رسول اکرمؐ کا دوستوں کے ساتھ مثالی برتاو

ساتھیوں کی تربیت محبت،شفقت اور عزت وتکریم کے ساتھ

جاویدہ بیگم ورنگلی

اس دنیا کے خالق و مالک نے آپﷺ کی ذات مبارک کو تمام انسانوں کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا ہے۔ ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے:
درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولﷺ میں بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے‘‘۔ (سورۃ الاحزاب۔۲۱)
یہ اس بات کا ثبوت ہے آپﷺ کا اسوہ مبارکہ ہر دور، ہر زمانے میں زندگی کے ہر معاملے میں چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، گھریلو زندگی میں ہو یا باہر کی ہنگامہ خیز زندگی میں ہو، دوستوں میں ہو یا دشمنوں میں، اپنوں میں ہو یا بیگانوں میں رہبری و رہنمائی کرسکتا ہے۔ رہبر انسانیت کا ذکر مبارک کرنا صرف باعث سعادت ہی نہیں ہے بلکہ ہماری زندگی کی بہت بڑی ضرورت ہے کیونکہ اس کا تعلق ہماری اپنی فلاح و کامرانی سے ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ مختلف انداز سے آپﷺ کی زندگی کے مختلف پہلو ہمارے سامنے بار بار آتے رہیں اور یاد دہانی اور روحانی غذا کا کام کرتے رہیں۔
ہر شخص کے دوست احباب ساتھی ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ کسی قسم کا سلوک کرنا چاہیے، اس کی رہنمائی آپ ﷺ کے اسوہ مبارکہ سے ملتی ہے۔ آپ ﷺ کا سلوک اپنے رفقا کے ساتھ دوستانہ محبت بھرا ہوتا تھا۔ آپ ﷺ کے رفقا کو آپ ﷺ سے ملنے میں کوئی خوف ہوتا تھا اور نہ کسی قسم کی کوئی جھجھک۔ جیسا کہ آج کسی آدمی کو کوئی اونچا مقام حاصل ہوجاتا ہے تو اس کے خاص دوستوں کو بھی اس سے ملنے میں جھجھک محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس میں ایک قسم کا احساس برتری پیدا ہوجاتا ہے۔ آپ ﷺ جو تمام انبیا کے سردار تھے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا حبیب کہہ کر سب سے اونچے مقام پر فائز کیا ہے۔ آپ ﷺ اپنے دوستوں کی دلداری کا خوب خیال رکھتے تھے۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر پہلی بار اپنے قبیلہ کے ساتھ آپ ﷺ کے دست مبارک پر موت کی بیعت کی تھی۔ تھوڑی دیر بعد حضور ﷺ کی نظر ان پر پڑی تو آپ ﷺ نے فرمایا اے ابن اکوع! کیا بیعت نہیں کرو گے۔ انہوں نے فوراً تعمیل کی۔ حضورﷺ نے ازراہ کرم انہیں ایک ڈھال عنایت کی۔ دوسری مرتبہ حضور ﷺ کی نظر پر پڑی تو فرمایا سلمہؓ بیعت نہ کرو گے ‘‘۔ عرض کیا ’’اے اللہ کے رسول ﷺ آپ پر میرے ماں باپ قربان میں تو دو مرتبہ بیعت کرچکا ہوں‘‘۔ حضور ﷺ نے فرمایا ’’کیا حرج ہے۔ تیسری مرتبہ سہی ‘‘ حضرت سلمہ بن اکوعؓ نے تیسری مرتبہ بیعت کا شرف حاصل کیا۔ اس وقت آپﷺ نے جو ڈھال ان کو عنایت کی تھی وہ ان کے پاس نہیں ہے۔ پوچھا، سلمہ وہ ڈھال کہاں ہے۔ عرض کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ میرے چچا کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا ان کو دے دی‘‘۔
حضور ﷺ ہنس پڑے فرمایا ’’سلمہ تمہاری مثال تو اس آدمی جیسی ہے جس نے دعا کی تھی کہ اللہ مجھ کو ایسا دوست دے جو مجھ کو اپنی جان سے بھی پیارا ہو‘‘۔
اللہ کے رسولﷺ صرف اپنے صحابہ کرام کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ان کے خاندان کے بچوں کے ساتھ بھی محبت بھرا برتاو کرتے تھے۔ حضرت بشیر بن سعدؓ جن کی اہلیہ حضرت عبداللہ بن رواحہ کی بہن تھیں، جو شرف صحابیت سے بہرہ ور تھیں ان کے صاحب زادے نعمان ؓ بن بشیر تھے۔ جو ہجرت نبویﷺ کے بعد وہ پہلے بچے تھے جو انصاری گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ سرور عالمﷺ نے نعمانؓ اور ان کی والدہ عمرہ پر بڑی شفقت فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ حضورﷺ کے پاس طائف سے انگور آئے۔ اس وقت ننھے نعمان بارگاہ نبوی میں حاضر تھے۔ حضور ﷺ نے ان کو انگور کے دو خوشے عطا کیے اور فرمایا کہ ایک تمہارا ہے اور ایک تمہاری والدہ کا ہے۔ نعمان راستے میں انگور کے دونوں خوشے کھاگئے اور ماں کو بتایا تک نہیں۔ چند دنوں کے بعد نعمان حضورﷺ کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے پوچھا، نعمان! انگور کا وہ خوشہ اپنی ماں کو دے دیا تھا۔ بولے، یا رسول اللہ نہیں۔ حضورﷺ نے پیار سے ان کے کان امیٹھے فرمایا، کیوں مکار!۔
آپﷺ اپنے صحابہ کرام کے حسن عمل کو یوں ہی نظر انداز نہیں کیا کرتے تھے بلکہ کو سراہا کرتے اور کسی نہ کسی اعزاز سے نوازا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ایک اعرابی سے ایک گھوڑا خریدا، یہ سودا راستے میں کسی ایسی جگہ پر طے ہوا جو کاشانہ نبوی سے کچھ دور تھا۔ قیمت آپﷺ کے پاس نہیں تھی چنانچہ آپﷺ اس اعرابی کو قیمت دینے کے لیے اپنے ساتھ لے چلے۔
حضور ﷺ نے چلنے میں جلدی کی تا کہ گھر پہنچ کر جلد سے جلد قیمت ادا کریں۔ لیکن اعرابی نے چلنے میں سستی کی یہاں تک کہ بہت پیچھے رہ گیا۔ اس اثناء میں اسے کچھ لوگ ملے اور گھوڑے کا بھاؤ تاؤ کرنے لگے ان لوگوں کو علم نہیں تھا کہ حضور صلی ﷺ نے یہ گھوڑا خرید لیا ہے۔ ان لوگوں میں سے بعض نے اعرابی کو اس قیمت سے زیادہ پیشکش کی جو حضور ﷺ سے طے پا چکی تھی۔ اس پر اعرابی نے حضورﷺ کو بآواز بلند پکار کر کہا آپ ﷺ گھوڑ ا خریدتے ہیں یا نہیں ورنہ میں اس کو دوسرے کے ہاتھ بیچتا ہوں ۔‘‘ آپ ﷺنے اعرابی کی آواز سنی تو کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ اعرابی آپ ﷺ کے پاس آ گیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا ’’ تم گھوڑا میرے ہاتھ بیچ چکے ہو۔ اعرابی مکر گیا اور بولا واللہ میں نے اس کو آپ ﷺکے ہاتھ نہیں بیچا۔ آپ ﷺنے فرمایا ’’ تو اس کو میرے ہاتھ بیچ چکا ہے اور میں نے تجھ سے اس کو خرید لیا ہے ۔ حضور ﷺاپنی بات دہراتے رہے اور اعرابی ہر مرتبہ انکار کرتا رہا اور کہا کہ اگر میں نے اس کو آپ کے ہاتھ بیچا ہے تو اس کا کوئی گواہ لائیے۔ اتنے میں حضرت خزیمہ بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے اعرابی کو مخاطب ہو کر کہا کہ میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ تو نے یہ گھوڑا حضور ﷺکے ہاتھ بیچا ہے۔ اس پر رسول ﷺتم نے حضرت خزیمہ سے پوچھا کہ تم تو اس وقت موجود نہ تھے پھر یہ شہادت کس طرح دے رہے ہو۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺمیں آپ کی بات کی تصدیق کر رہا ہوں چونکہ آپ ﷺجو کچھ فرماتے ہیں حق ہی فرماتے ہیں۔ اس لیے میں نے گواہی دی۔ ان کا جوش و اخلاص دیکھ کر آپ ﷺنے فرمایا ’’ خزیمہ جس کے مخالف یا موافقت گواہی دیں تو صرف ان کی تنہا گواہی کافی ہے۔ ان کی شہادت دو آدمیوں کی شہادت کے برابر ہے۔ چنانچہ آپﷺ کے اس اعزاز کی وجہ سے حضرت خزیمہ ذالشہادتین کے لقب سے مشہورہوئے ۔ اللہ کے رسولﷺ اپنے رفقاکی خوبیوں کو پرکھتے اور داد تحسین سے نوازتے تھے، ان کی ہمت افزائی کیا کرتے تھے۔ جنگ احد میں درے کے جانب سے دشمنوں نے اچانک زور دار حملہ کیا تو مسلمانوں کے قدم لڑکھڑا گئے، رسول ﷺ کے پاس دس صحابہ بھی نہ رہ گئے تھے۔ اس نازک ترین موقع پر حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے اس جرات اور مہارت سے تیراندازی کی کہ دشمنوں میں سے جسے ایک تیر لگتا وہ وہیں ڈھیر ہو جاتا، ان کا کوئی نشانہ بھی خطا نہیں گیا۔ جب آپ ﷺ نے یہ ماہرانہ تیراندازی دیکھی تو حوصلہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’سعد تیرچلاتے رہو۔ میرے ماں باپ تم پر قربان۔ سعد تیر چلاتے رہو ‘‘۔ یہ الفاظ کو سن کر سعد بن ابی وقاص کو جو خوشی حاصل ہوئی ہوگی اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص عمر بھر حضور ﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے اس جملے پر فخر کرتے تھے۔ اکثر فرمایا کرتے تھے تمام صحابہ کرام میں مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ رسول اللہ ﷺنے یہ جملہ ’’میرے ماں باپ تم پر قربان‘‘ صرف میرے لیے استعمال کیا ہے۔
حضرت عقبہ بن عامر جو مدینہ سے دور جنگلات میں اپنی بکریاں چرایا کرتے تھے ان کو حضور ﷺ کے مدینہ تشریف لانے کی خبر جنگل میں ملتی ہے۔ مدینہ آئے اور آپ ﷺ سے بیعت لی اور جنگل چلے گئے۔ مگر کچھ ہی عرصہ کے بعد بکریوں کو چھوڑ کر مدینہ آئے اور رسول ﷺ کے ساتھ سائے کی طرح وابستہ ہو گئے۔ جب بھی حضور ﷺ سفر پر روانہ ہوئے تو یہ آپ ﷺ کے گھوڑے کی لگام تھام لیتے۔ کئی دفعہ اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں گھوڑے پر اپنے پیچھے بٹھایا۔ آپ حضور ﷺ کے باڈی گاڈ کی حیثیت سے معروف ہوئے۔ دوران سفر بعض اوقات حضور ﷺ سواری سے نیچے اترتے اور انہیں سوار ہونے کا حکم دیتے اور خود پیدل چلنے لگتے۔ حضرت عقبہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کے گھوڑے کی لگام تھامے ایک راستے سے گزر رہا تھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا ’’ عقبہؓ کیا تم سوار نہیں ہو گے ؟ میرے دل میں آیا نفی میں جواب دوں۔ لیکن فوراً خیال آیا کہ کہیں یہ آپ ﷺ کی نافرمانی نہ ہو جائے ۔ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ ہاں، یا رسول اللہ ﷺ یہ سن کر رسول الله ﷺ گھوڑے سے نیچے اترآئے اور مجھے سوار ہونے کا حکم دیا اور تعمیل ارشاد کرتے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ آپ ﷺ پیدل چلنے لگے۔ یہ بات میں برداشت نہیں کر سکا فوراً گھوڑے سے نیچے اتر آیا اور عرض کیا یا رسول ﷺ آپ ہی سوار ہوں میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ میں سوار ہوں اور آپ پیدل چلیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ سوار ہو گئے۔ اور ارشاد فرمایا ’’عقبہ! کیا میں تجھے دو ایسی سورتیں نہ سکھا دوں جن کی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’ضرور یارسول ﷺ تو آپ ﷺ نے مجھے قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر سنائیں۔ پھر نماز پڑھی تو نماز میں بھی آپ ﷺ نے ان ہی دو سورتوں کی تلاوت کی اور فرمایا کہ ان دو سورتوں کو سوتے اور بیدار ہوتے وقت پڑھ لیا کرو۔ حضرت عقبہ کہتے ہیں میں نے ان دو سورتوں کی تلاوت کو اپنا معمول بنائے رکھا۔
حضرت ثابتؓ بن قیس انصاری جنہیں یثرب میں پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ جب رسول ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو ثابتؓ بن قیس نے اپنی قوم کے شہسواروں کو ساتھ لے کر آپ ﷺ کا استقبال کیا۔ انہوں نے آپ ﷺ کے سامنے نہایت فصیح و بلیغ انداز میں خطاب کیا۔ خطبے کا آغاز حمد و ثنا اور درود و سلام سے کیا اور اختتام ان کلمات پر کیا۔ یا رسول اللہ ﷺ ہم آپ سے معاہدہ کرتے ہیں کہ ہم دل و جان سے آپ کا ساتھ دیں گے۔ ہم آپ ﷺ کی حفاظت اس طرح کریں گے جیسے ہم اپنی جانوں، اپنی اولاد اور اپنی عورتوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یا رسول اللہ ﷺ اس کے بدلے میں کیا ملے گا۔ آپ نے ارشاد فرمایا ’’جنت‘‘۔ جنت کا نام سنتے ہی قوم کے لوگ خوش ہو گئے اور کہنے لگے اس بدلے پر ہم راضی ہیں یا رسول ﷺ۔ اس دن سے آپ ﷺ نے ثابتؓ بن قیس کو خطیب کا لقب دیا۔ جیسا کہ حسان بن ثابت کو شاعر کے اعزاز سے نوازا تھا۔ جب عرب کے وفود آپ ﷺ کے سامنے اپنی قوم کے خطیبوں اور شاعروں کی فصاحت کا تذکرہ کرتے تو آپ ﷺخطیبوں کے مقابلے میں حضرت ثابتؓ بن قیس اور شعراء کے مقابلے میں حسان بن ثابت کو پیش کرتے تھے ۔ ایک روز رسول اقدس ﷺ نے انہیں انتہائی غم واندوہ میں مبتلا دیکھا۔ خشیت الہی سے ان کے کندھے کانپ رہے تھے۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا ثابت ! تجھے کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع کیا ہے کہ ہمارے ایسے کارناموں پر تعریف کی جائے جو ہم نے سرانجام ہی نہیں دیئے اور میرا دل اس قسم کی تعریف کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے کبر سے منع کیا ہے اور میں خود پسندی کا خوگر ہوں ۔ آپ ﷺ نے تسلی دینے کے لیے حضرت ثابت بن قیس کے کندھوں پر مسلسل تھپکی دیتے گئے اور ارشاد فرمایا ’’ثابت! تجھے یہ پسند نہیں کہ زندگی میں تمہاری تعریف ہو اور شہادت کی موت نصیب ہو، اور تم جنت میں داخل ہو جاؤ۔ یہ خوشخبری سن کر حضرت ثابت بن قیس کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور کہنے لگے ” کیوں نہیں یا رسول ﷺ، کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی یا آپ ﷺنے ارشاد فرمایا تمہارے ساتھ اسی طرح کا معاملہ ہوگا۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 ڈسمبر تا 31 ڈسمبر 2022