![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2024/12/20241229-2.jpg)
ریاستی جرائم،بھارتی مسلمان اور جمہوری نظام پر بڑھتے خدشات
!اسلاموفوبیا کی بازگشت، نسل پرستی کا نیا رنگ
محمد آصف اقبال، نئی دہلی
نفرت کی تقاریر اور عدلیہ کی خاموشی ! کیا انصاف بے معنی ہو رہا ہے؟
موجودہ زمانے میں انسانوں پر مختلف طریقوں سے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ بے قصور لوگوں کو مجرم بنانے کی منظم و منصوبہ بند کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ اور جب مقدمات قائم ہوتے ہیں تو ظالم بری ہوجاتا ہے اور مظلوم مجرم قرار پاتا ہے۔ غالباً انہی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ارسطو نے کہا ہوگا کہ قانون ایک ایسا مکڑی کا جالا ہے جس میں کمزور تو پھنس جاتا ہے اور طاقتور اسے توڑ کر نکل جاتا ہے۔ ان حالات میں معاشرے کے لیے سب سے زیادہ ضرر رساں اور تکلیف دہ وہ کھلے مجرم ہوتے ہیں جنہیں حکومت وقت نے سیاسی تحفظ عہدے کی شکل میں دے دیا ہو۔ ایسے لوگ علی الاعلان ہر طرح کی لوٹ کھسوٹ، سرکشی اور من مانی کے مرتکب ہوتے ہیں اور متاثرہ عوام بے بسی سے خون کے گھونٹ پینے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے کیونکہ صدائے احتجاج حکام بالا کے کان تک پہنچے بھی تو دوسرے کان سے نکال دی جاتی ہے، اور بعض اوقات تو صدائے احتجاج کرنے والوں کو ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ کفر کا نظام کچھ وقت کے لیے قائم تو رہ سکتا ہے، لیکن ظلم و ناانصافی کا نظام نہیں چل سکتا، یعنی اسے ایک دن ختم ہونا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ جنوری 2017 میں When Crime Pays (جب جرم نفع بخش ہوتا ہے) کے عنوان سے ایک کتاب شائع ہوئی، جس کے مصنف کارنیگی وقف برائے امنِ عالم کی جنوب ایشیا شاخ کے ڈائریکٹر ملن ویشنَو تھے۔ کتاب کا ذیلی عنوان تھا "ہندوستانی سیاست میں دولت اور قوتِ اعضا (غنڈہ گردی) کا مجرمانہ استعمال”۔ ہمارے یہاں سیاست اور جرم کے گٹھ جوڑ پر یہ پہلا وقیع مطالعہ ہے جسے دستاویزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ فاضل مصنف نے، جو سیاسی اقتصادیات کے ماہر ہیں اور امریکہ کی کئی بڑی یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض انجام دے چکے ہیں، اپنی اس کتاب میں بڑی عمدگی سے سادہ اور عام فہم زبان میں تجزیہ کیا ہے کہ ہندوستانی سیاست کس طرح مافیاؤں کے چنگل میں ہے اور کیوں ہے؟ انہوں نے یہ کتاب میز کرسی پر بیٹھ کر نہیں لکھی، بلکہ اعداد و شمار کھنگالنے کے بعد ہندوستان آکر سات سال تک میدان میں زمینی حقائق سے واقف ہوئے اور سیکڑوں متعلقہ اور متاثرہ افراد سے انٹرویو کیے۔ ملن نے کتاب کے بنیادی تھیم کے طور پر اپنے سامنے دو سوال قائم کیے تھے: اول یہ کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں جہاں شفاف اور آزاد انتخابات کے قوانین ہیں، وہاں مجرمانہ عناصر کیوں کر پورے جمہوری عمل میں سرایت کر جاتے ہیں؟ دوئم یہ کہ عوام جانے پہچانے مجرموں کو کس بنا پر ووٹ دے دیتے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ عوام کے بیشتر مسائل سرکاری شعبوں اور محکموں سے متعلق ہوتے ہیں، جہاں کوئی با اثر شخصیت ہی ان کے "کام” کرا سکتی ہے۔ اس "کام کرانے” کی صلاحیت کو پیمانہ بنا کر وہ کسی مرنجاں مرنج قسم کے "شریف” امیدوار کی نسبت کسی خیرہ سر کو منتخب کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس کیفیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کے سامنے جس وقت حقِ رائے دہندگی کا معاملہ آتا ہے، اس وقت ان کے سامنے مختلف نسبتیں اور مفادات پیش نظر ہوتے ہیں، برخلاف اس کے جس عوامی نمائندے کو وہ منتخب کر رہے ہیں وہ بذات خود کیسا ہے اور اس کا ماضی کن برائیوں میں ملوث رہا ہے۔ باالفاظ دیگر، عوام الناس کا خود کا کوئی اعلیٰ معیار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان امور پر توجہ نہیں دیتے جو بعد میں مسائل پیدا کرتے ہیں۔
اس پس منظر میں ہندوستانی سیاست، سیاسی مفادات کے حصول کے لیے نفرت پر مبنی بڑھتی ہوئی بیان بازیاں اور ملک کی اقلیتوں کے خلاف مظالم و جرائم، ان سب حالات نے مل کر ملک کی سب سے بڑی اقلیت، مسلمانوں کے سامنے بے شمار مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ یہاں تک کہ اہل اقتدار اور حزب اختلاف سے وابستہ سیاسی پارٹیاں دو الگ خانوں میں تقسیم ہو گئی ہیں۔ ایک سیاسی لیڈر، جب وہ حزب اختلاف میں ہو تو اس کی تقریر، زبان و بیان اور رویہ مختلف ہوتا ہے، لیکن جب وہ اہل اقتدار سے وابستہ ہو جاتا ہے تو اچانک اس کی زبان، بیان اور رویے میں اقلیتوں کے تعلق سے نفرت ظاہر ہونے لگتی ہے۔
اس مخصوص صورتحال کے پس منظر میں بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی لیڈروں کا اپنا کوئی مستقل نظریہ یا خیال نہیں ہوتا بلکہ گرگٹ کی طرح وہ کسی بھی وقت رنگ بدل سکتے ہیں۔ یہ ایک حد درجہ خطرناک رجحان ہے جو آج کل جمہوری نظام میں ظاہر ہو رہا ہے۔
اسکرول ڈاٹ اِن ویب سائٹ پر ایک مضمون بعنوان "اسٹیٹس کرائمز: کیا ہندوستانی مسلمانوں کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے مجرم بنایا جا رہا ہے؟” شائع ہوا ہے جس میں غزالہ جمیل نے لکھا ہے کہ ہندوستان، آئینی مساوات کی باضابطہ ضمانتوں کے باوجود آج ایک ایسے ماحول کا سامنا کر رہا ہے جہاں فوج داری نظام انصاف کے اندر تعصبات اور اقتدار میں رہنے والوں کو دی گئیں مستثنیات کے نتیجے میں غریبوں اور پسماندہ افراد کے خلاف جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی صورتحال یہ واضح کرتی ہے کہ کس طرح ریاستی قوانین، میونسپل ریگولیشنز اور عہدیداروں کے اعلانات ان پر الزام لگانے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں، جسے صرف "اسٹیٹس کرائمز” کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ وزراء، قانون نافذ کرنے والے حکام اور ججز اکثر ایسے اشتعال انگیز بیانات دیتے ہیں جو مسلمانوں کو قومی سلامتی یا سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرہ ثابت ہوتے ہیں۔
سرکاری اعلانات میں اکثر مسلمانوں غیر محب وطن قرار دیا جاتا ہے اور انہیں قانونی اور غیر قانونی ایذا رسانی کا نشانہ بناتے ہوئے ان قوانین اور پالیسیوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے جن کا مقصد ان کے حقوق اور آزادیوں کو محدود کرنا ہوتا ہے۔ ہندوستان میں مسلم شناخت ایک مذہبی اور ثقافتی اقلیت کے طور پر بڑھتے ہوئے مجرمانہ آئینی مساوات کی حدوں کو ظاہر کرتی ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کو ایسے ضابطوں اور ٹارگیٹڈ پالیسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو مخصوص مجرمانہ کارروائیوں کو جرم قرار نہیں دیتیں بلکہ ان کی سماجی اور ثقافتی موجودگی کو نشانہ بناتی ہیں، جو دیگر جابرانہ حکومتوں کی یاد تازہ کرتی ہیں۔
آپ یہ بات بھی جانتے ہوں گے کہ قانون میں اسٹیٹس کرائم ایک ایسا جرم ہے جو مخصوص رویے یا اعمال کے بجائے کسی شخص کی حیثیت، حالت یا خصوصیات کو مجرم بناتا ہے۔ اسٹیٹس کے جرائم میں افراد کو سزا اس بات کی دی جاتی ہے کہ وہ کون ہیں، نہ کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ عمر، جنس، طبقے، پیشے اور شناخت کے بصری اشاروں کی بنیاد پر انہیں مجرم قرار دیا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں غور کریں کہ ملک میں اگر کسی فرد یا گروہ کو اسٹیٹس کرائم کے زمرے میں رکھ دیا جائے تو اس کی باز پرس اور اس کے حقِ شہریت کی حفاظت کب تک برقرار رہ سکتی ہے؟ اور کیوں کر اس کے حق میں دیگر گروہ اور افراد کھڑے ہوں گے؟
ایک اور مضمون جسے دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے دی وائر میں لکھا ہے، جس کا عنوان ہے: "نفرت، تقریر اور مسلمانوں کی خاموشی”۔ وہ لکھتے ہیں: "اب جو مفروضہ قائم کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ہندو شخصیات کی نفرت انگیز تقاریر سے ہندوستان کے اتحاد کو کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ وہ قوم کو نشانہ نہیں بناتے ہیں اور ہندو فطرتاً غیر متشدد ہیں۔ نفرت انگیز تقاریر جن کا مطلب حقیقی تشدد نہیں ہوتا، وہ بے ضرر ہیں۔ انہیں ہندوؤں میں غصے اور مایوسی کے اظہار کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔” وہیں دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر یہ نفرت انگیز تقاریر آپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ کی جائیں تو یہ یقینی طور پر نفرت انگیز کارروائیاں نہیں ہیں۔ ایک اور دلیل یہ ہے کہ انتخابات وغیرہ جیسے مواقع پر آپ کے حق میں لوگوں کو اکٹھا کرنا جائز ہے۔ اسی طرح ایک دھرم سنسد کے معاملے میں، جہاں ہندوؤں کو ہتھیار اٹھانے کے لیے کہا گیا تھا، دہلی پولیس کے حلف نامے میں کہا گیا کہ تقریب اور تقاریر کسی کے مذہب کو با اختیار بنانے کے بارے میں تھیں تاکہ وہ اپنے آپ کو برائیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار کریں، جو ان کے وجود کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔ اس ملک میں تقریر کی آزادی ہے اور ہندوؤں کی اس طرح کی پرتشدد تقاریر اس حق کا استعمال ہیں۔
وہیں نیلسن منڈیلا کی پوتی انڈیلیکا منڈیلا نے Independent Urdu میں ایک مضمون بعنوان "بھارت میں مسلمانوں سے سلوک میں نسل پرستی کی بازگشت” لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں "مجھے خدشہ ہے اور میں فکر مند ہوں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، جو عالمی جنوب کے لیے طویل عرصے سے ایک امید ہے، تیزی سے وہ کچھ بننے کے خطرے سے دوچار ہو رہی ہے، جس کا اس نے کبھی بے لوث انداز میں سامنا کیا تھا۔ مسمار شدہ مکانات، منظم انداز میں کیا جانے والا امتیازی سلوک اور پولیس کی مدد اور حوصلہ افزائی سے ہجوم کے ہاتھوں ہونے والا تشدد۔ یہاں تک کہ شادیوں پر لگائی جانے والی پابندی۔ اگر یہ 75 سال پہلے کے جنوبی افریقہ کی طرح لگتا ہے تو آپ غلط نہیں ہوں گے۔ لیکن میں آج کے بھارت کی بات کر رہی ہوں جہاں اسلاموفوبیا کو اس مقام تک مرکزی دھارے میں لایا گیا ہے اور منظم شکل دی گئی ہے کہ بھارت ایسے نظام کے خطرے سے دوچار ہو گیا ہے جس میں نسل پرستی جیسی عدم مساوات ہوتی ہے۔”
وہ آگے لکھتی ہیں "ایسا لگتا ہے کہ عالمی برادری یہ بھول گئی ہے کہ امتیازی سلوک کے چھوٹے چھوٹے واقعات بالآخر دنیا کو بدلنے والے واقعات کا باعث بن سکتے ہیں۔ اور بڑے معاشی، جغرافیائی و سیاسی عدم استحکام کے دور میں اس طرح کی کارروائیوں کو نظر انداز کرنا بہت برے نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔”
یہ وہ تجزیات، مفروضے اور حالات ہیں جن سے ہم اور آپ کہیں نہ کہیں دوچار ہوتے ہیں۔ اس موقع پر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہندوستانی معاشرہ مختلف مذاہب کا گہوارہ ہے۔ جہاں تک مذاہب اور عقائد کا معاملہ ہے، اس میں بھی ہر مذہب کا ماننے والا اپنے مذہب اور عقیدے کے تعلق سے عموماً متعصب اور جانب دار ہوتا ہے۔ یعنی وہ جس مذہب، مذہبی امور، تصورات اور عقائد کو مانتا ہے، اس کے بر خلاف مذاہب کے ماننے والوں کو وہ درست نہیں سمجھتا۔
انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ عام انسانی رویہ یہی رہا ہے کہ ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے حقوق سلب کرتے ہیں، یعنی عدم مساوات کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، صرف اس بنا پر کہ وہ اپنے مذہب کو درست و جائز اور دوسرے مذاہب و عقائد کو ناجائز اور کمتر سمجھتے ہیں۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ مذہب کیا ہے؟ مذہب کا معاملہ ان تصورات، عقائد اور علم کے سرچشمے سے ہے جن سے وابستہ ہونے کے بعد انسان اور گروہ حاضر و غائب، ہر دو طرح کے معاملات میں ایک مخصوص نظریہ رکھنے کے حامل ہوتے ہیں۔
وہ امور جو اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں، جیسے ضروریاتِ زندگی، انفرادی و اجتماعی ہر دو سطح پر کیسے پوری کی جائیں۔ وہیں وہ امور، جیسے تخلیقِ انسان، تخلیقِ کائنات، مقصدِ کائنات، اور دنیا کے بعد کی زندگی، جس کا اسے راست علم نہیں ہے۔ اس صورت میں مذہب کے معنی اگر یہی سمجھے جائیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک گھر میں پیدا ہونے والا بچہ، اس کے خاندان اور ملت کا مذہب کچھ ہو اور پڑوس میں پیدا ہونے والے بچے، اس کے گھر، خاندان، اور ملت کا مذہب کچھ اور ہو جائے؟
ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے کہ ایک بچے کا پیدا کرنے والا ایک خالق ہو، دوسرے کا دوسرا، اور تیسرے کا تیسرا خالق ہو؟ کیا یہ ممکن ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام انسانوں کا خالق ایک ہی ہو، اسی کے سامنے سب جواب دہ ہوں، وہی موت و حیات پر قدرت رکھنے والا ہو، اور مرنے کے بعد بھی اسی کے سامنے حاضری ہو۔ اگر عقل ایسا کہتی ہے تو پھر کیوں کر دنیا میں ایک سے زیادہ مذاہب پائے جاتے ہیں؟ اور کیوں کر ایک سے زیادہ عقائد و تصورات موجود ہیں؟
اس کا جواب ہر شخص کو اپنی مختصر سی زندگی میں تلاش کر لینا چاہیے، کیونکہ یہ سوال ہر شخص کی زندگی کا سب سے اہم ترین سوال ہے۔ اگر وہ سوال کا جواب تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور صراط مستقیم معلوم کر لیتا ہے، تو نہ صرف دنیا بلکہ دنیا کے بعد کی زندگی میں بھی سکون و اطمینان حاصل ہوگا۔ نتیجے میں اس دنیا میں ایک انسان دوسرے انسان کے تعلق سے ہمدردی اور محبت کے جذبے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے میں کامیاب ہوگا، اور دنیا کے تمام انسانوں کو اپنا ہمنوا بنانے میں بھی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ اسی سے یہ دنیا امن کا گہوارہ بنے گی۔ برخلاف اس کے ایک دوسرا نظریہ ‘عدم مساوات’ کا ہے، جہاں ہر شخص، گروہ اور قومیں ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار رہتی ہیں، جس کا منبع ‘عداوت’ ہے۔ عداوت یعنی بغض و عناد، خصومت، مخالفت، اختلاف، جھگڑا، کینہ اور دشمنی سب شامل ہیں۔ غور کیجیے کہ جہاں عداوت ہی عدم مساوات کا منبع ہو، کیا وہاں امن برقرار رہ سکتا ہے؟
***
ہندوستان میں مسلمانوں کی صورتحال یہ واضح کرتی ہے کہ کس طرح ریاستی قوانین، میونسپل ریگولیشنز اور عہدیداروں کے اعلانات ان پر الزام لگانے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں، جسے صرف ’’اسٹیٹس کرائمز‘‘ کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ وزراء، قانون نافذ کرنے والے حکام اور ججز اکثر ایسے اشتعال انگیز بیانات دیتے ہیں جو مسلمانوں کو قومی سلامتی یا سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرہ ثابت ہوتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 دسمبر تا 04 جنوری 2024