ہندوتو نظریات کے فروغ کے لئے بڑے پیمانے پر بالی ووڈ فلموں کا استعمال
گزشتہ چند برسوں سے آر ایس ایس ا پنے ہندوتو پر مبنی نظریات کے فروغ کے لئے فلمی صنعت کا استعمال کر رہا ہے ،بالی ووڈ ہدایت کاروں پر حکمراں طبقے کے نظریے سے ہم آہنگ فلمیں بنانے کا دباؤ ہے
نئی دہلی،30اپریل:۔
گزشتہ سال شاہ رخ خان کی فلم پٹھان کے ایک منظر پر جس طریقے سے ہندتو بریگیڈ نے ہنگامہ کھڑا کیا اورشاہ رخ خان کی مسلم شبیہ کو ہندوتو دشمنی کے طور پر پیش کیا گیا اس نے یہ واضح کر دیا تھا کہ اب سیاست کو ہندوتو کے رنگ میں رنگنے کے بعد فلمی دنیا کے بھی بھگواکرن کی کوششیں کھل کر شروع ہو گئی ہیں۔اس سلسلے میں بالی ووڈ کے چنندہ ادا کاروں اور ہدایت کاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے اور پوری فلمی صنعت پر موجودہ بی جے پی حکومت کے نظریئے کی تشہیر کے لئے فلمیں بنانے کا دباؤ ہے ۔ جس کا متعدد ہدایت کاروں نے متعدد مواقع پر اظہار بھی کیا ہے ۔
گزشتہ 10 مارچ کو بالی ووڈ کے معروف ہدایت کار انوبھو سنہا کی فلم بھیڑ کا ٹریلر ریلیز ہوا ۔اس میں 2020 کے لاک ڈاؤن کے دوران ہزاروں تارکین وطن کی حالت زار کی کہانی پیش کی گئی تھی،اس ٹریلر میں کورونا سے نمٹنے ،اور تارکین وطن کے مسائل سےنمٹنے میں حکومت کی ناقص کار کردگی پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی اور حکومت کی بے حسی کو بھی پیش کیا گیا تھا۔حیرت انگیز طور پر تین دن کے اندر ٹریلر کو واپس لینا پڑا ۔اور فلم کے ریلیز ہونے تک اس میں 13 جگہوں پر ترمیم کی گئیں ۔حکومت کے حوالے سے تمام مناظر کو ہٹا دیا گیا ۔حقیقی معنوں میں فلم کی روح نکال دی گئی ۔
ملک اور آرٹیکل15 جیسی فلمیں بنانے والے انوبھو سنہا کہتے ہیں کہ یہ ہمارے لئے انتہائی تکلیف دہ تھا۔جو ہم نے حالات محسوس کئے انہیں حالات کو فلم کے ذریعہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔انہوں نے کہا کہ فلم بنانا اور اسے مکمل کرنا ان دنوں اپنے آپ میں ایک کارنامہ ہے ۔
دی ویک سے وابستہ صحافی پوجا جائسوال نے فلموں کے ذریعہ ہندتو کے فروغ پر مبنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ پچھلے دو برسوں میں ہندی فلم انڈسٹری نے 20 سے زاید ایسی فلمیں بنائی ہیں جن میں ہندتوکے نظریات کو فروغ دیا گیا ہے ۔اس میں قوم پرستی اور ہندتو جیسے تصورات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔اس میں دی کشمیر فائلز ،سمراٹ پرتھویراج،رام سیتو،برہماستر ،اور شیوا جی جیسی فلمیں شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس سال 30 جنوری کو مہاتما گاندھی کے برسی کے دن ہدایت کار راج کمار سنتوشی نے ’گاندھی گوڈسے: ایک یودھ‘ فلم ریلیز کی ۔جس میں گوڈسے کو اپنے نظریات کی وضاحت کرنے اور گاندھی کے قتل کے پس پردہ اپنے جرام کے جواز پیش کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
2023 میں صرف چار ماہ میں ہندی فلم انڈسٹری میں دس سے زیادہ اس طرح کی بڑے بجٹ اور بڑے بینر کی فلمیں قطار میں ہیں جن میں کھل کر آر ایس ایس کے ہندوتو کے نظریات کو پیش کر رہی ہیں۔رندیپ ہڈا کی سوتنتر ویر ساورکر،کرن جوہر کی اے وطن میرے وطن،پربھاس کی آدی پروش،وکی کوشل کی سام مانک شاہ۔یہ تمام فلمیں اسی نظریات کو فروغ دیتی کہانیوں پر مبنی ہیں جس ایجنڈے پر آر ایس ایس برسوں سے عمل پیرا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق ممبئی سے تعلق رکھنے والے آر ایس ایس کے کارکن اتل شرما (نام بدلا ہوا ہے) نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ’’ہم صرف شروعات کر رہے ہیں۔ "آپ آنے والے وقتوں میں اور بھی تبدیلیاں دیکھیں گے۔ ہم نے بالی ووڈ کے ہدایت کاروں اور اسکرپٹ رائٹرز کے ساتھ بات چیت شروع کر دی ہے کہ ہم ہندوستان کے بارے میں اپنے خیال کو کس طرح فروغ دے سکتے ہیں ۔ ہم یہ کیسے یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہمارے بچے بڑے ہو کر اپنی قوم کے بارے میں صحیح چیزیں سیکھیں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ہندوستانی ثقافت پر زور دیں اور ایسا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سنیما کا استعمال کیا جائے ۔
نمرتا ساٹھے ریلے نے کہا "ہم ایک ایسے مرحلے پر پہنچ گئے ہیں جہاں ہم اپنے خواب میں سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس دور میں ہمیں کبھی کوئی اور بمبئی یا ویر زارا جیسی فلم دیکھنے کو ملے گی
عظیم پریم جی یونیورسٹی میں سنیما اسٹڈیز کے پروفیسر سری نواس ایس وی نے کہا کہ سیاست کے ساتھ فلموں کا تعلق کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ اب ہم "ایک نئی قسم کی” پروپیگنڈہ فلم دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے رام سیتو کی مثال دی ،جو ہندتو کے عقیدے کے ارد گرد گھومتی ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے سمراٹ پرتھویراج کا ذکر کیا جس میں اکشے کمار ادا کار ہیں ۔ سری نواس نے کہا، "فلم میں ہندو بادشاہ پرتھوی راج چوہان کے حوالے سے زعفرانی تاریخ کو دکھایا۔ "فلم میں چوہان کو محمد غوری کو مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے، لیکن انٹرنیٹ کی تلاش سے پتہ چلتا ہے کہ غوری کو اس کے اپنے آدمیوں نے قتل کیا تھا۔
اداکار سورا بھاسکر نے دی ویک سے گفتگو کے دوران کہا کہ "ہمارے پاس امر اکبر انتھونی، منی رتنم کی بمبئی اور ری فیوجی، ویر زارا اور جودھا اکبر جیسی فلمیں ہیں، جو ‘ہندو-مسلم اتحاد’ کے ساتھ بڑے پیمانے پر تفریح فراہم کرنے والی فلمیں ہیں۔ 2014 کے بعد، آپ کو اچانک بالی ووڈ کا زیادہ تر حصہ آر ایس ایس کے ایجنڈے کے ارد گرد گھومتا نظر آتا ہے۔ تو آپ کے پاس مودی کی بایوپک یا دی ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر جیسی فلمیں ہیں، جو منموہن سنگھ کی کردار کشی کرتی ہیں۔ اس کے بعد پرتشدد کشمیر فائلز اور تانہا جی جیسی فلمیں بنیں، جنہیں کوئی بھی مورخ تاریخ نہیں کہے گا۔ المیہ یہ ہے کہ آج کے ہندوستان میں کوئی ہندو مسلم رومانس والی بالی ووڈ میں فلم نہیں بنا سکتا۔
ہدایت کار ہنسل مہتا، جن کی حالیہ فلم فراز نے اسلامی بنیاد پرستی پر بحث کا آغاز کیا- فلم "اچھے مسلمان” کو "برے” کے مقابلے میں کھڑا کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ سنیما ایک تخلیقی ادارہ ہے جسے سیاست سے پاک کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ کوئی بھی ہمیں نہیں بتا سکتا کہ کیسی فلمیں بنائی جائیں۔
ہندی فلم انڈسٹری، جس نے برسوں سے ہندوستانی ترقی کی کہانی کو آئینہ دار بنایا ہے، 1950 سے 1970 کی دہائی تک خوشحالی کے نہرو کے خواب کی بات کی، 1990 کی دہائی کے اوائل میں ایک متوسط طبقے کی کہانیاں سنانے کا آغاز کیا، اور اب ہندو قوم پرستوں کو خوش کرنے کے لیے ہندو قوم پرستی کے منصوبے کو آگے بڑھا رہی ہے ۔ امریکہ کی سدرن الینوائے یونیور سٹی سے سنیما کی تعلیم میں پی ایچ ڈی مکمل کرنے والی نمرتا ساٹھے ریلے نے کہا "ہم ایک ایسے مرحلے پر پہنچ گئے ہیں جہاں ہم اپنے خواب میں سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس دور میں ہمیں کبھی کوئی اور بمبئی یا ویر زارا جیسی فلم دیکھنے کو ملے گی۔