400 سے زائد شہریوں کا کہنا ہے کہ بلقیس بانو کیس کے مجرموں کی سزا میں معافی غیر انسانی اور غیر اخلاقی مثال قائم کرتی ہے
نئی دہلی، ستمبر 28: 401 شہریوں پر مشتمل ایک گروپ نے، جس میں انسانی حقوق کے کارکن، سابق سرکاری ملازمین اور فنکار شامل ہیں، بدھ کے روز کہا کہ بلقیس بانو کیس میں عصمت دری اور قتل کے مجرم تمام 11 افراد کی رہائی ایک غیر انسانی اور غیر اخلاقی مثال قائم کرتی ہے۔
گجرات میں فسادات کے دوران 3 مارچ 2002 کو احمد آباد کے قریب ایک گاؤں میں 11 افراد نے بانو کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی تھی۔ وہ اس وقت 19 سال کی تھیں اور حاملہ تھیں۔ تشدد میں ان کے خاندان کے چودہ افراد بھی مارے گئے تھے، جن میں ان کی تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی جس کا سر مجرموں نے زمین پر پٹخ دیا تھا۔
15 اگست کو مجرموں کو گودھرا جیل سے رہا کیا گیا جب گجرات حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت ان کی درخواست منظور کی۔ اسی دن رہائی کے بعد ان کے لواحقین نے مجرموں کا استقبال مٹھائی سے کیا۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ایک رکن نے بھی انھیں مبارکباد دی۔
401 شہریوں کے بیان پر دستخط کرنے والوں میں ہندوستانی انتظامی خدمات کے ریٹائرڈ افسر جوہر سرکار، اداکار نفیسہ علی، صحافی پرانجوئے گوہا ٹھاکرتا، فوٹوگرافر رگھو رائے اور گلوکار شوبھا مدگل شامل ہیں۔ انھوں نے حکومت سے معافی واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ معافی اور حکومت کی خاموشی ایک ایسی مثال قائم کرتی ہے جو غیر انسانی اور غیر اخلاقی ہے۔‘‘
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ یوم آزادی پر مجرموں کو رہا کرنے کا فیصلہ اسے مزید غیر انسانی بناتا ہے۔
11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی کئی شہری حقوق گروپوں اور کارکنوں نے مذمت کی ہے۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کچھ مجرموں نے مبینہ طور پر کیس کے گواہوں کو دھمکیاں دی تھیں اور پیرول پر باہر آنے پر سیاسی تقریبات میں شرکت کی تھی۔
ان کی رہائی سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کے تحت گجرات حکومت کی طرف سے تشکیل کردہ ایک پینل کی سفارش پر مبنی تھی۔ پینل کے دس ارکان میں سے پانچ بی جے پی کے عہدیدار ہیں۔ ان میں سے دو فی الحال ایم ایل اے ہیں۔