنکر بسٹر بموں سے نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ نطنز اور اصفہان پر 30 ٹاماہاک میزائیل سے حملہ ہوا جو امریکی بحری جہازوں سے داغے گئے تھے۔
حملے کے بعد نائب صدر جے ڈی وانس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور وزیر دفاع ہیگ سیتھ کے ہمراہ قوم سے اپنے فاتحانہ خطاب میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بتایا کہ آج فردو، نطنز اور اصفہان کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کارروائی کا مقصد ایران کی جوہری افزودگی کی صلاحیت کو ختم کرنا تھا اور یہ ایرانی تنصیبات ختم کر دی گئی ہیں، ایران کو اب امن قائم کرنا چاہیے ورنہ ہمارے نئے حملے بہت شدید ہوں گے۔ ایران کو ردعمل کی صورت میں مزید مہلک حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب امن یا پھر ایران کے لیے سانحہ ہوگا۔ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ ایران کا رد عمل کیا ہوگا؟ تاہم ایرانی قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ اگر امریکہ نے ایران پر حملہ کیا تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں صدر ٹرمپ نے 2016 سے ایران کے ایٹم بم کا ہوّا کھڑا کر رکھا ہے اور وہ مسلسل یہ تاثر دے رہے کہ اسلامی جمہوریہ کسی بھی وقت جوہری بم بنا کر اسرائیل اور علاقے میں امریکہ کے دوسرے اتحادیوں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ تاہم کسی آزاد ذریعے سے صدر ٹرمپ کے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی اور صرف دو ماہ پہلے 25 مارچ کو ان کی ڈائریکٹر انٹیلیجنس تلسی گیبورڈ نے امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے سراغ رسانی (SSCI) کے روبرو امریکہ اور دنیا بھر کی جمہوریتوں کو حائل خطرات پر رپورٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ انٹیلیجنس کمیونٹی کا خیال ہے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا ہے اور سپریم لیڈر خامنہ ای نے جوہری ہتھیاروں کے اس پروگرام کی دوبارہ اجازت نہیں دی ہے جسے انہوں نے 2003 میں معطل کر دیا تھا’۔ دوسرے دن موصوفہ نے لفظ بہ لفظ یہی بیان ایوان نمائندگاں (قومی اسمبلی) کی مجلس قائمہ برائے سراغ رسانی (HPSCI) کے سامنے دہرایا۔
حملے سے دو روز پہلے جب صدر ٹرمپ کو ایک صحافی نے کہا کہ ‘انٹیلیجنس کمیونٹی کا خیال ہے کہ ایران جوہری بم نہیں بنا رہا ہے تو امریکی صدر جِھلا کر بولے انٹلیجینس کمیونٹی غلط کہتی ہے۔ ایران کے پاس ہتھیار بنانے کی صلاحیت موجود ہے، چاہے وہ اسے Assemble کر رہا ہو یا نہ کر رہا ہو۔ پھر اسی صحافی سے پوچھا انٹیلیجنس کمیونٹی میں کون یہ کہہ رہا ہے؟ جب انہیں بتایا گیا کہ آپ کی انٹیلیجنس ڈائریکٹر تلسی گیبورڈ! تو امریکی صدر فوری بولے ‘گیبورڈ غلط کہتی ہے’۔ شنید ہے کہ صدر ٹرمپ نے برہم ہوکر تلسی گیبورڈ کو قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بلانا چھوڑ دیا ہے۔تلسی گیبورڈ بھی زمانہ و مردم شناس خاتون ہیں چنانچہ وہ فوراً سجدہ سہو میں گر گئیں اور کہا کہ ‘بد دیانت میڈیا نے میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹا کر شائع کیا ہے اور یہ کہ ایران ہفتوں یا (زیادہ سے زیادہ) مہینوں میں ایٹم بم بنا سکتا ہے۔
جھوٹ کی بنیاد پر کسی ملک پر حملہ آور ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ تین مارچ 2003 کو امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور پولینڈ نے یہی کہہ کر عراق پر حملہ کیا تھا کہ صدام حسین نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) بنا رکھے ہیں۔ اس موقع پر فرانس، جرمنی اور نیوزی لینڈ کی سراغ رساں اداروں نے دلائل و شواہد کے ساتھ امریکیوں کے اس مفروضے کو غلط ثابت کیا اور اسی بِنا پر یہ ملک حملے میں امریکہ کے ساتھ نہیں گئے۔ اس بات پر امریکی اتنے مشتعل ہوئے کہ کانگریس کیفیٹیریا کے مینو پر فرنچ فرائی (French Fries) کو فریڈم فرائی سے تبدیل کر دیا گیا۔ کچھ انتہا پسند ارکان کانگریس نے نیویارک ہاربر پر فرانس کی جانب سے تحفے میں دیے گئے مجسمہ آزادی کو اکھاڑنے کا مطالبہ کیا۔
ٹائمز آف لندن نے 5 مارچ 2003 کو معروف تجزیہ نگار ڈیوڈ کریکنل (David Cracknell) کا ایک تحقیقاتی مقالہ شائع کیا تھا جو انہوں نے دوسرے ماہرین کے علاوہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ رابن کوک اور برطانوی سراغ رساں ایجنسی M16 کے سابق ڈائریکٹر جان اسکارلیٹ (John Scarlet) سے تفصیلی گفتگو کے بعد تحریر کیا تھا۔ تمام ماہرین اس بات پر متفق تھے کہ عراق کے پاس WMD نہیں ہے۔ فاضل تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ حملے سے دو ہفتہ قبل برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلئیر نے بھی یہ تسلیم کرلیا کہ WMD کی اطلاع غلط ہے لیکن انہوں نے مبینہ طور پر کہا ‘حملے کی تیاریاں مکمل ہیں اور عین وقت پر کارروائی روک دینے سے کم زوری کا تاثر ابھرے گا’۔ اس بات کا ذکر خود صدر ٹرمپ نے 2016 کی انتخابی مہم کے دوران کیا۔ اس وقت صدر بش کے بھائی جیب بش ریپبلکن پارٹی کی ٹکٹ کے لیے جناب ٹرمپ کے حریف تھے۔ ایک مباحثے کے دوران جب جیب بش نے اپنے بھائی جان کی تعریف کی تو جواب آیا ‘ہاں وہی جس نے عراق میں WMD کا جھوٹا دعویٰ کرکے ایک ملک کو تباہ کر دیا۔ چار سال بعد 2020 کی مہم کے دوران جب سابق وزیر خارجہ آنجہانی کولن پاول نے جناب ٹرمپ کو جھوٹا کہا تو موصوف تڑخ کر بولے ‘واہ بھئی واہ، جس شخص نے عراقی WMD کے بارے میں سفید جھوٹ بولا وہی مجھے جھوٹا کہہ رہا ہے۔
امریکی حملے کے ساتھ ایران اور اسرائیل کے ایک دوسرے پر حملے جاری ہیں۔ گزشتہ تین چار دنوں میں ایرانی میزائیلوں کے نشانے درست اور مزید مہلک ہوتے نظر آرہے ہیں۔ بعض دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ ایران جو فرطِ صوتی یا hypersonic میزائیل داغ رہا ہے وہ غیر مرئی (Stealth) ہیں۔ بیس جون کی صبح پھینکا جانے والا میزائیل امریکہ کے آئرن ڈوم دفاعی نظام کو غچہ دیکر بئیر سبع کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس سے پہلے خیال تھا کہ ایران ایک ساتھ بڑی تعداد میں میزائیل فائر کرتا ہے اور ان سب کو روکنا آئرن ڈوم کے لیے ممکن نہیں ہے اور کچھ میزائیل اس سے بچ کر نکل جاتے ہیں۔ لیکن اب اکیلا میزائیل آئرن ڈوم کی حفاظتی دیوار روند گیا۔ ایران کے فضائی دفاعی نظام میں بھی بہتری نظر آرہی ہے۔ گزشتہ ہفتہ ایرانیوں نے اسرائیل کا جدید ترین ہرمس Hermes 900 ڈرون اصفہان میں مار گرایا۔ عبرانی میں خوشاف یا ستارہ کہلانے والا یہ پرندہ 30 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتا ہے اور غیر مرئی یا Stealth ٹیکنالوجی سے آراستہ ہرمس 300 کلو گرام وزنی بارود اٹھا کر مسلسل 30 گھنٹے پرواز کرسکتا ہے۔
میزائیل حملوں سے اسرائیل میں شدید ہیجان اور خوف و ہراس ہے۔ سائرن بجتے ہی پناہ گاہوں کی طرف دوڑتے ہوئے گر کر اور ایک دوسرے سے ٹکرا کر زخمی ہونے والوں اسرائیلیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ سیڑھیوں سے گرنے اور پھسلنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی ہڈیاں ٹوٹی ہیں۔ ایرانی میزائیلوں سے زیادہ اسرائیلی بد حواسی میں زخمی ہو رہے ہیں۔ اب کچھ پناہ گاہوں میں ضعیف و معذور افراد، پُر امید خواتین اور بچوں کے لیے مستقل رہائش کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ پناہ گاہوں میں صفائی کا بحران بھی ہے کہ بیت الخلا کثرت استعمال کی وجہ سے ابل رہے ہیں اور تعفن ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ فوجی حکام مسلسل ہدایات دے رہے ہیں کہ پناہ گاہوں کی طرف سکون اور اطمینان سے جائیں لیکن جب جان پر بنی ہو تب توازن و احتیاط ذرا مشکل ہے۔اسی بنا پر 22 جون کو ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کی داخلی کمان (Home Command) نے جو احکامات جاری کیے ہیں اس کے مطابق جلسے، اجتماعات اور عوامی تقریبات پر پابندی ہوگی۔ تعلیمی ادارے بند رہیں گے اور صرف ضروری دکانیں کھلی رہیں گی۔
ایرانی میزائیل حملوں سے گھبرا کر متمول اسرائیلی ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں لیکن حکومت نے شہریوں کے ملک سے باہر جانے پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر دی ہے۔ دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ اس وقت فضائی سفر محفوظ نہیں ہے۔ بڑی تعداد میں اسرائیلی، بحری راستے سے یونانی قبرص اور خلیج عقبہ سے مصر کے پر تعیش مقام شرم الشیخ ‘ہجرت’ کر گئے ہیں۔ زمینی راستے سے بھی کچھ اسرائیلی مصر اور اردن جا رہے ہیں۔بدھ 18 جون کو اسرائیلی کابینہ نے اس ضمن میں ایک قرارداد منظور کرلی ہے جس کے مطابق حکومت کی سربراہی میں قائم ہونے والی استثنائی کمیٹی کی منظوری کے بعد ہی شہری بیرون ملک سفر کر سکتے ہیں۔ سِول سوسائٹی سے وابستہ تنظیم Movement for Quality Government نے کابینہ کے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسرائیلی صحافی سنسر اور نقل و حرکت پر پابندی سے بے حد پریشان ہیں۔ غزہ کے بعد اب سارا اسرائیل صحافیوں کے لیے no go area بن گیا ہے اور صحافیوں کو “مٹر گشتی” کی اجازت نہیں ہے۔ فوج کا محکمہ اطلاعات ہر چار گھنٹے بعد پریس نوٹ جاری کرتا ہے جو اب خبر کا واحد ذریعہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ایران نے غیر ملکی صحافیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ سی این این کے نمائندے فریڈ پلیٹجن نے تہران میں قومی ٹیلی ویژن کی اس جلی ہوئی عمارت کے اندر سے رپورٹنگ کی جو اسرائیلی حملے میں تباہ ہو چکی ہے۔ جمعہ کو ایرانیوں کے مظاہرے کی روداد بھی امریکی صحافیوں نے براہ راست سنائی، جس میں ایک شخص نے مکا لہراتے ہوئے کہا ‘امریکہ اور اسرائیل ہمیں موت سے ڈراتے ہیں جب کہ شہادت ہمارے لیے شہد سے میٹھی ہے’
حملے کے بعد ایرانی مجلس (پارلیمنٹ) نے آبنائے ہرمز (Strait of Hormuz) بند کرنے کی قرارداد منظور کرلی ہے۔ ملک کی قومی سلامتی کونسل سے توثیق کے بعد اسے حتمی منظوی کے لیے رہبرِ ایران آیت اللہ علی خامنہ ای کو پیش کیا جائے گا۔
ایک سو 67 کلومیٹر طویل، آبنائے ہرمز خلیج فارس کو خلیج عُمان سے ملاتی ہے یعنی یہ خلیج فارس کو کھلے سمندر سے ملانے کا واحد آبی راستہ ہے۔ کویت، بحرین اور قطر کی سمندر تک رسائی کا یہ واحد راستہ ہے۔ دنیا کا ایک تہائی تیل اسی راستے سے گزرتا ہے۔ سعودی عرب بحری آمدو رفت کے لیے بحیرہ احمر استعمال کر سکتا ہے لیکن اس کے تیل و گیس کے تمام بڑے میدان خلیج یا اس کے ساحل پر ہیں اس لیے تیل کی نقل و حمل آبنائے ہرمز سے ہی ہوتی ہے۔ سعودی عرب East West پائپ لائن کے ذریعے خلیج کے کنارے ابقیق سے خام تیل بحیرہ احمر کی بندرگاہ ینبع کے راستے بھیج سکتا ہے لیکن اس راستے میں آبنائے باب المندب کا پلِ صراط حائل ہے جس پر حوثی نشانچی بیٹھے ہیں۔ امریکہ اس آبنائے پر ایران کی بالا دستی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرے گا۔ آبنائے ہرمز کا جنوبی ساحل متحدہ عرب امارات اور عمانی کالونی جزیرہ مسندم سے ملتا ہے جہاں عسکری حلقوں کے خیال میں امریکہ نے ایک فوجی اڈہ قائم کر رکھا ہے۔ آبنائے ہرمز بند ہونے کی خبر پر خام تیل میں بھاری اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
ایرانی میزائیل حملوں سے گھبرا کر متمول اسرائیلی ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں لیکن حکومت نے شہریوں کے ملک سے باہر جانے پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر دی ہے۔ دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ اس وقت فضائی سفر محفوظ نہیں ہے۔ بڑی تعداد میں اسرائیلی، بحری راستے سے یونانی قبرص اور خلیج عقبہ سے مصر کے پر تعیش مقام شرم الشیخ ’ہجرت‘ کر گئے ہیں۔ زمینی راستے سے بھی کچھ اسرائیلی مصر اور اردن جا رہے ہیں۔بدھ 18 جون کو اسرائیلی کابینہ نے اس ضمن میں ایک قرارداد منظور کرلی ہے جس کے مطابق حکومت کی سربراہی میں قائم ہونے والی استثنائی کمیٹی کی منظوری کے بعد ہی شہری بیرون ملک سفر کر سکتے ہیں۔ سِول سوسائٹی سے وابستہ تنظیم Movement for Quality Government نے کابینہ کے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جون تا 05 جولائی 2025