روس میں اسلامک بینکنگ ، ایک اہم پیشرفت
دنیا کے کئی ممالک میں بینکنگ سیکٹر کے بحران کے وقت اسلامی ادارے محفوظ رہے
ڈاکٹر فرحت حسین
غیر سودی نظام معیشت کی شروعات سے دنیا بہتر متبادل معاشی نظام کی طرف متوجہ ہوسکتی ہے
بلا سودی بینکنگ کی حمایت مسلم ماہرین سے زیادہ غیر مسلم معاشی اور سماجی اور بینکنگ کے شعبہ کے بڑے دانشوران کرتے رہے ہیں۔ معاشیات اور بینکنگ کے اسکالرس مروجہ بنکوں کی خامیوں سے بھی واقف ہیں اور دنیا میں اسلامک بینکنگ کی کارکردگی اور اس کی افادیت کو بھی بخوبی سمجھ رہے ہیں، اس لیے یہ حضرات بھارت میں بھی اس بینکنگ سسٹم کو رائج کرنے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
روس میں اسلامک بینکنگ شروع کرنے کی خبر دنیا کے ان تمام لوگوں کے لیے باعث کشش ہے جو سودی نظام کی خرابیوں سے واقف ہیں اور متبادل کے طور پر بلا سودی بنکاری کے نفاذ کی حمایت کرتے ہیں۔ چونکہ اسلام میں سود جائز نہیں ہے اس لیے بلا سودی سسٹم کو اسلامک بینکنگ کے نام سے پکارا جارہا ہے حالانکہ دنیا کے دیگر بیشتر مذاہب بھی سودی لین دین کو ناپسند کرتے ہیں۔ روس نے اپنے ملک میں پہلی بار یکم ستمبر 2023ء سے اسلامک بینکنگ کی شروعات کی ہے۔ یہ دو سالہ آزمائشی یا پائلٹ پروجیکٹ ہے جسے سردست چار مسلم اکثریتی ریاستوں میں شروع کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ روس میں250 ملین مسلمان ہیں جن کی کافی عرصہ سے غیر سودی بینکنگ کو ملک میں رائج کرنے کی مانگ تھی۔ اب پہلی بار قانون سازی کے ذریعہ اس کی اجازت دی گئی ہے۔ خبروں کے مطابق مسلم اکثریتی علاقوں میں دو سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا اور اطمینان بخش صورتحال کے بعد اس کو پورے ملک میں رائج کیا جائے گا ۔
اسلامی بینکنگ کی خصوصیات
اسلامی بینکنگ شرعی اصولوں اور اخلاقی قدروں کی پابند ہوتی ہے۔ اس میں سود اور غیر اسلامی طور طریقوں والے لین دینوں کی اجازت نہیں ہے۔ سودی قرضوں کے بجائے جو کھم (Risk) برداشت کر کے نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہونے کا اصول کو اپنایا جاتا ہے۔ ایسے تمام زمرے جو انسان کے لیے مضر ہیں اور جنہیں حرام قرار دیا گیا ہے اسلامک بینکنگ کی سرمایہ کاری سے باہر ہو جاتے ہیں جیسے شراب، جوا، نشہ آور چیزیں، بے حیائی کے کاروبار وغیرہ۔ مشکوک اور دھوکہ پر مبنی سودوں کو بھی فائنانس نہیں کیا جاتا۔ روسی ماہرین توقع رکھتے ہیں کہ اس متبادل نظام کے ذریعہ معاشی ترقی کو تقویت حاصل ہوگی ۔ مروجہ روایتی بینکنگ کے نظام میں جو محدودیت پائی جاتی ہے وہ اس نئے سسٹم کے ذریعہ دور ہو سکے گی۔ بنکوں میں عوام کے ذریعہ زیادہ سرمایہ پہنچے گا اور بیرونی ممالک خصوصاً مسلم ممالک کی سرمایہ کاری بھی ان بنکوں کے ذریعہ روس میں پہنچے گی جس کے نتیجے میں روس پر مغربی ممالک کے ذریعہ لگائی گئی معاشی اور مالی پابندیوں سے نمٹنا آسان ہو جائے گا ۔
بھارت
روس کی طرح ہمارا وطن عزیز بھی تکثیری سماج ہے۔ یہاں مسلم آبادی بھی تقریباً 20 کروڑ ہے۔ ہمارے ملک میں بھی عرصہ دراز سے بلا سودی بینکنگ کو رائج کرنے کی مانگ کی جارہی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بلا سودی بینکنگ کی حمایت مسلم ماہرین سے زیادہ غیر مسلم معاشی اور سماجی اور بینکنگ کے شعبہ کے بڑے دانشوران کرتے رہے ہیں۔ معاشیات اور بینکنگ کے اسکالرس مروجہ بنکوں کی خامیوں سے بھی واقف ہیں اور دنیا میں اسلامک بینکنگ کی کارکردگی اور اس کی افادیت کو بھی بخوبی سمجھ رہے ہیں، اس لیے یہ حضرات بھارت میں بھی اس بینکنگ سسٹم کو رائج کرنے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ بلا سودی بینکنگ کی ہندوستان کے لیے معنویت (Relevance) اور افادیت کے سلسلہ میں سب سے مضبوط گواہی ڈاکٹر رگھورام راجن کمیٹی کی سفارشات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ بھارت سرکار کے پلاننگ کمیشن نے 2007ء میں مالی سیکٹر (Financial sector)
میں اصلاحات کے لیے تجاویز پیش کرنے کی غرض سے ماہر معاشیات اور اقتصادیات پروفیسر رگھورام راجن کی سربراہی میں ایک اعلیٰ کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی نے دیگر اہم تجاویز کے ساتھ ہی اپنی رپورٹ میں ملک میں بلا سودی بینکنگ کو رائج کرنے کی سفارش کی تھی۔ رپورٹ کا اقتباس ملاحظہ ہو۔ ’’ایک اور میدان وسیع تر معنوں میں مالیات کے ڈھانچہ سے متعلق ہے، وہ ہے غیر سودی بنک کاری کا میدان … کمیٹی سفارش کرتی ہے کہ نسبتاً زیادہ بڑے پیمانہ پر غیر سودی بنک کاری کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں‘‘۔
Committee on Financial Sector Reforms(CFSR) by Dr. Raghuram Rajan
ملک کے بہت بڑے زرعی سائنس دان (جنہیں فادر آف گرین ریولیوشن Father of Green Revolution کہا جاتا ہے) پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن نے مہاراشٹر اور ملک کے دوسرے مقامات پر کسانوں کی خودکشی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اس مسئلہ کا حل غیر سودی بینکنگ کو بتایا ہے۔
اسلامک بینکنگ جس میں شرح سود صفر ہوتی ہے Zone interset Lending (کسانوں کی خودکشی کے اس بحران کا کلیدی حل ہو سکتا ہے۔ (بحوالہICIF مورخہ 28 اکتوبر 2021) Prof.M.S.Swaminathan روزنامہ ہندو (The Hindu 30 oct 2020 ) کی خبر کے مطابق ترواننتاپورم کے گلاٹی انسٹیٹیوٹ آف فائنانس اینڈ ٹیکنریشن کے ایک اہم ویبینار میں فاضل مقررین نے ہندوستان میں غیر سودی بینکنگ کے فروغ کو ملک کی ضرورت قرار دیا۔ روزنامہ ہندو نے اپنی اسٹوری کی سرخی لگائی۔
The need to make room for interest free Banking یعنی ’’بلا سودی بینکنگ کے لیے جگہ بنانے کی ضرورت‘‘ شرکاء نے برطانیہ، ملائشیا اور سنگاپور جیسے ممالک کے تجربے سے سبق لینے کا مشورہ دیا، جہاں مروجہ بنکوں میں ہی غیر سودی ونڈوز کو قائم کیا گیا ہے ۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے انٹر ڈیپارٹمنٹل گروپ نے بلا سودی ونڈو کی سفارش رکھی تھی ۔’’ہماری رائے میں اسلامک بینکنگ کے شروع کرنے ہیں قانونی پیچیدگیوں اور اس کے پیش نظر بھی کہ ابھی اس ملک میں اس میدان میں کوئی تجربہ نہیں ہوا ہے، اس لیے ابتدائی طور پر چند سادہ اور آسان بینکنگ پروڈکٹس کو جو روایتی بینکنگ کی طرز پر ہی ہیں، اسلامی و ونڈو کے ذریعہ بتدریج متعارف کرایا جائے۔ اسلامک بینکنگ ونڈو کو پارٹیسپیٹری بینکنگParticipatory Banking کا نام دیا جا سکتا ہے۔
( Report of Interdepartmental Group of RBI On Issue for introducing Islamic Banking in India and it’s Feasibility. Technical Analysis and RBI’s view August 2014)
فروری 2011 میں کیرالا ہائی کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیا جس کے مطابق کیرالا کی صوبائی سرکار کی البرکہ فائنانشیل سروسزمیں 11 فیصد کی حصہ داری کو صحیح قرار دیا۔ ٹائمس آف انڈیا کے مطابق کیرالا ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ملک میں اسلامی بینکنگ کی شروعات ہوگئی ہے ۔
(Times of India dt 4Feb 2011)
جناب پی ایس مجمدار جو سنڈے انڈین کے مدیر اقتصادیات رہ چکے ہیں لکھتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ اسلامک فنانس بھارت جیسے ملک میں چونکانے والے نتائج دے سکتا ہے، کیونکہ اسلامی شریعت کا قانون ہندوستانی کلچر سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے …… یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اگر برطانیہ، جاپان، سنگا پور اور ہانگ کانگ جیسے ترقی یافتہ ممالک اسلامک فنانس اور بینکنگ کو گلے لگا سکتے ہیں تو ہم کس وقت کے انتظار میں ہیں ۔
The Sunday Indian (weekly) 10 Jan 2010
دوحہ بنک کے سی ای او جناب آر سیتارمن جنہیں اسلامی بینکنگ میں غیر معمولی خدمات کے اعتراف کے طور پر کئی اعزازات سے نوازا گیا جیسے Arab Asian Excellenc Award,Banker Award 2007وغیرہ۔
انہوں نے 2009 میں کہا تھا کہ ہندوستان میں اسلامی بینکنگ کے لیے ماحول انتہائی سازگار ہے، اس سے ملک میں غریبی کے ازالہ میں بہت مدد مل سکتی ہے ۔ (The Sunday indian April 2009) اس طرح کی متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہرین کی نظر میں غیر سودی بینکنگ کا نظام ملک کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوگا ۔
موچوئل فنڈ
ہندوستان میں اسلامی مالیات میں دلچسپی کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ کئی موچوئل فنڈز نے شرعی پاپندی Sharia Complaint کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ اس کو عملاً اپنایا۔
اس میں Tata Ethical Fund, Nippon India ETF Sharia, Tauras Ethical fund قابل ذکر ہیں ۔ موچوئل فنڈز کے پروڈکٹس شرعی اصولوں کے مطابق ہیں یا نہیں اس کی تصدیق کے لیے ایک اہم ادارہ – تقویٰ ایڈوائروزی Taqwa Advisory and Sharia Solution(TASIS) ہے۔ ان کے پاس شرعی امور کے ماہر علماء کرام بھی ہیں جدید مالی معاملات کا فہم رکھنے والے دانشوران بھی ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ کمپنیوں کے حصص میں سرمایہ کاری کے ہی لیے ان کمپنیوں کی نشانہ بھی کا نظم بنایا گیا ہے جن میں سرمایہ کاری کرنے میں شرعی اور اسلامی اعتبار سے قباحت نہیں ہے۔
اہم پہلو
اسلامی بینکنگ اور مالیاتی نظام کے پس پشت مذہب اسلام کے آفاقی اصول ہیں جن کے بار ے میں مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ الہی ہدایات ہیں جن کی بنیاد پر رسول اللہ (ﷺ) نے انسانی زندگی کے تمام شعبہ جات میں انقلابی اصلاحات فرمائیں۔ عقائد اور اخلاقیات کو درست کیا، خدا پرستی اور آخرت کی جواب دہی کے احساس کو دلوں میں جاگزیں کیا۔ معاشی اور مالی معاملات کو بھی اخلاقیات کا پابند بنایا۔ اسی لیے اسلامی بینکنگ اور مالیات میں حرام حلال اور جائز و نا جائز کی قیود پائی جاتی ہیں۔ ان بنکوں کی طرف مسلمانوں کے راغب ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ بنک اسلامی اصولوں کو اپناتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی اِن بنکوں اور اداروں کے دروازے سبھی کے لیے کھلے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں غیر مسلم لوگوں نے خاصی دلچسپی دکھائی ہے۔ ملائشیا اس کی اچھی مثال ہے۔ اس کی بڑی وجہ ان بنکوں کی تسلی بخش کار کردگی ہے۔ بنکوں کے اثاثوں میں اضافہ ہوا اور نفع آوری کی شرح بہت بہتر رہی، گزشتہ کئی دہائیوں میں جب کہ دنیا کے کئی ممالک میں بینکنگ سیکٹر بحران کا شکار ہوا اس وقت بھی اسلامی ادارے محفوظ رہے۔
اس سے ان بنکوں پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔ بہر حال اس بات پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ مالی منفعت اور کاروبار بڑھانے کے نام پر اصولوں سے سمجھوتہ نہ ہو۔
آخری بات
بلا سودی بینکنگ اور مالیات، اس کی افادیت اور ہندوستان میں اس کی معنویت بلکہ ضرورت پر اظہار خیال ہوتا رہا ہے۔ روس کی حالیہ خبر نے ایک بار پھر لوگوں کو متوجہ کیا ہے۔ یہاں غیر سودی بینکنگ پر تفصیل کا موقع نہیں ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ تقریباً دو کروڑ کی مسلم آبادی والے ملک میں غیر سودی بینکنگ کو رائج کیا جا سکتا ہے۔ اس کا فائدہ مسلمانوں ہی کو نہیں تمام ہندوستانیوں کو ہوگا نتیجتاً ملکی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔ موجودہ وقت میں ملک میں بنکوں کو بہت سے مسائل سے سابقہ پیش آرہا ہے جن کے تدارک کے لیے حل تلاش کرتے ہوئے غیر سودی بینکنگ پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ دنیا کے 75 ممالک میں 560 بنکوں اور تقریباً 1900 موچوئل فنڈز اور مالیاتی اداروں کی کارکردگی متاثر کن ہے۔ جہاں تک اسلامک نام کا سوال ہے اس کے بجائے دوسرے نام بھی تجویز کیے جا سکتے ہیں اور مختلف ممالک میں الگ الگ نام پائے بھی جاتے ہیں جیسے بلا سودی بینکنگ Interest free Banking یا ایتھیکل بینکنگ Ethical Banking یا Participatory Banking وغیرہ۔
***
***
اسلامی بینکنگ اور مالیاتی نظام کے پس پشت مذہب اسلام کے آفاقی اصول ہیں جن کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ الہی ہدایات ہیں جن کی بنیاد پر رسول اللہ (ﷺ) نے انسانی زندگی کے تمام شعبہ جات میں انقلابی اصلاحات فرمائیں۔ عقائد اور اخلاقیات کو درست کیا، خدا پرستی اور آخرت کی جواب دہی کے احساس کو دلوں میں جاگزیں کیا۔ معاشی اور مالی معاملات کو بھی اخلاقیات کا پابند بنایا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 ستمبر تا 23 ستمبر 2023