رائے عامہ کی مثبت تبدیلی موثر بیانیوں کے ذریعہ ہی ممکن

میڈیا کے ذریعہ اثر انداز ہونے کے لیے متنوع صلاحیتوں اور وسائل کو بروئے کار لانے کی ضرورت

محمد مجیب الاعلیٰ

مرکزجماعت اسلامی ہندمیں دوروزہ میڈیا تربیتی کیمپ ۔ مختلف ریاستوں سے شعبہ میڈیا کے ذمہ داران اور صحافیوں کی شرکت
فی زمانہ کوئی بھی نظریاتی تحریک میڈیا سے غافل رہ کر اپنی بقا اور فکر و نظریہ کی ترویج کا سامان نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک اسلامی ہند نے اپنے آغاز سے ہی ذرائع ابلاغ کو اہمیت دی ہے اور اسے موجود سے مطلوب سطح تک پہنچانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی ہے۔ چنانچہ اسی کوشش کے تسلسل میں گزشتہ دنوں مختلف ریاستوں میں جماعت کے شعبہ میڈیا کے ذمہ داروں اور جماعت کے پرنٹ و الکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافیوں کا ایک اہم تربیتی کیمپ 11 اور 12 نومبر کو مرکز جماعت اسلامی ہند نئی دلی میں منعقد ہوا۔ ’’قصص: میڈیا ماسٹری بوٹ کیمپ‘‘ کے زیر عنوان منعقدہ اس پروگرام میں گجرات سے آسام تک اور کیرالا و انڈومان سے دلی تک ملک کے تقریباً سبھی گوشوں سے نمائندگی موجود تھی۔ جماعت اسلامی ہند کے نیشنل سکریٹری برائے میڈیا جناب سہیل کے کے نے اس کیمپ کی سربراہی کی جبکہ ان کی ٹیم کے ارکان کدیور نہال احمد اور سید احمد علی ان کے دست و بازو بنے رہے۔
اس دو روزہ تربیتی کیمپ کے ذریعہ شرکاء کو اس بات کا احساس دلایا گیا کہ اس وقت میڈیا پر اثر انداز ہونے کے لیے کس طرح کی متنوع صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ صرف اچھا بولنا اور لکھنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ وہ ذہانت و لیاقت درکار ہے جس کے ذریعے مناسب بات مناسب پیرائے میں کہی جائے اور بروقت کہی جائے۔ اپنی بات سیدھے سادے سنجیدہ اسلوب میں کہی جا سکتی ہے لیکن اگر اثر پذیری مطلوب ہو تو کام میں معیار اور پیشہ وارانہ تقاضوں کا لحاظ اور بالواسطہ طریقوں سے ذہن و خیال پر اثر انداز ہونے کا ہنر جاننا ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح ’متبادل میڈیا‘ کے لیے جہاں اچھی صلاحیت کے لوگ خاصی تعداد میں مطلوب ہیں وہیں لکھنے اور بولنے کے ساتھ ساتھ ملٹی میڈیا کا استعمال، آڈیو ویڈیو، گرافکس، فلم، کارٹون، آرٹ،  ڈاکیومنٹری اور میڈیا کے جملہ اصناف کو بروئے کار لانے کے لیے درکار لیاقتوں کی اور مستقل کام کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لیے ترجیحی بنیادوں پر مالی وسائل کی فراہمی اور افراد کار کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ نیز جو نوجوان اس طرح کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کی ہمت افزائی کرتے ہوئے تحریک سے انہیں جوڑنے کی کوشش کی  جانی چاہیے۔
اس کیمپ کا مرکزی خیال ’’قصص‘‘ بہت ہی معنی خیز تھا جو کلام الٰہی سے ماخوذ ہے۔ جس طرح قرآن مجید نے 1400 سال قبل اپنے موثر بیانیے کے ذریعہ تہذیب وتمدن سے عاری انسانوں کے ذہنوں سے جاہلیت کے افکار مٹا کر قلوب کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا ہے جو دور حاضر کے لیے بھی ایک مثال ہے، کیونکہ انسان کی فطرت ازل سے ابد تک ایک ہی رہے گی۔ لہٰذا اس تربیتی کیمپ کا اصل ارتکاز موثر بیانیے کی تشکیل کے لیے درکار ہنر اور صلاحیتوں کے فروغ پر مرکوز تھا۔ چونکہ فلموں اور افسانوں کا موثر بیانیے کی تشکیل اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے میں اہم کردار ہوتا ہے، اس لیے جماعت اسلامی ہند کا شعبہ میڈیا اس خصوص میں کام کر رہا ہے اور جلد ہی قومی سطح پر ایک ایک ’شارٹ فلم میلے‘ کے اہتمام کا منصوبہ ہے۔ ریاستوں سے بھی توقع کی گئی کہ وہ اپنے ہاں شارٹ فلم فیسٹیول منعقد کریں گے۔ میڈیا سکریٹری جناب سہیل کے کے نے جماعت اسلامی ہند کے میقاتی مشن کے حوالے سے مرکز کے پروگرام اور ریاستوں میں کرنے کے کام کا ایک مبسوط خاکہ پیش کیا۔ قبل ازیں جناب سید خلیق احمد اسسٹنٹ سکریٹری جماعت اسلامی ہند و چیف ایڈیٹر انڈیا ٹو مارو نے خیرمقدمی تقریر کی۔
جناب سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی ہند نے بذریعہ ویڈیو پیام اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ ’پبلک اوپینین کی تبدیلی‘ رواں میقات کا مشن ہے چونکہ میڈیا کا راست تعلق رائے عامہ سے ہے اس لحاظ سے یہ بہت ہی اہم شعبہ ہے۔ امیر جماعت نے  میڈیا کی جدید ترقی یافتہ شکلوں اور عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کی اس کی صلاحیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا ایک خاص تناظر Selective) Spectrum) وضع کرتا ہے اور اسی تناظر میں باتیں پیش کرنی ہوتی ہیں۔ میڈیا کی جارحیت (Agression) محض وقتی مسائل تک محدود نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی پسند کے بیانیوں کے ساتھ بتدریج ذہنوں پر اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ میڈیا کے اس منفی کردار کو اسلاموفوبیا کے فروغ میں اس کے رول سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اسلاموفوبیا کے موضوع پر بہت پہلے ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب میں بیان کیا تھا کہ میڈیا کس طرح منصوبہ بند طریقے سے ساری دنیا میں اسلام کے تعلق سے منفی رائے پیدا کرتے ہوئے اسلام کے بارے میں کروڑہا نفوس پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اس کتاب کی تصنیف کے وقت جو حالات تھے اب وہ کافی بہت بدل گئے ہیں اور میڈیا کے ذریعہ اسلاموفوبیا کی مہم اور بھی زیادہ شدت اختیار کرچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کی پوری اسکیم یہ ہے کہ مغربی اقدار کو فروغ دیا جائے۔ اس ضمن میں لباس کی مثال لی جا سکتی ہے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے: يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا  (اے اولاد آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا تاکہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہاری آرائش ہو (الاعراف؛ آیت 26) اس کے برعکس میڈیا کے ذریعہ لباس کے بارے میں یہ تصور قائم کیا جاتا ہے کہ یہ حسن کی نمائش، اپنی حیثیت کا اظہار اور فیشن کی علامت ہے۔ آہستگی سے ذہنوں میں سرایت کر جانے والے اس زہر کا اثر یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے بھی ستر کی حفاظت کا مقصد بتدریج غیر اہم ہونے لگتا ہے اور نتیجتاً بے حیائی وعریانیت سے وہ مانوس ہو جاتے ہیں۔ اس طرح وہ شریعت کی پابندی سے پرے میڈیا کی تخلیق کردہ ایک رنگا رنگ مصنوعی دنیا میں رہنے لگتے ہیں۔
امیر جماعت نے کہا کہ میڈیا اکثر سماج میں ایسی فضا پیدا کر دیتا ہے کہ لوگ جھوٹ کے عادی بن جاتے ہیں۔ یہ کسی معاشرے کے اجتماعی ضمیر کی موت ہوتی ہے کہ وہ جھوٹ سننے اور قبول کرنے پر اس حد تک آمادہ ہو جائیں کہ جھوٹ کو قبول کرنا ایک معمول بن جاتا ہے۔ جبکہ قرآن کہتا ہے :اور اے محمدؐ، میرے بندوں سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے (بنی اسرائیل: آیت 17)
اس  آیت کو قرآن کا میڈیا مینی فیسٹو کہنا غلط نہیں ہوگا۔ ذرائع ابلاغ کے لیے اسے ایک رہنما اصول بننا چاہیے۔ امیر جماعت نے کہا کہ اب  میڈیا جدید ترقی کے مدارج طے کر کے ’اضافہ شدہ حقیقت‘ (augmented reality) کی طرف پیش رفت کر رہا ہے۔ ہولوگرام اور ہولولینس جیسی ترقی یافتہ ٹیکنالوجیوں کے ذریعہ میڈیا کا مواد اس طور پر سامنے لایا جاتا ہے کہ سامع کے لیے یہ پیشکش حقیقی دنیا کے تجربے سے کم نہیں ہوتی۔ میڈیا کی تخلیق کردہ یہ فرضی دنیا حواس خمسہ پر کچھ اس طرح اثر انداز ہوتی ہے کہ وہ اسی فرضی دنیا کا مکین بن جاتا ہے۔ وہ وہی مطلب اخذ کرتا ہے جو میڈیا اخذ کرانا چاہتا ہے اور یوں اس کا ضمیر لا شعوری طور پر ایک بیرونی قوت کا تابع فرمان ہو جاتا ہے۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں میڈیا سے درپیش چیلنج کتنا گمبھیر ہونے جارہا ہے۔ امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ جب ہم میڈیا کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہمارا مقصد صرف جماعت کے پروگراموں کا کوریج نہیں ہوتا، یہ تو اصل کام کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جبکہ اصل کام عوام الناس کی رائے کو مثبت رخ پر بدلنا ہے۔ ہمیں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے غلط بیانیوں کا جواب دیتے ہوئے صحیح بات کو سامنے لانا ہوگا۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے غیر معمولی ذہانت اور پلاننگ کی ضرورت ہوگی۔ جناب سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ آج زمانے میں صرف بات کو سامنے لانا نہیں ہے بلکہ پورے زور وقوّت کے ساتھ اپنی بات رکھنی ہے۔ کسے، کب اور کتنا بولنا ہے یہ شعور بھی ضروری ہے۔ اگر آپ اپنی بات غیر حکیمانہ طریقے سے پیش کریں گے تو نیا بیانیہ بنانا تو کجا الٹا موجودہ منفی بیانیے ہی کو مستحکم کریں گے۔ امیر جماعت نے کہا کہ ہمیں اپنے میڈیا کے ذریعہ صرف اپنے کیڈر کو مطمئن کرنا نہیں ہے بلکہ اس ملک کے عوام کو متاثر کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ میڈیا چاہتا ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ انتہا پسندانہ لب ولہجہ اختیار کریں لہٰذا ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ منفی رویّوں سے باز رہیں ۔
جناب ٹی عارف علی قیم جماعت اسلامی ہند نے جو کیرالا میں قائم میڈیا ادرہ مادھیامم براڈکاسٹنگ لمیٹڈ کے صدر نشین بھی ہیں، میڈیا کے منفی کردار سے نمٹنے کے لیے بروقت موثر بیانیوں کی تشکیل پر زور دیا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے ریاست کیرالا میں جماعت اسلامی ہند کے شعبہ میڈیا کے رول کو مثال کے طور پر پیش کیا جس نے 7؍ اکتوبر کو حماس کے حملہ کے بعد چلائے جانے والے بیانیے کو اس جوابی بیانیے کے ذریعہ موڑدیا کہ حماس کا حملہ دہشت گردی نہیں ہے بلکہ فلسطین کی آزادی کے لیے کئی دہاہیوں سے جاری مزاحمت کا حصہ ہے اور آزاد فلسطین، فلسطینیوں کا حق ہے۔ قبل ازیں ’’بیانیے کی تشکیل کا فن اور علم‘‘ کے موضوع پر سینئر پالیٹیکل کنسلٹنٹ رضوان احمد نے پاور پائنٹ پریزنٹیشن دیا۔ جناب ضیاءالسلام اسوسی ایڈیٹر ’’دی ہند‘‘ نے جماعت اسلامی ہند کے میڈیا اداروں کی جانب سے شائع ہونے والے جرائد میں ’بابری مسجد فیصلے‘ کے کووریج کا ناقدانہ تجزیہ پیش کیا۔ انہوں نے جہاں بعض کمیوں کی طرف نشان دہی کی وہیں ہفت روزہ دعوت کے اداریہ، سرورق کے ڈیزائین اور سرخی  ’’ہے رام‘‘ کی ستائش کی اور مواد کی پیشکش اور لب و لہجہ کو نری جذباتیت سے عاری اور متوازن قرار دیا۔
پروفیسر محمد سلیم انجینیئر نے ’’جے آئی ایچ فیملی کے لیے ایک مضبوط میڈیا نیٹ ورک کیسے قائم کیا جائے‘‘ کے موضوع پر مباحثہ کی نگرانی کی۔ کیمپ کا آغاز مولانا اعجاز احمد اسلم ایڈیٹر ان چیف ’ریڈیئنس ویوز ویکلی‘ کے تذکیر بالقرآن سے ہوا۔ جنہوں نے اپنی زیر ادارت رسالہ کے 60 سال مکمل ہونے کی خوشی میں تربیتی کیمپ کے شرکاء کو عصرانے پر مدعو کیا اور تحائف دیے۔ اس تربیتی کیمپ میں پرنٹ میڈیا سے منسلک صحافیوں کے لیے متوازی سشنس رکھے گئے تھے جس میں ڈاکٹر محی الدین غازی مدیر ’زندگی نو‘ نے رسائل وجرائد کے معیار میں اضافے کے سلسلہ میں رہنمائی کی جبکہ جناب عرفان وحید سب ایڈیٹر  ’زندگی نو‘ نے ’’ اے آئی کے ذریعہ ادارتی مواد کو موثر بنانے کے تعلق سے مفید مشورے دیے۔ جناب ارشد شیخ سابق میڈیا انچارج مرکز جماعت اسلامی ہند نے میڈیا اسٹیٹمنٹ کی ڈرافٹنگ اور سوشل میڈیا کے ذریعہ وسیع تر رسائی کے موضوعات پر پاور پائنٹ پریزنٹیشن دیے۔ کیمپ کے دوسرے دن مولانا رضی الاسلام ندوی نے تذکیر بالحدیث پیش کی۔ اس کیمپ میں اپنے موضوع کے ماہر رسورس پرسنس مسیح الزماں انصاری ایڈیٹر انڈیا ٹومارو، محمد ارشد عالم سینئر ملٹی میڈیا پروٹیوسر ’دی کوئنٹ‘ صدر الدین وزہکاڈ ایڈیٹر پربدھانم، شاداب معیزی (دی کوئنٹ) اطہر راتھر (دی کوئنٹ) اور ثنا عامر ملٹی میڈیا پروٹیوسر (ہمال ساوتھیشین) نے علی الترتیب سٹی زن جرنلزم، آڈیو ویڈیو کی تیاری کے گُر، ادریہ نویسی کا فن، ملٹی میڈیا کے ٹولس اور ’کہانی کہنے کا فن‘ جیسے موضوعات کا احاطہ کیا۔
شرکا کے باہمی تعارف کا سیشن کافی دلچسپ رہا۔ انڈومان جزائر سے نمائندگی کرنے والے برادر مجیب الرحمٰن اور ان کے ساتھی نے جب اپنے تعارف کے ساتھ ساتھ سیاحت کے لیے مشہور اپنے مقام کا بھی تعارف کروایا اور ساتھیوں کو انڈومان آنے کی دعوت دی تو جناب سہیل کے کے نے جن کا ٹور اینڈ ٹراویلس کا بزنس ہے، یہ کہتے ہوئے حاضرین کو مسرور کر دیا کہ انڈومان کے ساتھیوں نے آپ کو دعوت دی ہے اور میں آپ کو وہاں لے جانے کے لیے حاضر ہوں۔ ان شاء اللہ آئندہ کیمپ وہیں کریں گے‘‘۔
***

 

***

 اس دو روزہ تربیتی کیمپ کے ذریعہ شرکاء کو اس بات کا احساس دلایا گیا کہ اس وقت میڈیا پر اثر انداز ہونے کے لیے کس طرح کی متنوع صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ صرف اچھا بولنا اور لکھنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ وہ ذہانت و لیاقت درکار ہے جس کے ذریعے مناسب بات مناسب پیرائے میں کہی جائے اور بروقت کہی جائے۔ اپنی بات سیدھے سادے سنجیدہ اسلوب میں کہی جا سکتی ہے لیکن اگر اثر پذیری مطلوب ہو تو کام میں معیار اور پیشہ وارانہ تقاضوں کا لحاظ اور بالواسطہ طریقوں سے ذہن و خیال پر اثر انداز ہونے کا ہنر جاننا ضروری ہوتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 نومبر تا 2 دسمبر 2023