رسول اللہ ﷺ کا سفرِحج

جب صحابہ کرامؓ نے جوق درجوق حضورؐ کی اقتداء میں فریضہ حج ادا کیا تھا

ڈاکٹر سید محمد انس ندوی

روحانی ارتقاء کا عروج ۔ رشد وہدایت سے معمور تاریخ اسلام کا ایک روشن باب
منصبِ نبوت و رسالت کی ذمہ داریاں پوری ہونے پر مشیتِ ایزدی کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے حج کا ارادہ کیا اور اس کا اعلان فرمایا۔ یہ سننا تھا کہ پورے جزیرہ عرب سے لوگ جوق درجوق مدینہ طیبہ میں اکٹھا ہونا شروع ہوگئے، ہر ایک کی دلی خواہش تھی کہ وہ رسول اکرم ﷺ کی اقتداء میں فریضہ حج ادا کرے اور دین اسلام کے احکام و اس کی بنیادی باتوں کو سیکھ لے۔
حضرت جابرؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے سفرِ حج کی تیاری شروع کی اور بروز اتوار بعد ظہر ۲۶؍ ذوالقعدہ کو مدینہ منورہ سے کوچ کیا اور ذوالحلیفہ میں قیام فرمایا، رات آپ نے وہیں گزاری اور صبح کے وقت آپ نے فرمایا کہ ’’رات میں ایک آنے والے نے مجھے میرے رب کی طرف سے یہ پیغام دیا ہے کہ اس مبارک وادی میں نماز ادا کرو اور عمرہ مع حج کی نیت کرو‘‘
آپ نے ظہر سے قبل غسل فرمایا، حضرت ام المؤمنین عائشہؓ نے خوشبو لگائی، آپ نے عمرہ و حج کا ایک ساتھ احرام باندھا، آپ کی سواری لائی گئی اس پر انتہائی خشوع وخضوع اور تواضع کے ساتھ سوار ہوئے اور قبلہ رو ہو کر اپنے دونوں مبارک ہاتھوں کو بلند کیا اور تلبیہ پڑھی (لبیک حجۃ لا ریاء فیہا و لا سمعۃ، لبیک اللھم لبیک، لبیک لاشریک لک لبیک، إن الحمد والنعمۃ لک و الملک ، لاشریک لک) ’’حاضر ہوں میں، اے میرے رب! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، حاضر ہوں، ساری تعریفیں تیرے لیے ہیں، نعمت تیرے قبضے میں ہے، بادشاہی تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں‘‘ حضور ﷺ کی معیت میں تلبیہ کی صدا بلند کرتا ہوا موحدین کا کارواں بیت اللہ کے طرف چل پڑا۔
صحابہ کرامؓ کا جم غفیر آپ کے ساتھ تھا، دلوں میں جاں نثاری و فدائیت کا جذبہ، نگاہوں میں شوق و محبت، زبانوں پر تکبیرو تہلیل اور تلبیہ۔ یہ ملائکہ صفت انسانی سمندر آپ کا اس طرح احاطے کیے ہوئے تھا جیسے چاند کے گرد ہالہ۔ یہ سفر انتہائی سادگی کے ساتھ جاری رہا، نہ راستوں اور آبادیوں میں استقبال کا تکلف، نہ ہٹو بچو کی صدا، نہ جلوسی ہنگامہ آرائی، نہ خیموں وشامیانوں کا تزک واحتشام ۔ رسول خدا لوگوں کے بیچ ان کے ساتھ بغیر کسی امتیازی نشان وعلامت کے ہمسفر تھے، ٹھاٹھیں مارتے ہوئے انسانی سمندر میں کوئی چیز آنحضرتؐ کو نمایاں کررہی تھی تو وہ تھا آپ کا جلال نبوت اور چہرہ پر وقار پر رونقِ رسالت۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں ابو طلحہؓ (سوتیلے باپ) کے پیچھے سوارتھا، ان کی سواری رسول اللہ ﷺ کے اتنے قریب تھی ان کا گھٹنا آپ کے مبارک گھٹنوں سے ٹکرا رہا تھا۔
مدینہ منورہ سے اتوار کے دن سفر شروع ہوا اور مکہ مکرمہ تک پورے آٹھ دن میں یہ سفر مکمل ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے مکہ کے قریب ذی طوی میں جو آجکل (جرول) کے نام سے معروف ہے قیام فرمایا، طویل سفر کے بعد آرام کی شدید ضرورت تھی، لہٰذا رات وہیں پر گزاری، دوسرے دن صبح آپ نے غسل فرمایا اور اونٹنی پر سوار ہو کر ثنیۃ الکدی کے راستے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ ثنیہ الکدی کا راستہ الحجون پل سے ہوتا ہوا مقبرہ المعلی تک پہنچتا ہے۔ صحابہ کرام آپ کے ہمراہ تھے۔ ہر ایک کی نگاہِ شوق چہرہ انور کے دیدار کے لیے اٹھ رہی تھی۔ باب بنی شیبہ کے پاس سواری روکی اور اسی دروازے سے مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ کعبۃ اللہ اپنی آب وتاب اور شوکت وجلال کے ساتھ آپ کے سامنے تھا۔ نگاہ پڑتے ہی آپ نے دعا مانگی: ’’اللہم زد بیتک ہذا تشریفا و تعظیما و مہابۃ و زد من شرفہ وکرمہ تشریفا و تکریما و برا‘‘۔ ’’اے اللہ! تو اپنے اس گھرکی عظمت و شرف اور جلال کو مزید بڑھا اور ہر اس شخص کی عزت و شرف اور نیکی میں اضافہ فرما جو اس کی تعظیم کرے، اس کی زیارت کرے‘‘۔
رسو ل اللہ ﷺ نے بیت اللہ شریف کا طواف کیا، شروع کے تین چکروں میں آپ نے اضطباع اور رمل کیا (اضطباع : احرام کی چادر داہنی بغل سے نکال کر بائیں مونڈھے پر ڈالنے کو کہتے ہیں اور رمل: قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیز تیز چلنے کو کہتے ہیں) رکنِ یمانی اور حجر اسود کے درمیان (ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار) کا ورد کرتے، طواف مکمل کرنے کے بعد آپ (واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی) ’’اور مقام ابراہیم پر نماز ادا کریں‘‘ پڑھتے ہوئے مقام ابراہیم تک آئے اور وہاں دو رکعت نماز ادا کی، پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ الکافرون اور دوسری رکعت میں سورہ الاخلاص پڑھی۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ دوبارہ حجر اسود کے پاس گئے اور اسے چھونے کے بعد دست مبارک چہرۂ انور پر پھیرا۔
طواف کعبہ کے بعد آپ بابِ صفا سے ہوتے ہوئے صفا پہاڑی کی جانب بڑھے، قدرے اوپر چڑھ کر قبلہ کی جانب رخ کیا، جب کعبۃ اللہ نظر آنے لگا آپ نے تلاوت فرمائی : ( إن الصفا و المروۃ من شعائر اللہ … اور فرمایا : أبدأ بما بدأ اللہ بہ یعنی میں بھی اسی جگہ (صفا) سے شروع کرتا ہوں جہاں سے اللہ نے شروع کیا۔ دستِ مبارک بلند کیا اور دعا مانگی: (لا الہ إلا اللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، صدق وعدہ، و نصر عبدہ، واعز جندہ، و ھزم الأحزاب وحدہ) یہ دعا پڑھنے کے بعد صفا کے نشیب میں اترتے ہوئے مروہ کی جانب بڑھے جب اس گہرائی میں پہنچے (جہاں دو سبز علامتیں نصب ہیں اور جہاں حضرت ہاجرہ علیہا السلام دوڑی تھیں) آپ ﷺ تیزی کے ساتھ دوڑے اور لوگوں سے فرمایا: ’’اللہ کے بندو! تیزی سے دوڑو، اللہ نے تم کو اس جگہ دوڑنے کا حکم دیا ہے‘‘ راوی بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ اس شدت سے دوڑے کے آپ کی احرام کی تہبند سمٹ کر گٹھنوں پر جا پنہچی۔ حالانکہ آپ کی عمر مبارک ۶۳ سال ہو رہی تھی لیکن اللہ نے آپ کو خاص قوت و طاقت سے نوازا تھا ۔
مروہ پر پہنچ کر خانہ کعبہ کی طرف رخ کر آپ نے وہی دعا پڑھی جو صفا پر پڑھی تھی، اس موقع پر جو دعائیہ کلمات ہیں بہت ہی معنی خیز ہیں 🙁 اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی نصرت کی، اپنی فوج کو غلبہ عطا کیا، اور تنہا ساری جماعتوں کو پسپا کر دیا) اس دعا کے ایک ایک لفظ کی حقیقی تعبیر آپ کے نگاہوں کے سامنے تھی، اس جم غفیر میں ایک بھی فرد ایسا نہ تھا جو موحد کامل نہ ہو، اللہ نے اپنے نبی سے کیے ہوئے وعدہ کو سچ کر دکھایا تھا، کفر و شرک کی ساری طاقتیں پسپا ہو چکی تھیں بلکہ ان کا نام و نشان مٹ چکا تھا۔ رب واحد کی تنہا پرستش ہورہی تھی اور (لاغلبن اناورسلی) یقینا میں اور میرا رسول ہی غالب آکر رہیں گے) کا کھلی آنکھوں مشاہدہ ہو رہا تھا۔ دس سال قبل کی ہزیمت فتح میں، توہین و تذلیل عزت و وقار میں، بے یاری و مدد گاری نصرت وتمکین میں تبدیل ہوچکی تھی، اللہ کا رسول ایک لاکھ چوبیس ہزار اور ایک روایت کی مطابق ایک لاکھ چوالیس ہزار جاں نثاروں اور فدائیوں کے جلو میں مناسک حج ادا کر رہا تھا اور اللہ کی بڑائی اور عظمت کے فلک شگاف نعرے لگ رہے تھے۔ یہ وہی صفا پہاڑی تھی جہاں پر ہجرت سے قبل اللہ کے رسول نے تمام قبائل قریش کو جمع کیا تھا اور ان سے یہ اقرار لینے کے بعد کہ میں جو کہتا ہوں حرف بحرف سچ کہتا ہوں، جب دعوت حق سنایا تو ابو لہب نے انتہائی اہانت آمیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا: تبا لک یا محمد الہذا جمعتنا؟! ’’محمد تیرا برا ہو کیا اسی کے لیے ہم لوگوں کو اکٹھاکیا تھا؟‘‘ آپ کو تن تنہا چھوڑ کر ہر ایک نے اپنی اپنی راہ لی تھی۔
عمرہ کے مناسک مکمل فرمانے کے بعد آپ نے اپنا احرام نہیں کھولا کیونکہ آپ نے حج وعمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھا تھا، البتہ صحابہ کرام کو جو اپنے ساتھ قربانی کے جانور ساتھ نہ لائے تھے حکم دیا کہ وہ احرام کھول دیں اور حلال ہو جائیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کے ساتھ مکہ کے بالائی حصہ کے بڑے میدان میں’’حجون‘‘ پر قیام فرمایا۔ یہ جگہ آج کل عدل اور معابدہ کے نام سے جانی جاتی ہے، یہ جگہ بڑی تعداد کے قیام کے لیے مناسب تھی۔آپ نے چار دن تک وہیں قیام فرمایا اور دوبارہ طواف حج (طواف زیارت ) کے سوا اور کوئی طواف نہیں کیا۔اس جگہ آپ نے اتوار، دوشنبہ، سہ شنبہ اور چہارشنبہ چار دن قیام فرمایا۔ جو لوگ مدینہ منورہ سے آپ کے ساتھ نہ آسکے تھے وہ اسی مقام پر آکر آپ کے ساتھ ہوگئے، حضرت علیؓ کو آپ نے کسی مہم پر یمن بھیجا تھا وہ بھی یمن سے واپس آکر اسی جگہ پر آپ سے ملے۔ اسی طرح مختلف جگہوں سے جوق درجوق لوگ آتے گئے اور اس جگہ آپ کے ساتھ قیام کرتے گئے۔
ساتویں ذو الحجہ کو جسے یوم الزینہ کہتے ہیں آپ نے لوگوں کے درمیان خطبہ دیا اور انہیں مناسک حج کے بارے میں ہدایات دیں اور دوسرے دن یعنی آٹھویں ذوالحجہ کو جسے یوم الترویہ کہتے ہیں نے آپ نے صحابہ کرام کے ساتھ منی کے لیے کوچ کیا۔ منی پہنچ کر آپ نے وہاں پر ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور دوسرے دن (نویں ذوالحجہ) کی فجر کی نماز ادا کی اور جب سورج قدرے بلند ہوگیا تو عرفات کے لیے سفر شروع کیا، راستے میں مزدلفہ پڑتا ہے، قریش کا یہ معمول تھا کہ وہ اور حجاج کے بخلاف مزدلفہ ہی میں حج کے لیے وقوف کرتے تھے۔ چونکہ مزدلفہ حدود حرم میں آتا ہے اور وہ اپنے آپ کو اہل حرم سمجھتے تھے لہٰذا انہیں خیال ہوا کہ رسول اللہ ﷺ بھی ان کے ساتھ ہی مزدلفہ میں وقوف فرمائیں گے، لیکن آپ جو سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے، نہ اپنے لیے اور نہ ہی قریش کے لیے کسی امتیازی شان کو پسند فرمایا، لہٰذا عام لوگوں کے ساتھ عرفات کے لیے سفر جاری رکھا، دوران سفر ایک بدو نے اچانک سامنے آکر آپ ﷺ کی اونٹنی کی مہار پکڑلی، لوگوں کو حیرت ہوئی، اس طرح سواری روکنے پر اسے ڈانٹنا شروع کیا، رسول اکرم ﷺ اس اعرابی کی جانب متوجہ ہوئے اور پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ میں آپ سے دو باتیں پوچھنا چاہتا ہوںب پہلی یہ کہ کونسا عمل مجھے جہنم سے چھٹکارا دلا سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ کونسا عمل جنت میں داخل کر سکتا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ بات بآسانی بھی پوچھ سکتے تھے، خواہ مخواہ معاملہ کو طول دیا (یعنی سواری روکنے کی ضرورت نہ تھی) غور سے سنو، اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، نماز قائم کرو، زکاۃ دو، صلہ رحمی کرو، اب اونٹنی کی مہار چھوڑ دو‘‘
عرفات کے میدان میں مقام نمرہ پر آپ تشریف لے گئے، وہاں آپ کے لیے ایک خیمہ نصب کیا گیا تھا، اس میں آپ نے آرام فرمایا جب سورج ڈھل گیا تب آپ کی اونٹنی سواری کے لیے لائی گئی، اس پر سوار ہو کر آپ وادی میں تشریف لائے اور ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا جس میں دین اسلام کی ساری بنیادیں باتیں بتلائیں اور جاہلیت کے سارے رسم ورواج کو کالعدم قرار دیا۔ یہ خطبہ، خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے معروف ہے اور اس کی تفصیلات حدیث و سیرت کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ خطبہ کے بعد آپ نے صحابہ کرام سے پوچھا کل جب تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے؟ لوگوں نے عرض کیا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے امانت پہنچادی، پیغام حق سنادیا اور حقِ خیر خواہی ادا فرما دیا۔ یہ سن کر آپ نے شہادت کی انگلی آسمان کی جانب اٹھائی اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اللہم اشہد، اللہم اشہد) ائے اللہ تو گواہ رہ، ائے اللہ تو گواہ رہ۔
خطبہ کے بعد ہی یہ آیت نازل ہوئی: (الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الإسلام دینا) ’’آج ہم نے تمہارے لیے دین کو مکمل کردیا، اپنی نعمت کا اتمام کردیا اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا‘‘ جب حضرت عمرؓ نے یہ آیت سنی تو رونے لگے، لوگوں نے تعجب کیا اور رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا: ’’لیس بعد الکمال الا النقصان‘‘ یعنی کمال کے بعد نقصان ہی ہے، آپ سمجھ گئے کہ دین اسلام کی تکمیل کے بعد تبلیغ کی مہم پوری ہوگئی اور اب رسول اللہ ﷺ کا قیام اس دنیا میں ختم ہونے والاہے، آپ کے فراق اور جدائی کے تصور نے انہیں مبتلائے گریہ کر دیا تھا۔
عرفات میں حضرت بلالؓ نے اذان دی اور اقامت کہی رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی، حضرت بلال نے پھر اقامت کہی، آپ نے عصر کی نماز پڑھائی، پھر آپ جبل رحمت کے قریب پہنچے اور چٹانوں کے قریب وقوف فرمایا۔ لوگوں نے پوچھا: این الحج یار سول اللہ ’’حج کہاں پر ہوتا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: الحج العرفۃ’’ یعنی حج عرفہ میں وقوف کرنا ہے‘‘۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے اس مقام پر وقوف کیا ہے اور پورا عرفہ جائے وقوف ہے ۔
غروب شمس تک انتہائی تذلل و انکساری اور عبدیت کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں دعا و مناجات، تکبیر و تہلیل، ذکرو تسبیح میں مشغول رہے، جب سورج ڈوب گیا اور مزدلفہ روانگی کی تیاری ہونے لگی تب آپ نے اسامہ بن زیدؓ کو بلوایا کہ وہ ان کے پیچھے سواری پر بیٹھیں، ان کے آنے میں قدرے دیر ہوئی۔ جب سورج غروب ہوگیا تو آپ نے فرما یا: اللہ کے نام سے کوچ کرو۔ صحابہ کرام کا جم غفیر آپ کے ساتھ مزدلفہ کے لیے رواں دواں تھا، آپ بار بار اپنے دائیں و بائیں جانب دیکھتے اور تلقین فرماتے کے اطمینان و وقار کے ساتھ آگے بڑھو، جلدی مت کرو، سکون سے چلو۔ خود آپ کا یہ حال تھا کہ اپنی اونٹنی کی مہار اس زور سے اپنی جانب کھینچے ہوئے تھے کہ اس کا سر آپ کے گھٹنوں سے جا لگتا تھا۔ پورے راستے خشوع و خضو ع، انابت و انکساری کی روحانی فضا میں تکبیر و تہلیل کرتے ہوئے یہ قافلہ مزدلفہ پنہچ کر قیام پذیر ہوا، مزدلفہ میں آپ نے مغرب و عشاء کی نماز ایک اذان و دو اقامت سے ادا فرمائی، صبح سے لے کر اس وقت تک کا پورا وقت طاعت وعبادت، دعا و مناجات اور ارشادات و ہدایات کے ساتھ ساتھ طویل سفر میں گزرا تھا، منی سے عرفات پھر عرفات سے مزدلفہ واپسی ہوئی تھی، جسد اطہر کو آرام کی سخت ضرورت تھی، لہٰذا آپ نے رات میں آرام فرمایا اور فجر سے قدرے پہلے ہی اٹھ کر آپ نے تیاری کی اور فجر کی نماز بالکل اول وقت میں اذان و اقامت کے ساتھ ادا کی اور مشعر حرام کی طرف تشریف لے گئے، وہاں تکبیر و تہلیل میں مشغول رہے اور قبلہ رُو ہوکر دیر تک دعا فرمائی، جب خوب اجالا ہوگیا تو سورج طلوع ہونے سے قبل ہی منیٰ کی طرف چل پڑے، اس بار آپ نے اپنے پیچھے اپنے چچا زاد بھائی الفضل بن عباسؓ کو بیٹھنے کے لیے کہا، جب جمرۃ عقبہ (بڑے شیطان) کے قریب پہنچے تو حضرت الفضلؓ سے فرمایا کہ وہ رمی کے لیے کنکریاں چن لائیں، آپ نے یہ کنکریاں اپنی ہتھیلی پر رکھیں اور لوگوں کو دکھاتے ہوئے فرمایا لوگو دیکھو! کنکریاں بس اتنی بڑی ہونی چاہئیں، لوگو! غلو اور تشدد سے دور رہو، کیونکہ تشدد نے تم سے پہلی امتوں کو تباہ کر دیا تھا۔
پھر آپ نے جمرۃ عقبہ پر سات کنکریاں ماریں، ہر بار آپ نے اللہ اکبر کہا۔ حضرت فضل بن عباسؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ آپ کے ہمراہ تھے،ایک آپ کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھا اور دوسرے نے دھوپ سے بچانے کے لیے آپ کے اوپر چادر تان کر سایہ کررکھا تھا۔ ایک صحابیؓ نے یہ منظر دیکھا اور روایت کیا: آپ نے جمرۃ عقبہ پر سات کنکریاں نہایت سکون سے ماریں، ہر ایک کنکری مارتے ہوئے اللہ اکبر کی صدا بلند کی، نہ وہاں دھکا مکی تھی، نہ ہٹو بچو کا ہنگامہ تھا، نہ لوگوں میں ہڑبڑاہٹ و بوکھلاہٹ تھی۔ کنکریاں مارنے کے ساتھ ہی لبیک اللہم لبیک کی صدا یعنی تلبیہ بند ہوچکی تھی۔
رمی کے بعد آپ نے خطبہ دیا۔ اس کے بعد قربان گاہ تشریف لے گئے، قربانی کے لیے آپ اپنے ساتھ سو اونٹ لائے تھے، اپنے ہاتھوں سے اپنی عمر کے بقدر تریسٹھ اونٹوں کی قربانی کی اور بقیہ سینتیس اونٹوں کی قربانی کی ذمہ داری حضرت علیؓ کوسونپی، اس موقع پر لوگوں نے عجیب منظر دیکھا، ہر ایک جانور ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے سامنے آتا کہ پہلے وہ قربان ہو، اللہ تعالی نے ان بے زبان جانوروں میں بھی فدائیت کا شوق و جذبہ ودیعت فرما دیا تھا کہ اگر حضور پر نور کے ہاتھوں قربان ہونے کی سعادت مل رہی ہے تو کیوں نہ آگے بڑھ کر وہ اس نعمت سے بہرہ ور ہو جائے اور سابقین اولین میں اپنا نام درج کرالے۔
اس کے بعد آپ غسل فرمایا، نیا لباس زیب تن کیا، حضرت عائشہؓ نے خوشبو لگائی اور آپ بیت اللہ شریف طواف زیارت کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے، طواف اور دوگانہ سے فارغ ہو کر چاہ زمزم کے پاس تشریف لے گئے۔ رسول اللہ ﷺ منیٰ واپس تشریف لائے اور ظہر کی نماز ادا کی۔اس موقع پر تھوڑی دیر ٹھیر کر ان سارے اعمال کا تصور کریں جو آپ نے صحابہ کرامؓ کے جم غفیر کے ساتھ کیے تھے۔ آج کے دن فجر کی نماز کے بعد سے ظہر کی نماز کے وقت تک انجام دیا تو انتہائی تعجب اور حیرت ہوتی ہے، اللہ تعالی نے آپ کے وقت میں کتنی برکت عطا فرمائی تھی کہ اتنے سارے کام صرف نصف النہار میں بحسن و خوبی انجام پا گئے تھے۔
آپ نے ۱۰؍ ذی الحجہ کو فجر کی نماز مزدلفہ میں اداکی، وہاں سے منیٰ تشریف لائے، لوگوں کو ان کی اقامت گاہوں میں ٹھیرایا، رمی کی دعا مانگی، طویل خطبہ دیا، احکام و مسائل بتلائے، سو اونٹوں کی قربانی کی، قربانی کا پکا ہواگوشت و شوربہ تناول فرمایا، بال منڈوائے، غسل کیا، لباس تبدیل کیا، مکہ مکرمہ تشریف لے گئے، طواف کیا اور زمزم سے سیرابی حاصل کی۔ ان سارے اعمال کے دوران لوگوں کو ہدایات و ارشادات سے بھی نوازتے رہے اور سب کچھ بخوبی انجام دینے کے بعد ظہر کی نماز واپس منیٰ آکر ادا کی۔ یہ وقت میں برکت اور معجزہ نبوت نہیں تو اور کیا ہے؟ صلوات اللہ و سلامہ علیہ۔
[email protected]
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جون تا 22 جون 2024