
ریاست تمل ناڈو، مسلمان اور آزادی کے 79 سال
ڈراوڑ تحریک، مسلم قیادت اور ریاستی سیاست میں شراکت کا سفر
مشتاق رفیقی
قائد ملت محمد اسماعیل سے توحید جماعت تک۔۔۔ نمائندگی کی بدلتی تصویریں
فرقہ پرستی کے بڑھتے سائے اور ریاستی مسلمانوں کے امکانات و خدشات
کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ یا ایک ’ عیار سسٹم کی ذہنی غلامی ‘ میں جکڑے ہوئے؟
ریاست تمل ناڈو کے مسلمانوں میں جدید طرزِ سیاست کا آغاز بیسویں صدی کے اوائل سے ہی شروع ہو گیا تھا جب انہوں نے انگریزوں کے خلاف عوامی تحریکوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ مدراس پریسیڈنسی میں برہمن غلبے کو لے کر سنہ 1916 میں جسٹس پارٹی قائم ہوئی جو آگے چل کر ڈراوڑ تحریک کی بنیاد بنی۔ جسٹس پارٹی نے اپنے وقت میں خلافت موومنٹ کا کھل کر ساتھ دیا بلکہ جب وہ مدراس پریسڈنسی میں برسرِ اقتدار آئی تو نہ صرف اسمبلی میں بلکہ ریاست کے مختلف دفاتر میں بھی مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کو یقینی بنایا اور یوں ریاستی مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ پریار ای اوی راماسوامی شروعات میں کانگریس پارٹی کے ساتھ رہے مگر بہت جلد کانگریسی برہمن لیڈرشپ کی پالیسیوں کی وجہ سے ناراض ہو کر تحریک عزت نفس شروع کی اور کانگریس سے الگ ہو کر جسٹس پارٹی میں شامل ہوگئے۔ مسلمانوں نے پہلے تو ان کے الحاد پر مبنی تحریک کو بڑے شکوک کی نظروں سے دیکھا مگر جب علامہ کریم غنی جو نیتاجی سبھاش چندر بوس کے صف اول کے سپاہیوں میں سے تھے اور پہلی تمل مسلم خاتون ناول نگار سدھی جنیدہ بیگم جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے پریار کی سماجی انصاف پر مبنی خود اعتمادی کی تحریک پر اعتماد کا اظہار کیا تو وہ بھی اس تحریک میں شامل ہوگئے۔ اپنے کھلے الحاد کے باوجود پریار اسلام اور مسلمانوں کے تئیں بہت مثبت سوچ رکھتے تھے، انہوں نے 1947 کے اوائل میں کڈی اراسو میں یوں لکھ کر کہ چھوت چھات کو مٹانے کے لیے اسلام ہی تریاق ہے، خود اپنے ماننے والوں کو حیران کر دیا تھا۔
آزادی سے پہلے مدراس پریسڈینسی میں جن مسلم لیڈروں نے مسلم نمائندگی کا حق ادا کیا ان میں دیوان خان بہادر پی خلیفۃ اللہ کا نام سرِ فہرست ہے۔ وہ 1930 میں مسلم لیگ کی جانب سے مدراس پریسڈینسی کے لیے چنے گئے۔ پریار سے ان کا دوستانہ تعلق رہا اور پریار کی تحریک عزت نفس کے کھلے حامی رہے۔ اسی دور میں انہوں نے جنوب پر ہندی تھوپے جانے کی شدید مخالفت کی اور پریار کی ہندی مخالف مظاہروں میں حصہ لیا۔
خان بہادر سر محمد عثمان، مدراس پریسڈینسی کے قابل مسلم سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جسٹس پارٹی کی سری راماکرشنا رنگا راؤ حکومت میں بطور وزیر داخلہ خدمات انجام دیتے رہے اور 1934 میں ایک مختصر مدت کے لیے مدراس کے پہلے ہندوستانی قائم مقام گورنر بھی بنے۔
جمال محمد راؤتر 1928 سے 1949 تک صوبہ مدراس مسلم لیگ کے صدر رہے۔ گاندھی جی کے ساتھ ان کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ ریاست میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے میں ان کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ علامہ اقبال اور سید سلیمان ندوی کو بلا کر مدراس میں تقریریں کروائیں جن کی آج بھی تاریخی اہمیت ہے۔
ان کے علاوہ بھی مسلم سیاست دانوں کی ایک بڑی فہرست ہے جو مدراس پریسیڈنسی میں آزادی سے پہلے سرگرم رہے اور جنگ آزادی میں بھی ایک نمایاں کردار ادا کیا جن میں ایم محمد اسماعیل کا نام نامی بھی آتا ہے جو 1946 سے 1952 تک مدراس لیجسلیٹیو اسمبلی کے ممبر اور حزب اختلاف کے رہنما رہے، اس کے علاوہ انہیں تقسیم کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کا بانی بھی مانا جاتا ہے۔
مدراس پریسیڈنسی میں جہاں کانگریس پارٹی اور جسٹس پارٹی کا زور رہا وہیں مسلم لیگ بھی ایک نمایاں کردار ادا کرتی رہی۔ آزادی اور تقسیم کے دوران ملک بھر میں خوفناک فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے جس سے سہم کر شمالی ہندوستان میں بہت سارے مسلم لیگیوں نے پارٹی چھوڑ دی اور پورے ملک میں لیگ کے دفتر بند کر دیے گئے۔ اس صورتحال میں صوبہ مدراس کے مسلم لیگ کے ممبروں نے مدراس گورنمنٹ اسٹیٹ کے بینکوئٹ ہال میں اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک میٹنگ کی جس میں ایم محمد اسماعیل جو قائد ملت کے نام سے زیادہ پہچانے جاتے تھے، انہوں نے فیصلہ کیا کہ تقسیم ہند کے بعد مسلم معاملات کے مخدوش حالت کو دیکھتے ہوئے پارٹی کو بطور انڈین یونین مسلم لیگ جاری رکھنا بہتر رہے گا۔ کہا جاتا ہے کہ قائد ملت پر پارٹی کو ختم کرنے اور کانگریس میں شامل ہو جانے کے لیے بہت دباؤ پڑا مگر وہ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ پورے ملک میں صرف مدراس پریسیڈینسی میں لیگ مشکل ماحول کے باوجود اپنے آپ کو بچا پانے میں کامیاب رہی جس کی وجہ یہاں کی ڈراوڑ تحریک تھی جو شروعات سے ہی مسلمانوں کے کاز کی حمایت میں اور ان سے ہمدردی رکھنے میں پیش پیش رہی۔ تقسیم کے بعد جب ملک بھر میں مسلمانوں کے ساتھ سیاسی بھید بھاؤ شروع ہوگیا اور انہیں ایک طرف کیا جانے لگا تو صرف مدراس پریسیڈنسی اور بعد میں ریاست تمل ناڈو کے مسلمان ڈراوڑ تحریکوں سے اپنے مضبوط گٹھ بندھن کی بدولت اس طرح کے سلوک سے محفوظ رہے۔
آزادی کے بعد صوبہ مدراس کی کانگریس حکومت نے مسلمانوں کو مہیا بہت سے مراعات کو یک لخت ختم کر دیا، گورنمنٹ محمڈن کالج کو ختم کرکے اسے گورنمنٹ ویمنس کالج بنا دیا، جسٹس پارٹی کی قائم کردہ اسکول آف یونانی میڈیسن کو بند کردیا اور سب سے بدتر وہ حکومتی حکم نامہ تھا جس کے تحت پولیس کانسٹیبلری میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی جب کہ ابھی تک پولیس بٹالین کی تشکیل نہیں ہوئی تھی۔ بڑے شور و غوغا کے بعد یہ حکم نامہ 1952 کے اوائل میں وزیر خزانہ گوپال ریڈی نے واپس لیا۔ ایسے مشکل حالات میں پریار مسلمانوں کے ساتھ کھڑے رہے اور بعد میں سی این انّادورئی جنہوں نے پریار سے الگ ہو کر ڈی ایم کے کی بنیاد رکھی وہ بھی قول و عمل سے ریاستی مسلمانوں کے ساتھ جڑے رہے۔ پریار کی ڈی کے کے برعکس ڈی ایم کے "اونڈرے کلم، اوروونے دیئوم” (ایک خدا، ایک لوگ) کے نعرے کے ساتھ جب انتخابی سیاست کے دنگل میں اتری تو اس کا مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت نے گرم جوشی سے استقبال کیا۔
ان حالات میں بھی مسلمانوں کی اشرافیہ کا ایک بڑا طبقہ کانگریس کے ساتھ ہی جڑا رہا اور کانگریس جانتے بوجھتے بھی انہیں حکومت میں شامل کرنے سے کتراتی رہی۔ 1946 سے 1962 تک ریاست میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں بنایا گیا، مسلسل نا انصافی کے بعد کے کامراج ناڈار جب 1962 میں تیسری مرتبہ ریاست کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تو ایس ایم عبدالمجید کو ریاست کی کانگریسی قیادت والی اس حکومت میں وزیر بنایا گیا۔
آزادی کے بعد جب مدراس پریسڈینسی کیرالا آندھرا پردیش کرناٹکا اور تمل ناڈو کے درمیان تقسیم ہوگئی تو صرف کیرالا اور تمل ناڈو میں انڈین یونین مسلم لیگ اپنی پہچان برقرار رکھنے میں کامیاب رہی اور بطور ریاست کے مسلمانوں کی نمایندہ سیاسی تنظیم ابھری۔ قائد ملت ایم محمد اسماعیل 1948 سے 1950 کے درمیان ہندوستان کے آئین کا مسودہ تیار کرنے والی دستور ساز اسمبلی کے رکن رہے اور 1952 میں راجیہ سبھا کے لیے منتخب ہوئے اور بعد میں مسلسل کیرالا کے منجیری پارلیمانی حلقہ سے تین بار 1962، 1967، 1971 عام انتخابات کے ذریعے لوک سبھا کے لیے منتخب ہوتے رہے۔ قائد ملت ایم محمد اسماعیل اور ڈی ایم کے رہنما انّادورائی کے درمیان بڑی گہری قربتیں تھیں۔ جہاں قائد ملت نے ڈراوڑ تحریک کے ساتھ قدم بہ قدم شریک ہوکر اس کو طاقت بخشی، پارلیمنٹ میں تمل زبان کو سرکاری زبان قرار دینے کا مطالبہ رکھا وہیں انّادورئی نے انڈین یونین مسلم لیگ کی حمایت میں کبھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ 1965 کے ہندی مخالف مظاہروں کے بعد جس میں تمل بولنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شریک رہی، ڈی ایم کے پارٹی کے اندر ایک اقلیتی ونگ بنانے کا مطالبہ عام ہونے لگا جسے انّادورئی نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ جب تک قائد ملت ایم محمد اسماعیل صاحب کی انڈین یونین مسلم لیگ ہمارے ساتھ ہے ہمیں ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ڈی ایم کے کے ساتھ اتحاد کی بدولت انڈین یونین مسلم لیگ 1967 میں تین سیٹوں کے ساتھ پھر سے تمل ناڈو اسمبلی میں داخل ہوئی۔ انّادورئی کے بعد ایم کروناندھی نے بھی اس اتحاد کو جاری رکھا اور ڈی ایم کے حکومت کے تحت ریاستی مسلمانوں کے کئی کمیونٹیوں کو پسماندہ طبقے کے زمرے میں شامل کرایا تاکہ ریزرویشن کے اہل ہو سکیں، میلاد النبی کے دن تعطیل کا اعلان کیا، کانگریس کی جانب سے محمڈن کالج کی نام میں تبدیلی کی تلافی کرتے ہوئے گورنمنٹ ویمنس کالج کا نام بدل کر قائد ملت گورنمنٹ ویمنس کالج رکھا۔ اس کے علاوہ مدراس کے مضافات میں ایک نئے کالج کے لیے زمین کا عطیہ دے کر قائد ملت کالج فار مین قائم کیا۔
اقتدار میں آنے کے پہلے ہی عشرے میں ڈی ایم کے کے اندر اختلافات رونما ہوگئے اور ڈی ایم کے کا عوامی چہرہ سمجھے جانے والے مشہور تمل سنیما اداکار ایم جی رامچندرن نے 1972 میں پارٹی سے الگ ہوکر اپنی ایک نئی پارٹی آل انڈیا انّا ڈراوڑ منیڈا کژگم کی بنیاد رکھی اور 1977 میں اپنی پارٹی کی شاندار جیت کے بعد بحیثیت وزیر اعلیٰ ریاست کی باگ دوڑ سنبھالی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ کے اس دعوے کے باوجود کے وہ ریاستی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے، ریاستی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد دونوں ڈراوڑ پارٹیوں کے سیاسی منظر نامے میں بھی شامل نظر آتی رہی۔ 1980 کے بعد ریاستی مسلمانوں کے معاشی حالات میں بھی خلیجی ممالک میں ملازمتوں کی وجہ سے سدھار آنے لگے۔ اس بیچ میناکشی پورم میں تبدیلی مذہب کا ایسا واقعہ پیش آیا کہ جس کی وجہ سے نہ صرف تمل ناڈو میں بلکہ ملک بھر میں فرقہ پرست طاقتوں کو ابھرنے کا موقع ملا۔ ریاستی حد تک ایم جی آر کی اے آئی اے ڈی ایم کے حکومت نے حالات کو بخوبی سنبھال لیا اور فضا کو فرقہ پرستی سے مکدر ہونے نہیں دیا۔ ایم جی آر کی اے آئی اے ڈی ایم کے حکومت ہو یا جے للیتا کی یا ڈی ایم کے کی کروناندھی کی حکومت، ان تمام حکومتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی ضرور رہی۔ مسلم لیگ نے دونوں ڈراوڑ پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر کے اسمبلی میں اپنی آواز کو بنائے رکھا۔ ریاستی مسلمانوں نے کبھی بھی مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں کیا جس کا مظاہرہ الیکشن در الیکشن سامنے آتا رہا۔ انہوں نے ہمیشہ ڈراوڑ پارٹیوں کا ساتھ دیا اور کانگریس وغیرہ دوسری پارٹیوں سے دوری بنائے رکھی۔
سن 2000ء کے بعد ریاستی مسلمانوں کی سیاست میں واضح تبدیلی نظر آنے لگی۔ جہاں ریاست میں انڈین یونین مسلم لیگ کی مسلمانوں کی واحد نمائندہ تنظیم کی حیثیت ختم ہوئی وہیں مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہوئے کئی نئی تنظیمیں سامنے آئیں جن میں ریاستی سطح کی مشہور اصلاحی تنظیم تمل ناڈو توحید جماعت جس کی سماجی شاخ تمل ناڈو مسلم منیڈا کژگم کی سیاسی ونگ منیدانئیا مکل کٹچی قابل ذکر ہے۔ کٹر سلفی نظریات سے متاثر یہ تنظیم اور پارٹی ریاست کے مسلمانوں میں اپنی پہچان بنانے میں بڑی حد تک کامیاب رہی ہے۔
ریاست میں مسلمانوں کی تعداد سات فیصد کے قریب بتائی جاتی ہے اور یہ پوری ریاست میں پھیلی ہوئی ہے۔ بہت کم اسمبلی یا پارلیمانی حلقے ایسے ہیں جہاں یہ انتخابات پر اثرانداز ہو سکیں۔ اس کے باوجود ریاست میں مسلم لیگ اور ایم این ایم کے کے علاوہ مسلمانوں کے درمیان کئی سیاسی پارٹیاں برساتی مینڈکون کی طرح نمو دار ہوگئی ہیں۔ ان پارٹیوں میں وہ دھڑے بھی شامل ہیں جو مسلم لیگ اور تمل ناڈو توحید جماعت سے الگ ہوکر اپنی سیاسی پہچان بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
جیسا کہ ریاستی مسلمانوں کے تعلق سے یہ بات پہلے ہی سے مشہور اور ثابت شدہ ہے کہ یہ ووٹنگ کبھی بھی مذہب کی بنیاد پر نہیں کرتے، ان میں کی ایک قابل ذکر تعداد جہاں ڈی ایم کے کے ساتھ ہے وہیں اے آئی اے ڈی ایم کے ساتھ بھی ایک اچھی تعداد رہتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علاقائی پارٹیوں میں بھی یہ صف اول کے عہدوں میں پائے جاتے رہے ہیں۔ اور جب سے تعلیم اور میڈیا کی وجہ سے عوامی بیداری آئی ہے اور لوگوں میں سیاسی شعور جاگنے لگا ہے، مسلمانوں میں اپنے حقوق کی بنیاد پر سیاسی پارٹیوں سے سوال کرنے اور ان کی حمایت کرنے کا رجحان بڑھا ہے۔
موجودہ حالات میں جب ملک کی فضا فرقہ پرستی کی زہر سے مکدر ہوگئی ہے، بی جے پی ریاست میں مذہب کی بنیاد پر اپنا رسوخ بڑھانے اور اپنا ایک الگ ووٹ بینک بنانے کی کوشش میں لگا تار مصروف ہے اور اس کے نشانے پر راست طور پر ریاست کے مسلمان اور ان کے شعائر آگئے ہیں۔ ایسے میں مسلم سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتحاد کا فقدان، ان پارٹیوں کا اپنے واضح دشمن کو پہچاننے سے شعوری انکار اور ان کے صرف ایک دو سیٹ کی خاطر ادھر اُدھر ہو جانے کی روِش سے ریاست کے مسلمانوں میں ایک بے چینی پائی جارہی ہے۔ ریاست کے ڈراوڑ پارٹیوں میں صرف ڈی ایم کے اور اس کے اتحادی ہی اپنے اصولوں سے جڑے ہوئے ہیں، پریار اور انّادورئی کے نظریات پر آج بھی پارٹی کو استوار رکھنے میں لگے ہوئے ہیں مگر اے آئی اے ڈی ایم کے جو جے للیتا کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر لیڈر شپ کے فقدان سے دوچار ہے، اس نے کئی محاذوں پر اپنے اصولوں اور نظریات سے سمجھوتہ کرلیا ہے۔ ایسے میں اگر فرقہ پرست طاقتیں ریاست میں کامیاب ہوگئیں تو پھر ان کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ کیسا ہوگا یہ ہر کوئی اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ ریاستی مسلمان ڈی ایم کے سے پوری طرح مطمئن ہیں، کئی مسئلے ایسے ہیں جن میں ڈی ایم کے اور اس کی موجودہ حکومت نے مسلمانوں کو حاشیے میں رکھ کر فیصلہ لیا ہے، پھر بھی مسلمانوں کے حوالے سے اس کی مجموعی کارکردگی بہ نسبت اے آئی اے ڈی ایم کے بہتر رہی ہے۔ یہ بات ریاست کے تمام مسلم سیاسی پارٹیاں بھی اچھی طرح سمجھتی ہیں۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 جولائی تا 23 اگست 2025