آر ایس ایس سے مسلم وفد کی ملاقات
بات چیت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر بات نہ بنے تو بات چیت منقطع بھی کی جا سکتی ہے: ملک معتصم خاں
محمد مجیب الاعلیٰ
میڈیا تو کاشی اور متھرا کو لے اُڑا لیکن ماب لنچنگ، نفرت انگیزی اور بلڈوزر کی سیاست پر مسلم وفد کی تشویش نظرانداز
ملّت کے دانشور طبقے کی طرف سے اکثر یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ ہندوؤں کی مسلمانوں کے تئیں بڑھتی ہوئی نفرت اور زیادتیوں پر روک لگانے کے لیے ارباب اقتدار اور ان سے متعلق تنظیموں کے ساتھ ایک مثبت مکالمے کا آغاز ہونا چاہیے تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو اور بند گلی سے باہر آنے کا کوئی راستہ نکل آئے۔ کسی نہ کسی کو اس معاملے میں پہل کرنی چاہیے۔ لہٰذا پچھلے دنوں سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر لیفٹنٹ جنرل ضمیرالدین شاہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر اور دہلی کے سابق لیفٹنٹ گورنر نجیب جنگ، سینئر صحافی و سابق رکن پارلیمنٹ شاہد صدیقی اور بزنس مین و سماجی کارکن سعید شیروانی نے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کی۔ان مسلم دانشوروں نے موہن بھاگوت پر یہ واضح کر دیا کہ وہ ان سے اپنی ملّت کے نمائندوں کے طور پر نہیں بلکہ انفرادی حیثیتوں میں ذمہ دار و فکرمندی شہری کے طور پر ملاقات کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح کی کوئی غلط فہمی ہو تو اس کا باہم مل کر حل تلاش کیا جائے۔ وفد کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک نے بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے چار افراد کی ایک کمیٹی نامزد کی، چنانچہ 14ا؍جنوری کو مذکورہ پانچ دانشوروں کی دعوت پر جماعت اسلامی ہند کے بشمول ملّی جماعتوں اور اداروں کے مزید کچھ نمائندے اس بات چیت میں شامل ہوئے۔ملک معتصم خان کے مطابق آر ایس ایس کے ذمہ داران کے ساتھ بات چیت کے دوران یہ بات بھی کہی گئی تھی کہ آرایس ایس ہندووں کی وحد تنظیم نہیں ہے، ہم مختلف دوسری تنظیموں کے ذمہ داران سے رابطہ و ملاقات کرتے رہتے ہیں اور آج کی یہ بات چیت بھی اسی کی طرح کی ملاقات ہے۔
ان ملاقاتوں کی خبریں سامنے آنے کے بعد جہاں ملّت کے بعض گوشوں کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا گیا وہیں بعض دیگر گوشوں، سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمس اور صحافتی حلقوں میں تیز وتند تبصروں اور نمناسب ریمارکس کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ اس ملاقات کو باصرار و تکرار ’خفیہ ملاقات ‘ کا نام دے کر بار بار یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ ملت کے قائدین ’سودے بازی‘ کررہے ہیں اور سنگھ کے مفاد کو فائدہ پہچانے کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ ایک صحافی نے تو حد کر دی جب اس نے مسلم قائدین پر سودے بازی کا الزام تو عائد کیا لیکن اپنے دعوے کی تائید میں ایک دلیل بھی پیش نہیں کر سکا۔ بعض صحافی ملّت کی معتبر تنظیموں جماعت اسلامی ہند اور جمعیتہ علما کے دونوں گروپوں کے بات چیت کا حصہ بننے پر خاصے تشویش مند تھے۔ جہاں تک جماعت اسلامی ہند کا تعلق ہے اس نے ہمیشہ گفتگو اور بات چیت کی اہمیت پر زور دیا ہے چنانچہ اس نے ماضی میں بھی آر ایس ایس سمیت مختلف تنظیموں اور با اثر بین مذہبی شخصیتوں کے ساتھ ہر سطح پر ملاقاتوں اور رابطوں کا سلسلہ جاری رکھا تھا جو باضابطہ اس کے پالیسی و پروگرام کا حصہ ہے۔
آرایس ایس سے مسلم وفد کی ملاقات و بات چیت پر مختلف گوشوں سے جو سوالات اٹھائے گئے اور جن نکات کو بتکرار ابھارا گیا ہے ان کو دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض صحافی اور سوشل میڈیا کے صارفین دانستہ یا نادانستہ طور پر ملّت کو ملّی جماعتوں و ادروں سے بدگمان و بد ظن کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس پس منظر میں درست حقائق تک پہنچنے کے لیے راقم الحروف نے جناب ملک معتصم خاں قومی سکریٹری جماعت اسلامی ہند سے، جو اس وفد میں شامل تھے، تفصیلی بات کی۔ ان کے علاوہ دیگر باوثوق ذرائع سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان سب کا خلاصہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ سال اگست 2022میں آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت سے ملاقات کرنے والے پانچ سابق مسلم بیوروکریٹس نے ملک کی بعض مسلم تنظیموں کے ذمہ داروں سے ملاقات کی اور موہن بھاگوت سے کی گئی بات چیت سے واقف کروایا۔ اس موقع پر وہ جماعت اسلامی ہندکے ذمہ داروں سے بھی ملے اور اس گفتگو کو آگے بڑھانے اور متعدد راونڈ منعقد کرنے کی تجویز دی۔ وفد نے جماعت سے مشورہ طلب کیا کہ آیا اس بات چیت کے سلسلے کو آگے جاری رکھا جائے یا نہیں؟ اس پر امیر جماعت نے جماعت کی طے شدہ پالیسی کے مطابق مشورہ دیا کہ بات چیت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے البتہ بات چیت متعین موضوعات پر ہونی چاہیے۔ ہمارے موقف کو وضاحت سے اور اعتماد کے ساتھ ان کے سامنے بیان کرنا چاہیے۔ سوالات اٹھانے چاہئیں اور یہ بھی کوشش کرنی چاہیے کہ کچھ باتوں پر اتفاق رائے ہو اور دونوں طرف سے ان متفقہ باتوں کو سامنے لایا جائے۔
اس کے بعد ان حضرات نے امیر جماعت اور بعض اور اہم شخصیتوں کو بھی گفتگو میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ ضروری مشورے کے بعد جناب ملک معتصم خان کو اس گفتگو میں حصہ لینے کے لیے جماعت اسامی ہند کے نمائندے کی حیثیت سے نامزد کیا گیا۔ 14جنوری کو آر ایس ایس کے وفد کے ساتھ ملاقات کا وقت متعین ہوا۔ اس سلسلے میں 13 جنوری کو مسلم نمائندوں کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں 14جنوری کی میٹنگ کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ 13 جنوری کی میٹنگ میں حسب ذیل لوگ شریک تھے:
سابق لیفٹنٹ گورنر دہلی جناب نجیب جنگ، سابق چیف الیکشن کمشنر جناب ایس وائی قریشی، صحافی اور سابق رکن پارلیمنٹ جناب شاہد صدیقی، جناب سعید شیروانی، مولانا ارشد مدنی، مولانا محمود مدنی، محمد سلیم انجینئر، مولانا نیاز احمد فاروقی، مولانا سلمان چشتی اور جناب ملک معتصم خان۔ اس نشست میں طے پایا کہ پہلے مرحلے میں ملک میں فرقہ وارانہ منافرت، لا قانونیت اور مسلمانوں کے ساتھ جانب دارانہ برتاو کے موضوع پر بات چیت کی جائے گی ۔آر ایس ایس سربراہ کا وہ بیان جو ابھی تازہ جاری ہوا تھا اس پر بھی گفتگو کرنا طے پایا نیز آئندہ مرحلوں میں دیگر اہم اور بنیادی موضوعات کو ترتیب کے ساتھ زیر گفتگو لانے کی بات طے پائی۔ 14؍ جنوری کی میٹنگ میں آر ایس ایس کے وفد میں اندریش کمار، آر ایس ایس کے سینئر پرچارک رام لال اور کرشنا گوپال شامل تھے۔ جبکہ مسلمانوں کی طرف سے مذکورہ سابق بیوروکریٹس کے علاوہ جمعیت العلما (محمود مدنی گروپ) کے مولانا نیاز احمد فاروقی، پروفیسر فرقان قمر، مولانا ارشد مدنی کے نمائندہ مولانا فضل الرحمن، پروفیسر ریحان احمد قاسمی، سلمان چشتی، عبدالسبحان اور جماعت اسلامی ہند کے قومی سکریٹری ملک معتصم خان شریک تھے۔
پہلی میٹنگ میں کسی نتیجے تک یا کسی مسئلے پر اتفاق رائے تک پہنچنا ممکن نہیں تھا لیکن وفد کے ارکان نے طے شدہ موضوع پر تفصیل سے اپنی بات رکھنے کی کوشش کی۔ ملی نمائندوں نے ان سے معلوم کیا کہ ان کے سربراہ کی جانب سے دیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہندو ایک ہزار سال سے بیرونی طاقتوں سے حالت جنگ میں ہیں اس سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے دشمن صرف بیرون میں نہیں، ہمارے اندر بھی ہیں، اس کا مطلب و منشا کیا ہے؟ مسلمانوں کو احساس برتری کی ذہنیت کو ترک کر دینا چاہیے، اس سے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ وفد کے ارکان نے یہ بھی کہا کہ اگر آر ایس ایس گفتگو میں سنجیدہ ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ایسی باتوں سے غلط پیغام جاتا ہے۔
مسلم وفد نے ملک کی صورت حال کی روشنی میں بعض اور سوالات بھی کیے جیسے:
لا اینڈ آرڈر کی صورت حال اور مسلمانوں پر یک طرفہ مظالم پر سنگھ کیا سوچتا ہے؟
موب لنچنگ پر ان کا کیا خیال ہے اور اس کو روکنے کے سلسلے میں ان کا کیا منصوبہ ہے؟
بلڈوزر کی سیاست پر وہ کیا سوچتے ہیں، کیا یہ سراسر ظلم و ناانصافی نہیں ہے؟ اور کیا اس عمل سے ملک کی تصویر خراب نہیں ہو رہی ہے؟
مسلم نوجوانوں کی بے جا گرفتاریوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟
نفرت پر مبنی تقاریر کرنے والوں پر مناسب کارروائی ہونی چاہیے یا نہیں؟ سنگھ اس پر خاموش کیوں ہے؟
اسی طرح مسلمانوں کی نسل کشی پر اکسانے والے بیانات پر کارروائی، مسلمانوں کے ساتھ مختلف میدانوں میں غیر منصفانہ سلوک، تعلیمی سہولتوں میں لائی جانے والی کمیاں، معاشی ترقی کی پالیسیوں میں امتیازی سلوک وغیرہ پر آپ لوگ کیا سوچتے ہیں۔
ان باتوں کو اعداد وشمار اور دلائل کے ساتھ تفصیل سے پیش کیا گیا۔ جناب نجیب جنگ نے گفتگو کا آغاز کیا اس کے بعد جناب ملک معتصم خاں اور مولانا نیاز فاروقی صاحب نے تفصیلی گفتگو کی اور مذکورہ باتوں کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔
آر ایس ایس کے نمائندوں نے جو جوابات دیے ان کا خلاصہ یہ ہے:
گائے کے قتل سے ہندو جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے جس سے ماب لنچنگ جیسے واقعات ہوتے ہیں۔
مذہب وذات پات پر ملک و قوم کو فوقیت دینا چاہیے۔
طلاق کے واقعات مسلم عورتوں کے ساتھ ناانصافی ہے اس لیے ان کے مطالبے پر قوانین لائے گئے ہیں۔
مسلم اکثریتی علاقوں کو منی پاکستان نہ کہا جائے۔
دونوں طرف سے غلط تاثر (پرسپشن) کا مسئلہ ہے۔ جہاں آر ایس ایس کو مسلم معاملات سے متعلق غلط فہمیاں ہیں وہیں مسلمانوں میں آرایس ایس کے متعلق بھی غلط فہمیاں ہیں۔
کاشی اور متھرا مسلمان حوالے کردیں تو تعلقات کو بہتر بنانے میں اس سے بڑی مدد ملے گی۔
اس کے جواب میں مسلم نمائندوں نے بعض تیکھے جوابی سوالات کیے اور ان باتوں کا جواب دینے کی بھی کوشش کی۔ یہ بھی طے پایا کہ ملاقات و تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور ملاقات کے یہ سیشنس دلی کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی منعقد ہونے چاہئیں۔
آر ایس ایس کے ساتھ مسلم نمائندوں کی یہ بات چیت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی کے لیڈروں کو پسماندہ، بوہرا اور تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا مشورہ دیا، قطع نظر اس سے کہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ دیں یا نہ دیں۔ دوسری طرف ایک تجزیہ یہ بھی کیا جارہا ہے کہ تین مساجد پر قبضہ کرنا آر ایس ایس اور اس کی محاذی تنظیموں کا پرانا ایجنڈا ہے۔ اب جبکہ انہوں نے عدالتی فیصلے کے ذریعے ایودھیا میں بابری مسجد پر قبضہ کرلیا ہے، وہ دیگر دو مساجد کو بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون 1991 ان کے راستے میں آڑے آرہا ہے۔ 1991 کا ایکٹ یہ واضح کرتا ہے کہ کسی بھی مذہبی مقام کا موقف جوں کا توں وہی رہے گا جو 15 اگست 1947 کو تھا البتہ بابری مسجد اس کے دائرے سے مستثنیٰ ہوگی جو واحد مذہبی جگہ تھی۔ بابری مسجد کے معاملے میں بھی تمام ثبوت مسجد فریق کے حق میں تھے اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تسلیم بھی کیا کہ بابری مسجد کسی مندر کے ملبے پر نہیں بنائی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کا انہدام غیر قانونی اور جرم تھا۔ لیکن اس کے باوجود سپریم کورٹ نے مسجد کی جگہ مندر کے لیے دے دی۔ اگرچہ مسلمانوں نے اس فیصلے کو قبول کر لیا لیکن اس سے ہندوستان کی عدلیہ پر مسلمانوں کے اعتماد کو زبردست دھکا لگا ہے۔
اب گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ کا دعویٰ کرنے والی ہندو جماعتوں کی جانب سے عدالت میں کئی مقدمات دائر کیے گئے ہیں اور آر ایس ایس کی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ عدالتی راستے سے دونوں مساجد پر قبضہ نہیں کرسکتی کیونکہ 1991 کے ایکٹ نے اس کے دروازے بند کر دیے ہیں، لہذا اب وہ ’بیک ڈور ڈپلومیسی‘ کے ذریعے مسلم قیادت سے رجوع کرنے اور مسجدوں پر قبضہ کرنے کے لیے انہیں راضی کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن مسلم رہنماؤں نے انہیں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ مسجد پر سودے بازی نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی وہ ایسا کرنے کے مجاز ہیں۔ آر ایس ایس کے لیڈروں کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے لیڈروں کو خدشہ ہے کہ اگر مسلمانوں نے رضاکارانہ طور پر دو مساجد کو ان کے حوالے کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ اختیار کیا تو ہندوستان کی ایک سیکولر جمہوری ملک کے طور پر امیج مکمل طور پر خراب ہو جائے گی جو پہلے ہی سے خراب ہے۔
جن دو مساجد کا وہ مطالبہ کر رہے ہیں، مستقبل میں آر ایس ایس کے لیڈروں کا اس پر کیا ردعمل ہو گا، اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ کیا آر ایس ایس اس معاملے پر خاموش رہے گی یا کوئی اور حربہ اختیار کرے گی؟ مسلم کمیونٹی پہلے ہی پرآشوب حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ کیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اس منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ ہیں کہ مسلمانوں کو مساجد کی رضاکارانہ حوالگی کا مطالبہ ماننے پر مجبور کیا جائے؟ آر ایس ایس کے مذاکرات کاروں نے بات چیت کے دوران جب کاشی متھرا کا مسئلہ چھیڑا اور ماحول کو خوش گوار بنائے رکھنے کے لیے رضاکارانہ حوالگی کا پرانا راگ الاپا تو مسلم وفد نے ان سے یہ چبھتا ہوا سوال پوچھا کہ اگر مسلمان کاشی اور متھرا کی مساجد کے حوالے کرنے پر راضی ہو جائیں تو کیا ہندو مسلم کشیدگی ختم ہو جائے گی؟ یہی بات بابری مسجد کے بارے میں سنگھ پریوار کے لیڈروں نے کہی تھی۔ لیکن ہندوتوا جماعت کو عدالتی حکم کے ذریعے مسجد کی جگہ ملنے کے باوجود بھی مسلم مخالف تشدد نہیں رکا۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگر ہندوؤں کو کاشی اور متھرا کی مسجدیں مل جائیں تو مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی ختم ہو جائے گی؟ اس سوال کو بعض کج فہموں نے سودے بازی کا جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے حالانکہ اس کا مقصد دراصل سنگھ کو آئینہ دکھانا تھا۔
آر ایس ایس کی نظریاتی اساس ہی مسلم دشمنی پر موقوف ہے اور اس کا اب تک کا سارا ریکارڈ اسی کے اردگرد گھومتا ہے تو کیا ایسی صورت میں بات چیت سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہونے توقع کی جاسکتی ہے؟ اس بات چیت کے پیچھے مسلم وفد کا منشا واضح ہے لیکن آر ایس ایس کا منشا کیا ہے؟ آیا بات چیت کا فائدہ صرف آر ایس ایس کو تو نہیں پہنچے گا؟ اس سوال پر جناب ملک معتصم خاں نے کہا ’’آر ایس ایس کا منشا کیا ہے وہ جانے لیکن ہم اس ڈائیلاگ کو مسلمانوں کو درپیش حالات کے بارے میں اپنی بات ان تک پہنچانے، اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے، مسلم دشمن پالیسیوں پر اثرانداز ہونے اور افہام و تفہیم کا کوئی راستہ تلاش کرنے کے موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جہاں تک ملّت کے فائدے کی بات ہے اصلاً تو وہی پیش نظر ہے۔ ہمیں جس لمحے یہ محسوس ہوگا کہ بات چیت مفید سمت میں نہیں جارہی ہے، اسی لمحے اسے منقطع کرنے میں ہمیں کوئی تردد نہیں ہوگا۔ منقطع کر دینے کا مطلب حتمی طور پر منقطع کرنا نہیں ہے بلکہ جب بھی ضرورت محسوس ہوگی بات چیت دوبارہ شروع ہو سکتی ہے کیونکہ دراصل یہ بات چیت ہی تو ہورہی ہے کوئی سودا تو نہیں ہو رہا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملت اور ذمہ دار احباب کی جانب سے اس سلسلے میں مثبت اور تعمیری تنقید کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ میڈیا، سوشل میڈیا پر جو گفتگو، مشورے، تبصرے اور تجزیے آئے ہیں ان کی مفید باتوں کو پیش نظر بھی رکھا جائے گا تاکہ مستقبل میں اس طرح کی کوششوں کو اور بھی مفید بنایا جاسکے۔‘‘
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 فروری تا 11 فروری 2023