
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے نظریات کی چھ بنیادیں
آر ایس ایس کے مطابق قومیت کے لئے ثقافتی وابستگی لازمی
زعیم الدین احمد ،حیدرآباد
مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے لئے نظریاتی ہتھیار، نہایت خطرناک
ملک میں مسلمانوں کے خلاف جو نفرت انگیزی برپا ہے اور ہندتوادیوں کی جانب سے جو نفرتی ایجنڈا چلایا جا رہا ہے، جس قسم کے نفرتی بیانات ابھر کر سامنے آ رہے ہیں ان کو انفرادی حیثیت میں نہیں دیکھا جاسکتا ہے، یہ ایک گہری، نظریاتی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ درحقیقت یہی وہ نظریہ ہے جو آر ایس ایس پیش کرتا رہا ہے اور اس وقت بھی وہ اسی نظریہ کی علم بردار ہے جس میں اقلیتوں اور پس ماندہ طبقات کو خاص کر مسلم اور عیسائی اقلیتوں کو مکمل طور پر ملک کے شہری ہونے کا درجہ نہیں دینا چاہتے ہیں۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ
آر ایس ایس جو بی جے پی اور ہندتوادیوں کو نظریاتی بنیاد فراہم کرتی ہے، اس کے مطابق ہندوستانی قومیت کے لیے چند شرائط ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں یا عیسائی برادریوں کے تناظر میں۔ تو آئیے آر ایس ایس کے نظریاتی معمار ایم ایس گولوالکر کے بیانات اور تحریروں کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
1۔ ہندو یہاں کے فطری اور قدیم باشندے ہیں
اس نظریہ کو سب سے پہلے گولوالکر نے پیش کیا تھا، وہ اپنی کتاب ’’وی آر آور نیشن ہوس ڈیفائڈ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’صرف ہندو ہی اس دھرتی کے بچے ہیں۔‘‘ یعنی ان کے مطابق بھارت صرف ہندوؤں کا ملک ہے۔
وہ اس بات کو ایک ناقابل تردید حقیقت کے طور پر بیان کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ’’غیر ملکی‘‘ مانا جاتا ہے، یعنی وہ یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کی وطن سے وابستگی مشروط ہے، ان کو مکمل شہریت صرف اسی وقت دی جائے گی جب وہ یہاں کی ’’اصلی‘‘ باشندوں یعنی ہندوؤں کے اصولوں پر عمل پیرا ہوں گے۔
2۔ جغرافیائی شہریت سے انکار
آر ایس ایس کے نظریہ ساز گولوالکر جغرافیائی یا قانونی شہریت کو بھی نہیں مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف کسی ملک میں پیدا ہونا یا وہاں قیام پزیر رہنا، شہریت کے لیے کافی نہیں ہے۔ ان کے مطابق، ’’ذہنی ہم آہنگی‘‘ کے بغیر کوئی شخص اس ملک کا اصلی شہری نہیں بن سکتا۔
یہ نظریہ ایک انتہائی خطرناک سوچ کی عکاسی کرتا ہے، یہ دراصل جدید قانونی شہریت کے اصول کو چیلنج کرتا ہے اور شہریت کے بنیاد کو ہی تبدیل کرتا ہے، جس کے تحت سب یکساں ہیں۔ اگر شہریت کا معیار ذہنی ہم آہنگی یا ثقافتی مطابقت کے تحت ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ شہریت قانون کے بجائے وہاں کے رہنے والے کسی نظریاتی گروہ کو یہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے کہ وہ طے کریں کہ کون یہاں کا اصل نیشنل ہے اور کون نہیں۔
یہ نظریہ اور یہ اصول ان باشندوں سے امتیازی سلوک کے دروازے کھولے گا جو نظریاتی گروہ سے ثقافتی و مذہبی طور پر الگ ہیں، پھر چاہے وہ قانونی طور پر وہاں کے شہری ہی کیوں نہ ہوں۔ اس اصول سے یہ شہری وہاں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جائیں گے۔
3۔ ذہنی وفکری ہم آہنگی: شہریت کا اصل معیار
گولوالکر کے مطابق وفاداری کا اصل معیار ریاست یا آئین سے نہیں ہے، بلکہ ہندو قوم کی روحانی اور ثقافتی بنیادوں سے ہونی چاہیے۔ اور وہ یہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں ذہنی و فکری ہم آہنگی کو ہی وفاداری کو مصدقہ اصل مانا جاتا ہے، وہ اپنے اس نظریے کو پیش کرتے ہوئے برطانیہ کے ایک جرمن نژاد فوجی افسر کی مثال دیتے ہیں جس پر جنگ عظیم دوم میں جرمنی سے ہمدردی کا شک کیا گیا تھا۔ یہ مثال خود بتاتی ہے کہ گولوالکر کے نزدیک کسی کی قانونی حیثیت یا وطن کے لیے اس کی خدمت اہم نہیں ہے، بلکہ اس کی ثقافتی وفاداری اصل معیار ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جو اقلیتوں کے تئیں مستقل شک کی فضا کو پیدا کرتی ہے۔
4۔ بعض گروہوں کی فطرت کو ناقابلِ تبدیل تصور کرنا
گولوالکر کا ماننا یہ ہے کہ چند گروہوں کی فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی، اسی لیے ان سے دوسرے درجے کا برتاؤ کیا جانا چاہیے۔ وہ کھلے طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو یہاں نشانہ بناتے ہیں۔ اپنے اس نظریہ کو بیان کرنے کے لیے وہ ایک شیرنی اور گیدڑ کا قصہ بیان کرتے ہیں جس میں ایک شیرنی ایک گیدڑ کے بچے کو شیر کی طرح ہی پالتی ہے لیکن وہ ایک دن اس کا سامنا ہاتھی سے ہوتا ہے، وہ اپنے فطری گیدڑی خوف کے سبب بھاگ جاتا ہے۔ وہ سنسکرت کا اشلوک بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’بلاشبہ، آپ بہادر ہیں… لیکن آپ جس نسل میں پیدا ہوئے ہیں وہ ہاتھی کو مارنے کے قابل نہیں ہے۔‘‘
وہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کچھ قومیں یا مذاہب فطری طور پر کمزور یا ناقابلِ اعتماد ہیں۔ جانوروں کی اس مثال کو مسلمانوں اور عیسائیوں پر لاگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ فطرتاً ہندو قوم سے بہت مختلف ہیں اور ناقابلِ اصلاح ہیں۔ یہی وہ سوچ ہے جس سے مسلمانوں اور عیسائیوں کی وفا داری کو ہمیشہ شکوک وشبہات کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، چاہے وہ کتنے ہی وفا دار اور حب الوطن ہی کیوں نہ ہوں۔
5۔ مکمل ثقافتی خود سپردگی کا مطالبہ
گولوالکر کے مطابق مسلمانوں اور عیسائیوں کو اصل ہندوستانی ثابت کرنے کے لیے صرف قانون کی پاسداری اور اس کا احترام کافی نہیں ہے، انہیں اپنی مذہب، ثقافتی، تاریخی اور روحانی اقدار کو بھی ترک کر کے ہندو نظریات کو اپنا لینا ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ چونکہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے آباؤ اجداد ہندو تھے انہیں خوف، جبر، لالچ یا دھوکہ دہی کے ذریعے تبدیل کیا گیا، اس لیے ان کی اولاد کو چاہیے کہ وہ ’’غلامی کی تمام نشانیوں کو ختم کر دیں اور اپنے آبائی طریقوں کی پیروی کریں۔‘‘ یہ ’’انضمام‘‘ ان کے مکمل مذہبی و ثقافتی ساخت کو چھوڑ کر ہو، یعنی اپنی الگ مذہبی شناخت کو ترک کر کے ہندو مذہبی و ثقافتی حیثیت کو اپنایا جائے۔ یعنی غیر ہندوؤں کو ہندو روایات، رام اور کرشن جیسے ہیروؤں کو اپنانا چاہیے، ویدک تعلیمات کو اپنانا چاہیے اور موکش کو اپنے روحانی مقصد کے طور پر قبول کرنا چاہیے۔ ان کے اپنے عقائد اسلام اور عیسائیت کی اجازت صرف اس صورت میں دی جائے گی جب ہندو مرکزی نظام میں اللہ یا مسیح جیسی ہستیوں کو معمولی معبودوں کے طور پر سمجھا جائے۔ ان کا اپنا مذہبی نظریہ غالب ہندو فریم ورک سے الگ یا تنقیدی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اب انہیں "اپنے غلامانہ ماضی کی علامتوں کو مٹا کر” ہندو ثقافت میں ضم ہو جانا چاہیے۔
اگر ان کے اصل عقائد رکھے بھی جائیں تو صرف محدود حد تک یعنی اپنی ذات کی حد تک یعنی ویکتی دھرم ہوسکتے ہیں، سماجی حیثیت میں یعنی راشٹرا دھرم کے بعد جو کہ ہندو قوم کے ساتھ ہم آہنگ ہوگا۔
6۔ ’’قومی یکجہتی‘‘ کی آڑ میں ثقافتی یکسانیت
آر ایس ایس کا قومیت کا نظریہ، سیکولر، سماجی قومیت کا نہیں ہے بلکہ وہ 19ویں صدی کے ’’قومی یکجہتی‘‘ کے منصوبوں ’’خون اور مٹی‘‘ کے قومی نظریہ سے ماخوذ ہے، جیسے اٹلی کے جیوسیپے مازینی اور جوسیپ گیریبالڈی جیسی شخصیات نے پیش کیا تھا۔ ان کا نظریہ قومیت یہ تھا کہ منقسم ریاستوں سے واحد قومی ریاست کی تشکیل دی جائے۔ اسی قوم پرستی کی بنیاد پر کئی خطوں کو متحد کیا۔ لیکن یہ اتحاد ثقافتی تنوع کی قدر نہیں کرتا بلکہ اسے ایک مرکزی ثقافت میں ضم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور آر ایس ایس نے اپنی نظریاتی تحریک کی اسی نظریہ سے آبیاری کی ہے۔
گولوالکر وفاقیت کو ’’زہریلا بیج‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے آر ایس ایس ہمیشہ سے علاقائی زبانوں، اقلیتی حقوق، اور مذہبی شناختوں کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ اس کے نزدیک "قومی یکجہتی” صرف اس وقت ممکن ہے جب سب ایک ہی ثقافت میں ضم ہو جائیں۔
مذکورہ سوچ کا منطقی نتیجہ
اب اسی سوچ کے مظاہر آپ کو ہر سو نظر آجائیں گے، کبھی اڑیسہ میں گراہم آسٹن کے قتل کی صورت تو کبھی یو پی میں انصاری کے قتل کی صورت میں یہ نظریہ کارفرما نظر آتا ہے، کبھی کوئی ناہنجار سیاسی رہنما مسلمانوں کو غدار قرار دیتا ہے تو کوئی منو وادی دلت کرسچن کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیتا ہے، یہی وہ نظریہ ہے جس کی وجہ سے بغض بھرا سیاست داں کرنل صوفیہ قریشی کو دہشت گردوں کی بہن کہنے لگ جاتا ہے۔ اس نظریے کے حامل مسلمانوں، پسماندہ طبقات اور عیسائیوں کو ’’غیر ملکی‘‘ سمجھتے ہیں، ان کی وفا داری پر ہمیشہ شک کرتے ہیں۔ یہ اصل چہرہ اس ملک کے ہندتوادیوں کا ہے جسے سمجھ لینا بےحد ضروری ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 مئی تا 31 مئی 2025