سچی کہانی

دوسری آزادی

حمیرا علیم

’’یا اللہ خیر! ضیاء لگتا ہے کہ اسٹوڈنٹس نے پولیس اسٹیشن پر دھاوا بولا دیا ہے۔‘‘ فاطمہ، جو اپنے بیٹے معاذ کو دودھ پلا رہی تھی، جلدی سے لاؤنج سے کمرے میں بھاگی اور شوہر کو جھنجھوڑ کر نیند سے جگایا۔ ضیاء ہڑبڑا کر اٹھا،اور باہر کی طرف بھاگا۔ ’’سنبھل کے ضیاء، اپنا خیال رکھنا۔‘‘ فاطمہ نے شوہر کو تاکید کی اور سب کی سلامتی کے لیے دعائیں کرنے لگی۔ ’’یا اللہ، ہم اسٹوڈنٹس نے جو تحریک چلائی ہے، اسے کامیاب فرما۔ ‘‘تبھی فون کی گھنٹی بجی۔ فاطمہ نے جلدی سے فون اٹھایا۔ دوسری طرف سے عائشہ کی پریشان سی آواز آئی، ’’فاطمہ! تم سب خیریت سے ہو نا؟ میں کب سے تمہارے موبائل پر کال کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر موبائل بند آ رہا تھا۔‘‘ فاطمہ نے جواب دیا، ’’الحمدللہ، ہم سب ٹھیک ہیں۔ بس میرے ملک کے حالات بھی بہتر ہو جائیں تو سب خیر ہو جائے گی۔‘‘ عائشہ نے پوچھا، ’’کیا ہو رہا ہے بنگلہ دیش میں؟ طلباء کیوں احتجاج کر رہے ہیں؟‘‘فاطمہ نے ایک سرد آہ بھر کر کہا، ’’1971 میں عوامی لیگ نے بنگلہ دیش کو پاکستان سے علیحدہ کیا تھا۔ 1972 میں فریڈم فائٹر کوٹہ متعارف کروایا گیا تھا۔ لیکن 2018 میں طلباء نے اس کوٹے کے خلاف احتجاج کیا کیونکہ 30 فیصد فریڈم فائٹر کوٹہ غیر منصفانہ ہے۔‘‘عائشہ نے کہا، ’’تیس فیصد واقعی بہت زیادہ ہے۔‘‘ فاطمہ نے جواب دیا، ’’بالکل۔ حسینہ واجد نے کوٹہ سسٹم ختم کرنے کی کوشش کی، مگر ہائی کورٹ نے اسے بحال کر دیا۔ اب طلباء احتجاج کر رہے ہیں کیونکہ حکومت کوٹہ کو پھر سے بحال کرنے کی کوشش میں ہے۔‘‘
فاطمہ نے ایک سرد آہ بھر کر کہا، ’’1971 میں عوامی لیگ نے بنگلہ دیش کو پاکستان سے علیحدہ کیا تھا۔ 1972 میں فریڈم فائٹر کوٹہ متعارف کروایا گیا تھا۔ لیکن 2018 میں طلباء نے اس کوٹے کے خلاف احتجاج کیا کیونکہ 30 فیصد فریڈم فائٹر کوٹہ غیر منصفانہ ہے۔ پھر جب ہائی کورٹ نے 5 جون 2024 کو کوٹہ سسٹم دوبارہ متعارف کروایا تو اسٹوڈنٹس کو یقین تھا کہ یہ ہائی کورٹ کا خود مختارانہ فیصلہ نہیں ہے بلکہ حسینہ واجد کا حکم ہے۔ وہ اپنے فیصلے کو عدالتی ٹھپہ لگوا کر دوبارہ لاگو کر رہی ہیں تاکہ اپنی مرضی کے سیول سرونٹس لا سکیں۔جب ایک ماہ تک حکومت نےکوئی ایکشن نہیں لیا تو اسٹوڈنٹس نے احتجاج شروع کر دیا۔ یکم جولائی کو جب احتجاج میں شدت آئی تو حسینہ واجد اپنے آمرانہ ہتھیار نکال لائیں۔ پہلے اسٹوڈنٹس کو بہلایا گیا کہ معاملہ تو اب سپریم کورٹ میں پہنچ رہا ہے تو احتجاج مت کرو۔ پھر یہ الزام لگایا گیا کہ اسٹوڈنٹس کو حزب اختلاف گمراہ کر رہی ہے اور انہیں سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘عائشہ نے پوچھا، ’’کیا واقعی ایسا ہی ہے؟‘‘فاطمہ نے جواب دیا، ’’نہیں، ایسا نہیں ہے کیونکہ طلباء کا احتجاج نہ تو ایک علاقے تک محدود تھا نہ ہی اس میں کوئی سیاسی رہنما شامل تھا۔ آغاز میں طلباء نے یونیورسٹیز میں دھرنا دیا، پھر 7 جولائی کو انہوں نے ملک گیر ناکہ بندی شروع کر دی۔ سب بڑے شہروں میں راستہ روکو اور ریل روکو پروگرام شروع کر دیا۔ یہ احتجاج پر امن تھا۔ طلبا کا ماننا تھا کہ ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر اسٹے لگا دیا اور 7 اگست کو کہا کہ اس پر عدالتی سماعت ہو گی۔ حسینہ واجد نے طلباء سے کہا کہ اب تو احتجاج روک دو۔ مگر طلبا کو ان پر بالکل بھی اعتبار نہیں تھا، اور ان کا قصور بھی نہیں تھا۔ حسینہ واجد کے ماضی کی کارکردگی ہی ایسی تھی۔ احتجاج جاری رہا، جس پر حسینہ واجد نے 14 جولائی کو طلباء کو ملک دشمن قرار دے دیا اور ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’فریڈم فائٹرز کے بچوں کو نہیں تو کیا ان رضاکاروں کے بچوں کو کوٹہ دیا جائے۔‘‘ اور طلبا کو رضاکار کہہ دیا۔
عائشہ:’’ رضاکار تو اچھے ہوتے ہیں۔اس میں برا ماننے والی کیا بات تھی؟ اس پر اتنا شدید رد عمل کیوں ہوا؟’’
فاطمہ: ’’ ہاں مگر ہمارے ہاں رضاکار وہ لوگ تھے جنہوں نے 1971 کی جنگ میں پاکستان آرمی کی مدد کی تھی۔یعنی احتجاج کرنے والے طلباء کو اعلیٰ درجے کا ملک دشمن کہہ دیا۔ رضاکار بنگلہ دیش میں ایسے ہی ہے جیسے ٹکڑے ٹکڑے گینگ،سوروس گینگ، سیکیولر ، غدار، بائیں بازو والے، ان سب کو ملا دو تو بنتا ہے رضاکار۔ اس پر طلبا غم و غصے سے بھر گئے اور احتجاج میں شدت آگئی۔ اور انہوں نے یہ نعرہ لگانا شروع کر دیا: ’’ایک، دو، تین، چار ہم سب رضاکار! کون ہیں ہم؟رضاکار! کس نے بولا؟ آٹو کریٹ! آٹوکریٹ!‘‘
اس طرح کی دشنام طرازی اور نشانے بازی آمرانہ کارروائی کا پرانا وطیرہ بن چکا ہے۔ حسینہ کی پارٹی کے جنرل سکریٹری نے کہا کہ ’’عوامی لیگ کی طلباء یونین بنگلہ دیش چھاتر لیگ احتجاج کرنے والے طلباء کو کرارا جواب دے سکتے ہیں ۔’’
عائشہ:’’ مطلب حکومت نے کھلم کھلا دھمکی دے دی؟’’
فاطمہ: ’’ ہاں جی۔ نہ صرف دھمکی بلکہ عوامی لیگ طلباء ونگ کے کچھ غنڈوں نے احتجاج کرنے والے طلباء پر حملہ کیا اور بندوقیں بھی استعمال کیں۔ 16 جولائی کو چھ احتجاج کرنے والے مارے گئے۔ مگر طلباء نے ہار نہیں مانی۔بڑے پیمانے پر جلسے، جلوس اور مظاہرے ہونے لگے۔حسینہ واجد کی پولیس نے لاٹھی چارج شروع کر دیا۔
18 جولائی کو ڈھاکہ بی آر اے سی یونیورسٹی کے پاس اور کیمپس کے اندر بھی پولیس نے لاٹھی چارج کیا، ٹییر گیس کا استعمال کیا اور گولیاں بھی چلائیں۔ اب تک 30 مظاہرین پولیس کے ہاتھوں مارے جا چکے تھے۔مظاہرین نے کچھ سرکاری دفاتر پر بھی حملہ کیا۔’’
عائشہ:’’ اف خدایا!
اس موقع پر حسینہ واجد کو ایکشن لے کر امن و امان قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ ایک کمیٹی بنائی کر مذاکرات کیے جاتے اور پولیس کو سختی سے تاکید کیا جاتا کہ مظاہرین پر مہلک تشدد نہ کیا جائے۔ عوامی لیگ کے طلباء یونین کو بھی کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ مظاہرین کے جائز مطالبات کو تشدد کے ذریعے دبانے کی ضرورت ہی نہیں تھی’’
فاطمہ:’’ہونا تو یہی چاہیے تھا لیکن جب سختی آئی ہو تو انسان اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر خود سے ہی فیصلے کرنے لگتا ہے۔ لہٰذا حسینہ واجد نے آمرانہ ڈیجیٹل ٹول کٹ کا بھی استعمال کیا۔ 19 جولائی کو راتوں رات پورے ملک میں انٹرنیٹ بند کردیا اور کرفیو لگا دیا گیا۔اور آرمی بھی تعینات کر دی گئی۔
ہمیں معلوم نہیں کہ کتنے طلباء شہید ہوئے ہیں اور کتنے زخمی۔ کیونکہ ابھی بھی اطلاعات کی بندش چل رہی ہے۔ 1500 لوگ تو مارے جا چکے ہیں۔ 25000 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔اس سب کی وجہ سے حسینہ واجد کو طلباء کے مطالبے کے آگے سر جھکانا ہی پڑا۔ ’’
عائشہ: ’’یعنی کہ کوٹہ سسٹم ختم کر دیا گیا۔‘‘
فاطمہ: ’’جی ہاں، سمجھو ایسا ہی ہوا۔ 7 اگست کو ہونے والی عدالتی سماعت سے پہلے، 21 جولائی کو ہی سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم میں تبدیلی کر دی۔ 56 فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کر دیا گیا، جس میں سے 5 فیصد فریڈم فائٹرز کے بچوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔ طلباء کی طاقت نے پورے نظام اور حسینہ واجد کی طاقت کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔ مگر احتجاج ابھی ختم نہیں ہوا، کیونکہ طلباء کا کہنا ہے کہ جب تک سینکڑوں قید شدہ مظاہرین کو رہا نہیں کیا جاتا اور اموات کی وجوہات پر ذمہ دار افراد استعفیٰ نہیں دیتے، احتجاج جاری رہے گا۔ یہ تحریک جمہوریت کی حمایت میں جاری رہے گی۔ فی الحال مظاہرین نے دو دن کے لیے احتجاج روک دیا ہے، مگر حسینہ واجد کی جانب سے کوئی نئی چال ممکن ہے۔‘‘
عائشہ: ’’کیا حسینہ واجد کوئی کمیشن بنائیں گی جو کوٹہ سسٹم بنائے گا؟ یا غیر قانونی طریقے سے فرار حاصل کرنا چاہیں گی؟ کیا عوامی لیگ کے غنڈوں اور پولیس کے خلاف کوئی ایکشن لیا جائے گا؟‘‘
فاطمہ: ’’ہم زیادہ پر امید نہیں ہیں، مگر ایک بات واضح ہے کہ کوئی بھی خود کو کتنا ہی طاقتور یا دانا سمجھے، عوامی طاقت کے سامنے جھکنا ہی پڑتا ہے، خاص طور پر طلباء کی طاقت۔ یہی طلباء ہیں جو 1948 سے 1952 تک لینگویج موومنٹ کی قیادت کرتے رہے، جنہوں نے غیر منقسم پاکستان میں بنگلہ کو اردو کے برابر مقام دلانے کے لیے جنگ لڑی۔ جب پاکستان نے ان کی بات نہیں مانی، تو 1971 کی جنگ آزادی میں بھی یونیورسٹیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ 1991 میں اینٹی ملٹری رول اور جمہوریت کی حمایت میں بھی طلباء نے بڑا کردار ادا کیا۔ آج ہم صرف کوٹہ اصلاح کے لیے نہیں، بلکہ بنگلہ دیش میں جمہوریت کے لیے بھی لڑ رہے ہیں۔ طلباء جانتے ہیں کہ حسینہ واجد کی غیر جمہوری پالیسیوں سے معیشت تباہ ہو رہی ہے، بے روزگاری اور مہنگائی بڑھ رہی ہے، اور مینوفیکچرنگ کی نوکریاں کم ہو رہی ہیں۔ اگر ملک کو ٹھیک کرنا ہے، تو سسٹم کو بدلنا ہوگا۔‘‘
اچانک دروازے سے آوازیں سن کر فاطمہ نے عائشہ سے کہا: ’’لگتا ہے ضیاء کچھ زخمی طالبات کو گھر لے آئے ہیں۔ عائشہ، میں تم سے پھر بات کروں گی، ہمارے لیے دعا کرنا۔‘‘ یہ کہہ کر فاطمہ نے عائشہ کا جواب سنے بغیر فون بند کر دیا اور فوراً دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ ضیاء کے ساتھ چند لڑکے اور زخمی لڑکیاں تھیں۔ فاطمہ نے فوراً بیڈروم اور گیسٹ روم کھول دیے، کچھ لڑکیوں کو کمروں میں اور باقی کو لاونج میں لٹا دیا۔ پھر الماری سے ڈریسنگ کی چیزیں اور پین کلر نکال کر ان کی مرہم پٹی کرنے لگی: ’’یا خدا! لڑکیوں کو بھی نہیں چھوڑا، کس بے دردی سے پیٹا ہے انہیں۔‘‘ اس نے کراہتی ہوئی لڑکیوں کے زخموں کی ڈریسنگ کرتے ہوئے روہانسی آواز میں کہا، تو ایک لڑکی نے اسے تسلی دی: ’’ہمیں ان معمولی زخموں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میری بہن۔ ہم ڈٹے رہیں گے جب تک اپنے ملک کو ان دشمنوں سے پاک نہیں کر لیتے۔‘‘
’’ان شاء اللہ!‘‘ وہاں موجود سب لوگوں نے آمین کہا۔ ضیاء نے لڑکوں کو ساتھ لیا اور باہر کی طرف بڑھا، تو فاطمہ نے پوچھا: ’’کیا اور بھی زخمی ہیں؟‘‘
ضیاء نے افسردگی سے کہا: ’’مجھے لگتا ہے کچھ لوگ جان بحق بھی ہو گئے ہیں۔ مجھے دوبارہ جانا ہے تاکہ زخمیوں کو ہسپتال پہنچا سکوں۔ تم فکر مت کرو، میں جلد واپس آنے کی کوشش کروں گا۔‘‘فاطمہ نے حسرت سے کہا: ’’انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کاش میں بھی ان سب کے ساتھ مل کر احتجاج کر سکتی۔‘‘ضیاء نے تسلی دیتے ہوئے کہا: ’’تم ان کی مدد کر کے اس احتجاج کا حصہ بن رہی ہو، فاطمہ! اگر معاذ نہ ہوتا تو میں تمہیں خود لے کر مظاہرے میں شرکت کرتا۔ دعا کرو۔‘‘یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔فاطمہ نے کہا: ’’اللہ سب کا حامی و ناصر ہو۔‘‘
معاذ کے رونے کی آواز سن کر وہ کمرے میں گئی اور اسے اٹھا کر زخمی لڑکیوں کے پاس جا بیٹھی۔ معاذ کو کھلونے دے کر، وہ ان سے باتیں کرنے لگی۔ایک لڑکی نے کہا: ’’انڈیا میں کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے مظاہرے صرف کوٹہ سسٹم کے خلاف ہیں، اور اسی لیے انڈیا میں بھی ایسے مظاہرے ہونے چاہیے۔ لیکن بنگلہ دیش کا 30 فیصد فریڈم فائٹر کوٹہ کسی سماجی انصاف کی بنیاد پر نہیں تھا۔ انڈین طلباء بنگلہ دیشی طلباء سے یہ سیکھ سکتے ہیں کہ مظاہروں کے خلاف آمرانہ رویے کے سامنے جھکنا نہیں چاہیے۔ حسینہ واجد چاہے گودی الیکشن کمیشن، گودی جوڈیشری، یا گودی بیوروکریسی بنا لیں، پولیس لاٹھیاں برسانے لگے یا مظاہرین کو ملک دشمن قرار دے دے، مگر تانا شاہی نہیں چل سکتی۔
حسینہ واجد کی فہرستِ جرائم بہت لمبی ہے۔ انہوں نے 2014 سے حزب اختلاف کی لیڈر خالدہ ضیاء کو قید میں رکھا ہے۔ بی این پی کے سکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ جولائی 2023 اور جنوری 2024 کے درمیان 27,000 بی این پی لیڈرز اور کارکنان جیل میں ڈالے گئے، تقریباً 10,000 پر حملے ہوئے جن میں 30 ہلاک ہوئے۔ ایکٹویسٹ مشتاق احمد کو بھی سائبر سیکورٹی ایکٹ کے تحت جیل میں ڈالا گیا، اور ان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں، یہاں تک کہ ان کا انتقال ہو گیا۔2018 میں طلباء نے روڈ سیفٹی پر پرامن ریلی نکالی، لیکن پولیس نے ان پر لاٹھیاں برسائیں اور آنسو گیس استعمال کی۔ عوامی لیگ کے اسٹوڈنٹس فرنٹ نے بھی حملے کیے۔یکم اگست کو سرکار نے جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتر شبر پر پابندی لگادی۔ حسینہ کا کہنا ہے کہ یہ سب مل کر ان کی حکومت پر حملہ کر رہے تھے۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف یونیورسٹی کیمپسز میں موجود نہیں، اور ڈھاکہ میٹرو میں توڑ پھوڑ کی ذمہ داری بھی واضح نہیں۔ سرکار نے مظاہرین پر گولیاں برسائیں، لیکن انہیں طلباء کی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ سرکار نے دعویٰ کیا کہ مظاہرین نے چھاتر لیگ کے طلباء کو عمارت کی چھت سے پھینک دیا اور پولیس کو مارا، لیکن مظاہرین نے اسے سرکاری پروپیگنڈا قرار دیا اور ابو سعید کا قتل پولیس کی بربریت کا واضح ثبوت مانا۔بنگلہ دیش کے وزیر اطلاعات محمد عرفات نے کہا کہ مظاہرین نے فائبر آپٹک کیبلز جلا دیے، لیکن انٹرنیٹ بند ہونے سے مظاہرین کو ہی سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ عرفات نے یہ بھی کہا کہ مظاہرین کو نشہ آور ادویات دی گئی تھیں، جو کہ غلط ہے۔ حسینہ واجد نے کہا کہ یو این یا کوئی اور ملک تشدد کی تحقیقات کے لیے ماہرین بھیج سکتا ہے۔ناہید اسلام، جو پروٹیسٹ کوآرڈینیٹر ہیں، کو 19 جولائی کو حراست میں لے کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 21 جولائی کو انہیں بے ہوشی کی حالت میں سڑک کنارے پھینک دیا گیا، اور 23 جولائی کو بیان دیا کہ تحریک رکنے والی نہیں ہے۔ 28 جولائی کو ناہید اور دیگر کوآرڈینیٹرز نے مظاہرہ ختم کرنے کا بیان دیا، لیکن ایک اور کوآرڈینیٹر نے واضح کیا کہ تحریک جاری رہے گی۔ان کے نو نکاتی مطالبات میں شامل ہیں: حسینہ واجد ذمہ داری قبول کریں، ہوم منسٹر، روڈ ٹرانسپورٹ، ایجوکیشن، لاء منسٹرز اور یونیورسٹی وائس چانسلرز استعفیٰ دیں، زخمی اور ہلاک طلباء کے ورثاء کو معاوضہ دیا جائے، اور یونیورسٹیوں میں ون پارٹی پولیٹکس پر پابندی عائد کی جائے۔
نیوز اینکر نے رپورٹ کیا: احتجاج اب پہلے جیسا نہیں رہا، 9000 مظاہرین قید میں ہیں اور ان پر متعدد دفعات لگائی گئی ہیں۔ مقدمہ چلنے میں مہینے لگ سکتے ہیں، اور ضمانت کے لیے بیل بونڈ کی قیمت بہت زیادہ رکھی گئی ہے۔ زیادہ تر جگہوں پر پولیس کی بھاری تعداد موجود ہے، اور کرفیو نہیں ہے لیکن گرفتاریاں جاری ہیں۔ چٹاگانگ میں 31 جولائی کو بڑی تعداد میں لوگوں نے احتجاج کیا، اور مستقبل میں بھی اس کے رکنے کے آثار نہیں ہیں۔
فاطمہ نے بڑبڑاتے ہوئے کہا: ’’حسینہ کو لوگوں کا اعتماد واپس جیتنے کے لیے مذاکرات، قانونی حکمت عملی پر نظر ثانی، اور روزگار فراہم کرنا چاہیے تھا، مگر یہ سب ڈکٹیٹر کے لیے مشکل ہوتا ہے۔‘‘اسکرین پر ڈھاکہ کی سڑکوں پر مظاہرین کے مناظر دکھائے جا رہے تھے۔ طلباء پولیس اور فوج کے سامنے ڈٹے ہوئے تھے، بے خوف اور اپنے مطالبات پر قائم۔ اینکر کی آواز نے بتایا کہ ڈکٹیٹر کا انجام یا تو عوام کے ہاتھوں ہوتا ہے یا وہ ملک چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ حسینہ واجد نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور 5 اگست کو بنگلہ دیش چھوڑ کر لندن میں پناہ مانگ لی۔ مظاہرین نے اس کی رہائش گاہ پر دھاوا بول کر لوٹ لیا۔اسکرین پر مختلف مناظر دکھائے گئے: حسینہ واجد ہیلی کاپٹر کی طرف جا رہی تھیں، عوام وزیراعظم ہاؤس پر دھاوا بول رہے تھے، قیمتی فرنیچر کو نقصان پہنچایا جا رہا تھا، اور کچھ طلباء کھانا کھا رہے تھے۔ سب لڑکیاں خوشی سے چلائیں: ’’یا اللہ، ہم جیت گئے!‘‘ معاذ نے ان کے آنسو دیکھے تو خود بھی رونے لگا۔ فاطمہ نے اسے تسلی دی اور کہا: ’’اب ہمارے خوشی کے دن شروع ہوئے ہیں۔‘‘فاطمہ نے ٹی وی چینل بدل کر الجزیرہ کی خبریں دیکھیں۔ ٹاک شو میں ماہرین نے کہا کہ بنگالی بہت خوش ہیں، وزیراعظم ہاؤس پر دھاوا بول چکے ہیں، اور ہر چیز انجوائے کر رہے ہیں۔ حسینہ واجد کے والد کی مورتی پر بھی غصہ نکالا گیا۔ انڈین میڈیا نے بنگلہ دیش میں حالات کی خرابی کی خبر دی، مگر حقیقت یہ ہے کہ حسینہ کی الٹی گنتی شروع ہو چکی تھی۔ بنگلہ دیش کی فوج نے عبوری حکومت بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔آرمی نے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کیا، اور عوام کے ساتھ کھڑی رہی۔ 3 اگست کو آرمی نے بیان دیا کہ وہ ہمیشہ عوام کے ساتھ ہے۔ مختلف جنرلز کی وفاداریاں الگ تھیں، لیکن فوج نے عوام کا ساتھ دیا۔
یہ سوال اہم تھا کہ اگر مظاہرین اور عوامی لیگ کے درمیان جھڑپ ہوتی ہے تو فوج کس کی طرف ہوگی؟ کیا وہ خاموش تماشائی بنے گی یا طلباء کی طرف دار ہو گی؟ عالمی رائے بھی حسینہ واجد کے خلاف ہو چکی تھی، تو اسٹیج تیار تھا: طلباء بمقابلہ حسینہ واجد، انقلاب بمقابلہ تانا شاہی۔پیر کی صبح گیارہ بجے انٹرنیٹ مکمل طور پر بند کرنے کی بات ہو رہی تھی، جس کے بعد ایک اور خون کی ہولی کھیلی جا سکتی تھی۔ طلباء اس بات سے واقف تھے مگر پیچھے نہیں ہٹے۔ کرفیو لگا دیا گیا، انٹرنیٹ بند کر دیا گیا، اور فوج کو مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لیے تعینات کر دیا گیا۔ لیکن فوج نے واضح کر دیا کہ وہ مظاہرین کے ساتھ ہیں اور حسینہ واجد کو استعفیٰ دینا پڑا۔12 بجے فوجی چیف جنرل وقار الزمان نے قوم سے خطاب کرنے کا اعلان کیا، جس سے پتہ لگا کہ بنگلہ دیش میں ایک بڑا گیم چل رہا ہے۔ لوگ پرجوش ہو گئے کہ آیا طلباء نے ڈکٹیٹر کو معزول کر دیا ہے۔ ایک بجے حسینہ کے سینئر آفیسر نے خود کہا کہ ’’صورتحال متزلزل ہے، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘جنرل وقار الزمان نے خطاب تین بجے تک موخر کر دیا، مگر لوگ جشن منا رہے تھے۔ ڈیڑھ بجے یہ کنفرم ہو گیا کہ حسینہ واجد استعفیٰ دے کر انڈیا فرار ہو رہی ہیں۔ لوگوں نے فوج کو پھول پیش کیے اور اسے بنگلہ دیش کی آزادی ثانیہ قرار دیا۔ دو بجے تک یہ اطلاع آئی کہ حسینہ واجد سرکاری رہائش گاہ سے اپنی بہن کے ساتھ نکل رہی ہیں، اور صرف استعفیٰ دے کر فرار ہو رہی ہیں۔طلباء نے گونوبھون (حسینہ واجد کی سرکاری رہائش گاہ) میں داخل ہو کر لوٹ مار مچائی۔ تین بجے فوجی چیف نے نیشنل ٹی وی پر تقریر کی اور کہا کہ اب جھگڑے اور مار پیٹ سے کچھ نہیں ہونے والا، مظاہرہ رک جانا چاہیے۔ عبوری حکومت بنائی جا رہی ہے اور ہم سب سیاسی جماعتوں کے لیڈرز سے بات چیت کر چکے ہیں۔بنگلہ دیش جیت گیا، ڈکٹیٹر ہار گئی، مگر ایک طرف جشن ہے اور دوسری طرف پریشانی۔ گونوبھون لوٹا گیا، عوامی لیگ کے وزراء کے گھروں پر حملے اور دستاویزات جلائے جا رہے ہیں۔پولیس اور فوج سڑکوںسے غائب تھیں اور ہر طرف لوگ نظر آ رہے تھے جو جشن منا رہے تھے۔ ضیاء گھر آیا، تھکاوٹ کے باوجود خوش تھا اور فاطمہ سے چائے اور کھانا مانگا۔ فاطمہ نے معاذ کو سلا دیا اور دونوں نے دوسرے دن کے حالات جاننے کی تیاری کی۔دوسرے دن ناشتہ کرتے وقت فاطمہ نے ضیاء کو تیار ہونے کا الٹی میٹم دیا اور معاذ کے سامان تیار کیا۔ جب وہ سڑک پر نکلے تو امن و امان تھا، لوگ سڑکوں پر کچرا اٹھا رہے تھے، دیواروں پر پینٹ کر رہے تھے، اور بوڑھے لوگوں کو کھانا دے رہے تھے۔ سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں تھی اور طلباء ٹریفک کنٹرول کر رہے تھے۔ضیاء نے بتایا کہ طلباء نے عبوری حکومت کا منصوبہ بنایا ہے اور ڈاکٹر یونس کو چیف ایڈوائزر بنایا ہے۔ عوام نے آزادی ثانیہ خون بہا کر حاصل کی ہے، اور طلباء شرپسند عناصر کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فاطمہ نے خوشی کے ساتھ بتایا کہ انٹرنیٹ بحال ہو چکا ہے۔ضیاء ، فاطمہ کو خوش کرنے کے لیے کیک، پھل، اور مٹھائی خریدنے کے لیے چلے گئے۔ فاطمہ نے ڈاکٹر یونس اور دیگر لوگوں کے حلف اٹھانے کی خبر دیکھی تو اشکبار ہوگئی ۔ اس کی آنکھوں میں اب خوشی کے آنسو تھے۔
***

 

***

 اسکرین پر ڈھاکہ کی سڑکوں پر مظاہرین کے مناظر دکھائے جا رہے تھے۔ طلباء پولیس اور فوج کے سامنے ڈٹے ہوئے تھے، بے خوف اور اپنے مطالبات پر قائم۔ اینکر کی آواز نے بتایا کہ ڈکٹیٹر کا انجام یا تو عوام کے ہاتھوں ہوتا ہے یا وہ ملک چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 اگست تا 31 اگست 2024