![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2025/02/20250209-5.jpg)
روس -یوکرین جنگ بندی متوقع
اقتصادی دباؤ کے ذریعے قیام امن کی حکمت عملی۔ پوتن کا ٹرمپ کی تجاویز پر مثبت ردعمل
ایم اے بیگ ، نئی دلی
ٹرمپ کی خارجہ پالیسی: امریکہ کے اندر اور باہر خود غرض مفادات۔عوام کی منشا بھی الزامات کے گھیرے میں
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جس طرح غزہ جنگ بندی کو اپنی حلف برداری سے قبل نافذ کرانے کا وعدہ کیا تھا اور اسے انہوں نے پورا بھی کیا ۔اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ امریکی صدارت سنبھالنے کے سو دنوں کے اندر روس اور یوکرین جنگ کو ختم کروا دیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے 47ویں امریکی صدر بننے کے چند دنوں کے اندر ہی روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ وہ یوکرین کی جنگ پر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں اور روس کے لیے یہ ملاقات اچھی ثابت ہوسکتی ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے روس کو یوکرین میں جنگ ختم کرانے میں ناکام ہونے کی صورت میں اقتصادی نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دینے کے بعد سے اپنے پہلے تبصرے میں پوتن نے امریکی صدر کے لیے سازگار لہجہ اپنایا۔
پوتن اور نو منتخب امریکی صدر دونوں نے کہا ہے کہ وہ یوکرین پر بات چیت کے لیے ملاقات کے لیے تیار ہیں۔ ٹرمپ نے روس کو دھمکی دی ہے کہ اگر ماسکو تنازع ختم کرانے پر راضی نہیں ہوا تو اس پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔
پوتن نے ایک روسی سرکاری ٹی وی کو بتایا ہے کہ "ہم موجودہ صدر کے ساتھ مل کر کام کرنے کی تیاری کے ضمن میں دیے گئے بیانات پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم اس کے لیے ہمیشہ تیار ہیں اور مذاکرات کے لیے بھی کوشش ہوسکتی ہے ۔ ہمارے لیے بہتر ہو گا کہ ہم باہمی ملاقات کریں اور موجودہ حقیقتوں کی بنیاد پر سکون سے گفتگو کریں۔”
پوتن نے ٹرمپ کے ساتھ اپنے تعلقات کو "کاروباری، عملی اور قابل اعتماد” قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین کے ساتھ بات چیت اس حقیقت کی وجہ سے پیچیدہ تھی کہ اس کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کی رو سے انہیں پوتن کے ساتھ بات چیت کرنے سے آئینی طور پر روک دیا گیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کو مزید متاثر کرنے کی کوشش میں، پوتن نے امریکی صدر کے اس دعوے کو دہرایا کہ وہ 2022 میں یوکرین میں شروع ہونے والی جنگ کو رکوا سکتے تھے، اور ٹرمپ کے اس غلط دعوے کی بھی توثیق کی کہ 2020 کے امریکی انتخابات ان سے چرا لیے گئے تھے۔
روس کے خلاف اقتصادی پابندیاں
پوتن کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی ٹرمپ کی کوششوں کو روس کی پہلے سے مشکلوں کا شکار معیشت پر دباؤ بڑھانے کی دھمکیوں سے روسی معیشت کمزور ہوسکتی ہے، بشمول پابندیاں اور محصولات متعارف کراناوغیرہ ۔ کیونکہ 23 جنوری کی شام ڈاؤس میں ورلڈ اکنامک فورم سے ورچول طور پر خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے +OPEC سے مطالبہ کیا کہ وہ کریملن کے لیے آمدنی کے ایک اہم سلسلے کو نشانہ بنانے کے لیے تیل کی عالمی قیمتوں کو نیچے دھکیل دے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی قیمت اس مقام پر ہے کہ جنگ جاری رہ سکتی ہے۔
تیل اور گیس سے حاصل ہونے والی رقم روس کی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ رہی ہے، جو گزشتہ دہائی کے دوران وفاقی بجٹ کی آمدنی کا ایک تہائی سے نصف حصہ ہے۔اگرچہ ٹرمپ نے ابھی تک جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی تفصیلی بلیو پرنٹ نہیں دیا ہے، لیکن ان کے نائب جے ڈی وینس نے اشارہ دیا ہے کہ ٹرمپ دونوں ممالک کی سرحدوں پر ایک بھاری قلعہ بند غیر فوجی زون کی تجویز رکھ سکتے ہیں اور ساتھ ہی موجودہ محاذوں پر جنگ کو منجمد کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ کی وہائٹ ہاؤس میں واپسی نے جنگ بندی کو برقرار رکھنے میں مدد کے لیے مغربی امن فوج کے یوکرین میں تعینات کیے جانے کے امکان کو تقویت دی ہے، لیکن روسی وزارت خارجہ نے اس خیال کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اور ساتھ ہی فرنٹ لائنز پر جنگ کو منجمد کرانے کے مطالبات کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ پھر بھی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور اس ہفتے ٹرمپ نے ایسے بیانات دیے ہیں جن کا ظاہری مقصد ماسکو کو تسلی دینا تھا۔ لہٰذا فاکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے صدر زیلنسکی کو کوئی فرشتہ نہیں قرار دیا اور تجویز پیش کی کہ یوکرین کے رہنما نے جنگ کے پھیلنے کے لیے کچھ ذمہ داریوں کا اشتراک کیا۔ ’’اسے اس جنگ کو ہونے نہیں دینا چاہیے تھا۔‘‘
اسی طرح 24 جنوری کی رات دیے گئے اپنے ویڈیو خطاب میں زیلنسکی نے کہا کہ پوتن ٹرمپ کو جوڑ توڑ پر تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یعنی وہ حصولِ امن کے لیے امریکی صدر کی خواہش کو متاثر کر رہے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اب کوئی روسی جوڑ توڑ کامیاب نہیں ہوسکے گا۔
کریملن کا ردِعمل
روسی حکومت کا ردعمل دیتے ہوئے کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے صحافیوں کو بتایا "پوتن تیار ہیں، ہم امریکہ کی طرف سے مثبت اشاروں کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ پیسکوف نے کہا کہ وہ رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات پر مزید تبصرہ نہیں کر سکتے، یہ کہتے ہوئے کہ مستقبل کی پیشن گوئی کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ پیسکوف نے ٹرمپ کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا کہ یوکرین میں تنازعہ روس کو اپنے تیل کے لیے ملنے والی قیمت کو کم کرواکے ختم کرایا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’یہ تنازعہ تیل کی قیمتوں پر منحصر نہیں ہے بلکہ روس کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات ، یوکرین میں رہنے والے روسیوں کے لیے خطرات اور امریکیوں اور یورپیوں کی جانب سے روس کے تحفظات کو سننے کی خواہش کی کمی اور مکمل انکار پر مبنی ہے۔‘‘
اوپیک کا کردار
ٹرمپ، جنہوں نے اپنی مہم کے دوران تنازعات کو تیزی سے ختم کرانے کا وعدہ کیا تھا، اب تیل پیدا کرنے والے ممالک کے اتحاد+ OPEC کا فائدہ اٹھانے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں،وہ ان پر زور دے رہے ہیں کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کریں تاکہ روس پر دباؤ ڈالا جاسکے۔ ان کا خیال ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی روسی صدر ولادیمیر پوتن کو جنگ پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
تاہم،ماہرین صنعت کا خیال ہے کہ+ OPEC پر دباؤ ڈالنا مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ اس گروپ نے پہلے ہی غیر رکن ممالک کی طرف سے کم مانگ اور مسابقت کی وجہ سے تیل کی بڑھتی ہوئی پیداوار کو کم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
ٹرمپ نے روس- یوکرین تنازعہ کے بارے میں اپنا نقطہ نظر اقتصادی لحاظ سے وضع کیا ہے، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ روس پر اقتصادی دباؤ کا فائدہ پوتن کو مذاکرات پر مجبور کر سکتا ہے۔ اس سے قبل صدر بائیڈن نے بھی انہی خطوط پر ایک حکمت عملی اپنائی تھی لیکن اسے بھی سعودی عرب نے مسترد کر دیا تھا، اور ٹرمپ کو +OPEC کے دو سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک کے مفادات کے خلاف کوئی بھی منفی فیصلہ لینے سے واضح انکار کردیا تھا۔
ٹرمپ کی جرات مندانہ حکمت عملی عالمی تنازعات کو حل کرنے کے ایک آلے کے طور پر اقتصادی فائدہ اٹھانے، خاص طور پر تیل کو نشانہ بنانے پر ان کی توجہ کو نمایاں کرتی ہے۔ ساتھ ہی وہ امریکہ کی جانب سے کسی بھی امریکی اتحادی کو مالی مدد یا جنگی مدد دینے سے بھی انکار کرتے نظر آرہے ہیں سوائے اسرائیل کے۔
درحقیقت ٹرمپ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسا کہ میں اپنے تبصروں میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ ٹرمپ ایک سیاست داں کم اور کاروباری زیادہ ہیں۔ وہ اپنا ہر سیاسی فیصلہ سیاسی جوڑ توڑ کے ساتھ اپنے زیادہ فائدے اور کم نقصان کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح اگر وہ روس -یوکرین جنگ، تیل کی قیمتیں کم کرواکے روس پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو روس کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کرنے کے علاوہ وہ یہ اقدام امریکہ کے اندر بھی اپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ اگر تیل کی کم قیمتیں امریکہ میں مہنگائی کو کم کروانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں تو وہ ٹرمپ کی دیگر پالیسیوں کے خلاف کسی بھی طرح کی عوامی ناراضگی کو کم کرانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ امریکی عوام کی اکثریت کم قیمتوں پر اشیائے صرف اور ذاتی مالیات حاصل کرنے کے قابل ہو جانے کو ترجیح دیتے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ اس کا دیگر ممالک پر کیا منفی اثر ہوسکتا ہے۔یعنی کہ مجموعی طور پر امریکی عوام اور امریکی صدر دونوں کو خود غرض کہا جاسکتا ہے۔
(مضمون نگار سے رابطہ : www.asadmirza.in)
***
’’ایسا لگتا ہے کہ بالآخر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جارحانہ مداخلت کے بعد روس اور یوکرین کا تین سالہ پرانا تنازع ختم ہو جائے گا ۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ٹرمپ کے معاشی خطرات کو کم اہمیت دیتے ہوئے نمایاں طور پر سازگار لہجہ اختیار کیا ہے، جب کہ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر زیلنسکی کو جنگ شروع کرنے والے کے طور پر مورد الزام ٹھیرایا ہے۔‘‘
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 فروری تا 15 فروری 2025