سعدا محمد میراں

اجتماعی زندگی کا مضبوط ستون

ضیاءالرحمن رکن الدین ندوی، بھٹکل

بھٹکل میں تحریک اسلامی کی مثالی قدروں کے امین
سعدا میراں صاحب کے انتقال کی خبر سنتے ہی دل دھک سا ہوگیا۔ نورانی چہرہ، گھنی ڈاڑھی، چال ڈھال میں سنجیدگی وشرافت، گفتگو میں احساس ذمہ داری، خوش پوشاک  خاص قسم کی عمانی ٹوپی، میں نے ان کو ہمیشہ سفید لباس زیب تن دیکھا۔
ان کا مسکراتا ہوا چہرہ میری نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا، 
میں نے کبھی انہیں کھل کھلا کے ہنستے نہیں دیکھا ۔ان سے تھوڑی بہت یادیں وابستہ ہیں۔ شعوری وابستگی ایس آئی او سے جڑنے کے بعد سے شروع ہوتی ہے جب وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھٹکل تشریف لائے،اس وقت میں ندوہ میں زیر تعلیم تھا۔ بہت ہی جلد ان پر امارت کی ذمہ داری ڈال دی گئی، وہ تحریک اسلامی کے کاموں کے لیے یوں فارغ ہوئے کہ لگتا تھا جوانی لوٹ آئی ہو۔
بھٹکل میں پہلے سے تحریکی فکر سے متاثرین کی ایک بڑی تعداد تھی، البتہ یہاں نظم قائم نہیں تھا، اولین رکن شمس الدین اکرمی مرحوم اور مولانا عبدالقدیر اصلاحی کے زمانے تک غالباً حلقہ کارکنان ومتفقین کا تھا، جناب سید شکیل ایس ایم رکن ہونے کے بعد یہاں نظم قائم ہوا۔ دعوت سنٹر کو آباد کرنے میں ان کے ساتھیوں میں سب سے زیادہ پیش پیش شکیل صاحب ہی تھے۔ وہ امیر مقامی بھی بن گئے پھر مولانا سید زبیر امیر مقامی ہوئے تو ایک طرح سے جماعت کا نظم آہستہ آہستہ مضبوط ہوتا گیا، ظاہر سی بات ہے کہ تنظیمی آداب تربیتی مراحل سے گزرتے ہوئے پختہ بنتے ہیں۔انتشار اور اختلاف کے اس دور میں ملت کو جمع رکھنا اور افراد جماعت کو نظم پر قائم رکھنا آسان کام نہیں ہے،یہ خود بہت بڑی خدمت ہے۔ہم کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی ہند بھٹکل کا تنظیمی دور پورے آب وتاب کے ساتھ جناب سعدا میراں صاحب کے امیر مقامی منتخب ہونے کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے شروع سے نظم وضبط کا حد درجہ خیال رکھا اور کام میں ترتیب ومدارج کا لحاظ رکھا۔ سب سے پہلے انہوں نے کارکن سازی پر توجہ دی ،ہمارے یہاں جو تحریکی فکر کے افراد منتشر تھے ان کو انہوں نے تنظیمی روپ دینے کی بھر پور کوشش کی، اس سلسلے میں مرحوم صبغت اللہ رکن الدین کے بقول ’’میں مدت دراز سے تحریکی فکر سے متاثر تھا لیکن کبھی بھی تنظیمی طور پر وابستہ نہیں ہوا تھا اس سلسلے میں بھٹکل میں سعدا میراں صاحب نے کامیاب کوشش کی اور میں انہیں کے دور میں باقاعدہ کارکن بن گیا‘‘۔ اسی طرح سے انہوں نے جی آئی او اور حلقہ خواتین پر بھی خصوصی توجہ کی،ان کا دائرہ بھی وسیع ہوتا گیا، اس کے اچھے اثرات سماج میں محسوس کیے جانے لگے،اس کو استحکام بخشنے میں مرحوم کا بڑا کردار رہا ہے ۔
ان کی نمازوں کے خشوع وخضوع کی گواہی ہر کوئی دے رہا ہے، انہوں نے نظم وضبط کو بھی اسی نقطہ نظر سے دیکھا، وہ عزیمت کی راہ اپنائے ہوئے تھے جبکہ ہم رخصت پر عمل کرکے بہت زیادہ توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔ مرحوم نے اس پر ضر ب لگائی۔ بقول مولانا عبد الماجد دریابادی ’’اسلام کے تنظیمی پہلو کو نمایاں کرنا بھی دین کی خدمت اور حق ہی کی ایک شکل ہے‘‘۔ مرحوم کو حسن الہضیبی کا یہ قول ازبر ہوگیا تھا ’’میں کسی رفیق کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ ضرور عزیمت کی راہ اختیار کرے اور ضرور ہمارا ساتھ دے لیکن میں آپ لوگوں سے کہے دیتا ہوں کہ ان لوگوں کے ذریعے کبھی تحریکیں کامیاب نہیں ہوتیں جو رخصتوں کا سہارا لیا کرتے ہیں‘‘۔
وہ مولانا صدر الدین اصلاحیؒ کی اس عبارت کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے۔”دین حق کی اطاعت اور اقامت کے نصب العین کی بنیاد زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر، آسمان پر بھی نہیں عرش پر رکھی گئی ہے۔ وہ رضائے الٰہی کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔ ضروری ہے کہ اس کو صرف اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح ہی کے لیے اختیار کیا جائے۔ اس لیے وہ غایت درجے کا اخلاص اور بے نفسی چاہتا ہے۔‘‘
اس سلسلے میں انہوں نے کوئی سمجھوتا نہیں کیا، بعض وجوہات کی وجہ سے مرحوم نظم سے الگ ہوئے، اس لیے کہ وہ رخصت پر عمل کرنے کے قائل نہ تھے اور اپنے افراد کو بھی اسی طرح سے دیکھنا چاہتے تھے۔اس راستے میں بہت ساری آزمائشیں، پریشانیاں اور ناکامیاں ان کے حصے میں آئیں لیکن حوصلہ مندی آخر دم تک قائم رہی۔ یقیناً زخموں سے چور ہوئے لیکن اس کو تھام کر نہیں بیٹھے بلکہ ہر بار نئے حوصلے اور تازہ امنگ کے ساتھ چلتے رہے۔ بقول شاعر
ہم وہ تو نہیں قبلہ بدلتے رہیں ہر روز
ہم راہ وفا میں جو لگے ہیں تو لگے ہیں
ان کا جماعتی نظم سے الگ ہونا سبھوں نے محسوس کیا، اپنوں کو تو یوں لگا کہ کوئی بازو ٹوٹ کر گرا ہے، وہیں دوسروں نے بھی محسوس کیا جس کی وجہ سے ایک مدت تک اس حوالے سے تذکرہ ہوتا رہا۔ ویسے بھی جماعتی زندگی بہت ہی بے رحم ہوتی ہے، کبھی کبھی اتنے کچوکے لگتے ہیں کہ گوشہ عزلت میں ہی آدمی عافیت محسوس کرتا ہے۔ مرحوم سعدا میراں کو بھی ضرور کچوکے لگے ہوں گے لیکن انہوں نے گوشہ عافیت میں جانا پسند نہیں کیا،اس لیے انہوں نے دوسری جگہ نظم قائم کرنے کی اپنے طور پر کوشش ضرور کی لیکن اس طرح کی کوششیں بار آور نہیں ہوتیں، نظم کچھ اور ہی تقاضا کرتا ہے۔ حلقہ اور مرکز نے بھی کوئی کوتاہی نہیں کی ہر طرح سے ان کو سنبھالے رکھنے کی ممکنہ حد تک کوشش کی،پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا ایک تلخ باب بن کر رہ گیا۔ نظم سے علیحدگی کے بعد بھی انہوں نے کوئی محاذ کھڑا نہیں کیا اور نہ ہی گلہ وشکوہ کا بازار گرم کیا،وہ تو شرافت ومروت کے پیکر تھے، بردباری کی صفت نے ان کی شخصیت کوبہت ہی متوازن اور اعتدال پسند بنایا تھا ،البتہ ایک فکر دامن گیر رہی کہ نظم وضبط کے بغیر کام تو ہوگا لیکن ٹھوس اور پائیدار نہیں ہوسکتا۔ دوسری سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ نظم سے علیحدگی کے بعد بھی اجنبیت کا پردہ حائل ہونے نہیں دیا۔اپنے رفقاء کے ساتھ اسی طرح سے تعلق قائم رکھا۔ عموماً لوگ اجتماعی زندگی سے الگ ہونے کے بعد شکایتوں اور رنجشوں کا دفتر کھول لیتے ہیں،مرحوم ان تمام چیزوں سے باز رہے بلکہ راز کو افشا تک ہونے نہیں دیا۔
بہر کیف یہ ان کی اجتماعی زندگی کے کچھ پہلوؤں کو بیان کرنے کی کوشش کی  گئی ہے ۔وہ مجھ سے بڑی شفقت سے پیش آتے تھے،ہم ایس آئی او میں تھے، وہ ایس آئی کےنوجوانوں کونئی نئی چیزیں سیکھنے پر ابھارتے، کمپیوٹر کورس کی نشاندہی کرتے، میرے لیے جو مفید رائے ہوتی پیش کرتے، کبھی فون کرکے گھر پر بلاتے،اجتماعی آداب کے گُر سکھاتے،مجھے رکنیت کے لیے کئی بار ابھارا، زور دے کر کہتے کہ آپ جیسے نوجوانوں کو آگے بڑھنا چاہیے،بار بار پوچھتے ایک دو بار سابق امیر مقامی نذیر صاحب سے پوچھا کہ ابھی تک تم نے اس کو رکن کیوں نہیں بنایا، ان کو ہم سے حسن ظن تھا پتہ نہیں انہوں نے ہم سے کیا توقعات وابستہ کر رکھی تھیں ۔ان کی خلوت اور جلوت یکساں تھی، ان کے ساتھ میرے تعلقات قلیل مدت پر مشتمل ہیں لیکن اس میں اپنائیت،گہرائی اور مقصدیت تھی جس کا مجھے بہت فائدہ ہوا۔ ایک طرف ان کی خواہش تھی کہ ایس آئی او کے نوجوان مقام میں رہتے ہوئے معاشی طور پر مضبوط ہوکر تحریکی کاز کے لیے مفید بنیں، وہیں مجھے گھر پر بلا کر مشورہ دیا کہ تم اپنا معاش آزاد رکھ کر تحریکی کام کرو، ابتداً مجھے یہ رائے پسند نہیں آئی اور مجھے اس مشورے کی اہمیت کا اندازہ بھی نہیں ہوا، نوجوانی جذبات سے بھر پور ہوتی ہے عقل کی پختگی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے ۔ وہ کبھی حوصلہ شکن بات نہیں کرتے تھے ۔ تحریک کے ذمہ داروں میں تین خوبیاں ہونی چاہئیں۔ ایک بے غرضی، دوسری امانت داری، تیسری خیر خواہی۔
ان کی بے غرضی اور بے لوثی نے ان کے چاہنے والوں میں اضافہ کیا ۔امانت درای جہاں تک مال سے متعلق تھی پائی پائی کا حساب  رکھتے تھے۔ احساس ذمہ داری کا جو بوجھ اٹھائے رکھا اس کو بہتر سے بہتر انداز سے ادا کرنے کی فکر رہتی، وہ اظہر من الشمس تھے۔خیر خواہی کا مظہر یہ تھا کہ ہر طرح کی صلاحیتوں سے وہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ۔نجی زندگی گھریلو حالات وغیرہ سے واقفیت کے بعد مسائل کو حل کرنا ان کا خیر خواہانہ جذبہ بہت دیر تک یاد رکھا جائے گا۔مرنے والے میں بہت خوبیاں تھیں، اللہ رحم وکرم کا معاملہ کرے،اعلیٰ علین میں جگہ دے اور ہمیں نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین
***

 

***

 ان کا مسکراتا ہوا چہرہ میری نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا،میں نے کبھی انہیں کھل کھلا کے ہنستے نہیں دیکھا ۔ان سے تھوڑی بہت یادیں وابستہ ہیں۔ شعوری وابستگی ایس آئی او سے جڑنے کے بعد سے شروع ہوتی ہے جب وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھٹکل تشریف لائے،اس وقت میں ندوہ میں زیر تعلیم تھا ، بہت ہی جلد ان پر امارت کی ذمہ داری ڈال دی گئی، وہ تحریک اسلامی کے کاموں کے لیے یوں فارغ ہوئے کہ لگتاتھا جوانی لوٹ آئی ہو۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 دسمبر تا 23 دسمبر 2023