روسے ٹو کے باشندوں کی کامیابی کا راز
حقوق العباد کی کماحقہ ادائیگی کئی بیماریوں سے نجات کی ضامن
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
صحت مند سماج کے لیے محض ورزش اور احتیاط کافی نہیں۔ طرز زندگی بھی اہمیت کی حامل
روسے ٹو، اٹلی کے شہر روم سے سو میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو اپنی غیر معمولی خصوصیات کی بنا پر طبی ماہرین اور محققین کے لیے دل چسپی کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس قصبے میں بسنے والے لوگوں کی زندگی نہایت دل چسپ اور صحت مند تھی، ان کی زندگی کے طور طریقوں میں ہمارے لیے کئی اہم سبق پوشیدہ ہیں۔ یہ سبق دل کی بیماریوں اور پیپٹک السر جیسے خطرات سے محفوظ رہنے اور ایک خوش حال اور طویل عمر گزارنے کے لیے مفید ہیں۔
روسے ٹو نام کا قصبہ ایک پہاڑی پر واقع ہے جہاں لوگوں کی زندگی مشکلات اور غریبی میں بسر ہوتی تھی۔ زیادہ تر لوگ مزدوری کر کے اپنی گزر بسر کرتے تھے۔ ان میں سے اکثر قریبی کوئلے کی کانوں میں کام کرتے جبکہ کچھ کھیتوں میں مزدوری کرکے اپنی روزی کماتے تھے۔ ان کی غربت ایسی تھی کہ وہ اپنی کمائی میں بچت نہیں کر پاتے تھے اور ان کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے مواقع بھی نہیں تھے۔ یہ لوگ ایک سادہ اور محنت کش زندگی گزارتے تھے، لیکن اس کے باوجود انہیں معاشی ترقی کے بہت کم مواقع میسر تھے۔
اِن حالات میں جب روسے ٹو کے نوجوانوں کو امریکہ کی معاشی ترقی اور روزگار کے وسیع مواقع کے بارے میں سننے کا موقع ملا تو کچھ نوجوانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ امریکہ جا کر اپنی قسمت آزمائیں گے۔ چنانچہ وہ روزگار کی تلاش میں امریکہ روانہ ہوئے اور مشرقی پنسلوانیا کے ایک پہاڑی علاقے میں بس گئے۔ وہ وہاں کی کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرنے لگے اور انہیں ان کی محنت کا اچھا معاوضہ ملنے لگا۔ جلد ہی روسے ٹو کے مزید لوگ بھی یہاں نقل مکانی کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے 1894 تک روسے ٹو کا پورا گاؤں خالی ہوگیا۔ یہ تمام لوگ پنسلوانیا کے علاقے میں بس گئے اور وہاں انہوں نے ایک نیا قصبہ آباد کیا، جسے پہلے نیو اٹلی کہا گیا اور بعد میں اسے روسے ٹو کا نام دے دیا گیا۔
وقت گزرتا گیا اور روسے ٹو میں زندگی اپنے انداز سے چلتی رہی۔ لیکن اس علاقے کی ایک عجیب خصوصیت نے طبی ماہرین کو حیران کر دیا۔ یہ بات تب سامنے آئی جب اوکلاہاما کے ایک مشہور فیزیشن، ڈاکٹر اسٹیورٹ ولف، دیہاتی علاقوں میں رہنے والوں کا علاج کرنے کے لیے پنسلوانیا آئے۔ اس دوران ایک مقامی ڈاکٹر نے یہ بات بیان کی کہ وہ کئی سالوں سے یہاں کے لوگوں کا علاج کر رہے ہیں لیکن آج تک روسے ٹو سے کوئی مریض ان کے پاس دل کی بیماری یا دیگر سنگین امراض کے لیے نہیں آیا۔
ڈاکٹر ولف کو یہ بات حیران کن لگی اور ان کے دل میں یہ تجسس پیدا ہوا کہ وہ جانیں کہ روسے ٹو کے باشندے دل کی بیماریوں سے کیسے محفوظ ہیں؟ چنانچہ انہوں نے روسے ٹو میں تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ وہ گھر گھر گئے، لوگوں کا سروے کیا اور دل کی بیماریوں سے متعلق اعداد و شمار اکٹھے کیے۔ تحقیقات سے سامنے آیا کہ روسے ٹو کے لوگوں میں دل کی بیماریوں کی شرح غیر معمولی طور پر کم تھی۔ 65 سال کی عمر کے بزرگوں میں دل کی بیماریوں کا تناسب امریکہ کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں نصف سے بھی کم تھا جبکہ 40 سے 50 سال کی عمر کے افراد میں یہ شرح تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی۔ موت کا سبب عموماً طبعی موت تھی، یعنی یہاں کے لوگ دل کی بیماریوں یا دیگر مہلک امراض کی بجائے بڑھاپے میں انتقال کرتے تھے۔
ڈاکٹر ولف اور ان کے ساتھیوں کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ روسے ٹو کے لوگ نہ تو خاص قسم کی غذائیں استعمال کرتے تھے اور نہ ہی ان کا طرز زندگی ایسا تھا جو انہیں دیگر لوگوں سے مختلف بناتا ہو۔ یہ لوگ زیادہ چربی والی غذائیں کھاتے تھے اور ورزش بھی نہیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان میں سے اکثر لوگ سگریٹ نوشی بھی کرتے تھے اور ان کا وزن بھی عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ اس بات نے ڈاکٹر ولف کو مزید الجھن میں ڈال دیا۔ انہوں نے سوچا کہ شاید ان لوگوں کی جینز میں کوئی خاصیت ہو جو انہیں بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہو۔ چنانچہ انہوں نے یہاں کے باشندوں کے رشتہ داروں کی جینز کا تجزیہ کیا جو دیگر علاقوں میں رہتے تھے۔ مگر نتائج سے پتا چلا کہ ان کے رشتہ دار بھی عام لوگوں کی طرح دل کی بیماریوں اور دیگر امراض کا شکار ہو رہے تھے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ جینیاتی عناصر بھی ان کی صحت کی وضاحت نہیں کر سکتے تھے۔ پھر انہوں نے ماحول کا تجزیہ کیا، سوچا کہ شاید پنسلوانیا کا پہاڑی علاقہ یا وہاں کی آب و ہوا اس فرق کا سبب ہو لیکن دیگر قصبوں کے مقابلے میں یہاں کے حالات میں بھی کوئی خاص فرق نہ تھا۔ آخر کار ڈاکٹر ولف نے سمجھا کہ یہ معاملہ طبی نہیں ہے بلکہ اس کی جڑ میں سماجی اور نفسیاتی عوامل پوشیدہ ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ایک دوست جو سماجیات کے ماہر تھے، ان کو اس تحقیق میں شامل کیا۔ اس نے اپنے شاگردوں کے ساتھ مل کر روسے ٹو کے لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کیا اور ان کے سماجی ڈھانچے اور رہن سہن کو سمجھنے کی کوشش کی۔ جلد ہی یہ راز کھل گیا کہ روسے ٹو کے باشندوں کی صحت کا راز ان کے مضبوط خاندانی اور سماجی تعلقات میں پوشیدہ تھا۔
روسے ٹو کے لوگ آج بھی مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے تھے جہاں چھوٹے بڑے سب ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ دادا، دادی، نانا، نانی کو بڑی عزت دی جاتی تھی اور لوگ آپس میں گھل مل کر رہتے تھے۔ سڑکوں اور گلیوں میں لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے، خیریت معلوم کرتے اور وقت گزارتے تھے۔ یہاں دولت کی دوڑ نہیں تھی اور نہ ہی ایک دوسرے سے حسد یا جلن کا کوئی رجحان پایا جاتا تھا۔ لوگ اپنی کامیابیاں دوسروں کے ساتھ بانٹتے اور مشترکہ کھانے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ ان کا معاشرتی ڈھانچہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور یکجہتی پر مبنی تھا۔
یہ وہ عوامل تھے جو روسے ٹو کے لوگوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھتے تھے۔ سماجی تعاون، خاندانی تعلقات اور جذباتی حمایت نے انہیں دل کی بیماریوں اور دیگر نفسیاتی مسائل سے بچایا ہوا تھا۔لیکن 1970 کے بعد جیسے جیسے روسے ٹو میں مغربی طرز زندگی عام ہوئی، ان خاندانی اقدار میں کمی آتی گئی اور سماجی تعلقات کم زور پڑنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دل کی بیماریوں اور دیگر طبی مسائل کی شرح میں اضافہ ہونے لگا۔ یہ بات اس بات کی دلیل ہے کہ معاشرتی تعلقات اور سماجی عوامل انسان کی صحت پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 جنوری تا 01 فروری 2025