خبیب کاظمی
غزہ کی شاموں میں وہی شور تھا جو اکثر راتوں کو سنائی دیتا تھا۔ گلیوں میں بموں کی آوازیں اور فضاؤں میں خوف کے سائے۔ لیکن ان ساری آوازوں کے بیچ ایک چھوٹی سی بچی رشا، اپنے کمرے میں خاموشی سے بیٹھی تھی۔ وہ چھت کے چھوٹے سے سوراخ سے آسمان کو تک رہی تھی جہاں چاند نے اپنی ہلکی روشنی کے دامن سے رات کو ڈھک رکھا تھا۔
رشا کے دل میں ایک انجانا سا خوف تھا، لیکن اس خوف کے باوجود، اس کے دل میں ایک عجیب سی روشنی تھی—ایک خواب کی روشنی، ایک امید کی روشنی۔ اس نے اپنے چھوٹے سے بیگ میں کچھ کتابیں، چند کھلونے اور اپنے پسندیدہ کپڑے رکھے ہوئے تھے۔ وہ ان چیزوں کو بڑی محبت سے دیکھتی اور سوچتی:
’’یہ سب میرے کزنز کو دے دوں گی جب میں ان سے ملنے جاؤں گی‘‘
لیکن رشا کے دل میں کچھ اور بھی تھا۔ ایک عجیب سا احساس، جیسے اس کی زندگی کا سفر بہت جلد ختم ہونے والا ہو۔ اس نے اپنے والدین کو خاموشی سے دیکھا جو دوسری طرف کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہے تھے، بموں کی روشنی اور دھماکوں کی آوازوں کے بیچ۔ وہ جانتی تھی کہ یہ سب کب تک چلے گا، اور شاید وہ خود اس کا حصہ بن جائے گی۔
اس رات رشا نے ایک چھوٹا سا کاغذ نکالا اور اپنی ننھی انگلیوں سے لکھنا شروع کیا: ’’اگر میں شہید ہو جاؤں تو میرے کپڑے ضرورت مندوں کو دے دینا۔ میری چیزیں کتابیں، کھلونے میرے کزنز میں بانٹ دینا اور پلیز، میرے لیے مت روئیے گا، کیونکہ آپ کو روتا دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا ہے‘‘
یہ معصوم الفاظ اس بچی کے دل کی گہرائیوں سے نکلے تھے جس نے اپنی مختصر زندگی کے ہر لمحے میں دوسروں کا خیال رکھا تھا۔ اس نے نہ کبھی خود کے بارے میں سوچا، نہ ہی اپنی تکلیفوں کا شکوہ کیا۔ وہ جانتی تھی کہ دنیا میں ایسے لوگ ہیں جنہیں اس کی چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی خوشی دے سکتی ہیں۔
اگلی صبح، سورج کی کرنیں ابھی زمین پر نہ پہنچی تھیں کہ فضاء میں اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ رشا کا گھر زمین بوس ہو گیا اور وہ اپنے بھائی احمد کے ساتھ اس ملبے کے نیچے دفن ہو گئی۔ اس کے والدین چیخ و پکار کرتے ہوئے ملبے کی طرف دوڑے لیکن تب تک سب ختم ہو چکا تھا۔ رشا اور احمد، دونوں ہی اس دنیا سے جا چکے تھے۔
جب امدادی ٹیمیں ملبے میں تلاش کر رہی تھیں تو انہیں رشا کا وہی خط ملا جسے اس نے رات کو لکھا تھا۔ وہ خط اب ایک وصیت بن چکا تھا، ایک معصوم بچی کی آخری خواہش۔
رشا کی یہ وصیت جب اس کے والدین کے ہاتھوں میں پہنچی تو ان کے آنسو بے قابو ہو گئے۔ مگر وہ اپنے بچی کی وصیت کے الفاظ کو یاد کرکے خود کو سنبھالنے لگے۔
’’میرے لیے مت روئیے گا، آپ کو روتا ہوا دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا ہے۔۔۔‘‘
یہ الفاظ ان کے دلوں میں گونجتے رہے۔
رشا کی یہ وصیت، اس کے خواب اور اس کی معصومیت دنیا کو ایک اہم سبق سکھا گئے۔ اس معصوم بچی نے ہمیں سکھایا کہ زندگی کا اصل مقصد کیا ہے—دوسروں کی مدد کرنا، اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں دوسروں کے ساتھ بانٹنا، اور حتیٰ کہ موت کے لمحات میں بھی انسانیت کا جذبہ دل میں زندہ رکھنا۔
یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ جنگ اور ظلم کے باوجود کچھ دل ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ روشنی بکھیرتے ہیں۔ رشا کا دل بھی ایسا ہی تھا جو اپنے آخری لمحات میں بھی انسانیت اور محبت کی مثال بن گیا۔ اس کی معصومیت اور قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
[email protected]
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اکتوبر تا 19 اکتوبر 2024