سازشی نظریات اور اسلامی فکر

سہیل بشیر کار

قرآن کریم کی سورہ ص آیت بیاسی سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان بنیادی طور پر ایک سازشی کردار ہے۔ سازشیں ہمیشہ سے ہوتی رہیں اور ہوتی رہیں گی۔ سازشوں سے ہوشیار رہنا انسان کی ضرورت ہے اور اسی میں فراست بھی ہے۔ لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ کمزور قومیں ہمیشہ ہر چیز کو سازش سے جوڑ کر راہ فرار اختیار کرتی ہیں۔ اس طرح وہ اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکتیں اور اپنا احتساب نہیں کرتیں۔
اس وقت امت مسلمہ ہر چیز کو ’کانسپیرسی تھیوری‘ سے جوڑ رہی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ سازشی نظریہ کے حوالے سے امت مسلمہ کی صحیح رہنمائی کی جائے۔ قائد و دانش ور جناب سید سعادت اللہ حسینی کا تصنیف کردہ زیر نظر کتابچہ ’’سازشی نظریات اور اسلامی فکر‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مصنف نے کتاب کو دو ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کے بارے میں ڈاکٹر محی الدین غازی لکھتے ہیں ’’سازشیت کے نظریے سے متاثر ہونے کے بعد افراد اور گروہ قوت عمل کھونا شروع کر دیتے ہیں۔ بے بسی کا مصنوعی احساس انہیں اپنی ذمہ داریوں سے فرار کی راہیں سجھاتا ہے۔ ہر واقعہ اور ہر صورت حال کو نا قابل شکست سازش سمجھنے کی کیفیت نفسیاتی عجز و کرب میں مبتلا کر دیتی ہے۔ بے چارگی کا احساس جب شدید ہو جاتا ہے تو روشنی کے روزن، کام یابی کے مواقع عمل کے میدان اور سعی وجہد کی راہیں ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتی ہیں۔ ہندوستان کی ملت اسلامیہ اور خاص طور سے نسل نو کے شعور اور امنگ کو سازشیت زدگی کے رجحانات دیمک کی طرح مسلسل چاٹ رہے ہیں۔ ایسے میں اجتماعی نفسیات کی تشخیص کرنا، سازشی نظریات کو بے نقاب کرنا اور امت کے دل و دماغ کو ان سے نجات دلانا وقت کا ضروری تقاضا ہے۔‘‘ (صفحہ 5) اس میں کوئی شک نہیں کہ امت مسلمہ اس وقت پر خطر حالات سے دو چار ہے ایسے میں نظریات سازش کے لیے زرخیز زمین فراہم ہوتی ہے، سعادت اللہ حسینی لکھتے ہیں:’’مشکل اور پر خطر حالات طرح طرح کے نظریات سازش (conspiracy theories) کے لیے زرخیز زمین فراہم کرتے ہیں۔ اس وقت اسلامی دنیا میں جس تیزی سے فتنوں اور آزمائشوں کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے، اہل اسلام کے درمیان ایسے نظریات کی مقبولیت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ بلکہ بعض صورتوں میں وہ کیفیت بھی نظر آرہی ہے جسے ماہرین سماجیات سازشیت (conspiracism)‏کہتے ہیں، یعنی یہ شعوری یا غیر شعوری عقیدہ کہ تاریخ کو بنانے اور بگاڑنے میں کلیدی کردار چند طاقت ور لوگوں کی خفیہ سازش کا ہوتا ہے۔‘‘ (صفحہ 7) مصنف کا ماننا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیطان کے پیروکار ہمیشہ سازشیں کرتے ہیں اور ان سازشوں پر سنجیدہ غور کرنا اور ان کے تدارک کے لیے کام کرنا وقت کی ضرورت ہے لیکن ہر بات کو سازش سے ملانا، انتہا پسندانہ سوچ ہے۔ ایسے لوگ ہر اچھے کام جیسے ٹیکہ کاری مہم، خیر سگالی کے کام سب کو سازش قرار دیتے ہیں۔ مصنف کا ماننا ہے کہ یہ نظریات سازش صرف مسلمانوں یا تیسری دنیا میں رائج نہیں ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ان کا چلن ہے۔ مصنف کئی مثالیں دینے کے بعد لکھتے ہیں ’’سازشی نظریات ہر قوم میں مقبول ہیں، فرق یہ ہے کہ ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ معاشروں میں ان نظریات کو حاشیائی (fringe) اور مجنونانہ افکار مانا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں مین اسٹریم کے سمجھ دار لوگ بھی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔‘‘ (صفحہ 9) مصنف سازشی نظریات کی تین قسموں کے تحت پہلے دو معقول نظریات بیان کرتے ہیں۔ اول جو ٹھوس دلائل و شواہد کے ساتھ ثابت شدہ ہیں۔ دوسری قسم وہ جن میں سازش کا عنصر ثابت شدہ تو نہیں ہوتا لیکن اس کے لیے مضبوط شواہد موجود ہوتے ہیں اور تیسری قسم جو کہ نامعقول ہوتی ہے۔ اس کے تحت وہ نظریات آتے ہیں جو بغیر کسی ٹھوس و عقلی بنیاد کے محض اٹکل پر مبنی ہوتے ہیں، اس کے بعد مصنف ان نامعقول سازشی نظریات کے سماجیاتی، نفسیاتی اور عملی نقصانات بیان کرتے ہیں، نامعقول سازشی نظریات کا سب سے زیادہ نقصان اپنے آپ کو ہی ہوتا ہے۔ مصنف نے سازشی نظریات کے بارے میں اسلام کا موقف قرآن کریم کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’قرآن مجید اپنے جاننے والوں کے ذہنوں کی تربیت اس طرح کرتا ہے کہ ایک بندہ مومن کسی غیر عقلی رویہ کا روادار نہیں ہوسکتا۔ توہم پرستی اور اندھی روایت پرستی، قرآن کے نزدیک مشرکانہ ذہن کی پیداوار ہے۔ اسی طرح پر اسراریت، اعجوبہ پرستی، نامعقول تشکیک اور بے بنیاد وہم وگمان بھی کمزور ایمان کے پھل ہیں۔ کھلی ہوئی حقیقتوں کو نظر انداز کر کے سربستہ اسرار کے پیچھے پڑنے کے اعجوبہ پرست مزاج کی قرآن سختی سے مذمت کرتا ہے’’ وَلَا تَقْفُ مَا لَيسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ۔ إِنَّ السَّيْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ( کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہوتی ہے۔ ’’(سورہ بنی اسرائیل 32) قرآن جو مزاج پروان چڑھاتا ہے اس کے نتیجے میں ایک بندہ مومن واقعات و حوادث اور معاملات زندگی کو اللہ کی آیات اور اس کی سنت نیز محکمات و تجربات کی روشنی میں دیکھنے کا عادی ہوتا ہے۔‘‘ (صفحہ 14) مصنف قرآن کریم کی روشنی میں ایسے چھ اصول بیان کرتے ہیں جن سے سازشی نظریات کی تنقیح کے لیے ٹھوس بنیادیں میسر آتی ہیں۔ ان میں پہلا اصول یہ ہے کہ فسادی اور فتنہ پرور لوگ نہایت کمزور ہوتے ہیں، دوم یہ کہ سازشی لوگ آپس میں پھٹے ہوتے ہیں۔ سوم یہ کہ دنیا میں ایسی کسی بڑی اور طاقت ور سازش کا اشارہ موجود نہیں ہے جو سارے انسانوں کو بے بس کرکے رکھ دے۔ چہارم یہ کہ قرآن وہم و گمان، اٹکل اور بے بنیاد اندازے، تجسس، افواہوں کی تخلیق، ان کی اشاعت ان پر یقین اور ان کی بنیاد پر سوچ اور رویوں کی تشکیل کی مذمت کرتا ہے۔ پنجم آسمانی آفات سازشیں نہیں بلکہ تنبیہ ہوتی ہے۔ ششم اہل ایمان کے خلاف دشمنوں کی سازشیں خود اہل ایمان کی کمزوری کی وجہ سے کامیاب ہوتی ہیں۔ لہذا اپنے آپ پر دھیان دینا چاہیے۔ اس باب میں مصنف نے نو پیمانے بیان کیے ہیں جن سے غلط سازشی نظریات کی پہچان ہوتی ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ہمارے عملی رویہ پر بھی مختصر مگر جامع بحث کی ہے۔ لکھتے ہیں ’’بے شک ہم کو دنیا کے احوال اور شر پسند طاقتوں کی سازشوں سے باخبر رہنا چاہے۔ صحیح جدوجہد کے لیے اس کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن اس میں حد سے زیادہ مبالغہ اور ان کو اپنے دماغ پر اس طرح حاوی کر لینا کہ ہر چیز کو اسی عینک سے ہم دیکھنے لگیں، دنیا کے ہر چھوٹے بڑے واقعہ میں سازش کا پہلو تلاش کرنے لگیں اور ہم کیا کریں اور ہم کو کیا کرنا چاہیے؟ یہ کبھی زیر بحث ہی نہ آئے بلکہ ساری بحث صرف ان صحیح اور غلط نظریات پر ہو کہ ہمارے سلسلے میں وہ کیا کر رہے ہیں؟تو یہ نفسیاتی مرض کی علامت ہے۔‘‘
(صفحہ 27)
کتاب کے دوسرے باب ’’آخر زمان، دجال اور سازشیت‘‘ میں مصنف نے لکھا ہے کہ مسلمانوں میں سازشی نظریات کے لیے اکثر جن احادیث کا سہارا لیا جاتا ہے ان میں بہت سی روایات ضعیف، موضوع اور اسرائیلی روایات پر مشتمل ہے لیکن ایک بڑا حصہ صحیح احادیث پر بھی مشتمل ہے۔ اس باب میں مصنف نے ان روایات کا تجزیہ کیا ہے۔ مصنف نے دجال، مہدی اور عیسی علیہ السلام پر بہترین بحث کی ہے۔ لکھتے ہیں ’’ان تمام روایتوں کے حقیقی مفہوم تک قطعیت کے ساتھ پہنچنا ممکن نہیں ہے یہ عین ممکن ہے کہ امین و صادق رسول ﷺ نے بعض جگہوں پر استعارے کی زبان استعمال کی ہو‘‘(صفحہ 34) مصنف نے تین نتائج بیان کیے ہیں جن کی وجہ سے امت مسلمہ کے اجتماعی زندگی پر مضر اثرات پڑے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’قیامت اور قرب قیامت کی علامتوں سے متعلق درست اور متوازن فکر کو اختیار کرنا ہماری نظریاتی ہی نہیں عملی ضرورت بھی ہے۔ اس سے متعلق سوچ کا عدم توازن، عملی رویوں میں بھی عدم توازن کا باعث بنتا ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ قرآن مجید، احادیث صحیحہ اور معتبر علما کی جانب سے کی گئی ان کی تعبیرات و تشریحات وغیرہ کی روشنی میں، ان باتوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے۔‘‘ (صفحہ 37) اس کے بعد مصنف نے اپنے مطالعہ اور غور وفکر کے نکات بیان کیے ہیں۔ مصنف لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے ہمیں جاننا ہوگا کہ قیامت کا قطعی علم اللہ رب العزت کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ اس کے بعد قیامت کی علامات اور ان کی تین قسموں پر خوبصورت اور علمی گفتگو کرتے ہے۔ مصنف کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کرنے کے کام بھی دکھاتے ہیں، یہاں بھی وہ ہمارا طرز عمل کے تحت لکھتے ہیں کہ ہمیں فتنوں سے بچنے کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی وہ سورہ کہف کو بنیاد بنا کر قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کرنے پر زور دیتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ کرنے کے کام کے تحت پہلا کام یہ بتاتے ہیں کہ ہمیں کتاب اللہ سے گہرا تعلق پیدا کرنا ہے، یہ کتاب فتنوں سے تحفظ کا موثر ترین اور اہم ترین ذریعہ ہے۔ دوسری بات وہ تصور قیامت کو یاد رکھنے پر زور دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ انسان کو متشابہات کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے، تیسری بات یہ کہ ہمیں ہر معاملے میں استقامت کے ساتھ اسلام پر جمے رہنا چاہیے اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات اور فتنوں کے مقابلے میں صبر کرنا اور دوسروں کو صبر کی تلقین کرنا چاہیے۔ چوتھی چیز اللہ کے دین کی راہ میں جدوجہد سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ پانچویں چیز اجتماعیت سے وابستگی اور نیک لوگوں کی رفاقت ضروری ہے۔ یہ تمام باتیں ہر حال میں اہل اسلام سے مطلوب ہیں۔ لیکن فتنوں کے دور میں ان کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور فتنے ان مستقل ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ہمیں ہر حال میں ان کاموں کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور اگر کوئی غیر معمولی فتنہ محسوس ہو رہا ہو تو ترک دنیا کی وکالت یا معاملات دنیا کے سلسلے میں منفی و سلبی رویے کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ دور کی کوڑی لاکر آخر زمان اور قیامت کا حساب لگانے بیٹھ جا
نا چاہیے بلکہ اپنی مستقل ذمہ داریوں پر توجہ بڑھا دینی چاہیے اور انہیں اور زیادہ بہتر طریقے سے انجام دینے کی فکر کرنی چاہیے۔ ’’(صفحہ 55)
سورہ کہف کے چند نکات کی طرف مصنف نے اشارے کیے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ کتاب ایک اہم موضوع پر بہترین کاوش ہے۔ کتاب کو ہندوستان کے مشہور اشاعتی ادارہ ‘مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز’ نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب موبائل نمبر 7290092401 پر حاصل کی جاسکتی ہے۔
مبصر سے رابطہ : 9906653927
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023