مذہبی تبدیلی کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے: سپریم کورٹ
نئی دہلی، جنوری 10: پی ٹی آئی کے مطابق پیر کو سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ مذہبی تبدیلی ایک سنجیدہ موضوع ہے جسے سیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہیے۔
جسٹس ایم آر شاہ اور سی ٹی روی کمار پر مشتمل بنچ نے وکیل اور بھارتیہ جنتا پارٹی لیڈر اشونی اپادھیائے کی طرف سے دائر مفاد عامہ کی عرضی میں اٹارنی جنرل آر وینکٹرمانی سے بھی مدد طلب کی جس میں دھوکہ دہی اور جبری تبدیلی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سماعت کے دوران تمل ناڈو حکومت کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل پی ولسن نے دلیل دی کہ درخواست سیاسی طور پر محرک ہے۔ انھوں نے کہا کہ ریاست میں اس طرح کی تبدیلیوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ولسن نے کہا کہ اس معاملے کا فیصلہ مقننہ کو کرنا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ درخواست گزار کی سیاسی وابستگی ہے اور اسے بغاوت کے الزامات کا سامنا ہے۔ تاہم عدالت نے ولسن کے ریمارکس پر اعتراض کیا۔
عدالت نے کہا کہ ’’عدالتی کارروائی کو دوسری چیزوں میں تبدیل نہ کریں۔ ہم پوری ریاست کے لیے فکر مند ہیں۔ اگر یہ آپ کی ریاست میں ہو رہا ہے تو یہ برا ہے۔ اگر نہیں تو اچھا۔ اسے ایک ریاست کو نشانہ بنانے کے طور پر نہ دیکھیں۔ اس میں سیاست نہ لائیں اور نہ ہی اسے سیاسی رنگ دیں۔‘‘
دریں اثنا بنچ نے کہا کہ وہ درخوات میں کچھ اقلیتی مذاہب کے بارے میں کیے گئے تبصروں کو فی الحال خارج نہیں کرے گا۔
12 دسمبر کو عدالت نے اپادھیائے کو درخواست سے کچھ تبصرے ہٹانے کے لیے کہا تھا۔ اس معاملے میں مداخلت کرنے کی کوشش کرنے والی کچھ عیسائی تنظیموں کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ دشینت ڈیو نے عدالت کو بتایا کہ بی جے پی لیڈر کی درخواست میں دیگر مذاہب کے خلاف کچھ ناگوار الزامات شامل ہیں۔
پیر کو اپادھیائے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار ان گذارشات کی پیروی نہیں کرے گا۔
اپنی درخواست میں اپادھیائے نے دعویٰ کیا ہے کہ ہندوستان میں ہندو آبادی 2001 میں 86 فیصد سے کم ہو کر 2011 میں 79 فیصد رہ گئی تھی۔ درخواست میں کہا گیا کہ اگر مذہب کی تبدیلی اسی شرح سے جاری رہی تو ہندوستان میں ’’ہندو آہستہ آہستہ اقلیت بن جائیں گے۔‘‘
تاہم مئی میں جاری کیے گئے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران تمام مذہبی برادریوں میں مسلمانوں میں شرح پیدائش میں سب سے زیادہ کمی آئی ہے۔