ریاست بمقابلہ آزادیٔ فکر: جسٹس مرلی دھر کی تنقید
انسانی حقوق کی اصطلاحیں حکومتوں کو بے چین کرنے کا سبب!۔ جسٹس سچر میموریل لیکچر
نئی دہلی: جسٹس ایس مرلی دھر، سابق چیف جسٹس اڑیسہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل نے 13 دسمبر 2024 کو نئی دہلی میں چوتھا جسٹس سچر میموریل لیکچر دیا۔ یہ لیکچر انڈین سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا کی جانب سے وی کے کرشنا مینن بھون میں منعقد کیا گیا تھا جس میں انہوں نے جسٹس سچر کی بے خوف وراثت کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور ملک میں شہری آزادیوں پر مفصل گفتگو کی ۔
جسٹس راجندر سچر کی شاندار خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے جسٹس مرلی دھر نے کہا ’’جسٹس سچر کبھی اقتدار کے سامنے نہیں جھکے۔ عدالت کے سخت ترین حالات میں بھی ان کا عزم اور حوصلہ قابلِ تقلید تھا۔ ہم جیسے وکلاء جو ان کے دور میں بار میں شامل ہوئے، ان کے لیے وہ ہمیشہ تحریک کا ذریعہ رہے۔ اپنی وسیع تجربات کے باوجود وہ خاکسار، گرمجوش اور ہمدرد شخصیت تھے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر آج جسٹس سچر ہمارے درمیان ہوتے تو وہ ہمیں پرعزم رہنے اور آگے بڑھنے کی تلقین کرتے۔‘‘
جسٹس مرلی دھر نے ’’شہری آزادی اور ہندوستانی تجربہ‘‘ کے زیر عنوان اپنا لیکچر بمبئی ہائی کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کے تناظر میں پیش کیا۔ اس فیصلے میں جسٹس سناک اور جسٹس جتندر جین کی ڈویژن بینچ نے مہاراشٹر چیریٹی کمشنر کے اس ہدایت کو کالعدم قرار دیا جس کے تحت عوامی ٹرسٹوں کو اپنے ناموں سے ’بھرشٹاچار نرملن مہا سنگھ‘، ’ بھرسٹاچار (بدعنوانی) مخالف تحریک‘ اور ’انسانی حقوق‘ جیسے الفاظ کو ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ جمہوریت میں آزادی اظہار و خیال کے سوالات کو اجاگر کرتا ہے۔ جسٹس مرلی دھر نے جارج اورویل کے مشہور ڈسٹوپیائی ناول 1984 کا حوالہ دیتے ہوئے ’’فکری جرائم‘‘ کا ذکر کیا جس میں جابر ریاستیں اختلافی خیالات کو ان کے اظہار سے پہلے ہی دبانے کی کوشش کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا ’’اورویل کی دنیا میں زبان کو ’نیوز پیک‘ کے ذریعے ہتھیار بنایا جاتا ہے جو ایک محدود لغت ہے جس کا مقصد اختلاف اور تنقیدی سوچ کو ختم کرنا ہے۔ آزادی، مساوات اور پرائیویسی جیسے الفاظ ریاست کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔‘‘
جسٹس مرلی دھر نے ہندوستان میں بنیادی آزادیوں کو دبانے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا۔
“ہم اپنی تاریخ کے ایسے مرحلے میں ہیں جہاں خیالات پر قابو پانے کی کوششیں زیادہ دانستہ اور کثرت سے کی جا رہی ہیں۔ وہ خیالات، جن پر دو دہائی قبل کوئی گرفت نہ ہوتی، اب ان پر مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ سوچ اور اظہارِ رائے کی آزادی کو دبانے کی یہ شعوری کوشش جمہوریت اور قانون کی حکم رانی کے قلب پر حملہ ہے۔‘‘
انہوں نے شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کو عام کرنے اور اس پر گفتگو کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
جسٹس مرلی دھر نے عوامی اتحاد برائے شہری آزادی (PUCL) اور عوامی اتحاد برائے جمہوری حقوق (PUDR) جیسی تنظیموں کی کوششوں کو سراہا جو سماجی انصاف، مساوات اور انسانی حقوق کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کی مداخلتوں نے معلومات کے حق اور غذائی تحفظ کے قوانین جیسے انقلابی اقدامات کو جنم دیا۔
انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں پر زور دیا کہ وہ جمہوریت اور سماجی انصاف کے قیام کے لیے چوکنا، شفاف اور متحرک رہیں۔
جسٹس مرلی دھر نے اپنی تقریر کا اختتام فیض احمد فیض کی مشہور اردو نظم "ہم دیکھیں گے” پر کیا جو مشکلات کے خلاف امید اور عزم کی علامت ہے۔
اس پروگرام سے پروفیسر وی جی ہیگڑے، ایگزیکٹو صدر ISIL، سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے پاریکھ، منوج کمار سنہا صدر ISIL، نریندر سنگھ، جنرل سیکرٹری ISIL اور ڈاکٹر سرینواس برا نے بھی خطاب کیا۔
(بشکریہ: ریڈیئنس نیوز بیورو)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 دسمبر تا 28 دسمبر 2024