
!رہبران قوم کی بھی ہے ضروری رہبری
الگوردم، مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹر سائنس:دنیا کو مسلمانوں کا عطیہ
زاہد زبیر ،کرناٹکا
ایک وقت تھا جب مسلمانوں کا دور دورہ تھا ہر جگہ اور ہر سو انہیں کا بول بالا تھا، یہ ماضی کا مسلمان دنیا کو کوسوں دور چھوڑ چکا تھا مگر کیسے اور کس طرح؟ جواب بس اتنا ہی ہے کہ مسلمانوں نے اس دور میں تقویٰ و طہارت کے ساتھ ساتھ ان لوازمات کو اپنایا تھا جو قوم کے لیے کارگر ثابت ہوں۔ مغرب اور عیسائیوں کے نزدیک یہ مسلمان ما فوق الفطرت لوگ تھے۔ انہوں نے رومانی داستانوں کے ذریعے ہی مسلمانوں کی ترقی اور تہذیب و تمدن کو یاد رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک صدی کے بعد کسی بھی قوم کا زوال شروع ہو جاتا ہے مگر مسلمان اسی آب و تاب کے ساتھ اپنی تہذیب اور ارتقاء پر تقریباً آٹھ سو سال قائم رہے۔ اس دور میں مسلمانوں کی سیاسی اور فوجی قوت کا کوئی مد مقابل نہ تھا۔ مسلمان ایک طرف وَأَنتُمُ ٱلۡأَعۡلَوۡنَ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِینَ ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘ کے فرمان کو مد نظر رکھ کر قرآن و سنت اور اخلاق کے اعلی اقدار کے پاسدار بنے تو دوسری طرف اسی قرآن و سنت کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی کو ذریعہ بنایا اور تحقیق کے میدان میں اپنا لوہا منوایا۔
برّ صغیر میں لوگوں آج مسلمانوں کو پچھڑا ہوا سمجھتے ہیں اور سمجھیں بھی کیوں نہیں؟ جو قوم اخلاقی اقدار سے عاری نظر آتی ہو، جس قوم میں تعلیم کا ہونا نہ ہونا دونوں برابر ہو، جس قوم کو خود کی مذہبی کتاب سے شغف نہ ہو تو اغیار کا ایسا تأثر لازمی ہے۔ ان سب کی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنی تاریخ سے نا آشنا ہیں اور کہا بھی گیا ہے کہ ’’جو قوم اپنی تاریخ یاد نہیں رکھتی وہ قوم اپنی تاریخ کبھی نہیں بنا سکتی‘‘ ہمارے یہاں کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو پوری طرح سے اندھیرے میں جی رہے ہیں، جن کو نہ تو ہماری تاریخ کا پتہ ہے نہ ہمارے حال کا، کچھ لوگ ہمارے سنہرے ماضی کو لے کر بیٹھ گئے ہیں اور ان کو ہمارے کھوئے ہوئے حال کا ذرا برابر لحاظ نہیں ہے، کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو اس فانی دنیا سے بے زاری کا اعلان کر چکے ہیں اور وہ بس آخرت میں اجر کے طالب ہیں، تو انہیں اپنی دنیوی زندگی سے کوئی سروکار نہیں، بھلے وہ جہالت کا پیکر بن جائیں یا گمراہی ان کا مقدر ہو جائے۔ کاش کہ یہ لوگ رب کریم کی سکھائی ہوئی دعا پر نظر دوڑا لیتے: رَبَّنَاۤ ءَاتِنَا فِی ٱلدُّنۡیَا حَسَنَةࣰ وَفِی ٱلۡـَٔاخِرَةِ حَسَنَةࣰ وَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّار ’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا‘‘ دنیا میں اپنے رب سے جڑ کر اسباب کو اپناتے ہوئے جینا ہی اصل زندگی ہے اور یہی ایک مسلمان سے رب تعالٰی کا مقصود ہے اور ایک مٹھی بھر جماعت ایسی بھی ہے جو واقعتاً کوششیں تو کر رہی ہے لیکن ’’دیوانوں کی بات پر کون دھیان دیتا ہے‘‘۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی اس مافوق الفطرت تاریخ کو دہرائیں اور اسلام کا پرچم بلند کریں اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم قرآن و سنت کو عملاً مضبوطی سے تھامیں، اختلاف کی آڑ میں مخالفت کو فروغ نہ دیتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے تعاون کا ہاتھ بڑھائیں اور جدید علوم جیسے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ضرورت کو سمجھ کر اس میں مہارت حاصل کریں۔
آج جس زمانے میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں وہ لحظہ بہ لحظہ دگرگوں ہے، یہ دنیا دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے اور جو بدلاؤ انسان اس دنیا میں لا رہا ہے اس سے خود انسان ششدر ہے۔ دنیا انسانی ہاتھوں میں موبائل کی شکل میں سمٹ کر رہ گئی ہے اور آج بھی اس میدان میں طرح طرح کے اختراعات ہو رہے ہیں۔ آج کا مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی سے اتنا دور ہوگیا ہے کہ اس کے افادات سے بھی واقف نہیں ہے اور عدمِ واقفیت کے بنا پر اس سے بہرہ ور ہونا تک محال ہے تو ایجاد و اختراع میں کیا اپنا کردار ادا کرے گا؟
آخر غلطی کہاں ہے؟ کہیں تو کوئی خلا باقی رہ گیا ہے کہیں تو ہم سے کوئی چوک ہورہی ہے۔ ہم کیوں ایسے ہو کر رہ گئے ہیں۔ کیا یہ قرآن بدل گیا ہے اگر بدل گیا ہے تو کیا ہمارے رب کا فرمان نعوذ باللہ جھوٹا ہے کہ إِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا ٱلذِّكۡرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَـٰفِظُونَ ’’رہا یہ ذکر، تو اس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں‘‘ اگر نہیں بدلا تو حضرت طفیلؓ بن عمرو دوسی کی طرح ہم صمیمِ قلب سے اس پر ایمان کیوں نہیں لے آتے، کیوں کلامِ پاک سن کر حضرت ابو بکرؓ کی طرح ہم پر رقت طاری نہیں ہوتی؟ صحابہ کرام کی طرح ذکر اللہ سن کر کیوں ہمارے دل لرزتے نہیں ہیں اور قرآن سن کر ہمارے ایمان میں اضافہ کیوں نہیں ہوتا جبکہ قرآن کہتا ہے: إِنَّمَا ٱلۡمُؤۡمِنُونَ ٱلَّذِینَ إِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَجِلَتۡ قُلُوبُهُمۡ وَإِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡهِمۡ ءَایَـٰتُهُ زَادَتۡهُمۡ إِیمَـٰنࣰا وَعَلَىٰ رَبِّهِمۡ یَتَوَكَّلُونَ ’’سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں‘‘ جواب بس یہی ہے کہ ہمارا اسلام ایمان تک نہیں پہنچا ہے اگر ایمان تک پہنچا ہوتا تو ہم ہی غالب و اغلب ہوتے، فرمان ہے: وَلَا تَهِنُوا۟ وَلَا تَحۡزَنُوا۟ وَأَنتُمُ ٱلۡأَعۡلَوۡنَ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِینَ ’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘
ایمان میں کوتاہ ہونا ہی اس امت کا سب سے بڑا المیہ ہے، یہ ایمان اگر اتنا ضروری ہے تو آخر یہ ایمان ہے کیا؟ کہا گیا کہ: إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ،وَتَصْدِيقٌ بِالْجَنَانِ، وَعَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ’’ زبان سے شہادتین کا اقرار کرنا، اس پر دل سے یقین کرنا اور اپنے اعضاء و جوارح سے اس بات کو عملاً ثابت کرنا ایمان ہے‘‘۔ قُلۡ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُكِی وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَـٰلَمِینَ ’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسِم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘ اپنا تن من دھن سب کچھ اس رب ذوالجلال کو سونپ دینے کا نام ایمان ہے مادہ پرستی کو کچل کر اخلاص و للٰہیت کے ساتھ اعلائے کلمة اللہ کے لیے کام کرنے کا نام ایمان ہے، رب کا پیغام رب کے بندوں تک پہنچانے کے لیے سارے اسباب کو اپنانے کا نام ایمان ہے رسول رحمتؐ کی امت کو جہنم سے بچانے کے لیے اس دور کے تکنیکی لوازمات کو اپنانے کا نام ایمان ہے۔ لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جو قوم دینی تعلیم اور دنیوی تعلیم کی تفریق میں بٹی ہو وہ کیسے عصر حاضر کے ان لوازمات کو اپنا سکتی ہے؟ جو قوم جدید علوم کو مغربی مرعوبیت کا نام دیتی ہو وہ کیسے حال کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے دعوت کا کام انجام دے سکتی ہے؟ اور جو قوم مذہبی دعوت سے کنارہ کش ہو کر مسلکی دعوت میں مصروف نظر آتی ہو وہ کیسے ایک جٹ ہو کر کفار کے مقابلے میں دینِ الٰہی کے لیے کھڑی ہو سکتی ہے؟
ہمارا حال ایک ٹھٹھہ ہے ہماری اس تاریخ پر جو نسلِ انسانی کو شش و پنج کر دیتی ہے۔ وہ اس لیے کہ اگر ہم اپنے ماضی کے ابواب کی سرسری طور پر بھی ورق گردانی کریں تو پتا چلے گا کہ آج ہم جس مغرب کے عروج اور ارتقاء سے متاثر ہیں اور اس کی ترقی کی مثالیں دیتے ہیں ان کے اصولوں اور قوانین کو منضبط و مرتب کرنے کا سہرا ہمارے اسلاف ہی کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے ہی اپنی خداداد صلاحیتوں کے ذریعے مختلف میدانوں اور مختلف شعبوں میں اپنی نت نئی تحقیقات اور اختراعات سے ترقی کی نئی راہیں کھولیں۔ آج مغرب کے پاس بنیادی طور پر جو بھی تحقیقی اور علمی مواد موجود ہے وہ سارا کا سارا ہمارے اسلاف ہی کا ثمرہ ہے۔ اس پر اقبال بھی گریہ زار ہوئے بغیر نہ رہ سکے
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سہ پارا
جابر بن حیان نے علمِ کیمیاء (Chemistry) کو پروان چڑھایا جن کو آگے چل کر Father of chemistry بھی کہا گیا۔ اسماعیل الجزری بہت ہی قابل انجنئیر تھے جنہوں نے ’’كتاب الجامع بين العلم والعمل النافع في صناعة الحيل‘‘ The Book of Knowledge of Ingenious Mechanical Devices
جیسا مکتوب شاہکار دنیا کو دیا جو کہ Automata, clocks, pumps, fountains, وغیرہ کی تفصیلی معلومات فراہم کرتا ہے۔ الجزری (Father of Robotics بھی کہلائے۔ سائنس کے باب میں علمِ حیاتیات ایک اہم حصہ ہے۔ عبدالمالک اصمعی اس میں بہت دلچسپی رکھتے تھے، چنانچہ عبدالمالک اصمعی نے علمِ حیوانات میں بھی اپنے جوہر دکھائے اور اس میدان میں آج بھی سنگِ میل مانی جانے والی ’’كتاب الخيل، كتاب الشاط، كتاب الإبل، كتاب الوحوش اور خلق الإنسان‘‘ نامی پانچ کتابیں مرتب کر ڈالیں چار کتابیں علم الحیوانات (zoology) پر ہیں اور آخری کتاب ’’خلق الإنسان‘‘ علمِ حیاتیات (Biology) پر ہے۔ یہ کتاب اس باب میں لکھی جانے والی اولین کتابوں میں سے ایک ہے، ابنِ سینا علمِ طب (Medical Science) میں کمال رکھتے تھے، انہوں نے طب میں جدید تشخیص اور علاج کے اصول متعارف کرائے، ان کی کتاب ’’القانون في الطب‘‘ آج کے اس جدید میڈیکل سائنس کے لیے بھی کسی گوہرِ نایاب سے کم نہیں ہے۔ اسی طرح سے ہمارے اسلاف میں کئی ایسے افراد گزرے ہیں جنہوں نے اس دنیا کو اپنی تحقیق و اختراع کا اثاثہ دیا۔ ابو ریحان البیرونی (The Master of the All Sciences ) معدنیات (Mineralogy) کے ماہر تھے، حجاج بن یوسف بن مطر کو علمِ ہندسہ (Geometry) میں کمال حاصل تھا، ابو یوسف یعقوب بن اسحاق کندی کا علم الأدويہ (Pharmacology) میں کوئی ثانی نہیں تھا، حسن بن موسیٰ شاکر فنِ تعمیر (Architecture) کے استاذ تھے، حکیم ابو نصر محمد بن فارابی علمِ نفسیات (Psychology) کے عالم تھے۔ الغرض ایسی بہت سی شخصیات ہماری تاریخ میں گزری ہیں جو بیک وقت علم ہیئت، علمِ ہندسہ، علمِ ریاضی اور علمِ طب وغیرہ جیسے کئی سائنسی علوم میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔
ایسا بالکل نہ سوچیں کہ ہمارے اسلاف قرآن و سنت سے ہٹ کر اور ہی کہیں مصروف تھے۔ آفاق و انفس کے تعلق سے دریافت و انکشافات کا راستہ تو ہمیں قرآن ہی دکھلاتا ہے۔ رب کریم نے قرآن کی ابتدا إقرأ سے کرتے ہی انسانی تخلیق یعنی (Biology) کی طرف توجہ دلائی ہے۔ أَفَلَا یَنظُرُونَ إِلَى ٱلۡإِبِلِ كَیۡفَ خُلِقَتۡ ’’تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟‘‘ ارشاد فرما کر علمِ حیوانات (zoology) کے لیے ابھارا اور قرآن میں Orology کا بھی ذکر ہوا وَٱلۡجِبَالَ أَوۡتَادࣰا ’’اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا‘‘۔ رب کائنات نے قرآن مجید میں Big Bang Theory کا جلی حروف میں تذکرہ فرما کر نوعِ انسانی کو علمِ فلکیات (Astronomy) کی بھی راہ دکھائی ۔ قرآن کریم میں ایسی بہت سی آیات ہیں جو بنی آدم کو کائنات میں تفکر اور تدبر کی دعوت دیتی ہیں جن سے انسان ان کے خالقِِ حقیقی سے قریب ہوتا ہے اور جب بندہ اپنے خالق و مالک سے قریب ہوتا ہے تو کامیابی و سر بلندی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
آج کے اس انفجار العلوم کے دور میں AI ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بنیادی حیثیت حاصل کرچکا ہے جس کا مکمل دار و مدار الگورتھم (Algorithm) پر ہوتا ہے۔ AI میں Algorithm اس طرح سے کام کرتا ہے کہ وہ ہم ہی سے سیکھتا ہے اور سرچ ہسٹری کے مطابق ہمیں مواد فراہم کرتا ہے۔ صرف AI ہی نہیں بلکہ سرچ انجن، ٹیلی کمیونیکیشن اور روبوٹکس وغیرہ سب Algorithm کی بنا پر ہی کام کر پاتے ہیں۔ سننے اور بولنے کے لیے تو یہ بہت آسان بات ہے مگر اس کو سمجھنا ہمارے کند ذہنوں کی سوچ سے پرے ہے۔ کیونکہ ہم تجربے اور تجزیے کو چھوڑ کر مقلّدانہ روش اختیار کر چکے ہیں۔ اس کے بر خلاف ہمارے اسلاف نے تفکر فی الکائنات اور حکمت تکوین میں تامل وتدبر سے کام لیا اور متعدد سائنسی انکشافات کیے۔ یہ Algorithm بھی ہمارے ہی اسلاف کی دین ہے، محمد بن موسیٰ الخوارزمی جو کہ بہت بڑے ریاضی داں گزرے ہیں اور الجبرا کے موجد رہے ہیں جن کو Father of Algebra بھی کہا گیا۔ Algorithms کی بنیاد بھی انہوں نے ہی رکھی جس پر مکمل Computer Science بھی منحصر ہے ان کی دو کتابیں ’’كتاب الجمع والتفريق بحساب الهند‘‘ اور ’’كتاب المختصر في حساب الجبر والمقابلة‘‘ آج بھی علم الحساب میں مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں، لفظ Algorithm کی بھی انہی کے نام سے نسبت ہے جو کہ الخوارزمی سے لاطینی ترجمہ ہے۔
حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
حالاتِ حاضرہ کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیں اپنی روش چھوڑ کر اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایک اور قدم آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ ہمیں دونوں ادوار میں نمایاں فرق نظر آئے گا۔ اسلاف کا دور’’ كَأَنَّهُم بُنۡیَـٰنࣱ مَّرۡصُوص‘‘ کا دور تھا اور موجودہ امت کا حال اس مصرعے کا مصداق بن چکا ہے:
بٹتے بٹتے، بٹتے بٹتے بٹ گئے کتنے خانوں میں
اور کریلا نیم چڑھا مسلم دشمنان نوچ کھانے کے لیے ہمیشہ تیار بیٹھے رہتے ہیں، تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو یہ بات مان لینی ہوگی کہ امت کے مظلوم ہونے کی بنیادی وجہ یہی اختلاف و انتشار ہے وَأَطِیعُوا۟ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَا تَنَـٰزَعُوا۟ فَتَفۡشَلُوا۟ وَتَذۡهَبَ رِیحُكُمۡۖ وَٱصۡبِرُوۤا۟ۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِینَ ’’اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دريا ميں اور بيرون دريا کچھ نہيں
ہمیں اپنے اسلامی شعور کو بھی بیدار کرنا ہوگا اور اخلاقی اقدار کا بھی لحاظ کرنا ہوگا۔ جس قوم کے نبی کی بعثت بحیثیت معلمِ اخلاق ہوئی ہو، جو نبی مکارمِ اخلاق کو مکمل کرنے آئے ہوں اور جس نبی کے اخلاق کی شہادت قرآنِ کریم نے خلقٌ عظیم کے الفاظ میں دی ہو وہ قوم آج اخلاق سے عاری نظر آتی ہے۔ ہمیں اپنے ایمان کا تجزیہ اور اپنے اخلاق کی تجدید کرنی ہوگی کیونکہ ایک مسلمان اس کے گفتار سے بڑھ کر اس کے کردار سے پہچانا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی محیر العقول تاریخ دہرانے کے لیے علم وتحقیق کا احیاء اپنے اندر کرنا ہوگا کیونکہ ہمارے اسلاف کے عروج کی بنیادی وجہ تحقیق اور جدت طرازی تھی۔ ہمیں بھی سائنس، ٹیکنالوجی، فلسفہ اور سماجی علوم میں اعلی معیار کی تعلیم کو فروغ دینا ہوگا۔ ہمارے اسلاف نے ایسے کئی تعلیمی ادارے قائم کیے جن کا آج بھی کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ خلیفہ ہارون الرشید کا قائم کردہ ’’بیت الحكمة‘‘ جس کو آگے چل کر مأمون نے وسعت دی، یہ ادارہ ایک بہت بڑا کتب خانہ اور تحقیقی مرکز تھا، اس ادارے نے یورپی نشاۃِ ثانیہ میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔ جامعہ الأزہر سے کون واقف نہیں ہے؟ یہ ادارہ اس دور میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ایسے نہ جانے کتنے ہی ادارے ہمارے اسلاف نے قائم کیے جہاں اسلامی علوم، فلسفہ و منطق، ریاضی، فلکیات و جغرافیہ، طب و دوا سازی اور ادب و لسانیات جیسے علوم سیکھے اور سکھائے جاتے تھے۔
ایسے کار آمد عوامل سے ہم کنار ہو کر ہم اپنی قوم کے حالات کا ذمہ دار علماء کو ٹھیراتے ہیں۔ بے شک علماء کرام رہبرانِ ملّت ہیں انہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کی رہنمائی کریں مگر کیا یہ ہم نے کبھی سوچا ہے کہ جو جو بچے علماء کے زمرے میں شامل ہونے کے لیے مدارس کا رخ کرتے ہیں وہ کن کن اغراض کے تئیں مدارس میں داخل کیے جاتے ہیں؟ اگر بچہ غریب ہے تو اس کو مدرسے کا دروازہ دکھا دیا جاتا ہے، اگر بچہ بہت شریر ہے بگڑا ہوا ہے تو مدرسے میں داخلہ کروا دیا جاتا ہے، بچہ بہت کمزور ہے کند ذہن ہے تو مدرسے کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سارے مدارس میں پڑھنے والے سارے بچے اسی طرح کا پس منظر رکھتے ہیں مگر یہ تلخ حقیقت ہے امت مسلمہ کی جو ہم سب اس طرح کی سوچ میں گرفتار ہو چکے ہیں کہ جب بچے کو کسی لائق نہیں سمجھتے تو مدرسے میں داخل کروا دیتے ہیں۔ ان سب کے باوجود قابلِ ستائش ہیں وہ لوگ جو اپنے بچوں کو قوم کے درد سے آشنا کرواتے ہیں اور قوم و ملّت کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ دے کر مدرسے کا رخ کرواتے ہیں۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ساری امت مسلمہ نے امت کے انہیں تین سے چار فیصد بچوں پر تکیہ کر رکھا ہے اور ہر چیز کے ذمہ دار یہی مدارس کے فارغین ہوتے ہیں۔ ہماری نظریں انہیں بیس لاکھ بچوں پر گڑھی ہوئی ہیں۔ ہم نے کبھی 6.47 کروڑ کا تو سوچا ہی نہیں جو ماڈرن ایجوکیشن حاصل کر رہے ہیں۔ اس میں ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرنے والے طلبہ قصور وار نہیں ہیں یہ محض ہمارا تعصب ہے جس کی بنا پر ہم اپنے فرض سے غافل ہو کر اپنی ذمہ داری فارغین مدارس پر تھوپ دیتے ہیں
تعصب چھوڑ ناداں دہر کے آئینہ خانے میں
یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تو نے
ان تمام باتوں سے قطعِ نظر حال کے جو لوازمات ہیں وہ علماء کرام بذاتِ خود نہیں پورا کر سکتے کیونکہ مدارس کا جو تعلیمی نظام ہے وہ دینی علوم تک سمٹا ہوا ہے اور ہو بھی کیوں نہیں، کیونکہ ایک بچہ آخر کیا کیا پڑھے گا؟ اب یہ قوم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جدید علوم کی تعلیم علمائے کرام کی نگرانی میں دلوائیں تاکہ بچہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہو اور وہ اپنے مقصد سے جڑا رہے۔ اور علمائے کرام تب تک صحیح طرح سے رہنمائی نہیں کر پائیں گے جب تک وہ خود ان جدید علوم کے بارے میں جان نہیں لیتے۔ یہ قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علمائے کرام کو ان علمی میدانوں سے واقف کراوئے جن سے وہ انجان ہیں۔ انہیں باتوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے بتاریخ 22 دسمبر 2024 کو مخصوص طور پر علماء کرام کے لیے شہر حیدرآباد میں جماعت اسلامی ہند کے دفتر میں ایک پروگرام رکھا گیا تھا کہ سوشل میڈیا اور AI کا استعمال علماء کے لیے کس طرح فائدہ مند ہوسکتا ہے جو کہ بہت ہی کار گر ثابت ہوا۔ وہاں علمائے کرام نے سوشل میڈیا اور AI کے تعلق سے بہت سی ایسی باتیں جانیں جن سے وہ واقف نہیں تھے۔ حیدرآباد اور اطراف و اکناف کے شہروں کے علمائے کرام نے اس پروگرام میں شرکت کی۔ آخر میں امیرِ حلقہ جماعت اسلامی ہند تلنگانہ ڈاکٹر محمد خالد مبشر الظفر نے سوشل میڈیا اور AI کی اہمیت اور افادیت بتاتے ہوئے اس بات کی حامی بھری کہ وہ کوشش کریں گے کہ ہر ضلع میں اس طرح کے پروگرامس ہوں اور اس پر انہوں نے علمائے کرام کا ساتھ بھی مانگا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مکاتب فکر کے افراد وہ چاہے خواص ہوں یا عوام، مدارس کے فارغین ہوں یا ماڈرن ایجوکیشن سے آراستہ لوگ، ہر کسی کو اس ضمن میں سوچ کر اس کو عملی جامہ پہنانا ہوگا اور گاہے بگاہے جا بجا ایسے پروگراموں کا انعقاد بھی کرنا ہوگا جو علماء اور عوام دونوں کے لیے کارآمد ثابت ہوں۔ مختصراً کہا جائے تو ہمیں ہمارے ہی رہبروں کو ہماری رہبری کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہم اپنے سنہرے ماضی کو اپنے ذہنوں میں رکھ کر اپنے حال پر کام کریں تو ان شاء اللہ ہمارا مستقبل تابندہ اور تابناک ہوگا۔
تو جو چاہے تو تقدیر نگوں ہو جائے
***
’’ہمارا حال ایک ٹھٹھہ ہے ہماری اس تاریخ پر جو نسلِ انسانی کو شش و پنج کر دیتی ہے۔ وہ اس لیے کہ اگر ہم اپنے ماضی کے ابواب کی سرسری طور پر بھی ورق گردانی کریں تو پتا چلے گا کہ آج ہم جس مغرب کے عروج اور ارتقاء سے متاثر ہیں اور اس کی ترقی کی مثالیں دیتے ہیں ان کے اصولوں اور قوانین کو منضبط و مرتب کرنے کا سہرا ہمارے اسلاف ہی کے سر جاتا ہے۔‘‘
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 جولائی تا 23 اگست 2025