ریزرویشن یا ’وستر ہرن‘ : منی پور ، بی ایچ یو اور مہوا موئیترا

عورت کو عزت ، وقار اور اختیاردینے کی باتیں زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکیں

ڈاکٹر سلیم خان

کیا خواتین کو پارلیمنٹ میں 33 فیصد ریزرویشن دے دینے سے ان کا آوازہ بلند ہو جائے گا؟ شعلہ بیان رکن پارلیمان مہوا مویترا کی حالت زار اس خیال کی نفی کرتی ہے۔ اس سے بڑا سوال یہ بھی ہے کہ کیا چند خواتین کے ایم پی اور ایم ایل اے بن جانے سے عام خواتین با اختیار ہو جائیں گی؟ ان کے حقوق بحال اور عزت و آبرو محفوظ ہوجائے گی؟ ملک میں خواتین کی ابتر صورت حال ان سوالات پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
خواتین ریزرویشن بل کی منظوری کے ساتھ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح ہوا۔ وزیر اعظم مودی کسی منفرد سرگرمی سے اسے یادگار بنانا چاہتے تھے اس لیے متعدد شرائط کا پابند بنا کر یہ تماشا اس طرح کیا گیا کہ ’نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی‘۔ خواتین کو سیاسی حقوق دلانے والا یہ بل گزشتہ 13 سال سے سرد خانے میں پڑا تھا۔ 12 سال قبل اس بل پر ایوانِ بالا میں ہنگامے کے بعد ایوانِ زیریں میں پیش نہیں کیا جاسکا لیکن آئندہ عام انتخابات کے پیش نظر مودی سرکار نے خواتین کو ایک جھنجھنا پکڑوا کر خوش کرنے کوشش کی۔ ویسے اس پر عمل درآمد تو پانچ یا دس سال بعد ہی ہوسکے گا تب تک وہ اپنی مدت کار مکمل کرچکے گا مگر ایک سوال یہ ہے کہ کیا خواتین کو پارلیمنٹ میں 33 فیصد ریزرویشن دے دینے سے ان کا آوازہ بلند ہو جائے گا؟ شعلہ بیان رکن پارلیمنٹ مہوا مویترا کی حالت زار اس خیال کی نفی کرتی ہے۔ اس سے بڑا سوال یہ بھی ہے کہ کیا چند خواتین کے ایم پی اور ایم ایل اے بن جانے سے عام خواتین با اختیار ہو جائیں گی؟ ان کے حقوق بحال اور عزت و آبرو محفوظ ہوجائے گی؟ ملک میں خواتین کی ابتر صورت حال ان سوالات پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
خواتین ریزرویشن بل کی منظوری کے بعد مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے نام سے ایک مضمون ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہوا۔ موصوف جس طرح کی زبان استعمال کرتے ہیں اس سے نہیں لگتا کہ انگریزی تو دور گجراتی میں بھی مضمون لکھنا ان کے بس کی بات ہو۔ اس حقیقت کو وزیر اعظم نریندر مودی سے زیادہ کوئی نہیں جانتا پھر بھی انہوں نے ایکس پر مضمون کو منسلک کرکے لکھا، اس میں کہا گیا کہ ’ناری شکتی وندن قانون‘ پالیسی اور قانون سازی میں خواتین کی شرکت میں حائل بڑی رکاوٹ کو دور کرتاہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے ذریعہ وزیر اعظم کے لیے توصیفی کلمات ان کی قیادت میں مرکزی حکومت کی طرف سے ایوانِ پارلیمنٹ میں ناری شکتی وندن بل پیش کرنے پر وزیر اعظم کے شکریہ کا جواب تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’ناری شکتی وندن بل‘ ایک ایسا فیصلہ ہے جس سے ملک کی خواتین کو حقیقی معنوں میں حقوق ملیں گے۔ یہ اسی طرح کا دعویٰ ہے جو کنگنا رناوت نے کیا تھا کہ ملک کو حقیقی معنیٰ میں آزادی تو 2014 میں ملی ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ پالیسی ہو یا قیادت، ہندوستان کی خواتین کی طاقت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہر میدان میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ یہ بات تو مہوا مویترا تو پہلے ہی ثابت کرچکی ہیں مگر اس کی انہیں سزا دی جا رہی ہے اور حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ وزیر داخلہ کے مطابق مودی حکومت کا ماننا ہے کہ ایک مضبوط اور خود کفیل ہندوستان کی تعمیر خواتین کی طاقت کی حمایت اور قوت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ان کے مطابق ملک کی خواتین کو جائز حقوق دینے کا مودی حکومت کا یہ فیصلہ آنے والے وقت میں ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ہندوستان کی تعمیر کا اہم ستون بنے گا۔ بی جے پی کے نزدیک سمرتی ایرانی اور پرگیہ ٹھاکر جیسی چاپلوس اور ڈرامہ باز خواتین ہی اس سے استفادہ کرسکیں گی۔ مودی سرکار میں مہوا مویترا جیسی خواتین کو نہیں بلکہ ایرانی اور پرگیہ وغیرہ کو ہی ترقی و خوشحالی کے مواقع ملیں گے۔ ان میں سے کوئی شراب خانہ کھولے گی اور کوئی گئو موتر بیچے گی مگر سیاست کی دوکان آباد رہے گی۔
خواتین ریزرویشن بل کی منظوری کو امیت شاہ نے سناتن دھرم سے جوڑ کر لکھا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کی جمہوریت میں ’’यत्र नार्यस्तु पूज्यन्ते, रमन्ते तत्र देवता:‘‘ کے اصول کو نافذ کیا ہے۔ مہوا مویترا نے پارلیمنٹ کی اخلاقیاتی کمیٹی سے احتجاجاً نکل کر مہابھارت کے وستر ہرن کا حوالہ دے دیا۔ اس طرح گویا قول و عمل دونوں کا تعلق ہندو مذہبی صحیفوں سے جڑ گیا۔ بی جے پی کی نظر میں ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہوا مویترا کا اصلی قصور یہ ہے کہ انہوں نے گوتم اڈانی سے متعلق سوالات پوچھ لیے اور بقول راہل گاندھی ’’راجہ کی جان طوطے میں‘‘ کے مصداق مودی کی روح اڈانی کے اندر براجمان ہے۔ مہوا کو سزا دینے کے لیے ان پر اوٹ پٹانگ الزامات لگا کر پارلیمانی اخلاقیاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا نوٹس دیا گیا لیکن وہاں ان سے ایسے غیر اخلاقی سوالات کیے گئے کہ وہ آگ بگولہ ہو کر باہر نکل آئیں اور الزام لگایا کہ پینل توہین آمیز ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھ رہا ہے۔ مہوا سے پوچھا گیا کہ وہ رات دیر گئے کن لوگوں سے باتیں کرتی ہیں اور ہوٹل میں کس کے ساتھ ٹھہرتی ہیں وغیرہ۔ اس طرح کی تضحیک کو مہوا نے اگر محاوراتی ”وستر ہرن“ (بے لباس کرنا) قرار دیا تو کیا غلط کیا؟
مہوا مویترا کو اس سے پریشانی ہوسکتی ہے مگر سناتن ثقافت کی علامت مہا بھارت میں پانڈو اپنی بیوی کو جوئے میں ہار جاتے ہیں اور دروپدی کو گرو دروناچاریہ کی موجودگی میں کوروؤ بھری محفل میں بے لباس کرنے کی جرات کرتے ہیں۔ سنگھ پریوار اسی پرمپرا کا علم بردار ہے۔ امیت شاہ کو اس پر فخر ہے اس لیے ہندو راشٹر میں خواتین ریزرویشن کے تحت کامیاب ہونے والی ارکان اگر مہوا مویترا کی مانند تیکھے سوالات کریں گی تو ان کا نہ صرف محاوراتی بلکہ اصلی وستر ہرن بھی بعید نہیں ہے۔ منی پور سے جب خواتین کو برہنہ کرکے ان کی ویڈیو بنانے کا معاملہ سامنے آیا تھا تو وزیر اعظم مودی نے کانگریس کے زیر انتظام ریاستوں کا ذکر کرکے کہا تھا کہ وہاں بھی خواتین پر ہونے والے مظالم کی مذمت ہونی چاہیے۔ اس مختصر بیان میں کسی ڈبل انجن والی ریاست کا حوالہ نہیں تھا۔ اس تناظر میں اتر پردیش میں خواتین کی حالتِ زار کا جائزہ لیا جانا چاہیے جہاں یوگی اور مودی دونوں کے حلقہ ہائے انتخابات موجود ہیں۔
اتر پردیش میں ہندووں کا ایک مقدس شہر بنارس ہے جسے کاشی بھی کہا جاتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گنگا میّا کے بلانے پر ہی اسی شہر کو انتخاب لڑنے کے لیے منتخب کیا تھا، اس طرح وہ وزیر اعظم کا شہر بن گیا۔ گنگا نے تو مودی کو وزیر اعلیٰ سے وزیر اعظم بنا دیا مگر انہوں نے نو سال کے اندر اس کا یہ حال کیا کہ مرکزی پولیوشن بورڈ کے مطابق اب گنگا کا پانی پینا تو دور نہانے کے قابل بھی نہیں رہ گیا ہے۔ مودی نہ صرف گنگا کو آلودہ ہونے سے نہیں بچا سکے بلکہ گنگا جمنی تہذیب کا بھی بھٹّا بٹھا دیا۔ اس کے علاوہ ہندو شعائر کی بقاء کے لیے قائم ہونے والی 107 سالہ پرانی بنارس ہندو یونیورسٹی کو بھی برباد کر دیا۔ بی ایچ یو کے احاطے میں کرمن بابا مندر کے قریب پچھلے دنوں ایک طالبہ کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ بنارس ہندو یونیورسٹی آئی آئی ٹی کی اس طالبہ سے نصف شب میں ہاسٹل کے قریب تین موٹر سائیکل سوار بدمعاشوں نے مبینہ طور پر چھیڑ چھاڑ کی۔ اس طالبہ کو بندوق کی نوک پر روکا گیا، اس کو زبردستی چومنے کے بعد اسے کپڑے اتارنے پر مجبور کیا گیا۔
بی جے پی کے دیش بھکت اس سے بھیانک حرکت منی پور میں کرچکے ہیں اور اب اس کام کو مودی اور یوگی کے بنارس میں دہرانے کی کوشش کی گئی۔ سرکاری تحفظ اور سرپرستی کے سبب ان بدمعاشوں کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ اس نازیبا حرکت کی ویڈیو بھی بنانا شروع کردی۔ ہندو راشٹر کے قیام سے قبل وہ اس طرح اپنی جھلکیاں دِکھا رہا ہے۔ اس ظلم کے خلاف یونیورسٹی کے 2500 طلبہ نے راجپوتانہ ہاسٹل کے روبرو احتجاج کرکے اترپردیش کا نام روشن کیا مگر مودی کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اسرائیل کے ساتھ چند گھنٹوں کے اندر یکجہتی کا اظہار کرنے والے مودی نے ان طالبات سے ہمدردی میں ایک لفظ نہیں کہا۔ کنگنا رناوت کی فلم پر رونے کی اداکاری کرنے والے یوگی کی آنکھ میں اس پر ایک آنسو کا قطرہ نہیں آیا ۔خواتین پر مظالم کے حوالے سے یہ ہے بی جے پی کی ’چال، چرتر اور چہرا‘۔
خواتین کے استحصال کی بابت بنارس ہندو یونیورسٹی کا ریکارڈ پہلے ہی بہت خراب رہا ہے۔ چار سال قبل یعنی مودی یُگ میں ہی بی ایچ یو کے پروفیسر ایس کے چوبے پر کئی طالبات نے جنسی استحصال، فحش حرکتیں، نازبیا سلوک اور تبصرے کرنے کے الزامات لگائے تھے۔ اس تنازع کی ابتدا اس وقت ہوئی جب اکتوبر 2018 میں شعبہ حیوانیات کی بی ایس سی کے طلبہ و طالبات نے وی سی کو خط لکھ‌ کر پروفیسر چوبے پر ایک ایجوکیشنل ٹرپ کے دوران طالبات کے ساتھ چھیڑ خانی اور فحش حرکتیں کرنے کا الزام لگا کر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس سنگین شکایت کی تفتیش کا کام آئی سی سی کو سونپا گیا اور اس کے بعد پروفیسر چوبے کو معطل بھی کر دیا گیا لیکن دسمبر 2018 میں کمیٹی کی رپورٹ آنے کے باوجود انتظامیہ نے ان پر کوئی خاص کارروائی نہیں کی۔ اگلے سال غالباً انہوں نے مودی کے تعمیر کردہ گنگا گھاٹ میں ڈبکی لگا کر اپنے سارے پاپ دھولیے اس طرح اگست میں ان کو دوبارہ تعلیمی ذمہ داری پر بحال کر دیا گیا۔
ستمبر 2019 میں طلباء نے پروفیسر چوبے کی بحالی پر مظاہرہ کیا۔ ملک کی ایک قدیم اور مشہور مرکزی یونیورسٹی میں لڑکیوں کو چھیڑنے کے خلاف اس احتجاج میں کیمپس کے قریب دروازے کے سامنے لڑکیاں دھرنے پر بیٹھ گئیں۔ اس سے آگ بگولا ہوکر یوگی انتظامیہ نے طاقت کا استعمال کیا اور جنسی استحصال کے خلاف مظاہرہ کرنے والی بہادر بیٹیوں پر وحشیانہ لاٹھی چارج بھی کیا۔ یوں مودی اور یوگی اس شان سے خواتین کا احترام کرتے ہیں۔ سیاست دانوں کے علاوہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو اتنی بھی شرم نہیں تھی کہ وہ لڑکیوں سےملاقات کر کے ان کے مطالبات و مسائل کو سن کر ان کا حل تلاش کرتے۔ طالبات کا پہلا مطالبہ کیمپس میں 24 گھنٹے سیکیورٹی کا تھا، اس کے علاوہ ہاسٹل کے آنے جانے والے راستے پر مناسب روشنی کا انتظام، کیمپس میں خواتین سیکیورٹی اہلکار کی تعیناتی اور سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔ بنارس ہندو یونیورسٹی میں اس وقت طالبات پر لاٹھی چارج کرنے کے بجائے ان کے مطالبات کو تسلیم کرلیا جاتا تو حالیہ واقعہ رونما نہیں ہوتا لیکن یوگی تو چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی تعلیم گاہ نہ رہے بلکہ آر ایس ایس کا اکھاڑہ بن جائے۔
طالبات نے بی ایچ یو کے وائس چانسلر گریش چندر ترپاٹھی کی بے حسی کے خلاف ان کی بھی برخاستگی کا مطالبہ کیا۔ یہ احتجاج 26 گھنٹے تک چلا اور اس کے بعد وی سی نے یونیورسٹی کی کونسل کے ذریعہ آخری فیصلہ لیے جانے تک پروفیسر چوبے کو چھٹی پر بھیج دیا۔ بی ایچ یو انتظامیہ نے ایک بار پھر اس معاملے کو یونیورسٹی کی کونسل میں رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔ اس وقت آئی سی سی کے ایک رکن نے رازداری کی شرط پر انڈین ایکسپریس کو بتایا تھا کہ آئی سی سی نے اپنی رپورٹ میں صاف کہا تھا کہ پروفیسر چوبے ‘ریپیٹ آفینڈر‘ یعنی عادتاً بار بار ایسا کرنے والے شخص ہیں، جو پڑھانے کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔ لیکن جب سیاّں بھئے یوگی تو پھر ڈر کاہے کا۔ یوگی بابا کا بلڈوزر اپنوں کے لیے نہیں پرایوں کے لیے ہے۔ ایک سال کے بعد پروفیسر چوبے کے معاملے کی تفتیش کرنے والی آئی سی سی نے پروفیسر چوبے کو قصوروار پایا اور ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی سفارش کی۔ اس کے بعد وی سی راکیش بھٹناگر کی صدارت میں دہلی میں 27 ستمبر کو ایک میٹنگ ہوئی جس میں پروفیسر چوبے کو کوئی سزا تو نہیں دی گئی مگر سبکدوش کر دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
آئی سی سی کی اس سفارش پر پہلے ہی عمل کرکے حیوان صفت پروفیسر چوبے کو سخت سزا دی جاتی تو نہ کوئی دوبے ایسی حرکت کرنے کی جرأت کرتا اور نہ طلبہ و طالبات کو احتجاج کر کے یوپی کا نام روشن کرنے کی زحمت کرنی پڑتی۔ یوگی اگر کنگنا کی فلم دیکھنے یا ڈاکٹر کفیل خان جیسے بے قصور لوگوں کو پریشان کرنے کے بجائے خواتین پر مظالم کرنے والے مجرمین کی جانب توجہ دیں تو صوبے کی حالت بہتر ہوسکتی ہے۔ ایک طرف بی ایچ یو میں خواتین کا استحصال ہوتا ہے اور دوسری جانب امسال ’منوسمرتی‘ پر ایک ریسرچ پراجیکٹ کے تحت سنسکرت ودیا دھرم سائنس فیکلٹی کا ’دھرم شاستر-میمانسا ڈیپارٹمنٹ‘21 فروری کو ’منوسمرتی کا ہندوستانی سماج پر اطلاق‘ نامی پراجیکٹ کے لیے فیلوشپ کا اشتہار دے دیتا ہے۔ درج فہرست ذات یعنی دلت طبقہ کے طلبا اس پراجکٹ کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو متعلقہ شعبہ صدر پروفیسر شنکر کمار مشرا ایک دلچسپ انکشاف کر دیتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ پہلا موقع نہیں ہے جب منوسمرتی پڑھائی جا رہی ہے۔ جب سے یہ شعبہ بنا ہے، تبھی سے منوسمرتی سمیت کئی صحیفے کورس میں شامل ہیں اور پڑھائے جاتے رہے ہیں۔
پروفیسر شنکر کا کہنا ہے کہ ان کے شعبہ میں سبھی طبقہ کے طلبا موجود ہیں اور ڈگری لیتے ہیں۔ اس کے بعد طلبا پی ایچ ڈی بھی کرتے ہیں۔ منوسمرتی میں اچھے اخلاقیات کے لیے سبق ہے اور اس لیے ریسرچ کی ضرورت ہے۔ پروفیسر شنکر کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو سے تین دہائیوں میں سماج میں انسانیت کا زوال ہوا ہے۔ منوسمرتی میں ایسا کوئی بھی واقعہ نہیں ملا جو ناموافق ہو۔ پھر بھی اگر ایسا لگتا ہے کہ منوسمرتی کی چیزیں آج کے مطابق مناسب نہیں ہے، تو میں اپنے پراجیکٹ میں اصلاح کے لیے درخواست دوں گا۔پروفیسر شنکر کا یہ بیان پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ یا تو انہوں نے منوسمرتی کو پڑھا ہی نہیں یا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ منوسمرتی کے مطابق عورت کو کمزور اور بے وفا سمجھا گیا ہے اور اس کا ذکر ہمیشہ حقارت کے ساتھ آیا ہے۔ جھوٹ بولنے کو عورت کا ذاتی خاصہ بتایا گیا ہے۔
منوسمرتی کے مطابق عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچپن میں باپ کے اختیار میں رہے، جوانی میں شوہر اور شوہر کی وفات کے بعد بیٹوں کے اختیار میں رہے۔ اس ضابطۂ اخلاق کے مطابق اگر شوہر اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تو وہ اپنی بیوی کو کسی اور مرد سے تعلقات پیدا کرنے کو کہہ سکتا ہے تاکہ وہ اولاد پیدا کرسکے، یہ عورت دوسرے مرد سے صحبت کرے گی، بچہ جنے گی لیکن بیوی وہ اس پہلے شوہر کی ہی رہے گی۔ اسی کے گھر میں رہے گی اور پہلا شوہر ہی نان و نفقہ کا ذمہ دار ہوگا۔ ان تعلیمات کے اندر اگر پروفیسر کو کوئی نا موافق بات دکھائی نہیں دیتی تو ان کے دماغ کا علاج ہونا چاہیے۔ اس احمقانہ دلیل کے خلاف بھی بی ایچ یو کے طلبا نے احتجاج کیا۔ مظاہرین میں سے ایک اجئے بھارتی کا کہنا تھا کہ ملک منوسمرتی سے نہیں بلکہ آئین سے چلتا ہے۔ اس میں سبھی کو برابری کا حق دیا گیا ہے، جبکہ منوسمرتی میں ذات پات اور اونچ نیچ کی باتیں ہیں۔ آئین سبھی کو تعلیم و برابری کا حق دیتا ہے، جبکہ منوسمرتی میں ایسا نہیں ہے۔ اس لیے آئین کے مطابق اس طرح کا ریسرچ پراجیکٹ نہیں چلایا جانا چاہیے۔
بی ایچ یو یا یوپی میں مسئلہ صرف پراجکٹ تک محدود نہیں بلکہ زہریلی ذہنیت کا ہے۔ یونیورسٹی سمیت معاشرے میں خواتین اور طالبات کے جنسی استحصال کا یہ بنیادی سبب ہے۔ حال یہ ہے کہ کالج جانے والی ایک طالبہ کی چین کھینچی گئی اور وہ بچاو میں حادثے کا شکار ہوکر مر گئی تو اس کی ماں نے کہا یوپی کی سڑکوں پر انسان نہیں درندے گھومتے ہیں۔ طالبات یا خواتین احتجاج کرتی ہیں تو ان پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد یوگی اور مودی انتخابی جلسوں میں خواتین کے لیے ٹسوے بہاتے ہیں۔ یہ نرا پاکھنڈ نہیں تو اور کیا ہے؟ لیکن افسوس کہ ہندوتوا کے پردے میں حکم راں پارٹی اپنی ناکامی، نا اہلی اور منافقت کو میڈیا کی مدد سے چھپا لیتی ہے۔ یہ ایسا پاپ ہے کہ لاکھ بار گنگا میں نہانے کے باوجود بھی نہیں دھلے گا۔ خواتین ریزرویشن بل پر وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ یہ جامع حکم رانی کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ مودی نے دکھا دیا ہے کہ ’خواتین کی قیادت میں تفویض اختیارات‘ مودی حکومت کا نعرہ نہیں ہے بلکہ ایک قرارداد ہے لیکن وزیر اعظم اگر اس کو خود اپنے حلقۂ انتخاب میں نافذ نہ کرسکیں اور پارلیمنٹ میں ان کے حواری ایک رکن پارلیمنٹ کا علامتی وستر ہرن کرنے سے باز نہ آئیں تو یہ ساری چکنی چپڑی باتیں بے معنیٰ ہوجاتی ہیں۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 یوگی اگر کنگنا کی فلم دیکھنے یا ڈاکٹر کفیل خان جیسے بے قصور لوگوں کو پریشان کرنے کے بجائے خواتین پر مظالم کرنے والے مجرمین کی جانب توجہ دیں تو صوبے کی حالت بہتر ہوسکتی ہے۔ ایک طرف بی ایچ یو میں خواتین کا استحصال ہوتا ہے اور دوسری جانب امسال ’منوسمرتی‘ پر ایک ریسرچ پراجیکٹ کے تحت سنسکرت ودیا دھرم سائنس فیکلٹی کا ’دھرم شاستر-میمانسا ڈیپارٹمنٹ‘21 فروری کو ’منوسمرتی کا ہندوستانی سماج پر اطلاق‘ نامی پراجیکٹ کے لیے فیلوشپ کا اشتہار دے دیتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 نومبر تا 18 نومبر 2023