راشٹریہ جنتا دل مسلم ووٹوں کو معمولی نہ سمجھے

بہار میں لالو یادو کے گڑھ میں ایم آئی ایم نے اپنا بدلہ لیا؟

سمیع احمد (انڈیا ٹومارو)

مسلم۔یادو فارمولہ اب کتنا کارگر رہا؟
ضمنی انتخابات کے نتائج سے حکم رانوں کو بھی سبق لینا چاہیے
راشٹریہ جنتا دل بھلے ہی بہار کی گوپال گنج اسمبلی سیٹ 1794 ووٹوں کے کم فرق سے ہار گئی ہو لیکن لالو پرساد اور ان کے بیٹے تیجسوی یادو کے لیے یہ سبق ہے کہ انہیں آنے والے انتخابات میں مسلم ووٹ کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔
آر جے ڈی ان دو سیٹوں میں سے ایک پر ‘مقامہ’ کی سیٹ جیتنے میں کامیاب رہی جہاں 6 ستمبر کو ضمنی انتخابات ہوئے تھے، لیکن لالو کے آبائی ضلع میں شکست ان کے لیے پریشانی کا سبب بن گئی ہے کیونکہ انہوں نے شاید اب آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کی طاقت کو محسوس کر لیا ہے۔
اے آئی ایم آئی ایم امیدوار عبدالسلام کو 12214 ووٹ ملے اور اب حیدرآباد کی یہ پارٹی آر جے ڈی کی شکست کو ‘دل بدل’ یعنی پارٹی کی تبدیلی کا بدلہ قرار دے رہی ہے۔ واضح ہو کہ اسی سال جون میں اس کے پانچ میں سے چار ایم ایل اے لالو پرساد یادو کی پارٹی آر جے ڈی میں شامل ہوئے تھے۔
اس شکست کی وجہ سے آر جے ڈی نے 80 کے نمبر تک پہنچنے کا موقع کھو دیا حالانکہ وہ 79 سیٹوں کے ساتھ اسمبلی میں واحد سب سے بڑی پارٹی ہے۔
گوپال گنج سے عبدالسلام کو میدان میں اتار کر اے آئی ایم آئی ایم نے واضح کر دیا تھا کہ بھلے ہی وہ جیت نہیں سکتی لیکن اس میں آر جے ڈی کے انتخابی میدان کو اتھل پتھل کرنے کی صلاحیت ہے۔ عبدالسلام کا ووٹ فیصد 7.25 ہے جب کہ رابڑی دیوی کی بھاوج اندرا یادو کو بی ایس پی کے ٹکٹ پر 8854 ووٹ ملے جو کل ووٹوں 168396 کا 5.26 فیصد ہے۔ جیتنے والی امیدوار، بھارتیہ جنتا پارٹی کی کسم دیوی کو 70032 ووٹ ملے اور یو پی کے آر جے ڈی کے موہن پرساد گپتا 68259 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔
کسم دیوی کے والد سبھاش سنگھ نے 2020 میں بی جے پی کے ٹکٹ پر 77751 ووٹ حاصل کیے تھے اور رابڑی دیوی کے بھائی سادھو یادو بہوجن سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر 41039 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
سال 2020 میں آر جے ڈی، کانگریس کے ساتھ عظیم اتحاد میں تھی اور وہاں سے عظیم اتحاد کے امیدوار کانگریس کے آصف غفور تھے جو 36460 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے تھے۔ اس لحاظ سے اس بار آر جے ڈی امیدوار کو زیادہ ووٹ ملے لیکن یہ بی جے پی کو ہرانے کے لیے کافی نہیں تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم، آر جے ڈی کے روایتی ووٹ بینک، مسلم- یادو فارمولے کو توڑنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ آر جے ڈی کے امیدوار کے انتخاب نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ صرف پارٹی کی بنیاد پر ووٹ حاصل نہیں کر سکتی۔ صحیح امیدوار کے انتخاب کی اہمیت ایک بار پھر واضح ہو گئی ہے کیونکہ پولنگ سے عین قبل آر جے ڈی امیدوار موہن پرساد گپتا کی ایک تصویر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ آر ایس ایس کے ایک پروگرام میں دکھائی دیے۔
سال 2020 کے شروع میں آر جے ڈی نے منجو اگروال کو میدان میں اتارا تھا، جو بی جے پی سے آر جے ڈی میں آئی تھیں اور آر ایس ایس سے ہمدردی رکھتی تھیں۔ ضلع گیا کی شیرگھاٹی سیٹ سے وہ کسی طرح جیتنے میں کامیاب تو ہو گئیں لیکن آر جے ڈی کے انہیں اپنا امیدوار منتخب کرنے سے علاقے کے مسلمان ناراض تھے۔
بی جے پی کے ریاستی صدر سنجے جیسوال اب دعویٰ کر رہے ہیں کہ بہار کی سیاست میں بی جے پی بمقابلہ آر جے ڈی ہوگا اور اسے آر جے ڈی کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار تیجسوی یادو کے لیے ایک چیلنج کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اگرچہ تیجسوی یادو نے دعویٰ کیا کہ آر جے ڈی کا ووٹ بینک بڑھ گیا ہے لیکن ان کی پارٹی کو سوچنا چاہیے کہ وہ گوپال گنج سیٹ کیوں ہار گئی کیونکہ اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار کو جتنے ووٹ ملے وہ آر جے ڈی کی اعلیٰ قیادت کو پریشان کرنے کے لیے کافی ہیں۔
سال 2020 میں جب اے آئی ایم آئی ایم سیمانچل کے علاقے میں پانچ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی تو ملے جلے ردعمل سامنے آئے تھے۔ اس وقت بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اے آئی ایم آئی ایم نے تیجسوی یادو کے بہار کے وزیر اعلیٰ بننے کے امکانات کو ختم کر دیا ہے، لیکن انہوں نے خود اے آئی ایم آئی ایم کے ریاستی صدر اختر الایمان کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھے۔ اختر الایمان نے پہلی بار اے آئی ایم آئی ایم کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی اور ضرورت پڑنے پر آر جے ڈی کو اے آئی ایم آئی ایم کی حمایت کی پیشکش کی تھی۔
مکیش ساہنی کی وی آئی پی (وکاس شیل انسان پارٹی) کے تینوں ارکان کے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد آر جے ڈی بہار اسمبلی میں نمبر ون رہنے کے لیے بے چین تھی۔ اس کے بعد اس نے اے آئی ایم آئی ایم کے چار ممبران اسمبلی کو توڑ دیا تھا اور بہار قانون ساز اسمبلی میں نمبر ایک مقام حاصل کیا تھا۔
جیسا کہ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے اس سال اگست میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد ختم کر دیا تب آر جے ڈی کو حکومت میں واپسی کا موقع ملا۔ چونکہ نتیش کمار کی جنتا دل (یونائیٹڈ) اور آر جے ڈی نے نئی حکومت بنانے کے لیے ہاتھ ملایا جبکہ اے آئی ایم آئی ایم کے پاس ریاستی صدر اختر الایمان کی شکل میں صرف ایک ایم ایل اے رہ گیا تھا۔
اس ضمنی انتخاب میں نتیش کمار نے بربنائے صحت آر جے ڈی کے امیدوار کے لیے مہم نہیں چلائی، جبکہ اے آئی ایم آئی ایم آر جے ڈی کو نقصان پہنچانے کی تیاری کر رہی تھی کیونکہ یہ واضح تھا کہ ان کے امیدوار عبدالسلام جیتنے والے نہیں ہیں۔
اب یہ بالکل واضح ہے کہ بی جے پی کے بی ٹیم ہونے کا الزام اے آئی ایم آئی ایم کو الیکشن لڑنے سے نہیں روکے گا اور آر جے ڈی کو بھی اس الزام سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس صورت حال میں آر جے ڈی اور جے ڈی (یو) کے پاس صرف دو ہی راستے رہ گئے ہیں کہ وہ آنے والے انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم کو اپنے ممکنہ چیلنجر کے طور پر قبول کریں اور مناسب امیدوار کھڑے کریں۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ ایم آئی ایم کے ساتھ گٹھ جوڑ کریں، چونکہ دوسرا آپشن سوالوں کے گھیرے میں ہے، اس لیے انہیں بہار میں بی جے پی کو آگے بڑھنے سے روکنے اور اے آئی ایم آئی ایم کو شکست دینے کے لیے از سرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سوچنا کہ وہ مسلم ووٹروں کو ہلکا لے سکتے ہیں سیکولر جماعتوں کی سیاسی غلطی ہو گی کیونکہ وہ اب کسی کو اپنا امیدوار کھڑا کرنے کاخطرہ مول نہیں لے سکتے ہیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 نومبر تا 26 نومبر 2022