سادگی، رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ کا نمایاں پہلو
تصنع اور نام ونمود سے لوگوں کو مرعوب تو کیا جاسکتا ہے، دل نہیں جیتے جاسکتے
محمد عمر فلاحی قاسمی
معاشرتی زندگی ميں سادگی كو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ يہ وہ چيز ہے جو انسان كی يادداشت ميں تا دير باقی رہتی ہے جب وه كسی سے ملاقات كرتا ہے۔ سادگی كی اگر تعريف كی جائے تو نہايت آسان لفظوں ميں یہ ہوگی کہ انسان اپنے آپ كو انسانوں كے سامنے اپنی حقيقی شكل ميں پيش كرے۔ كيونكہ تصنع كے ذريعہ آپ دوسروں كو ایک بار دهوكا دے سكتے ہيں ليكن ہر بار نہيں دے سكتے۔ اسی لیے اسلام تصنع سے منع كرتا ہے۔
سادگی كے مختلف گوشے اور زاویے ہوتے ہيں جو درج ذيل ہيں:
بات چيت ميں سادگی: ہمارے معاشرے ميں بہت سے لوگ ايسے ہوتے ہيں جو اپنے علم اور حكمت كا اظہار اس ميں سمجھتے ہيں کہ جتنے سخت اور پرتكلف الفاظ كا استعمال كريں اس سے ان كی شخصيت كا رعب دوسروں پر زياده ہوگا چنانچہ یہ جانتے ہوئے بھی كہ ہمارا مخاطب كون ہے وہ اس کی سطح کا خیال رکھے بغیر بات کرتے ہیں۔ مثال كے طور پر وہ لوگ جو انگریزی نہيں سمجھتے وہ ان کے سامنے انگریزی بولنے كی كوشش كرتے ہيں يا يوں كہیے کہ عام فہم زبان استعمال كرنے كے بجائے ثقيل اور مشكل الفاظ كے استعمال کو اپنی علمی برتری خیال کرتے ہیں۔ اس طرح وه تصنع كا راستہ اختيار كرتے ہيں، ليكن حضور پاک ﷺ كا جو اسوه ہمارے سامنے ہے وه يہ كہ: كان كلامه سهلاً مفهومًا، يناسب المستمع، آپ نہايت ہی آسان اور عام فہم اور سامع كی مناسبت سے زبان كا استعمال كرتے تھے جبكہ آپ اس پر قادر تھے كہ فصيح زبان كا استعمال كريں، كيونكہ آپ أفصح فصحاء العرب تھے، ليكن آپ ہميشہ سادگی كو ملحوظ رکھتے تھے اور چاہتے تھے كہ ہر چھوٹا اور بڑا عالم وجاہل، مرد و عورت ہر كوئى آپ كى بات سمجھ لے، يہاں تک كہ چھوٹے بچے بھی آپ كى بات بآسانی سمجھتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہيں:- «كان كلام رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلاً، يفهمه كل من يسمعه». رسول ﷺ ٹھہر ٹھہر كر اور فصل كے ساتهہ گفتگو كرتے تھے يہاں تک کہ ہر سننے والا اسے سمجھتا تھا ۔
وضع قطع ميں سادگی: شايد آج سب سے زياده جس چيز ميں لوگ تكلف اختيار كرتے ہيں وه ہے اچھی وضع قطع اختيار كرنا۔ ہر كسی كی خواہش ہوتی ہے كہ وه دوسروں كے سامنے اچھا دکھے۔ كيونكہ بہترين ہيئت اختيار كرنا اس بات پر دلالت ہے كہ انسان لوگوں كا خيال كرتا ہے اور چاہتا ہے كہ وه دوسروں كے سامنے اچھی ہيئت ميں نظر آئے۔ چنانچہ یہ چیز ہمیں اسوہ حسنہ میں بھی نظر آتی ہے۔ حضور ﷺ اپنے بالوں ميں كنگھا كرتے تھے اور جو بھی ميسر ہوتا اس كے بقدر اپنی ہيئت كو درست كرنے كی كوشش كرتے تھے۔ كپڑے ہميشہ صاف ستھرے پہنتے، خوشبو لگانے كا اہتمام كرتے تھے، ليكن اس ميں تكلف كی روش اختیار نہیں کرتے۔ آپؐ كا مشن جو تھا ہميشہ وه آپ كی نگاہوں كے سامنے تھا چنانچہ اس ميں تكلف كا راستہ اختيار كرکے كبھى آپ نے اپنے فريضے كو متاثر نہيں ہونے ديا ۔ يہی اعتدال ہميں بھی قائم ركھنا چاہیے۔ اپنا مقصد اور نصب العين ہميشہ سامنے ہو اور اچھا حلیہ اور زیب وزینت اختيار كرنے میں گھنٹوں صرف كردینا اور افراط وتفريط کی راہ اختیار کرنا باشعور اور مقصدی زندگی گزارنے والے منومنوں کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔
مہمان نوازی ميں سادگی: لوگوں ميں بہت سے لوگ ايسے ہوتے ہيں جو ضيافت ميں بھی تكلف كی روش اختيار كرتے ہيں۔ چاہے وه بذات خود مہمان ہوں يا ميزبان ہوں۔ بہت بار ميزبان تكلف سے كام ليتے ہوئے ان چيزوں كا انتظام كرتا ہے جس كی استطاعت نہيں ركھتا اور اپنے آپ كو دقت ميں ڈالتا ہے اور بہت بار مہمان يہ چاہتا ہے كہ اس كا ميزبان تكلف کرے اور لازماً وه كچھ انتظام كرے خواه وه استطاعت نہيں ركھتا ہو جبكہ اسوه نبوی يہ تھا کہ آپ اس معاملے ميں نہایت ہی ساده اور آسان تھے۔ خواه آپ ميزبان ہوں يا مہمان ہوں۔ چنانچہ وه ہر چھوٹے بڑے كی دعوت كو قبول كرليتے تھے اور کبھی يہ شرط نہ لگاتے تھے كہ ان كو دعوت دينے والا عالی مقام اور اس سطح كا انتظام كرے يہان تک كہ غلاموں اور آزاد ہر كسی كے مہمان بنتے تھے، اسی طرح مسلم اور غير مسلم ہر كسی كی دعوت قبول كرتے تھے۔ ايک بار سلمان فارسی رضی الله عنہ آئے اور وه اصلاً فارس كے تھے انہوں نے آپ كی خدمت ميں ايک كھجور كا طشت پيش كيا تو نبی ﷺ نے قبول كرليا اور صحابہ كرام كو جمع كيا اور بسم الله پڑها اور اسے نوش فرمایا۔
ايک بار ايک مہمان آئے اور آپ كے گھر ميں كچھ بھی نہ تھا تو آپ نے اپنی بيويوں كے پاس پيغام بھيجا، لیکن كسی كے پاس كچھ نہ تھا تو آپ نے ايک منادی بھيجا اور اعلان كروايا جس كے پاس كھانا ہو وہ مہمان رسول كو اپنا مہمان بنالے۔ چنانچہ ابو طلحہ انصاری رضی الله عنہ نے كھجور پر انہيں اپنا مہمان بنايا۔ يہ سادگی تھی۔ آج ہمارا معاملہ يہ ہے كہ ہم اپنے بچوں كی شادی بياه ميں اتنا تكلف كرتے ہيں، اتنا تکلف اختيار كرتے ہيں كہ کئی سال ہم قرضے كے نيچے دبے رہتے ہيں۔ اسلام ہميں اس كی تعليم نہيں ديتا حضور ﷺ كا يہ اسوه نہ تھا۔
جب آپ اپنے أصحاب كے درميان بيٹھتے تو كوئی منفرد جگہ نہ اختيار كرتے، نہ كوئی منفرد ہيئيت بلكہ انہيں كی طرح زمين پر بيٹھ جايا كرتے تھے بلكہ يہ تعليم دی كہ مسجد ميں ساتھ زمين پر بيٹھنا چاہیے اور كسی غنی اور فقير كی كوئی تميز نہيں ہونی چاہیے۔ جب آپ كہيں حاضر ہوتے اور اگر لوگ آپ كا تکلفانہ استقبال اور اكرام كرنا چاہتے تو منع كيا كرتے تھے۔
جب آپ كھانا تناول فرماتے تو ايک عام آدمی كی طرح كھاتے تھے، كوئی كھانے كے لیے مخصوص مكان نہيں تھا بلكہ فرماتے: «إنما أنا عبد، آكل كما يأكل العبد، وأجلس كما يجلس العبد» ميں ايک بنده ہوں اور ايک عام بندے كی طرح كھاتا ہوں اور ايک عام بندے كی طرح بيٹھتا ہوں، جو ميسر آجاتا اسی پر سواری كرتے تھے، كبھی گھوڑے كی سواری كرتے، كبھی اونٹنی كی، كبھی خچر كی اور كبھی گدھے كی، اور عام طور سے كسی صحابی كو اپنے ساتھ ركھتے تهے اور ان كو پيچھے بٹھاتے اور اگر سواری نہ ہوتی تو ان كے پيچھے بيٹھ جاتے اور لوگوں سے ملاقاتيں كرتے تھے۔
ہميشہ فرماتے: «اللهم! أحيني مسكينًا، وأمتني مسكينًا، واحشرني في زمرة المساكين» اے الله مجھے مسكين ہی زنده ركھ اور مسكين ہی كی حالت ميں موت دے اور قيامت ميں مسكينوں كے ساتھ اٹھا۔
جب ہم حضور ﷺ كی زندگی كا نبوت سے پہلے اور نبوت كے بعد مقارنہ كريں گے تو كبھی بھی آپ يہ نہيں كہہ سكتے كہ آپ نے نعوذ بالله دنيوی فائدے، جاه وحشم اور شہرت وبلندی كے لیے نبوت كا دعوی كيا۔ آپ كو سيرت كے حوالے سے معلوم ہوگا كہ كس طرح نبی ﷺ نے اپنے آپ كو ايک كامياب تاجر كی حيثيت سے نبوت سے قبل ثابت كرکے دکھايا تھا جبكہ آپ کی سيرت پڑهيں تو يہ بات ابھر كر سامنے آئے گی كہ آپ كی مادی حالت نبوت كے بعد زیادہ كمزور ہوگئی اور اس كی تائيد ميں آپ مندرجہ ذيل اقوال پڑھ سكتے ہيں۔
حضرت عائشہ رضی الله عنہا جو زوجہ رسول تھيں اپنے بھانجے سے فرماتی ہيں:
تين تين قمری مہينے گزر جاتے تهے اور نبی پاک كے گھروں ميں چولھا نہيں جلتا تھا تو آپ كے بھانجے نے دريافت كيا تو زندگی كيسے بسر ہوتی تھی فرمايا كھجور اور پاني پر يا يہ كہ حضور كا ايک انصار پڑوسی تھا اس كے پاس اونٹنی تھی وه كبھی كبھی دودھ دے ديا كرتا تها۔(البخاري ومسلم).
دوسري جگہ فرمايا: ’’آل محمد نے كبھی جو يا گيہوں كی تين روز متواتر روٹياں نہيں کھائیں يہاں تک کہ الله كے رسول الله كو پيارے ہوگئے‘‘۔
ابن عباس رضی الله عنہ فرماتے ہيں: ’’متواتر ايسی راتيں رسول ﷺ اور ان كے اہل وعيال پر گزرتی تھیں کہ ان كو رات كا كھانا نصيب نہيں ہوتا تھا اور زياده سے زياده حضور كا كھانا جو كی روٹياں ہوتی تھیں‘‘۔
عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہيں:’’حضور ﷺ كا بستر وه ايک جلد سے بنا تھا جس ميں كھجور كے پتے تھے اور دهاگے سے سلا ہوا تھا‘‘۔
حضرت عمر بن الحارث فرماتے ہيں: ’’اپنی وفات كے بعد آپ نے سوائے ايک سفيد خچر كے كچھ نہيں چھوڑا اور چند جنگ كے سامان جس ميں تلوار اور ڈهال اور خوذہ اور زمين كا ايک ٹكڑا صدقے کے لیے چھوڑا تھا‘‘۔
بلاشبہ مسلمان حضور ﷺ سے بحيثيت قائد ورہنما اور ہادی ورہبر محبت كرتے ہيں۔ اس ذات نے ايک زاہدانہ زندگی گزاری باوجود اس كے كہ مسلمانوں كے اموال ان كے تصرف ميں تھے اور جزيره عرب كا بیشتر حصہ آپ كی رسالت كے اٹھارويں سال آپ كے زير کنٹرول تھا اور يہ ساری چيزيں گواه ہيں كہ آپ نے نبوت كا اعلان كسی دنیوی غرض كے لیے نہیں كيا تھا۔
حضور ﷺ كی زندگی كے يہ لمحات ہم سے سوال كرتے ہيں كہ ہم اپنے شب وروز كس طرح گزارنے ہيں۔ آپ وقت كے نبی تھے، آپ وقت كے امام وقاضی تھے، آپ وقت كے سپہ سالار تھے، ليكن اس كے باوجود اپنا كام خود كيا كرتے تھے، كپڑے خود درست كرتے، اپنے جوتے خود سی ليا كرتے تھے اور ہر فقير ومريض كی زيارت كرتے تھے، اس طرح آپ كی پوری زندگی سادگی كا بہترين نمونہ تھی۔ اسی لیے صحابہ كرام آپ سے حقيقی محبت كرتے تھے۔ آپ كا احترام كرتے تھے اور انتہا درجہ آپ پر بھروسہ كرتے تھے ۔
حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہيں: صحابہ كرام کے لیے دنيا ميں كوئی انسان ایسا نہيں تھا جس سے وہ آپ سے زياده محبت کرتے ہوں، اس كے باوجود كبھی آپ پسند نہيں كرتے تھے كہ كوئی آپ كی تعظيم ميں كھڑا ہو اور يہ سادگی آپ كی سیرت كا نماياں پہلو ہے۔
سيرت كے حوالے سے آپ كو معلوم ہوگا كہ كس طرح کی بہترين پيشكش آپ كو كی گئی ليكن آپ دنيا ميں تكلفانہ اور عيش وعشرت كی زندگی گزارنے نہيں بلكہ عظيم مقصد كے لیے آئے تھے، آپ نے پورے شد ومد اور اطمینان كے ساتھ اسے مسترد كرديا حتى كہ اپنے چچا سے كہا، چچا جان! يہ چيزيں جو يہ پيش كر رہے ہيں يہ تو ان كے بس ميں ہيں ليكن سورج اور چاند جو ان كے بس ميں نہيں ہيں وه بھی مجھے پيش كرديں تو بھی ميں اپنے اس مشن سے باز آنے والا نہيں ہوں۔
اس اسوہ حسنہ کی روشنی میں ہم اپنا جائزه ليں كہ بحيثيت امت محمديہ ہميں اس مشن سے كتنی محبت اور كتنا لگاؤ ہے۔ الله رب العزت ہميں حضور ﷺ كا صحيح معنوں ميں پيروكار بنائے۔ ہمارے اندر سادگی پیدا کرے اور ہميں آپ كے مشن كے لیے کام كرنے كی توفيق عطا فرمائے۔(آمین)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مارچ تا 11 مارچ 2023