
سابق مدیر ’دعوت‘ کی شخصیت کے چند نادر گوشے
’’کیا اب مسلم صاحب جیسے لوگ پیدا ہونا بند ہوگئے ہیں؟‘‘ کلدیپ نیّر
محمد عبدالعزیز
محمد مسلمؒ سابق مدیر ’’سہ روزہ دعوت‘‘ نئی دلی، صحافت کے افق کا ایک نہایت روشن ستارہ جو لکھا تپاک جاں سے لکھا، جس کے قلم کی سیاہی زندہ ضمیر کے آفاقی خمیر سے کشیدہ تھی، جس کی نہ تو کبھی روشنی کم ہوگی اور نہ ہی روشنائی مدھم پڑے گی کیوں کہ وہ قلم ہی کا نہیں، کردار کا بھی دھنی تھا، حالاں کہ صحافت ہی سے ان کی تمام تر وابستگی رہی ہے۔ اس میدان میں ان کی بے باکی، بے خوفی، بے لاگ تبصرے اور خبر و نظر کے اشارات اس پر شاہد ہیں کہ بلا شبہ وہ ایک عبقری شخصیت کے مالک تھے۔ یقیناً اپنی نجی، سماجی اور علمی و عملی زندگی میں ان کا اپنے رب سے بہت گہرا اور راست ربط رہا ہوگا۔جو کچھ لکھا گیا اور جو کچھ لکھنے سے رہ گیا اور جو سینوں اور سفینوں میں محفوظ ہے وہ تو بس ایک اسم بامسمیٰ کی جھلک ہے، ایک رمق ہے۔ دہلی میں جماعت کے مرکز میں میرے مختصر سے قیام کے دوران مرحوم کے صاحبزادوں سے ملاقات رہی۔ ان ہی کی قیام گاہ پر ذمہ داران جماعت کے ساتھ ضیافت کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ یہ تو بس ایک جملہ معترضہ ہے مگر اس ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو اور ماحول کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ خوشی اس بات کی تھی کہ اپنے بزرگوں سے مسلم صاحب کے جو واقعات و حالات ہم نے سنے تھے اس کی ایک رمق خود ہم نے بھی دیکھ لی۔ اس پس منظر میں سورہ کہف کی اس آیت کی روشنی میں ان کی شخصیت کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے کہ ’’ان (یتیم بچوں) کا باپ ایک صالح انسان تھا، جس کی کفالت کا اللہ ذمہ دار تھا اس کفالت کی علت وہ مرد صالح ہی نہیں ہر دور کا مرد صالح ہوگا‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس آیت میں اسی پیغام کا اظہار بھی ہے اور کوئی راز بھی پوشیدہ ہے۔
ضروری بات:
بغیر کسی تبصرے اور وضاحت کے ایک ضروری بات یہ ہے کہ میرے قیام دہلی کے دوران، بحیثیت معاون سکریٹری‘ متعلقہ شعبہ کے دورے ہوتے رہے۔ مختلف ذمہ داروں بشمول پروفیسر صدیق حسنؒ اور انجنئیر سید غلام اکبر صاحب مرحوم کے ان دوروں میں ہمارے کیرالا کے رفیق، جناب کے ٹی ابراہیم صاحب (حال مقیم کینیڈا) مسلم صاحب کے حوالے سے کچھ واقعات سنائے۔ ان میں سے بس ایک واقعہ سر دست ذہن میں آگیا وہ یہ کہ علاج و معالجے کے سلسلے میں مسلم صاحب جب بیرون ملک گئے تو ابراہیم صاحب ہی ان کے معاون و مددگار بلکہ تیمار دار بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم صاحب نے ہسپتال میں کسی بھی نرس کوا نہیں ہاتھ لگانے سے سختی سے منع کر دیا تھا۔ چنانچہ ضرورتاً ایسے تمام کام ان کے کہنے پر وہ خود انجام دیا کرتے تھے۔ مزید وہ یہ کہتے ہیں کہ مسلم صاحب کے ہمراہ کینیڈا کے ہسپتال میں اپنے قیام کے دوران جو کچھ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ محض واقعات نہیں تھے بلکہ کرامات تھے جس کے بعد مجھے ان کے مقام و مرتبے کا یقین ہو گیا۔ اگر ان کی تفصیلات بیان کروں تو وہ شخصیت پرستی میں شمار ہوگا اور لوگ بھی یہی کہیں گے کہ اب جماعت والے بھی من گھڑت واقعات سنانے لگے ہیں تاکہ سماج میں اپنے اکابرین کا اعلیٰ روحانی تاثر قائم کیا جاسکے۔ اس لیے وہ واقعات زبانوں پر نہیں بلکہ آنکھوں اور سینوں ہی میں محفوظ ہیں۔ ہم میں سے کسی نے بھی محترم ابراہیم صاحب سے اس بارے میں کچھ بھی کہنے کے لیے کبھی اصرار نہیں کیا۔ جب یہ تحریر متحدہ امارات العربیہ میں ہمارے ساتھ مقیم جناب محمود صاحب (حیدرآباد) کی نظر سے گزری تو انہوں نے کلدیپ نیّر صاحب سے دبئی کے ’’کراؤن پلازا‘‘ میں اخبار ’’مادھیمم‘‘ کے گلف ایڈیشن کے اجرا کے موقع پر مدعو مہمان خصوصی سے مرکز اسلامی کے نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران جناب محمد مسلم صاحب کا تذکرہ یوں کیا گویا یہ کل ہی کی بات ہو، جب کہ مسلم صاحب کو گزرے اس وقت ایک دہائی سے زیادہ عرصہ ہو چکا تھا۔ کلدیپ نیر کا سوال ان کی اپنی زبانی ’’جیسا کہ آپ احباب بتا رہے ہیں کہ ماضی میں آپ سب کا تعلق مسلم صاحب سے رہا ہے تو میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں کہ کیا اب ایسے لوگ پیدا ہونا بند ہوگئے ہیں؟‘‘ ہمارے پاس کلدیپ نیر صاحب کے اس سوال کا جواب سوائے خاموشی کے نہ کل تھا اور نہ آج ہے۔ اس سکوت کو توڑتے ہوئے ہندوستان کا نامور و معتبر صحافی خود کہتا ہے ’’گو کہ آپ کا اور مرکز اسلامی کا تعلق ان سے ہے مگر آپ حضرات مجھے دبئی بلائیں، میں اپنے خرچ پر یہاں آؤں گا اور آپ کو مسلم صاحب کی زندگی کے وہ واقعات بیان کروں گا جو شاید آپ لوگ خود بھی نہیں جانتے‘‘ اس وقت مرحوم کو وفات پا کر ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہوگا۔ لیکن آج تک ہمیں نہیں معلوم ہوا کہ وہ کونسی باتیں تھیں جو وہ سنانا چاہتے تھے۔ البتہ انہوں نے اتنا ضرور کہا کہ ’’میرے دبئی کے وفد کے کچھ احباب شاید اس گروپ نمائندگان میں بھی ہوں گے وہ شاہد ہیں‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ احتراماً اٹھ کھڑے ہوئے اور دوبارہ وہی سوال کیا کہ ’’کیا اب مسلم صاحب جیسے لوگ پیدا ہونا بند ہوگئے ہیں؟‘‘
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بعض لوگ کرسیوں، لباسوں اور دستاروں سے پہچانے جاتے ہیں لیکن در حقیقت اللہ والے چند ہی ہوتے ہیں جن سے نہ صرف کرسیاں پہچانی جاتی ہیں بلکہ وہ کرسیاں ناز بھی کرتی ہیں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں کبھی ’’سہ روزہ دعوت‘‘ کا مدیر بیٹھا کرتا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سوں کی قیمتوں کو ہم ’’نرخ ناموں‘‘ میں تلاش کرسکتے ہیں۔ ان میں سے گنے چنے افراد ہی ہوتے ہیں جن کی قیمت کا کوئی تعین نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وہ انمول گروہ ہوتا ہے جو دنیا میں صرف اور صرف دینے کے لیے آتا ہے، لینے کے لیے نہیں۔
حق تو یہ ہے کہ اس گروہ کے کسی بھی فرد کے دنیا سے جانے کے بعد ہی ان کی کمی محسوس ہوتی ہے اور پھر ایک خلش اور کسک بھی محسوس کی جاتی ہے۔ ایک آہ سی نکلتی ہے کہ شاید یہ دور، پھر کسی ’’مسلم‘‘ کو تلاش کر رہا ہے۔ حاکم حقیقی کی طاقت، قوت اور حکمت سے بعید نہیں کہ وہ ٹوٹتی، ڈوبتی، بے سہارا کشتیوں کے لیے مخلص نا خداؤں کا انتظام و انصراف فرما دے۔ بات یہ نہیں کہ امت کی کشتی منجدھار میں ہے، جس میں سوار افراد، نا اہل یا حق سے نا آشنا ہیں یا ان نا خداؤں پر غفلت طاری ہے، نہیں، ہرگز نہیں۔ صبح کاذب، آمد دلیل آفتاب ہے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
(مضمون نگار موؤمنٹ فار پیس اینڈ جسٹس، ریاست تلنگانہ کے صدر ہیں)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025