سارے غزہ پر مکمل قبضے کا اسرائیلی منصوبہ مگر اسرائیل کے لیے امریکی امداد کی بندش؟

صیہونی ریاست اور ناپاک فوج کا وجود توریت کے خلاف ہے؛ حفظِ توریت مدارس کا موقف

مسعود ابدالی

عسکری کارروائی میں شدت، قیدیوں کی جانیں خطرے میں پڑسکتی ہیں؛ اسرائیلی فوج کا خدشہ
مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنا آسان نہیں؛ ٹرمپ انتطامیہ کا تجزیہ
غزہ نسل کشی کے خلاف میگزین میں مضمون لکھنے والی ترک طالبہ کو عدالت سے رہائی
جیسا کہ ہم نے گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا، غزہ پر مکمل قبضے کے لیے محفوظ (Reserve) دستوں کے 75ہزار سے زیادہ سپاہی طلب کر لیے گئے ہیں۔ منصوبے کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر تزویراتی امور رن ڈرمر نے کہا کہ مکمل قبضے کا مطلب ہے کہ کارروائی کے اختتام پر واپسی کی موجودہ حکمت عملی کے بجائے اب مزاحمت کاروں کو ٹھکانے لگانے کے بعد ان سے بازیاب کرائے گئے علاقوں پر مکمل قبضہ کرکے علاقے کا انتظام و انصرام عسکری انتظامیہ کے حوالے کردیا جائے گا۔ علاقے کے بنیادی ڈھانچے یعنی سرکاری دفاتر، اسکول، بجلی گھر، آب نوشی کے وسائل اور اہم تنصیبات کا کنٹرول عسکری انتظامیہ سنبھال لے گی۔اس منصوبے کا سب سے اہم نکتہ غزہ سے فلسطینیوں کا انخلا ہے۔ شدید فوجی دباو کے ذریعے غزہ کی کُل آبادی کو جنوب میں رفح کی طرف منتقل ہونے پر مجبور کردیا جائے گا تاکہ دوسرے مرحلے میں انہیں صحرائے سینائی کی طرف دھکیلا جاسکے۔ تاہم ایک خصوصی ’رعایت‘ پیش کرتے ہوئے وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ اگرمزاحمت کار قیدیوں کو رہا کردیں تو اِن ’دہشت گردوں‘ کو انخلا کا محفوظ راستہ دینے پر غور کیا جاسکتا ہے۔
اسرائیلی فوج کو اس منصوبے پر شدید تحفظات ہیں۔ عسکری قیادت کا کہنا ہے کہ اسکے لیے جتنی بڑی تعداد میں سپاہی درکار ہیں وہ فوج کے پاس میسر نہیں۔حریدی فرقے اور مدارس کے طلبہ کی جانب لازمی فوجی بھرتی کی مزاحمت میں شدت کے ساتھ ان کا لہجہ بہت سخت ہوگیا ہے۔ گزشتہ ہفتے مدارس (Yeshiva) کے طلبہ اور ان کے اساتذہ نے فوجی ہیڈکوارٹر کے سامنے مظاہرہ کیا۔ ان طلبہ کے بینر پر لکھا تھا ’صیہونی ریاست اور اس کی ناپاک فوج کا وجود توریت کے خلاف ہے‘۔
اسرائیلی جرنیلوں کے مطابق، فوج 20 ماہ سے حالت جنگ میں ہے اور تھکن کے آثار بہت واضح ہیں۔اس تناظر میں چھاپہ مار جنگ کا سامنا اتنا آسان نہیں۔ اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل ایال ضمیر نے پارلیمان کی مجلس قائمہ برائے دفاع کو بتایا کہ قبضہ آپریشن کے نتیجے میں ہمارے قیدیوں کی جانیں خطرےمیں پڑسکتی ہیں۔ جنرل ضمیر نے خدشہ ظاہر کیا کہ فلسطینیوں کو جنوب کی طرف دھکیلنے کے عمل میں شہریوں کے بھاری جانی نقصان سے ایک خوفناک انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔بحث کے دوران کئی حکومت مخالف ارکان نے اس منصوبے کو گزشتہ 19 ماہ سے جاری کارروائی کا تسلسل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 سے اسرائیلی فوج غزہ پر قبضے کی کوشش کررہی ہے اور نئے منصوبے میں اضافی فوجی دستوں کے سوا اور کچھ نیا نہیں، یعنی حکومت اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے نئے منصوبے کے نام پراضافی افرادی قوت غزہ کے دلدل میں اتارنا چاہتی ہے۔ قیدیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل کے سینئر مصالحت کار میجر جنرل (ر) نزان ایلن پہلے ہی متنبہ کرچکے ہیں کہ عسکری کارروائی میں شدت قیدیوں کے لیے خطرات میں اضافہ کردے گی۔
غزہ قبضہ منصوبے پر اسرائیل کے اقتصادی ماہرین بھی تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔اس وقت غزہ آپریشن کا یومیہ خرچ 8 کروڑ ڈالر ہے جس کا بڑا حصہ چچا سام کی گرانٹ سے پورا ہورہا ہے لیکن صدر ٹرمپ حکومتی اخراجات کے معاملے میں بے حد حساس و محتاط ہیں۔واشنگٹن میں خبر گرم ہے کہ صدر ٹرمپ جہاں سماجی بہبود کے پروگراموں، جامعات، USAID، وائس آف امریکہ، سرکاری ریڈیو NPRاور بچوں کے پروگرام Sesame Street بنانے والے PBSوغیرہ کی گرانٹ ختم کررہے ہیں وہیں اب ان کی نظریں مختلف ممالک کی امداد پر ہیں، جن میں اسرائیل بھی شامل ہے۔حکومتی اخراجات میں کٹوتی کی زیادہ تر تجاویز قدامت پسند مرکزِ دانش Heritage Foundationکی ترتیب کردہ ہیں جو صدر ٹرمپ کے پروجیکٹ 2025 کا حصہ ہے۔یروشلم پوسٹ کے مطابق، فاونڈیشن نے جن ممالک کی مدد پر آرا چلانے کی سفارش کی ہے، ان میں اسرائیل اور مصر سر فہرست ہیں۔ صدر اوباما نے 2016 میں اسرائیل کے لیے دس سال دورانیے کی 38 ارب ڈالر مدد منظور کی تھی۔ مفاہمت کی یادداشت (MOU)کے مطابق اسرائیل کو ہرسال تین ارب تیس کروڑ ڈالر فوجی سازوسامان اور 50 کروڑ میزائیل پروگرام کے لیے دیے جائیں گے۔اس دس سالہ MOU کی مدت اگلے برس ختم ہورہی ہے۔ یروشلم ٹائمز کے مطابق Heritage Foundationنے مدت مکمل ہونے پر MOUکی تجدید نہ کرنے کی سفارش کی ہے۔
صدر ٹرمپ بھی اب مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے کے مطالبے کو ناقابل عمل سمجھنے لگے ہیں۔ لندن سے شائع ہونے والے اخبار العربی الجدید نے حالیہ اشاعت میں انکشاف کیا کہ امریکہ نے غزہ امن کے لیے مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے کی شرط واپس لے لی ہے۔اخبار نے اعلیٰ سطحی مصری افسر کے حوالے سے لکھا کہ امریکی سراغ رساں اداروں کے خیال میں مسلح مزاحمت کاروں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہیں بزور قوت غزہ سے بے دخل کرنا ممکن نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق واشنگٹن، غزہ میں مزید فوجی بھیجنے کے منصوبے کا بھی مخالف ہے کہ اس سے انسانی جانوں کےزیاں میں اضافے کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ مزاحمت کاروں کے ٹھکانے سارے غزہ میں ہیں اور ان کی صفوں میں داخل ہونے والے نوخیز فلسطینیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ امریکی حکام سے رابطہ کرنے والے مزاحمت کاروں نے یقین دلایا ہے کہ پائیدار جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے غیر مشروط انخلا کی صورت میں قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا۔ حالیہ دورہ امریکہ میں غزہ قبضہ منصوبے کے خالق ران ڈرمر کو بھی یہ باور کرادیاگیا ہے کہ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے ۔اسرائیل 582 دن کی مسلسل سرماری کے بعد ایک بھی قیدی رہا نہیں کراسکا اور جو قیدی آزاد ہوئے وہ سب کے سب فائربندی اور مذکرات کے نتیجے میں اپنے پیاروں تک بحفاظت واپس پہنچے ہیں۔اس سے پہلے صدر کےخصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف بھی کہہ چکے ہیں کہ طاقت نہیں سفارت مسئلے کا حل ہے۔
آجکل صدر ڈونالڈ ٹرمپ، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر ہیں۔ لندن سے شائع ہونے والے اخبار القدس العربی نے سعودی عرب کے شاہی خاندان کے حوالے سے خبر دی ہے کہ مقتدرہ فلسطین (PA)کے سربراہ محمود عباس، شام کے صدر احمد الشرع اوران کے لبنانی ہم منصب جوزف عون، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ہمراہ 13 مئی کو ریاض میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ اس چوٹی کانفرنس میں غزہ کے معاملے پر بات ہوگی۔ اس حوالے سے ایک معنی خیز بات یہ بھی کہ اپنے اس اہم دورہ مشرق وسطیٰ میں امریکی صدر اسرائیل نہیں جائیں گے اور نہ ہی کسی اہم اسرائیلی رہنما سے کوئی ملاقات متوقع ہے۔
نیتن یاہو کی جانب سے جنگی جنون کی حوصلہ افزائی کے علی الرغم سلیم الفطرت اسرائیلی اب اپنی آواز بلند کرنے لگے ہیں۔ آٹھ تا نو مئی ، یروشلم کنونشن سنٹر میں عالمی امن کانفرنس ہوئی جس میں سابق اسرائیلی وزیراعظم یہودا ایلمرٹ، بائیں بازو کی جماعت ہدث طعل کے سربراہ ایمن عودہ کے علاوہ فرانس کے صدر ایمیونل میکراں اور مقتدرہ فلسطین کے سربراہ محمود عباس نے ٹیلی فونک خطاب کیا۔
اس بیٹھک کے محرک اسرائیل کے معوذ عنن (Maoz Inon) اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن عزیز ابوسارہ تھے۔ معوض عنن کے والدین 7 اکتوبر 2023 کے طوفان الاقصیٰ میں مارے گئے جبکہ عزیز ابوسارہ کے بھائی کو دوران حراست اسرائیلیوں نے تشدد کرکے قتل کردیا۔اپنی ابتدائی گفتگو میں معوذ عینن نے کہا کہ مجھے اپنے والدین کی موت کا غم ہے لیکن میں نے اپنے دکھ کو انتقام میں تبدیل کرنے کے بجائے اسے امن کی جدوجہد کا عنوان بنادیا ہےتاکہ جس کرب سے میں گزررہا ہوں، میرے بچے اس سے محفوظ رہیں۔فرانسیسی صدر میکراں نے اس بیٹھک کو درد کے زخموں پر امید کا مرہم قراردیا۔ جناب میکراں نے کہا کہ آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست اسرائیل کی سلامتی و تحفظ اور پائیدار امن کی ضمانت ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ جون میں سعودی عرب کے ساتھ مل کر وہ اس حوالے سے ایک جامع منصوبے کا اعلان کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ اسی وقت ممکن ہے جب مزاحمت کار، قیدی رہا کرکے خود ہی غیر مسلح ہوجائیں۔سابق اسرائیلی وزیراعظم یہودا ایلمرٹ نے غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا پر زور دیتے ہوئے کہا کہ غزہ فلسطینی ریاست کا حصہ ہے لہذا وہاں اسرائیلی فوج کا کوئی کام نہیں۔ انہوں نے مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرکے مقتدرہ فلسطین کی قیادت میں عبوری فوج تشکیل دینے کی تجویز پیش کی جو اس پٹی کی تعمیر نو کی نگرانی کرے۔
امن اور فوجی انخلا کی حد تک تو کانفرنس کی سفارشات خوش آئند ہیں لیکن مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے والی بات اہل غزہ کبھی قبول نہیں کریں گے۔ فلسطینی ریاست کی بات بھی وضاحت طلب ہے کہ اب مطالبہ tow stateسے آگے بڑھ کر Forty Eightتک جاچکا ہے۔
غزہ کے ساتھ غرب اردن کے فلسطینی بھی نسل کشی اور بے دخلی کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ شمالی غرب اردن میں طولکرم کے قریب نورشمس خٰمہ بستی کے تقریباً سارے کچے اور نیم پختہ مکانات گرا کر مکینوں کو اردن کی سرحد کی طرف ہانک دیا گیا ہے۔خالی کیے گئے علاقے میں اسرائیلی بستی تعمیر کی جائے گی۔ عین سبت کے دوران 10 مئی کو اسرائیلی قبضہ گردوں (Settlers) نے رملہ کے گاوں ابو فلاح میں فلسطینیوں کے ایک فارم ہاوس کو آگ لگادی۔توسیع پسندی کے اس شیطانی مظاہرے میں سنگترے کے باغات پھونک دیے گئے۔اس دہشت گردانہ کارروائی کو اسرائیلی فوج نے مکمل تحفظ فراہم کیا جس کے دوران ہزاروں مرغیاں اور مویشی زندہ جلادیے گئے۔ تاہم، اہل غزہ کے حق میں عسکری اور سیاسی و سفارتی حمایت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اسرائیل کی خوفناک بمباری اور دارالحکومت صنعا کے ائیرپورٹ اور ملک کی تمام بندرگاہوں کو پیوند خاک کردینے کے باوجود، حوثیوں نےاسرائیل پر میزائیلی حملے جاری رکھے۔ جمعہ 9 مئی کی دوپہر تل ابیب کے ساحل پر منجنیقی (Ballistic)میزائیل اس وقت داغے گئے جب سخت گرمی میں ہزاروں افراد غسل آبی و آفتابی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ سائرن بجنے پر یہ لوگ پناہ گاہوں کی طرف سرپٹ دوڑنے لگے، اس افراتفری میں بہت سے ضعیف العمر افراد اور بچے زخمی ہوگئے۔
اسرائیل کے خلاف مظاہروں پر غیر اعلانیہ پابندی کے باوجود نیویارک میں 6 مئی کو غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔اسی دن جامعہ واشنگٹن سیاٹل (Seattle)میں غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے 25 طلبہ گرفتار کرلیے گئےجس کے خلاف دوسرے دن جامعہ کیلیفورنیا لاس اینجلیس میں غزہ نسل کشی کے خلاف طلبہ نے دھرنا دیا۔وہاں بھی پولیس نے زبردست تشدد کرکے طلبہ کا احتجاج ختم کرادیا۔ جامعہ سے اخراج، اسناد کی معطلی، ویزوں کی منسوخی ، امریکہ بدری، گرفتاری اور انسانیت سوز تشدد کے باوجود جامعہ کولمبیا کے طلبہ کا غزہ نسل کشی کے خلاف احتجاج جاری ہے اور 7مئی کو طلبہ نے جامعہ کے ایک کتب خانے پر قبضہ کرلیا۔جامعہ انتظامیہ کے ساتھ ریاستی گورنر اور میئر نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دھرنا ختم کرانے کے لیے پولیس بھیج دی اور سو سے زیادہ طلبہ گرفتار کرلیے گئے۔صدر ٹرمپ کے انتقامی اقدامات کی وجہ سے جامعہ کولمبیا سخت مشکل میں ہے اور وفاقی گرانٹ کی بندش سے پیدا ہونے والے مالی بحران کی بنا پر جامعہ نے 180 اساتذہ، محققین اور غیر تدریسی عملے کو فارغ کردیا ہے۔
طلبہ کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر عدلیہ کو بھی تشویش ہے اور جامعہ کولمبیا کے طالب علم رہنما محسن مہدوی کے بعد وفاقی عدالت کے حکم پر ترک طالبہ رمیسہ اوزترک Rümeysa Öztürk کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔وفاقی جج ولیم کے سیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ میگزین میں مضمون لکھنا کسی شخص کی گرفتاری کی معقول وجہ نہیں ہے۔ رمیسہ کے خلاف کسی پُرتشدد کارروائی میں شرکت یا ایسی کسی سرگرمی کی حمایت کا کوئی ثبوت نہیں پیش کیا گیا اور نہ اس کے ریکارڈ میں کوئی ایسی چیز موجود ہے۔امریکی ریاست میسیچیوسٹس کی جامعہ ٹفٹس (Tufts)میں پی ایچ ڈی کی طالبہ، غزہ نسل کشی کے خلاف جامعہ کے میگزین میں ایک مضمون لکھنے کے الزام میں 25 مارچ سے زیرحراست تھی۔ وزارت خارجہ نے اسی الزام میں اس کا ویزا بھی منسوخ کردیا ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 ٹرمپ بھی اب مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے کے مطالبے کو ناقابل عمل سمجھنے لگے ہیں۔ لندن سے شائع ہونے والے اخبار العربی الجدید نے حالیہ اشاعت میں انکشاف کیا کہ امریکہ نے غزہ امن کے لیے مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے کی شرط واپس لے لی ہے۔اخبار نے اعلیٰ سطحی مصری افسر کے حوالے سے لکھا کہ امریکی سراغ رساں اداروں کے خیال میں مسلح مزاحمت کاروں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہیں بزور قوت غزہ سے بے دخل کرنا ممکن نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق واشنگٹن، غزہ میں مزید فوجی بھیجنے کے منصوبے کا بھی مخالف ہے کہ اس سے انسانی جانوں کےزیاں میں اضافے کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ مزاحمت کاروں کے ٹھکانے سارے غزہ میں ہیں اور ان کی صفوں میں داخل ہونے والے نوخیز فلسطینیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ امریکی حکام سے رابطہ کرنے والے مزاحمت کاروں نے یقین دلایا ہے کہ پائیدار جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے غیر مشروط انخلا کی صورت میں قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025