روزنامہ ،سہ روزہ اور ہفت روزہ دعوت کا تاریخی سفر

کتاب :’دعوتِ اسلامی کی ترسیل و ترویج میں دعوت اخبار کا کردار‘ ایک جائزہ

محمد عارف اقبال، نئی دلی

مصنف: ڈاکٹر انعام الرحمٰن رفیقی
صفحات440 (مجلد)  قیمت600/-   اشاعت2015
ناشر براؤن پبلی کیشنز، نئی دہلی 110025-
تبصرہ: محمد عارف اقبال
’’دعوتِ اسلامی کی ترسیل و ترویج میں ’دعوت‘ اخبار کا کردار‘‘یہ کتاب کُل آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ سال 2015 میں اس کتاب کی اشاعت ہوئی تھی لیکن ادارے کو 2023 میں تبصرے کے لیے مہیا کی گئی۔ جب یہ کتاب تیار ہوکر پریس میں جاچکی تو اس وقت ’دعوت‘ سہ روزہ نکل رہا تھا لیکن اب یہ ہفت روزہ نکل رہا ہے جو  ’نئی دنیا‘ کے طرز پر شروع ہوا جس کا پورا اسٹاف حیدرآباد میں ہے لیکن اخبار دلی میں چھپتا ہے۔ 24 صفحات کے اس ٹیبلائڈ(Tabloid)کے کل آٹھ صفحات رنگین ہوتے ہیں اور بقیہ سپید و سیاہ۔ اس میں دعوت اسلامی کے علاوہ سیاست، حالاتِ حاضرہ اور ادب کے کالمز بھی ہوتے ہیں۔ ’خبر و نظر‘ کا کالم دعوت سہ روزہ کی طرح ابھی بھی  برقرار ہے جس کے مہمان کالم نگار پرواز رحمانی (سابق مدیر اعلیٰ دعوت سہ روزہ) حسب سابق لکھ رہے ہیں۔ اس میں ملک اور سماج کے ملّی مسائل پر خصوصی طور پر مضامین ہوتے ہیں۔ قارئین کے تاثرات کو بھی خاص جگہ دی گئی ہے۔ اس کے موجودہ مدیرِ اعلیٰ ڈاکٹر فہیم الدین احمد، حیدرآباد ہیں ۔
کتاب کا اصل موضوع اگرچہ ’دعوت اخبار‘ ہے لیکن مصنف نے ’دعوت اسلامی یا دعوت حق‘ کو بھی اس کتاب کی زینت بنایا ہے۔ اس کتاب کا آغاز ہوتے ہی ایسا لگتا ہے کہ ’دعوتِ اسلامی یا دعوتِ حق‘ کے موضوع پر قاری کو مطالعہ کی دعوت دی گئی ہے۔ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے بے حد اہم ہے اور ہندوستان میں ’تحریک اسلامی‘ یا ’جماعت اسلامی‘ کے ترجمان دعوت اخبار پر پہلی بار محققانہ طور پر معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ابتدا کے دو ابواب اگرچہ اپنے گراں قدر مواد اور معلومات کے لحاظ سے اہم ہیں لیکن کتاب کے اصل موضوع سے ہٹے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان دو ابواب کو کتاب میں شامل نہیں کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔
دعوت اخبار روزنامہ بھی رہا، سہ روزہ بھی اور ہفت روزہ بھی نکالا گیا۔ اس کے فاضل مدیران میں اصغر علی عابدی (فاؤنڈر ایڈیٹر)، محمد مسلم، محفوظ الرحمٰن، مولانا سلیمان ندوی اور آخر میں پرواز رحمانی (اصل نام عبدالحق) رہے۔ دعوت اخبار روزنامہ کا پہلا شمارہ 1953 میں شائع ہوا۔ معروف صحافی اصغر علی عابدی اس کے ایڈیٹر تھے۔ اس سے قبل وہ ہفتہ وار الانصاف (الٰہ آباد، ابتدا 1948) کے مدیر بھی رہے۔ ڈاکٹر انعام الرحمٰن رفیقی لکھتے ہیں کہ ’’الانصاف سے قبل انہوں نے حکیم عبدالحمید کے یہاں کی ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت ایک ماہانہ رسالہ بھی نکالا تھا۔ یہ اردو کے ساتھ انگریزی صحافت سے بھی وابستہ تھے۔ ان کی ادارت میں 1953 سے 1956 تک دعوت اخبار نکلتا رہا۔ انہی کے دَور میں 1955 میں اس کا سہ روزہ ایڈیشن بھی شروع ہوا جو ایک ماہ میں دس بار نکلتا تھا۔‘‘ (صفحہ 146) ۔ 1956 میں جب اصغر علی عابدی رخصت ہوئے تو محمد مسلم (مرحوم) کو اس کا مدیر بنایا گیا۔ جو معروف اردو روزنامہ ’ندیم‘ (بھوپال) کے خصوصی نمائندہ بھی رہ چکے تھے۔ محمد مسلم صاحب کے دور ادارت میں 1960 میں سہ روزہ دعوت کے ساتھ روزنامہ دعوت بھی شائع ہوتا رہا تھا جو 1982 تک جاری رہا۔ محمد مسلم صاحب کی اعلیٰ اور معیاری صحافت کی تعریف معروف انگریزی صحافی کلدیپ نیّر کے علاوہ ’نئی دنیا‘ (ہفت روزہ) کے مدیر شاہد صدیقی اور ’آزاد ہند‘ کولکاتا کے بانی مدیر سعید احمد ملیح آبادی نے بھی کی ہے۔ اس زمانے میں دعوت اخبار کے قارئین میں بڑے بڑے دانشور، صحافی اور  ملّی قائدین  وغیرہ تھے۔ محمد مسلم صاحب برین ٹیومر جیسے مہلک مرض میں 1980 میں مبتلا ہوئے تو فرائض کو بخوبی انجام دینے سے قاصر ہوگئے۔ اسی زمانے میں محفوظ الرحمٰن صاحب جو سہ روزہ دعوت میں معاون مدیر تھے، اور سوویت یونین کے نئی دلی میں  انفارمیشن بیورو کے انچارج رہے، ان کو دعوت سہ روزہ کا اسسٹنٹ ایڈیٹر بنایا گیا۔ پھر 1982 میں محفوظ الرحمٰن (مرحوم) نے محمد مسلم صاحب سے مدیر کا مکمل چارج لیا اور 1986 تک اس اہم ذمہ داری پر فائز رہے۔ محفوظ الرحمٰن صاحب لکھنؤ میں ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کی رہنمائی میں نکلنے والے ہفت روزہ ’قیادت‘ کے بھی مدیر رہے۔ اس لیے اس کتاب کے محقق کے بقول اپنے دَور میں اس تجربہ سے سہ روزہ دعوت کو خوب فائدہ پہنچایا۔ (صفحہ 152)۔ لیکن یہ ایک معمہ ہے کہ محفوظ الرحمٰن صاحب کو اتنے کم عرصے میں دعوت سہ روزہ سے کیوں فارغ کردیا گیا کیونکہ ان کے بعد جس شخصیت کو اس کا مدیر انچارج بنایا گیا وہ پیرانہ سالی کے ساتھ خود ایک عربی ہفت روزہ اخبار ’الدعوۃ‘ کے مدیر تھے۔ اس طرح مولانا سلیمان ندوی کو بحیثیت مدیر سہ روزہ دعوت کا اضافی چارج دیا گیا۔ فاضل محقق لکھتے ہیں 22 نومبر 1989 کو مولانا سلیمان ندوی کے انتقال کے بعد پرواز رحمانی صاحب کو سہ روزہ دعوت کی ادارت سونپی گئی جو 1969 سے بطور معاون مدیر اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ دعوت سہ روزہ کے تمام مدیروں کی ایک مشترکہ بات یہ تھی کہ انہوں نے ’خبر و نظر‘ کے کالم کو ہمیشہ قائم رکھا۔ پرواز رحمانی صاحب کے لکھے گئے چند ’خبر و نظر‘ کو کتابی صورت بھی عطا کی گئی۔ پرواز رحمانی صاحب کے دَور میں ہی دعوت سہ روزہ کمپیوٹر کے ذریعہ کمپوز ہونے لگا۔
یہ کتاب جن آٹھ ابواب پر مشتمل ہے اس کے عنوانات ملاحظہ کریں:
(1) اغراض و مقاصد (2) دعوت اسلامی اور مسلمان (3) آزادی کے بعد ملک کی صورت حال (4) اردو صحافت اور دعوت اخبار-ایک تقابلی مطالعہ (5) افراد کی ذہن سازی میں دعوت اخبار کا کردار (6) دعوت کے امتیازات و خصوصیات (7) دعوت اخبار کے مسائل اور امکانات (8) خاتمہ۔
کتاب کے مصنف نے دعوت اخبار کے اہداف و مقاصد کے آٹھ نکات بتائے ہیں، جو مندرجہ  ذیل ہیں:
۱۔ اقامت دین کے لیے جدوجہد کرنا
۲۔ خبروں کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے ان کی اشاعت کرنا
۳۔ مسلمانوں کے مصالح و مفادات کی نمائندگی کرنا
۴۔ جماعت اسلامی کو متعارف کرانا
۵۔ موجودہ حالات کا مطالعہ و جائزہ پیش کرنا
۶۔ نوجوانوں کو فکر اسلامی سے روشناس کرانا
۷۔ تہذیب اسلامی کو عام کرنا
۸۔ دینی، علمی، ادبی، سیاسی و تاریخی مضامین کی اشاعت کرنا۔ (صفحہ 143)
کتاب کے مصنف نے لکھا ہے کہ ’’۔۔۔ دعوت اخبار کے ہفت روزہ کے تین دَور ہیں۔ پہلا الانصاف کی شکل میں جسے اس اخبار کا دورِ آغاز کہا جاسکتا ہے۔ اس کی ابتدا 1948 میں ہوئی۔ دوسرا دَور باضابطہ دعوت کے نام سے اخبار کا اجرا ہوا جس کی ابتدائی شکل ہفت روزہ کی تھی۔ اس دَور کی کُل مدّت ڈھائی سال 1953 تا 1955 تھی۔ ہفت روزہ کا آخری دَور 3 فروری 1980 تا 1983 ہے۔ موخرالذکر ہفت روزہ رنگین ہوتا تھا۔‘‘ (صفحہ 157)
جس وقت یہ کتاب پایۂ تکمیل کو پہنچی اس وقت خود محقق کو معلوم نہ تھا کہ دعوت سہ روزہ بند کردیا جائے گا اور اس کی جگہ پر ہفت روزہ دعوت ایک بار پھر شروع ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ مصنف نے اپنی کتاب میں ’ہفت روزہ کا آخری دَور‘ لکھا ہے۔ حالانکہ اب ہفت روزہ دعوت کا چوتھا دَور شروع ہوچکا ہے جس کا پہلا شمارہ 6 نومبر 2019 کو منظر عام پر آیا تھا۔ اس کی پیشانی پر بھی قرآن مجید کی آیت کا ترجمہ ’’اس شخص سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے، جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں‘‘ درج ہے۔ موجودہ ہفت روزہ دعوت  کی حیدرآباد میں واقع مجلس ادارت اس اخبار کو مزین کرنے اور اسکا معیار برقرار رکھنے میں انتھک محنتیں اور کوششیں کررہی ہے۔
زیر نظر کتاب اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ اس میں نہ صرف دعوت اخبار کی تاریخ آگئی ہے بلکہ جماعت اسلامی ہند کے اس ترجمان کے مقاصد اور نصب العین پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ البتہ اس میں درج بعض معلومات اب پرانی ہوگئی ہیں۔ دعوت کے تاریخی پس منظر کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب یقینی طور پر قابل مطالعہ ہے۔ کتاب کے مصنف نے آخری باب ’خاتمہ‘ میں ایک جگہ لکھا ہے:
’’اس میں بلاتفریق مسلک اور فکر و نظریہ دعوت اسلامی کے کاز کے مدنظر مضامین شائع ہوتے ہیں۔ کسی بھی ایشو پر غیرمسلم حلقے کی بھی رائے لی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ان کے مضامین بھی شائع کیے جاتے ہیں۔‘‘ (صفحہ 429)
کتاب معتبر و مستند حوالوں سے مؤثق ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ محقق نے اس کتاب کے لکھنے میں محنت شاقہ کا ثبوت دیا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 اکتوبر تا 14 اکتوبر 2023