رعایا پرور حکم راں ،فرقہ پرست طاقتوں کی ظالمانہ کاروائیوں کا شکار

ٹیپو سلطان:بھارت کی آزادی کے لیے جان نچھاور کرنے والا ایک محب وطن

0

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد، حیدرآباد

تاریخ کو مسخ کرکے ذہنوں کو زہر آلود کرنے کی مذموم اور متعصبانہ حرکتوں پر روک ضروری
شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ تاریخی جملہ ہے کہ کسی قوم کی تاریخ اس کا اجتماعی حافظہ ہو تی ہے۔ اگر کوئی قوم اپنی تاریخ سے ناواقف رہے تو وہ اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بنانے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ تاریخ صرف فخر و مباہات کے اظہار کے لیے نہیں ہوتی بلکہ تاریخ سے درس بصیرت حاصل کرتے ہوئے آنے والے حالات کے لیے پیش بندی بھی کی جا سکتی ہے۔ بھارت کی تاریخ کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف ہو کر اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہ بتاسکیں کہ اس ملک کی آزادی اور اس کی تعمیر میں مسلمانوں نے کتنا اہم تاریخی رول ادا کیا تھا۔یہ ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ اس ملک کو آزاد کرانے کے لیے تاریخ کے ہر دور میں مسلمانوں نے ہی میر کارواں کا رول ادا کیا ہے۔ ان سرفروشانِ وطن کی فہرست میں ایک نمایاں نام ٹیپو سلطان کاہے۔ یہ وہ مجاہد آزادی ہے جس نے میدان جنگ میں انگریزوں سے مقابلہ کرتے ہوئے وطن کے لیے جان دے دی۔
ٹیپو سلطان کو شہید ہو کر دو صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ان کی حب الوطنی اور مذہبی رواداری کے چرچے اب بھی زبانِ زدِ خاص و عام ہیں۔ انصاف رسانی اور رعایا پروری کے جو نمونے اس کے دور میں نظر آتے ہیں اس کی نظیر اور مثال بہت ہی کم ملتی ہے۔ میسور کی وادیوں میں ٹیپو سلطان نے 20 نومبر 1750 میں ایک ایسے وقت آنکھ کھولی جب کہ بھارت میں انگریزی حکومت نے اپنا اقتدار قائم کرلیا تھا۔ دیسی حکم راں بھی انگریزوں سے سمجھوتے کر کے ان کے باج گزار بن چکے تھے۔ لیکن جوان مرد ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے طوق غلامی کو پہننے سے انکار کر دیا اور اپنے والد حیدر علی کے ساتھ میدان کار زار میں ڈٹا رہا۔ٹیپو سلطان وہ پہلا شخص تھا جس نے برطانوی سامراج کے اقتدار کو بھارت سے ختم کرنے کے لیے بیرونی ممالک کو اپنے سفیر روانہ کیے۔ اس نے نپولین بوناپارٹ سے بھی ربط پیدا کیا۔ نپولین نے وعدہ بھی کیا کہ وہ اپنی افواج کو روانہ کرے گا لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا۔ بیرونی مدد کے نہ ہونے اور دیسی راجاؤں کی جانب سے بھی کسی حمایت کے نہ ملنے کے باوجود ٹیپو سلطان نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل انگریزوں سے بر سر پیکار رہا اور بالآخر میسور کی چوتھی جنگ میں انگریزی فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے ٹیپو سلطان نے 4 مئی 1799 کو وطن پر اپنی جان نچھاور کردی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریز جنرل فرطِ مسرت سے چیخ اٹھے کہ "آج سے انڈیا ہمارا ہے” انگریزوں کا یہ خواب ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد واقعی پورا بھی ہوگیا اور وہ پورے ملک پر قابض ہوگئے۔
ٹیپو سلطان کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی دیگر مذاہب کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ ان کی سلطنت میں کسی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ مشہور مؤرخ اور سابق گورنر اڈیشہ پروفیسر بی این پانڈے نے ٹیپو سلطان کے دور حکومت پر ریسرچ کر کے ثابت کیا کہ ان کا دور ہر لحاظ سے قابل تحسین دور رہا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب "اسلام اینڈ انڈین کلچر” میں ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ نصابی کتابوں میں یہ من گھڑت بات لکھ دی گئی کہ جب ٹیپو سلطان نے برہمنوں کو زبردستی مسلمان بنانا چاہا تو تین ہزار برہمنوں نے خودکشی کرلی۔ جب میں نے تحقیق کی تو یہ بات غلط ثابت ہوئی۔
گاندھی جی بھی ٹیپو سلطان کی مذہبی رواداری ذکر کرتے ہوئے اپنے اخبار "ینگ انڈیا” مورخہ 23 جنوری1930 میں لکھا کہ "ٹیپو سلطان نے مندروں کے لیے بڑی فیاضی سے جائیدادیں وقف کیں۔ ان کے محل کے چاروں طرف سری وینکٹا رمنّا، سری نواس اور شری رنگ ناتھ کے مندروں کی موجودگی سلطان کی وسیع النظری کا ثبوت ہے” آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی رپورٹوں سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ٹیپو سلطان نے میسور کے مختلف علاقوں کی مندروں کو نہ صرف عطیات دیے بلکہ جاگیریں بھی عطا کیں۔ وہ ہندو مذہبی پیشوواؤں کی بھی بڑی قدر و منزلت کرتے تھے۔ جب مرہٹہ افواج نے سری نگری کی مندر کو لوٹا تو اس کے گرو نے ٹیپو سلطان کو خط لکھا کہ "مرہٹہ فوج نے مندر کو لوٹ لیا اور ساردا دیوی کی مورتی کو نکال پھینک دیا ہے اور مندر کے ہاتھی اور گھوڑے بھی لے کر چلے گئے” اس خط کے جواب میں مورخہ 30 مارچ 1791 کو لکھا کہ "ہم ان دشمنوں کو ضرور سزا دیں گے جو ہمارے ملک پر چڑھائی کرکے رعایا کو ستا رہے ہیں۔ آپ کی ذات تقدس مآب اور تارک الدنیا ہے آپ اور دوسرے برہمن ملک کے دشمنوں کی تباہی کے لیے خدا سے دعا کریں” بعد میں ٹیپو سلطان نے مندر کی حفاظت کے لیے اپنی فوج بھیجی۔ راما شیام سندر نے اپنے ایک مضمون میں جو بھارت ٹائمز میں 16نومبر 1985کو شائع ہوا، اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ یہ تمام خطوط اور فرمان آج بھی موجود ہیں۔ ہندوؤں کے جگت گرو کا بھی ٹیپو سلطان بڑا خیال رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے خط میں جگت گرو کے تعلق سے جن جذبات کا اظہار کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دیگر مذہبی پیشواؤں سے کتنی عقیدت رکھتے تھے۔ ایک خط جو گاندھی جی نے اپنے اخبار ینگ انڈیا میں بھی اصل عبارت سے نقل کیا ہے اور پروفیسر بشمبر ناتھ پانڈے نے بھی اپنی کتاب ’اسلام اینڈ انڈین کلچر‘ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ قارئین کے مطالعہ کے لیے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ ٹیپو سلطان نے لکھا کہ "آپ جگت گرو ہیں۔ جس ملک میں آپ جیسی مقدّس ہستی موجود ہو اس میں خدا کی رحمت ہوتی ہے۔ آپ کو ایک غیر ملک میں اس قدر زیادہ عرصہ ٹھیرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کام جلد انجام دے کر واپس آجائیے” ٹیپو سلطان کی مذہبی روا داری کی ایسی کئی مثالیں ہمیں ان کی زندگی میں ملتی ہیں۔
مادر وطن کے ایسے مایہ ناز فرزند کے کردار کو آج مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاریخ کی سچائیوں کو جھٹلا کر من مانی تاریخ مرتب کی جا رہی ہے۔ خاص طور پر مسلم سلاطین کو نشانہ بنا کر ان پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں نوجوان نسل کے ذہن پراگندہ ہوتے جا رہے ہیں۔ بی این پانڈے نے اسی سچائی کو بیان کرتے ہوئے 29 جولائی 1977 کو راجیہ سبھا میں اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ "انگریز مؤرخوں اور استادوں نے جو کچھ پڑھایا اس کے اثرات ہم اب تک دور نہیں کرسکے ہیں۔ اسی تاریخ سے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ ہماری قومی زندگی کے سرچشمے کو آلودہ کیے ہوئے ہیں” ایک اور مورخ این سی سکسینہ نے اپنی کتاب Muslim India 1983 میں اس تلخ حقیقت کو منظر عام پر لاتے ہوئے تحریر کیا کہ "بدقسمتی سے اب تک بھارت کی تاریخ پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان پر فرقہ وارانہ رنگ چھایا رہا ہے۔ اسکولوں اور تاریخ کی جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں وہ نسلی اور فرقہ وارانہ تعصب سے بھری ہوئی ہیں”
غیر جانب دار مؤرخین کی ان آراء سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ انگریزوں نے جو تاریخ بیان کی اسی میں اور کئی چیزیں بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے شامل کرکے اسے تاریخ کا نام دے دیا گیا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے”لڑاؤ اور حکومت کرو” کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔
موجودہ عہد میں تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل حکومتی سطح پر ہو رہا ہے۔ اسی طے شدہ پالیسی کے تحت مسلم حکم رانوں کے تعلق سے حقیقت سے بعید باتیں بیان کرکے ملک کے ایک خاص طبقہ میں نفرت اور عداوت کے جذبات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو بڑھا کر اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کی جارہی ہے۔ تاریخ میں زہر گھولنے کا یہ عمل اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں میں شروع ہو چکا ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں تاریخ کے نام پر دیومالائی قصوں اور کہانیوں کو شامل کر دیا گیا ہے۔ اس سے مسلمانوں کے مذہبی عقائد پر بھی ضرب پڑتی ہے۔ ملک کی کئی یونیورسٹیوں بشمول عثمانیہ یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن سطح پر پڑھائی جانے والی تاریخ سے مسلم دور حکومت کو نصاب سے خارج کر دیا گیا ہے۔ اب بھارت کے عہد وسطیٰ کی تاریخ ایک قصہ پارینہ بن جائے گی۔ مسلمانوں کی آئندہ نسلیں یہ جان بھی نہ سکیں گی کہ مسلمانوں نے اس ملک پر کتنے طویل عرصہ تک حکم رانی کی تھی۔ پورے ایک ہزار سالہ دور حکومت کو بیک جنبش قلم حذف کر دینا تاریخ کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے۔ ٹیپو سلطان ہو کہ سراج الدولہ، اورنگ زیب ہو کہ بہادر شاہ ظفر، یہ اس ملک کے حکم راں رہے ہیں اور انہوں نے اپنے دور حکومت میں جو نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں اس کو فراموش کرنا قوم کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عہد حاضر کے انصاف پسند مؤرخین جن میں بیشتر غیر مسلم ہیں، انگریزوں کی کارگزاریوں کو بے نقاب کرتے ہوئے تاریخ کو اس کے صحیح پس منظر میں پیش کر رہے ہیں۔ اس میں کئی غیر مسلم مؤرخین اور صحافیوں کے نام لیے جا سکتے ہیں جو اس اہم کام کو انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر بی این پانڈے کے علاوہ بھگوان ایس گڈوانی کا نام خاص طور پر ٹیپو سلطان کے حوالے سے لیا جانا ضروری ہے۔ ان کی کتاب Sword of Tipu Sultan تاریخی حیثیت سے ایک مستند کتاب مانی جا تی ہے۔ گڈوانی نے ایک ایک واقعہ کی چھان بین کرکے یہ ثابت کیا کہ ٹیپو سلطان کی شخصیت کو متعصب مؤرخین نے جس انداز میں بیان کیا ہے وہ بالکلیہ طور پر غلط ہے۔ اسی کتاب کی بنیاد پر فلم اسٹار سنجے خان نے ٹیپو سلطان پر ٹی وی سیریل بنائی تھی جو کافی مقبول ہوئی۔اسے دو مرتبہ ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ گڈوانی نے اپنی کتاب میں خاص طور پر ٹیپو سلطان کی مذہبی رواداری کے واقعات کو قلمبند کر کے آنے والی نسلوں کو یہ بتا دیا کہ ایک حریت پسند اور مذہبی روادار شخصیت کے کردار کو تنگ نظر تاریخ دانوں نے کیسے داغ دار کرنے کی گھناؤنی حرکتیں کی ہیں۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر جب کہ بھارت ہندتوا کے نام پر ایک نئی انگڑائی لے رہا ہے۔ ملک کے دستور کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں ہمیں تاریخ سے سبق لیتے ہوئے ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ تاریخی واقعات یا مسلم حکم رانوں کے کارناموں کو بیان کرکے ہم ’سلطان پدرم بود‘ کی ذہنیت اپنے پر مسلط کرلیں تو یہ بھی کوئی دانش مندی نہیں ہو گی۔ علامہ اقبال نے سلطان ٹیپو کی وصیت کے نام پر جو نظم لکھی ہے وہ ملاحظہ فرمائیں جو کہ نئی نسل کے لیے ایک بہترین پیغام بھی ہے :
تُو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جُوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تُند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صَنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز! گرمیِ محفل نہ کر قبول
صُبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جِبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دِل نہ کر قبول
باطل دُوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شِرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول

 

***

 انصاف پسند مؤرخین جن میں بیشتر غیر مسلم ہیں، انگریزوں کی کارگزاریوں کو بے نقاب کرتے ہوئے تاریخ کو اس کے صحیح پس منظر میں پیش کر رہے ہیں۔ اس میں کئی غیر مسلم مؤرخین اور صحافیوں کے نام لیے جا سکتے ہیں جو اس اہم کام کو انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر بی این پانڈے کے علاوہ بھگوان ایس گڈوانی کا نام خاص طور پر ٹیپو سلطان کے حوالے سے لیا جانا ضروری ہے۔ ان کی کتاب Sword of Tipu Sultan تاریخی حیثیت سے ایک مستند کتاب مانی جا تی ہے۔ گڈوانی نے ایک ایک واقعہ کی چھان بین کرکے یہ ثابت کیا کہ ٹیپو سلطان کی شخصیت کو متعصب مؤرخین نے جس انداز میں بیان کیا ہے وہ بالکلیہ طور پر غلط ہے۔ اسی کتاب کی بنیاد پر فلم اسٹار سنجے خان نے ٹیپو سلطان پر ٹی وی سیریل بنائی تھی جو کافی مقبول ہوئی۔اسے دو مرتبہ ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 نومبر تا 23 نومبر 2024