روزگار کا بدلتا پس منظراور ملازمتوں کا بحران

ٹیک کمپنیوں کی جانب سے تخفیف ملازموں کا رجحان پریشان کن

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ملازمت کے بجائے ٹھیکے کی بنیاد پر غیر مستقل فری لانس خدمات والی’ گگ اکانومی‘ کو ترجیح
بدلتے ہوئے حالات میں کئی کمپنیاں نوکری پیشہ لوگوں کو گھر سے کام کرنے کی ترغیب دے رہی ہیں۔ یہ دراصل ’’اسٹرائیڈون‘‘ نام کی مالی خدمت فارم کے شائع شدہ جائزہ سے پتہ چلا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں مستقبل کے روزگار یا ملازمت کے بجائے ٹھیکے کی بنیاد پر غیر مستقل(temporary) فری لانس خدمات والے گگ اکانومی کو ترجیح دی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ 2021میں اس میں محض 80لاکھ افراد منسلک تھے۔ یہ اعداد و شمار ملک کے لیبر فورس کا ڈیڑھ فیصد ہے۔ اب آئندہ سال تک 2.35کروڑ لیبر فورس کو روزگار ملنے کی صورت میں یہ اعداد و شمار بڑھ کر چار فیصد تک جاسکتے ہیں۔ گگ اکانومی کا مطلب ایسا نظم جو طلب اور رسد (سپلائی) کے طور پر کام کرتا ہے کیونکہ ملک کے شہریوں کے پاس اسمارٹ فون، سستا ڈاٹا اور انٹرنیٹ خدمات کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے ساتھ آن لائن کاروبار میں بڑے اضافہ کی توقع ہے۔ سب سے زیادہ گگ ورکرس ہوٹل، ریسٹورینٹ اور میڈیا انٹرٹینمنٹ سے منسلک اداروں میں ہیں۔ اس فہرست میں پانچواں مقام ای کامرس اور اسٹارٹ اپ کمپنیوں کا ہے۔ گگ ورکرس سے کمپنیوں کی لاگت بہت کم ہوگی اور جلد ہی انفارمیشن ٹکنالوجی سیکٹر میں اسکا دبدبہ ہوگا۔ جو گھر سے کام کے نظم کو تیزی سے اپنا رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ عالمی بازار میں غیر یقینیت کی کیفیت ہے۔ اس میں مستقل اور غیر مستقل ملازمین کا اختلاط ہوتا ہے۔ آئی ٹی کمپنیوں میں برسر روزگار انسانی وسائل ترقی (ایچ آر ڈی) آفیسر کا ماننا ہے کہ جس طرح کے جاب اب دستیاب ہیں انہیں مستقل ملازمین کی بنیاد پر فوری طور پر مکمل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ آجر (کمپنی) ایسے کام اپنے مستقل ملازمین کے بجائے آن لائن ڈیمانڈ پر دستیاب ہونے والے پیشہ ور ماہرین کے حوالے کرنے لگے ہیں۔ گگ اکانومی میں کام کرنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جن کے کام کی صلاحیت اور ذہانت گزشتہ نسل سے مختلف ہے یہ نوجوان کسی کمپنی میں تا عمر کام کرنے کے بجائے کام کے غیر مستقل اور لچکدار طریقے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ آجرین کے مطابق آئی ٹی کمپنیوں میں نئی نسل کی آمد سے ملازمین کو مشغول اور متحرک رکھنے والی پرانی حکمت عملی ختم ہورہی ہے۔ اب ان کا سامنا ایسے ورک فورس سے ہورہا ہے جہاں مستقل اور جز وقتی ملازمین ایک ساتھ ہی رہتے ہیں۔ لیکن ان کی ضرورتیں کلی طور پر مختلف ہیں۔ ورک فورس کا تجزیہ کرنے والے ادارہ ’’ٹیم لیز‘‘ کے مطابق بھارت میں فی الحال پچیس لاکھ کنٹریکٹ ورکرس ہیں اور یہ تعداد آئندہ دہائی میں 60تا 70لاکھ ہوسکتی ہیں۔ اس معاملے میں امریکہ سب سے آگے ہے۔ ایک سروے کے مطابق امریکہ میں آئندہ چار سالوں میں گگ اکانومی یعنی آن لائن ڈیمانڈ ورکرس کی تعداد دگنی ہوجائے گی جو اضافہ کے ساتھ 92لاکھ ہوسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں نوجوانوں کی ایک جماعت ہے جنہیں عارضی یا فری لانسنگ کرنا زیادہ بہتر لگتا ہے۔ اس لیے 2035تک دنیا کے زیادہ لوگ مستقل یا لمبی مدت تک ملازمت کے بجائے عارضی یا گگ شکل کی ملازمت کررہے ہوں گے کیونکہ کمپنیاں اپنے ملازمین کی ہر حرکت پر انٹرنیٹ کے ذریعہ نگرانی کررہی ہوں گی۔ فی الحال شفٹ کی شروعات اور اختتام پر سافٹ ویر کے ذریعہ لاگ آن اور لاگ آوٹ سے پورا حساب کتاب رکھا جانے لگا ہے۔ اس سے کمپنی حساب لگاتی ہے کہ ملازم نے کام میں کتنی مستعدی دکھائی اور ان کو دیا گیا کام کتنے دنوں میں مکمل ہوا؟ دوسری طرف کئی نوجوانوں کو گگ اکانومی ترجیحی لگ رہی ہے۔ مگر نگرانی بڑھنے اور کمپنیوں کے ذریعے منافع کے مارجن کو زیادہ اہمیت دینے کی وجہ سے مستقل ملازمین ساری دنیا سے کم ہورہے ہیں کیونکہ آجر اپنے مستقل ملازمین سے زیادہ کام کی توقع کرنے لگے ہیں۔ اس لیے مستقل ملازمت میں ان کی نجی خوشی، خاندانی زندگی اور پرائیویسی خطرے میں نظر آنے لگی ہے۔ اب اس مشینی دنیا میں انسانوں کو انسان کے بجائے مشین سمجھا جانے لگا ہے۔ آرٹیفیشل انٹلیجنس جیسی ٹکنالوجی کی تیزی سے وسعت سے مستقل نوکریوں پر زیادہ ہی دباو بڑھ گیا ہے۔ ایسے حالات میں نوجوان غیر مستقل ملازمت یا فری لانسنگ وال گگ اکانومی کو ترجیحی اور آرام دہ سمجھ رہے ہیں جس میں لوگ ملازمت، چھٹی، کام اور نجی زندگی میں توازن کے فیصلے خود سے کرسکیں گے۔
ویسے گگ اکانومی کے چیلنجز بھی بہت ہیں۔ یہ اکانومی اپنی سہولت، اپنی شرطوں پر کام کرنے والے لوگوں کی آمدنی اور غیر یقینیت، منافع، سماجی اور بیمہ سلامتی جیسے کئی چیلنجز کو بھی اپنے ساتھ لائے گی۔ اگر فری لانس کرنے والے نوجوانوں کو ملازمت سے برخاست کردیا جائے یا تو وہ بیمار پڑجائیں یا اگر اچانک صنعتی گراوٹ آجائے تو سزا سب سے پہلے انہیں کو ملے گی۔ بغیر وجہ بتائے کام سے ہٹادیا جاتا ہے کوئی جاب گارنٹی نہیں ہوتی ہے کہ آئندہ انہیں سابقہ شرائط پر کام ملے گا۔ گگ اکانومی میں کام کرنے والے شخص کو کسی کمپنی میں اونچے پوسٹ پر کام کا موقع نہیں ملتا۔ اسی طرح فری لانسنگ میں کام کرنے والے نوجوانوں کو مستقل آمدنی کے بنے رہنے کا مستقل ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔ اس میں گگ اکانومی کا بڑا اہم رول رہا ہے۔ اسٹارٹ اپ کے قیام میں زیادہ تر اسٹارٹ اپ اور ای کامرس کمپنیاں فری لانس ملازمین کی مدد سے زیادہ منافع کمارہی ہیں۔ ایسے حالات میں ایک صحتمند قدم کے طور پر حکومت اسٹارٹ اپ کے لیے تکنیکی ، قانونی سلامتی اور بہتر چارہ جوئی کا بہتر انتظام کرے۔ امید ہے کہ مرکزی حکومت اس معاملے میں بہتر قانون بنانے کی تیاری کرے گی۔ ای کامرس اور انٹرنیٹ کمپنیوں کے ساتھ ساتھ حقائق پر نظر رکھنے والے پورٹلس کو اس کے تحت لانے کا بھی منصوبہ ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ اصول گگ اکانومی کے لیے مفید ہوگا۔
ویسے چہار طرف ملازمتوں پر بحران کے سائے منڈلارہے ہیں۔ کساد بازاری کے بڑھتے اندیشوں کے تحت گزشتہ سال 2022میں ہزاروں ملازمین کو ان کی ملازمت سے چھٹی دے دی گئی ہے۔ تنہا ٹیک کمپنیوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر کی گئی چھٹنیوں نے 2008-09کی کساد بازاری کو شکست دے دی۔ گلوبل آوٹ پلیسمنٹ کیریرز ٹرانزیشنگ فرم چیلنجر گرے اینڈ کرسمس کے اعداد و شمار کے مطابق ٹیک کمپنیوں نے 2008میں 65000ملازمین کو فارغ کیا۔ اتنی ہی تعداد میں 2009میں لوگوں کی ملازمتیں گئیں۔ اس کے مقابلے 1000سے زائد ٹیک کمپنیوں نے 2022میں عالمی سطح پر 152000سے زائد ملازمین کو روزگار سے بے دخل کیا۔ کرنچ بیس کے مطابق یو ایس ٹیک سیکٹر نے 91000سے زیادہ ملازمین کی چھٹنی کی۔ حالیہ دنوں میں امریکہ میں ہزاروں بھارتی اپنی ملازمت گنوانے کے بعد شدید مصیبتوں کا سامنا کررہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر انفارمیشن ٹکنالوجی سے منسلک ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق گزشتہ سال نومبرمیں آئی ٹی سیکٹر میں دو لاکھ پیشہ ور ماہرین کی چھٹنی کی جن میں 30تا 40 فیصد بھارتی ہیں۔ یہاں تک کہ ایچ ون بی ویزا والے ماہرین کو بھی اپنے یہاں سے نکال دیا۔ اب انہیں قانوناً ساٹھ دنوں کے اندر کوئی دوسری ملازمت تلاش کرنی ہوگی ورنہ وطن واپس لوٹنا ہوگا۔ بھارت میں باجونہ اکیڈیمی اور ویدانتا جیسی ایڈ ٹیک کمپنیوں کی قیادت میں سترہ ہزار سے زائد ملازمین کو گھر بٹھادیا گیا۔ فلپ کارٹ کے سی ای او کلیان کرشنا مورتی نے متنبہ کیا ہے کہ یہ سلسلہ بارہ سے اٹھارہ ماہ تک جاری رہ سکتا ہے اور صنعتوں کو بہت زیادہ ہنگامہ آرائی اور اتار چڑھاو کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ پی ڈبلیو یو سی انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں دو اسٹارٹ اپ شپ راکٹ اور ون کارڈ نے جولائی تا ستمبرکی مدت میں یونیکورن کا درجہ ایک بلین ڈالر اور اس سے اوپر حاصل کیا۔ دیو ایکس وینچر فنڈ کے شریک بانی اشیش شاہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کی دوسری سہ ماہی میں گراوٹ آئی تھی اور کوالیٹی ڈیل فلو کافی حد تک خشک ہوگیا ہے۔ ایسے اداس ماحول میں خاص طور پر ایڈٹیک سیکٹر میں بے دخلیاں ہوئی ہیںاس لیے ملک کے جاب مارکیٹ میں آنے والے وقت میں تبدیلی ہونے جارہی ہے ایسے وقت میں ضروری ہے کہ ملازمین او ران کی تنظیموں کو لچکدار رخ اختیار کرنا ہوگا تاکہ خود کو اس تبدیلی کے لیے تیار رکھ سکیں۔
***

 

***

 گگ اکانومی کے چیلنجز بھی بہت ہیں۔ یہ اکانومی اپنی سہولت، اپنی شرطوں پر کام کرنے والے لوگوں کی آمدنی اور غیر یقینیت، منافع، سماجی اور بیمہ سلامتی جیسے کئی چیلنجز کو بھی اپنے ساتھ لائے گی۔ اگر فری لانس کرنے والے نوجوانوں کو ملازمت سے برخاست کردیا جائے یا تو وہ بیمار پڑجائیں یا اگر اچانک صنعتی گراوٹ آجائے تو سزا سب سے پہلے انہیں کو ملے گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 فروری تا 18 فروری 2023