ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد
صبر کا اجر بے انتہا ہے۔جب اللہ تعالیٰ فیصلہ کرتا ہے کہ فلاں بندے کو جنت میں اعلیٰ درجات عطا کیے جائیں اور اس کے اعمال اس لائق نہیں ہیں کہ ان کے ذریعے سے اس کو وہ بلند درجات ملیں تو اللہ تعالیٰ اس کو صبر کے حالات سے گزارتا ہے اور اس صبر کی بدولت اس کے درجات بلند کیے جاتے ہیں ۔
صبر کے غیر اسلامی تصور اور اسلامی تصور میں بڑا جوہری فرق ہے۔ عموماً صبر کے معنی مصیبت کو برداشت کرنے کے لیے، لیے جاتے ہیں جب کہ اسلام میں صبر یہ ہے کہ مسلم فرد یا مسلم قوم اپنے مقصد کے حصول کے لیے استقامت کے ساتھ ڈٹ جائے اور مال و جان کی بازی لگا دے اور اپنی جان کو اس مقصد کے حصول کے لیے قربان کرنے کو عین کامیابی سمجھے۔ غیر اسلامی مذاہب میں صبر و استقامت کا لیول محدود ہوتا ہے۔ چونکہ دنیوی زندگی ہی ان کی منتہا ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی زندگی کو قربان کرنے کے معاملے میں محتاط ہوتے ہیں ۔اور چونکہ ان کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے حقیقی طور پر نہیں ہوتا اس لیے وہ اپنی پشت پر اللہ کی طاقت کو محسوس نہیں کرتے۔ چھوٹی سی مصیبت ان کو مایوسی کے دلدل میں دھکیل دیتی ہے نتیجے میں ان کے اندر خود کشی کے خیالات پیدا ہونے لگتے ہیں ۔
صبر کا عمل اپنی چوٹی پر اس وقت ہوتا ہے جب جدوجہد فکری جہاد سے میدانِ قتال میں پہنچتی ہے ۔قرآن میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاء والضَّرَّاءوَحِينَ الْبَأْسِ أُولَـئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ اور تنگدستی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راستباز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔ (سورۃ البقرۃ ۱۷۷)
اس آیت کو آیتِ برّ کہا جاتا ہے اور اس کے آخر میں فرمایا جا رہا ہے کہ صبر کی اعلیٰ ترین صورت اس وقت پیش آتی ہے جب حق و باطل کا مقابلہ میدانِ جنگ میں درپیش ہو۔ جنگی حالات میں اعلی ٰ صبر درکار ہوتا ہے جب دشمن کے ہاتھوں ہر طرح کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو۔ رسول اللہ ﷺ کی سربراہی میں جتنے غزوات ہوئے ان میں پا مردی سے دشمن کا مقابلہ نہ کیا جاتا تو اسلامی نظریہ حیات دنیا میں باقی نہ رہتا۔ ان کے صبر وعزیمت نے اسلام کے دنیا میں باقی رہنے کے اسباب فراہم کیے۔ آج بھی بیت المقدس کی حفاظت کی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اہلِ فلسطین و غزہ نے صبرواستقامت کی ایسی مثالیں پیش کی ہیں جو تصور سے ماوراء ہیں۔ اللہ پر غیر متزلزل ایمان انسان کو اندر سے بہت مضبوط بناتا ہے۔ ایمان کی مضبوطی اور اعلیٰ صبر کی کیفیات کو ہم اہلِ غزہ کی زندگیوں میں دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے وہ زندگی کی سہولتوں سے محروم ہو کر کھنڈرات میں رہتے ہوئے بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ہر روز اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ سلیم الفطرت لوگ اس استقامت کو دیکھ کر تسلیم کرنے لگے ہیں کہ اسلام ہی سچا دین ہے۔ قرآن نے شہداء کے لیے جو انعام واکرام کا اعلان کیا ہے اس پر یقین نے جہاد میں حصہ لینے والوں کے اندر جذبۂ شہادت کو پروان چڑھایا اور موت سے ان کو بے خوف کردیا ہے۔
صبر جہاں اپنی اعلیٰ مثال پیش کر رہا ہے وہیں ظلم بھی اپنی سفاکی کی بدترین مثال پیش کر رہا ہے۔ اہلِ غزہ کو ایسے دشمن سے سابقہ پیش آیا ہے جو خود کو مستقل حالتِ جنگ میں رکھ کر اپنی زمینی حدود کی مستقل توسیعی چاہتا ہے۔ وہ کسی بھی حد پر رکنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ چونکہ قومِ یہود کو تجربہ سے یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ ہر نئی جنگ نے اس کے رقبہ میں اضافہ کیا ہے اس لیے وہ کمزور اور نہتے لوگوں کی زمینوں کو ہڑپنے کے لیے ان پر ظلم کی انتہا کر کے ان کو جنگ پر مجبور کرتا ہے اور جب جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو رہائشی علاقوں پر بموں کی بارش کرکے خواتین، بچوں، بوڑھوں اور بیماروں کا بے رحمی سے قتل کیا جاتا ہے تاکہ وہ زمینیں خالی کر دیں۔یہ سلسلہ ۱۹۴۸ء سے چل رہا ہے۔ ایران کے حملے کے بعد حالات میں تبدیلی کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔اللہ کی سنت ہے کہ ظلم جب بڑھ جاتا ہے تو اس کے مٹنے کے اسباب بھی پیدا ہونے لگتے ہیں۔
اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ ظالم کے ہاتھوں بے بسی کے ساتھ شکست خوردہ ہو کر مرنے سے بہتر ہے کہ شہادت کی آرزو لے کر ظالم کا مقابلہ کیا جائے۔ جذبۂ شہادت اہلِ ایمان کو ناقابلِ تسخیر قوت بنا دیتا ہے جو حقیقی ایمان کاثمرہ ہے۔ اللہ کی سنت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان قوموں کی مدد کرتا ہے جو اپنے درست موقف پر استقامت کے ساتھ ڈٹ جاتی ہیں چاہے بدلے میں کتنا ہی جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ اے لوگو جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورۃ البقرۃ ۱۵۳)
اس آیت میں صبر اور نماز سے مدد لینے پر ابھارا گیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ صبر اور نماز میں کیا تعلق ہے؟ نماز اللہ تعالیٰ سے بندے کو جوڑتی ہے جو بے پناہ قوت کا مالک ہے۔ جب بندے کو نماز کے ذریعے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ساری کائنات ہے اور جب اس کو یہ یقین بھی ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی رضا جوئی کی خاطر اسی کی راہ میں لڑ رہا ہے تو یہ عقیدہ اس کے اندر بے انتہا صبر پیدا کرتا ہے۔ یہی وہ صبر ہے جو اسلام اپنے متبعین کے اندر پیدا کرتا ہے۔
اسلام میں صبر کا تصور بہت وسیع ہے۔قرآن میں نجات کی چار شرائط بتائی گئی ہیں جن میں سے ایک شرط ہے صبر اور تواصی بالصبر۔ صبر کے قرآنی تصور کو جو شخص جان لیتا ہے وہ دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ زمانے کی قسم انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔(سورۃ العصر)
سورۃ العصر سارے قرآن کا خلاصہ ہے۔اس کی ایک آیت میں حقیقی کامیابی کا فارمولا دیا گیا ہے جس میں کامیابی کے لیے چار شرطیں بیان کی گئی ہیں۔ کامیابی کی پہلی شرط ہے ایمانیات، یعنی انسان کو کائنات کی غیبی سچائیوں کا علم اور یقین حاصل ہو۔ یہ علم وہ روشنی ہے جس میں وہ اپنی راہ اور منزل دونوں کو دیکھ کر کامیابی کی راہ میں استقامت کے ساتھ محوِ سفر ہوتا ہے۔ ایمان کی محرومی دراصل تاریکی میں ایک ایسا سفر ہے جس کی نہ ہی راہ متعین ہو اور نہ ہی منزل کا پتہ ہو۔ جو لوگ علمِ وحی سے محروم ہوتے ہیں وہ قیاس و گمان کی تاریکیوں میں بھٹک رہے ہوتے ہیں۔ ان کو نہیں معلوم ہے کہ ان کا خالق کون ہے اور کن صفات کا حامل ہے اور نہ ہی ان کو اپنی زندگی کے مقصد سے واقفیت ہے اور ان کو یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ مرنے کے بعد کن مراحل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایمان بالغیب انسان کو نہ صرف روشنی عطا کرتا ہے جس میں وہ اپنی راہ و منزل کو دیکھ رہا ہوتا ہے بلکہ اس کو ایسی طاقت فراہم کرتا ہے جو اس کے سفر کی صعوبتوں کو آسان بنا دیتی ہے۔ دوسری کامیابی کی شرط وہ عمل ہے جو ایمانیات کا عین متضاضی ہو اور جو خالق کی عین منشا کے مطابق ہو۔عملِ صالح، عبادات، معاملات، اخلاقیات اور اس جدوجہد کا احاطہ کرتا ہے جو حق و باطل کی کشمکش کے درمیان اس دارالعمل میں برپا ہے۔ تیسری چیز ہے دعوت الی اللہ یعنی تواصی بالحق۔ جس فلاح یعنی جنت کے حصول کے راستے پر ہم گامزن ہیں اس سے دوسرے انسانوں کو واقف کروانا۔ یہ انسانی ہمدردی کا بھی عین تقاضا ہے اور دنیا کو عدل وانصاف پر قائم رکھنے کے لیے بھی نہایت ضروری ہے۔ حق و باطل کی اس رزم گاہ میں اگر حق کی فکر کو عام نہ کیا جائے تو باطل افکار دنیا میں چھا جائیں گے اور پھر دنیا شر و فساد سے بھر جائے گی ۔چوتھی شرط ہے اہلِ ایمان میں صبر کی صفت کا پایا جانا۔ صبر اتنی جامع صفت ہے جو ایمان لانے کے مرحلے میں عملِ صالح اختیار کرنے میں اور دعوت الی اللہ کی جدوجہد میں ہر موقع پر درکار ہوتی ہے۔ اور جب جدوجہد فکری میدان سے میدانِ قتال تک پہنچ جائے تو وہاں اعلیٰ قسم کا صبر درکار ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اس اصول پر بنایا ہے کہ یہاں خیر و شر دونوں طاقتیں پائی جاتی ہیں۔ شر کی طاقتوں کی زمامِ کار ابلیس کے ہاتھ میں ہے جس نے روزِ اول ہی یہ قسم کھائی تھی کہ وہ انسانوں کو بھٹکا کر ان کو جہنم کا مستحق ثابت کرے گا۔چنانچہ شیطانی طاقتوں کی موجودگی میں ہر جگہ اور ہر وقت اہلِ ایمان کو مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا۔ اسی مزاحمت کے ساتھ کامیابی کی ان چار شرطوں کو پورا کرنا ہی اہلِ ایمان کا اصل مقصود ہے جس کے بدلے میں آخرت میں جنت اور دنیا میں عزت و اطمینانِ قلب حاصل ہوگا۔
اہلِ ایمان نے جب بھی اللہ واحد کی وحدانیت کو مان کر اس کی بندگی کی طرف لوگوں کو بلانے کی کوشش کی تو ان پر مصیبتیں ٹوٹ پڑیں۔ قرآن میں صبر کا جو تصور پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان نے جس بات کو حق سمجھا ہے اس پر وہ استقامت سے ڈٹ جائے چاہے اس کے مقابلے میں کتنی ہی خوفناک اذیتوں کا اعلان ہوجائے: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ”نہ ڈرو، نہ غم کرو اور خوش ہو جاو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (سورۃ فصلت ۳۰)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایمان باللہ پر قائم رہنے اور اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دینے کے نتیجے میں آگ میں ڈالا گیا۔ موسی علیہ السلام پر ایمان لانے والے جادوگروں نے بھی اسی صبر کا مظاہرہ کیا تھا جب فرعون نے ان کو موسیٰؑ رب پر ایمان لانے سے باز رکھنے کے لیے ایک خوفناک سزا کا اعلان کیا تھا۔اصحاب الاخدود نے اپنی آنکھوں کے سامنے دہکتی ہوئی آگ کو دیکھ کر بھی آگ کے گڑھوں میں گرنے کو ترجیح دی لیکن ایمان کو چھوڑنا گوارا نہیں کیا۔ مکی دورِنبوت میں حضرت بلال ؓ، خبابؓ بن ارت اور آل ِ یاسر پر اس لیے ظلم ڈھائے گئے تھے وہ ایک اللہ کی بندگی کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ (سورۃ البروج۸)
صبر اس وقت بھی مطلوب ہے جب ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کا وقت آتا ہے۔سب سے پہلے اپنے نفس پر قابو پانے اور خواہشاتِ نفس سے اپنے آپ کو روکنے کے لیے صبر درکار ہوتا ہے۔حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے قرآن کا بیان ہے:۔۔ إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيِصْبِرْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقویٰ اور صبر سے کام لے تو اللہ کے ہاں ایسے نیک لوگوں کا اجر مارا نہیں جاتا”۔(سورۃ یوسف ۹۰)
حضرت یوسفؑ نے نوجوانوں کے لیے تقویٰ کی روش پر قائم رہنے کی زبردست مثال قائم کی اور نفس پر اس وقت قابو رکھاجب آپ عین حالت شباب میں تھے اور دعوت گناہ دینے والی خود ان کی مالکن ایک رئیس خاتون تھی۔ اس آیت میں تقویٰ کے ساتھ صبر کو بھی بیان کیا گیا ہے یعنی صبر کے بغیر تقویٰ پر قائم نہیں رہا جاسکتا۔ سب سے پہلا صبر کا محاذ تو خود انسان کا اپنا نفس ہے۔اس کے بعد ماحول،معاشرہ اورقوم عمل ِ صالح اختیارکرنے میں سدِ راہ بننے لگتے ہیں اور ان سے مزاحمت درپیش ہوتی ہے۔ باطل طاقتیں اس ایمان کو گورا نہیں کرتیں جو عمل کی صورت میں ان کی تہذیب اور کلچر سے متصادم ہوتا ہے۔چنانچہ مختلف ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ان کی آبادیوں پر حملہ کرنا،ان کی مساجد کو منہدم کرنا،ان کو شرعی پرسنل لا سے محروم کرنا، ان کی خواتین کو حجاب اختیار کرنے پر روک لگانا،ان کواپنی پسند کا حلال ذبیحہ کھانے سے محروم کرنا یہ وہ اقدامات ہیں جو اہلِ ایمان کے خلاف کیے جاتے ہیں جب وہ اسلام پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔
صبر اس وقت بھی مطلوب ہے جب اہل ِحق ،حق کی دعوت انسانوں کے سامنے پیش کرکے ان کو جہنم کی آگ سے بچانا چاہتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کا لوگوں کے سامنے توحید کو پیش کرنا اور شرک سے روکنا نمرود کو گوارانہ ہوا۔چنانچہ اس نے اس "جرم” کی پاداش میں ان کو آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ انبیاء کو ستایا گیا اور بعض کو قتل کیا گیا۔ بنی اسرائیل کے جرائم میں سے ایک جرم یہ تھا کہ وہ انبیاء کا بھی بے دریغ قتل کرتے تھے (سورۃ البقرۃ ۶۱، ۹۱، سورۃ آل عمران ۱۱۲) مدینے میں رسول اللہ ﷺ کو بھی قتل کرنے کی انہوں نے ناپاک کوششیں کی تھیں۔ بھارت میں بھی دعوت الی اللہ کے ضمن میں مذہب کی تبلیغ کو ایک جرم قرار دیا جا رہا ہے جبکہ دستورِ ہند میں اس کی اجازت ہے کہ ہر آدمی اپنے مذہب پر عمل کرسکتا ہے اور اس کی تبلیغ بھی کرسکتا ہے۔ جبراً تبدیلی مذہب کے قانون کی آڑ میں داعیان اسلام کو حراست میں لیا جا رہا ہے تاکہ غیر مسلموں میں مذہب کی تبلیغ کرنے والوں کی ہمت پست ہوجائے۔ لیکن قرآنی تصورِ صبر کا تقاضا یہ ہے کہ ان پابندیوں کے باوجود ہم انسانیت کے خیر خواہ ہونے کا حق اس طرح اداکریں کہ لوگوں کو توحید کی دعوت دیں اور مشرکانہ عقائد کا ابطال کریں چاہے حالات کتنے ہی نامساعد ہوں۔ صبر کا تقاضا یہ ہے کہ بھارت میں امتِ مسلمہ یہ فیصلہ کرلے کہ اس کو اپنے ایمان، عملِ صالح اور دعوت الی اللہ کے مقصد کے ساتھ رہنا ہے جو کہ اس کا مقصدِ وجود ہے۔ اسی صورت میں بھارت کے مسلمان اللہ کی مدد کےمستحق بن سکتے ہیں اور اللہ کی مدد کے بغیر بھارت میں مسلمانوں کا مسلمان بن کر رہنا ناممکن ہے اور اسلام ہی کی آغوش میں مسلمانوں کی عافیت ہے۔ دنیا مسلمانوں کو تو نقصان پہنچا سکتی ہے اسلام کو نہیں۔ اسلام فکری اعتبار سے انتہائی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام اس وقت بھی دلوں کو فتح کر رہا تھا جب مسلمان شکست پر شکست کھاتے چلے جا رہے تھے۔اسلام کے قلعہ میں پناہ جب لی جائے گی تو مسلمان صبر آزما حالات سے گزر تو سکتے ہیں لیکن مغلوب و محکوم نہیں ہوسکتے ۔اسلام کے تقاضوں کو چھوڑنے کے نتیجے میں مسلمان دنیا میں عزت و شوکت سے بھی محروم رہیں گے اور آخرت کی کامیابی سے بھی۔
قرآن صبر کا جو تصور پیش کرتا ہے وہ عام مروجہ معنوں میں سمجھے جانے والے صبر سے بہت اعلیٰ ہے۔ عام مروجہ مفہوم والا صبر یہ ہے کہ جب ظالم ظلم کرے یا کوئی مصیبت پیش آئے تو اس کو برداشت کیا جائے۔ اس میں ظلم کے خلاف اٹھ کر ظالم کو چیلنج کرنے کا تصور نہیں ہے۔ اس میں یہ تصور بھی نہیں ہے کہ مصیبت پر اس یقین کے ساتھ صبر کیا جائے کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی اور اللہ ہی کے اذن سے مصیبت دور ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ اللہ کا ہر فیصلہ اس کی حکمت و مصلحت کی بنا پر ہوتا ہے اور اس کے ہر فیصلہ میں خیر مضمر ہوتا ہے۔ کسی مومن کو جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو یہ اس میں صبر کا امتحان ہوتا ہے تاکہ اس کے درجات بلند ہوں یا اس مصیبت کو گناہوں کے لیے کفارہ بنا دیا جاتا ہے یا اس مصیبت کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو خوابِ غفلت سے جگانا چاہتا ہے۔ اس لیے اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنے کا نام بھی صبر ہے۔ بیماریوں میں اللہ کے فیصلہ پر راضی رہنا بھی صبر ہے۔ بیماری سے کوئی انسان بَری نہیں ہے۔ بیماری انسان کے عاجز ہونے کی واضح دلیل ہے تاکہ وہ کبر و غرور سے باز رہے۔ ایوب علیہ السلام کو جب بیماری لاحق ہوئی تو انہوں نے اللہ سے شکوہ نہیں کیا بلکہ اس کے فیصلے پر راضی رہے اور اپنے رب کو پکارا: أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ”مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے۔“ (سورۃ الانبیاء۸۳)
یعقوب علیہ السلام نے جب یوسف علیہ السلام کو کھویا تو کہا کہ میں صبرِ جمیل اختیار کروں گا اور پھر وہ اللہ کے فیصلہ پر راضی رہے اور اللہ سے پر امید رہے۔ (سورۃ یوسف ۱۸، ۸۳) اللہ تعالیٰ صبر کے امتحان سے گزارنے کے لیے خوف، بھوک و پیاس اور جان ومال کے نقصانات سے دوچار کرتا ہے (سورۃ البقرۃ۱۵۵) ان حالات میں اہلِ ایمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے ہرکام میں حکمت بھی ہے اور رحمت بھی۔ اس یقین کے ساتھ جب وہ صبر آزما حالات کو ہمت و حوصلہ سے برداشت کرتے ہیں تو اللہ ایسے بندوں کو کامیابی کی خوشخبری دیتا ہے۔مکی دورِ نبوت میں ہر وقت خوف کا ماحول تھا۔شعبِ ابی طالب میں محصور کرنے کے بعد بھوک وپیاس کی تکلیف سے گزارا گیا جس پر بنو ہاشم کے بچے اور بڑے سب نے صبر کیا ۔
غیر مسلم قوموں میں معمولی مصیبت پر بھی انسان ہمت کا دامن چھوڑ دیتا ہے اور خودکشی کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔اسلام خودکشی کے ذریعے جان گنوانے کے بجائے ظالم وجابر کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دیتا ہے اور ہمت و شجاعت کے ساتھ جان قربان کرنے پر ابھارتا ہے جو عزیمت کا مقام ہے۔ دونوں حالتوں میں انسان اپنی جان کھوتا ہے لیکن آخر الذکر صورت میں اس بات کا امکان ہے کہ ظالم کے ظلم سے چھٹکارا مل جائے اور مقتول کو شہادت کا درجہ ملے۔صبر کا دامن انسان اس وقت چھوڑتا ہے جب مالی تنگی لاحق ہوتی ہے اور انسان ناجائز کمائی کے ذرایع اختیار کرتا ہے۔صبر معصیت ترک کرنے اور اللہ کی اطاعت اختیار کرتے وقت بھی درکار ہوتا ہے۔ تنگدستی میں تو لوگ اللہ کو یاد کرتے ہیں لیکن خوشحالی میں معصیت سے بچنا صبرکا متقاضی ہے۔ داؤد اور سلیمان علیہم السلام نے بادشاہت میں بھی تقویٰ ٰاور شکر گزاری کی زندگی کی مثال پیش کی ۔
صبر کا انحصار انسان کی سوچ اور اس کے اللہ تعالیٰ سے تعلق پر ہے۔جب بندۂ مومن کا ذہن اس بات پر آمادہ ہوجاتا ہے کہ مجھےہر حال میں اللہ کو راضی کرنے کے لیے صراطِ مستقیم پر چلنا ہے تو وہ اس وقت اپنے اعضاء کو صبر پر راضی کرواتا ہے اور جو ظلم پر صبر اختیارکرتے ہیں اور اپنے موقف پر قائم رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے بندوں پر سکینت نازل کرتا ہے۔ یہ اللہ کی رحمت ہے کہ بندوں کی مقدرت سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں ڈالتا اور وہ اپنے بندوں کو تنہا بھی نہیں چھوڑتا۔ صبر کا اجر بے انتہا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ فیصلہ کرتا ہے کہ فلاں بندے کو جنت میں اعلیٰ درجات عطا کیے جائیں اور اس کے اعمال اس لائق نہیں ہیں کہ ان کے ذریعے سے اس کو وہ بلند درجات ملیں تو اللہ تعالیٰ اس کو صبر کے حالات سے گزارتا ہے اور اس صبر کی بدولت اس کے درجات بلند کیے جاتے ہیں ۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اکتوبر تا 19 اکتوبر 2024