
رمضان: نیکیوں کا موسم بہار۔ روحانی ارتقاء کا مہینہ
اپنی نمازوں اور روزوں کو بااثر کیسے بنائیں ؟
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
مسلمانوں کے اندرجب شعوری ایمان کے بدلے میں روایتی ایمان جگہ لے لے تو عبادات کے اندر سے روح ختم ہوجاتی ہے اور ان کی ظاہری شکل باقی رہ جاتی ہے ۔ ان رسمی عبادات کی انجام دہی میں بظاہر معمولی فقہی اختلافات غیر معمولی اہمیت کے حامل بن جاتے ہیں ۔اسی وجہ سے امت مسلکوں میں بٹ گئی ہے اورجامد مسلکی تقلید مسلکی تعصبات پیدا کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے جس سے عبادات کی روح غائب ہوگئی اور امت کا شیرازہ بھی بکھر گیا ۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا:
رہ گئی رسمِ اذاں ،روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا ،تلقینِ غزالی نہ رہی
چنانچہ نمازوں میں بندگی کی حلاوت محسوس نہیں ہوتی اور روزوں سے ایساتقویٰ پیدا نہیں ہوتا جس کی حرارت باقی گیارہ مہینوں تک باقی رہ سکے۔ قرآن کی تلاوت محض ثواب و برکت حاصل کرنےکے لیے کی جاتی ہے ۔ قرآنی آیات کی تلاوت قلوب کو لرزانے اور ایمان کی حرارت پیداکرنے کا ذریعہ نہیں بنتی۔
قلوب کے اطمینان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :الَّذِينَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللّهِ أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
(سورۃ الرعد۲۸)’’ ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوں نے (اِس نبی کی دعوت کو) مان لیا اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘۔اس آیت میں دلوں کے اطمینان کو اللہ کی یاد سے جوڑا گیا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ ہر وہ کام جو اللہ کی یاد سے معمور ہو اس سے اطمینانِ قلب حاصل ہوگا۔ اگر نمازاللہ کی یاد سے معمورہوگی تو نمازمیں خشوع و خضوع ہوگا اور ایسی نماز سے بندگی کی لذت حاصل ہوگی ۔ایسی نماز اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق پیداکرنے کا ذریعہ بنے گی ۔ایسی نماز آدمی کو فحش و منکرات سے دوررکھے گی ۔نمازسے وہ مقاصد حاصل ہوں گے جو مطلوب ومقصود ہیں ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺسے پوچھا کہ کس جہاد میں اجر وثواب سب سے زیادہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا جس میں اللہ کا ذکر سب سے زیادہ کیا جائے۔سائل نے پوچھا کہ کن روزہ داروں کا ثواب سب سے زیادہ ہے؟ فرمایا جو اللہ کا ذکر سب سے زیادہ کریں ،پھر نماز،زکوٰۃ ،حج اور صدقہ کا ذکر ہوا اور ہرمرتبہ آپ نے یہی فرمایا جس میں اللہ کا ذکر سب سے زیادہ کیا جائے (مسند احمد ۱۵۶۹۹)۔ قرآن میں اللہ کی یا دکو سب سے اکبر قراردیا گیا ہے(سورۃ العنکبوت ۴۵)۔ہروہ کام جو بظاہر دنیوی لگتا ہے لیکن اللہ کی خوشنودی کے لیے کیا جاتا ہے اور جس میں اللہ کے حدود کا پاس و لحاظ رکھاجائے، وہ کام عبادت بن جاتا ہے ۔اور ہروہ کام جو بظاہر دینی ہو لیکن دنیاوی مفادیا نمودونمائش کے لیے کیا جائے وہ کام عنداللہ مقبول نہیں ہوگا لیکن لوگ اس کو ’عملِ صالح ‘سمجھتے رہیں گے ۔اسی لیے منافقوں کی نمازکے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا کہ وہ دکھاوے کے لیے سُستی کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور کم ہی اللہ کو یاد کرتے ہیں (سورۃ النساء۱۴۲) ۔اور ان جیسے منافقوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے (سورۃ المنافقون ۷)یعنی یہ چیزوں کی حقیقت کو نہیں سمجھتے ۔منافقین شعوری طورپر ایمان نہیں لائے تھے بلکہ اپنے مفادات کی حفاظت کی غرض سے ایمان لائے تھے ۔وہ ایسے ایمان کے قائل نہ تھے جس میں جان و مال کی قربانیاں مطلوب ہوں ۔وہ عبادات کو ان کی ظاہری شکل میں تو انجام دیتے تھے لیکن جب ان سے ایسی چیز کا مطالبہ کیا جاتا جس میں جان و مال کا ایثارہو تو بہانے تراشنے پر اتر آتے۔جہاد کی منادی کے وقت ہی منافقین اور صادق الایمان اصحابِ رسول کا فرق سامنے آتا(سورۃ آل عمران ۱۴۱، ۱۴۲)۔
کسی بھی عبادت کو بااثر بنانے کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں : ایک یہ ہے کہ اس عبادت کے پیچھے حقیقی ایمان ہو نہ کہ روایتی ایمان؟ دوسری بات یہ ہے کہ اس عبادت کا مقصد واضح ہو۔تیسری بات یہ ہے کہ وہ عبادت اللہ کی یاد سے معمورہو۔جیسے ہم نمازپڑھ رہے ہوں تو ہماری ساری توجہ ان اذکار پر ہو جو ہم نمازمیں پڑھ رہے ہیں گویا کہ ہم اللہ سے محوِ گفتگوہیں ۔اور جب ہم نماز میں قرآن پڑھ رہے ہوں تو گویا اللہ ہم سے کلام کررہا ہے۔اس طرح نماز اللہ سے ملاقات اور ہمکلامی کا ایک ذرین موقع ہوتا ہے جو فی الواقع ایمانی حلاوت اور لذتِ بندگی سے بہرہ مند کرنے والا تجربہ ہو ۔
اسی طرح رمضان کی آمد پر مساجد بھر جاتی ہیں ۔ناظرہ قرآن پڑھا جاتا ہے ۔تراویح میں ۲۰رکعتیں پڑھی جاتی ہیں اور ان میں پورا قرآن سنا جاتا ہے۔ لیکن پہلی شوال کو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قیدِ بامشقت سے آزاد ہوئے ہوں اور عید گویا اس آزادی کی خوشی میں منائی جارہی ہو۔اس سے معلوم ہوا کہ ہماری عبادتیں پر مشقت ضرور ہوتی ہیں لیکن روح اوربندگی کی لذّت سے محروم ہیں۔سوال یہ ہے کہ رمضان کےاثرات رمضان کے فوراً بعدزائل کیوں ہوجاتے ہیں ؟مسجدیں کیوں ویران ہو جاتی ہیں؟ روحانیت کا لیول پھر اسی مقام پر کیوں پہنچ جاتا ہے جہاں وہ رمضان سے پہلے تھا؟ رمضان المبارک میں ناظرہ قرآن پڑھا جاتا ہے اور جب رمضان رخصت ہوتا ہے تو قرآن بھی گیارہ ماہ کے لیے جزدان میں چلاجاتا ہے۔ہم میں ان باتوں کو جاننے کی بہت جستجو ہوتی ہے کہ کن کن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے ۔عبادات کی ظاہر ی شکل اور ان کی ہییت پر بہت زوردیا جاتا ہے لیکن ان عبادات کی روح تک ہم نہیں پہنچ پا تے ۔ہمارے اندر ثواب حاصل کرنے کا جذبہ تو ہوتا ہے لیکن لذتِ بندگی سے ہمارے قلوب محروم ہوتے ہیں۔ رمضان میں نیکیاں ۷۰گنابڑھادی جاتیں ہیں جس سے ثواب حاصل کرنے کا جذبہ پیداہوتا ہے ۔لیکن روزوں کے مقاصد کواگر سمجھا نہ جائے اور محض ثواب حاصل کرنے کا جذبہ ہوتو رمضان ایک ایسا مذہبی بوجھ بن جاتا ہے جو بادلِ ناخواستہ برداشت کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ اس انتظارمیں ہوتے ہیں کہ جلدازجلد رمضان کا اختتام ہو۔وہیں کچھ لوگ اس غم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ رمضان کی بابرکت گھڑیوں کو الوداع کرنے والے ہیں اوروہ اس تشویش میں رہتے ہیں بھلا اگلا رمضان ملے گا یا نہیں ۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ امت ِ مسلمہ کے افراد حقیقی ایمان سے محروم ہیں ۔وہ مسلم خاندان میں پیدائش کی وجہ سے روایتی ایمان کے تو حامل ہیں لیکن انہوں نے قرآن کو سمجھتے ہوئے پڑھ کر شعوری ایمان حاصل نہیں کیا ہے ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کے مقاصد کو انہوں نے نہیں سمجھا ۔
آئیے ہم ان مقاصد پر نظر ڈالتے ہیں جن کے لیے اسلامی عبادات اہل ِ ایمان پر فرض کردی گئی ہیں ۔قرآن میں یہ بتلایا گیا ہے کہ انسانوں کی زندگی کا مقصد ہی عبادت ہے (سورۃ الذاریات ۵۶)۔ شعوری عبادت کا پہلا مرحلہ ہے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا ۔معرفت سے مراد ہے اللہ کی قدرت کی نشانیوں کو دیکھ کر اور اس کے احسانات کا احسان شناس ہوکر بے دیکھے اللہ پر ایمان لانا۔ اس لیے قرآن میں جب یہ فرمایا گیا کہ یہ متقین کے لیے ہدایت ہے تو سب سے پہلی صفت جو بیان کی گئی وہ یہ ہے کہ متقین غیب پر ایمان لاتے ہیں (سورۃ البقرۃ ۳)۔ ایمان بالغیب کے بعد جس چیز کا امتحان لیا جاتا ہے وہ ہے اطاعت کا امتحان ۔اس کے لیے فرمایا گیا وہ نمازقائم کرتے ہیں ۔نمازکے ذریعے دن میں پانچ مرتبہ اس بات کا امتحان لیا جاتا ہے کہ جس بندے نے اللہ کو اپنا خالق، رب اور معبود تسلیم کیا ہے ،کیا وہ اس کی اطاعت کرنے کے لیے تیارہے؟نمازکے مقاصد کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:نمازکا پہلامقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے بندہ کا اللہ سے تعلق پیداہو ۔فرمایا گیا کہ نمازقائم کرو اللہ کی یاد کے لیے (سورۃ طٰہ ۱۴)۔ جب اللہ تعالیٰ سے بندے کا تعلق جڑجاتا ہے تو شیطان کو یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ اس کو بہکائے ۔شیطان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ بندے کو نمازسے غافل کردے ۔جب بندہ نما زچھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے اپنا رشتہ منقطع کرلیتا ہے تو شیطان کو موقع ملتا ہے کہ وہ انسان کو شہوات کی طرف متوجہ کرے ۔چنانچہ فرمایا گیا :فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (سورۃ مریم ۵۹)’’پھر ان کے بعد وہ نا خلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیااور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی،پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں‘‘۔اس لیے نمازکا ایک مقصد قرآن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے(سورۃ العنکبوت ۴۵)۔ نماز کا ایک اورمقصد یہ بیان کیا گیا ہےکہ نمازبندہ مومن کا مضبوط سہارا ہے جس سے مدد لی جائے(سورۃ البقرۃ ۱۵۳)۔یعنی نمازکے ذریعے سے بندہ کا اللہ تعالیٰ سے جو تعلق پیداہوتا ہے وہ ایک مضبوط سہارا ہوتا ہے جو ٹوٹنے والا نہیں ہوتا(سورۃ البقرۃ ۲۵۶)۔نمازکے یہ مقاصد ذہن نشین ہوں اور پھر نمازمیں جو کچھ پڑھا جاتا ہے وہ سمجھ کر پڑھا جائے تو نماز کے روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔نمازبوجھ نہیں بلکہ آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کا سرور بن جاتی ہے ۔نمازکا وقت بندہ کو بے چین کردیتا ہے اس لیے کہ بندہ اللہ سے ملاقات کا مشتاق ہوتا ہے ۔نمازوں سے روحانی فوائدحاصل کرنے کے لیے ایک فرد کو شعوری و حقیقی ایمان کاحامل ہوناہوگاجو قرآن سمجھ کر پڑھنے اور قرآن پر تدبّر سے حاصل ہوتا ہے ۔ایمان بھی قرآن کو سمجھ کر تلاوت کرنے سے بڑھتا ہے (سورۃ الانفال ۲)۔دوسری چیز ہے ایک نمازی کو نمازکے مقاصد کا فہم و ادراک ہو۔تیسری چیزیہ ہے کہ نمازمیں جوکچھ پڑھا جائے وہ سمجھ کر پڑھا جائے گویا بندہ اللہ سے ہمکلام ہورہا ہے ۔
اب روزوں کے مقاصد پر غورکریں ۔روزوں کا پہلا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے تقویٰ کی صفت پیداہوتی ہے(سورۃ البقرۃ ۱۸۳) ۔تقویٰ اس شعورکا نام ہے جس میں بندہ یہ زندہ احساس رکھے کہ اللہ ہم کو دیکھ رہا ہےاور وہ ہماری نیتوں سے بھی واقف ہے۔ یہ شعورجب پیداہوجائے تو انسان تنہائی میں بھی گناہ نہیں کرے گا۔روزے سے بہترکوئی عبادت نہیں ہے جو تقوی ٰ کی صفت پیداکرتی ہے۔اوسطاًتقریباً۱۲یا ۱۴گھنٹے آدمی حالتِ عبادت میں رہتا ہے اور اس پر یہ شعورطاری رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو دیکھ رہا ہےاور ہم اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے اس کے پاس حاضر ہونے والے ہیں ۔دوسرا مقصد روزوں کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ روزے رکھ کر ہم اللہ تعالیٰ کا قرآن جیسی نعمت ِ عظمیٰ کے عطا ہونے پر شکر ادا کرتے ہیں(سورۃ البقرۃ ۱۸۵) ۔روزوں کا تیسرامقصدیہ ہے کہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اپنے بندوں کی مغفرت کرے اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے ۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے جہنم میں ڈالے جائیں ۔وہ چاہتا ہے کہ روزوں کے ذریعے ان کے گناہوں کو معاف کرے اور ان کے اجر کو اتنا بڑھادے کہ ایک بندہ رمضان کے ختم ہونے سے قبل جہنم سے چھٹکاراپانے کا پروانہ حاصل کرلے۔روزوں کا چوتھا مقصد یہ ہے کہ بندے کے اندر ضبطِ نفس کی ایسی طاقت پیداہوجائے جس سے وہ اپنی خواہشاتِ نفس پر قابو پالے جس طرح گاڑی میں بریک کے ذریعے اس کو جب چاہے روکا جاتا ہے تاکہ حادثات سے بچاجاسکے۔ ضبطِ نفس کی طاقت دراصل بریک کے مانند ہے جس سے انسان کے روحانی وجود کا حیوانی وجود پر غلبہ رہے۔دن میں روزہ رکھا جائےاور حالت ِ روزہ میں توبہ، استغفار، دعا، اذکار اور تلاوتِ قرآن قلب و لسان پر جاری و ساری ہو اور رات میں تراویح میں قرآن سنے اور سمجھے تو یہ شب وروز کا نظام العمل انسان کو روحانی بلندیوں پر پہنچادیتا ہے جس کے اثرات یقیناً رمضان کے بعد بھی باقی رہتے ہیں ۔رمضان میں نزولِ قرآن ہوا جس کی عظمت کی بدولت رمضان کی ساعتوں میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکتیں رکھ دی ہیں ۔محدود وقت میں لامحدود نیکیوں کو کمانے کا اللہ تعالیٰ نے رمضان میں موقع عنایت فرمایا ہے جس سے فائدہ اٹھاکر ایک بندہ جو جہنم سے بہت قریب ہوچکا تھا اس کو جہنم سے چھٹکارا حاصل ہوگا ۔ رمضان کی ساری فضیلت نزولِ قرآن سے ہے ۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں میں سے بہت بڑی نعمت ہے ۔دنیا کی ساری نعمتیں عارضی ہیں ۔لیکن قرآن ایسی نعمت ہے جو ہمیں جنت کی لازوال نعمتوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔یہ وہ نعمت ہے جو ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جولوگ جمع کررہے ہیں ۔اس نعمت پر اہلِ ایمان کو خوشی منانی چاہیے (سورۃ یونس ۵۸)۔ روزوں سے جو تعلق باللہ پیداہوتا ہےوہ دعا کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔دعا دراصل اظہارِ عجز ہے یعنی یہ اعتراف کہ اے اللہ تو سراپا قدرت ہے اورمیں سراپا عاجز ہوں ۔دعا دراصل بندگی کا اظہار ہے کہ اے اللہ میں تیرابندہ ہوں۔دعاکے ذریعے بندہ کا اللہ سے براہ راست تعلق پیداہوتاہے۔ایسی ہستی کو چھوڑکر لوگ کیوں دوسروں کے درپر جاتے ہیں؟ جو اللہ کو چھوڑکر دوسروں کے در پر جاتے ہیں ان سے ہدایت سلب کرلی جاتی ہے۔ان کی کوئی مراد کسی درگاہ پر جانے سے پوری ہوتی بھی ہے تو وہ دراصل اللہ کے حکم ہی سے پوری ہوتی ہے لیکن وہ ہدایت سے محروم ہونے کی صورت میں ہوتی ہے۔جو بندہ اللہ ہی پر توکل کرکے صرف اللہ سے دعا کرتا ہے اور دعا کی قبولیت میں تاخیر بھی ہوتو وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ اس میں بھی اللہ کی رحمت اور حکمت مضمر ہے۔ایسے لوگوں کو اللہ ہدایت سے نوازتا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے اور اس پر توکل کرنے کاانعام اللہ کی رشدو ہدایت کی صورت میں دیتا ہے(سورۃ البقرۃ ۱۸۶)۔نمازوں اور روزوں کو پراثر بنانے کے لیےہم سب سے پہلے قرآن پر تدبّرکرکے حقیقی ایمان سے بہرہ مند ہوں ۔قرآن میں نمازاور روزے کے جو مقاصد بیان کیے ہیں ان کا فہم و ادراک ہو۔مزید یہ کہ نمازوں میں جو کچھ ہم پڑھ رہے ہوں ان کو سمجھ رہے ہوں تو نمازوں میں خشوع وخضوع کی کیفیت پیداہوگی۔ ایسی نمازیں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائیں گی ،ہمیں فحش و منکرات سے روکیں گی اور مصائب میں ہمیں صبر کی چٹان بنادیں گی ۔اسی طرح روزوں کے مقاصد کا ہمیں شعورہو اورروزوں کے دوران ان مقاصد پر ہماری نظر ہوتو ایسے روزے ہمیں اندر ایسا تقویٰ پیداکرنے کا ذریعہ بن جائیں گے جو سال کے اگلے گیارہ ماہ تک ہمیں اللہ کی معصیت سے دوررکھے گا ، ہمیں نیکوں پر ابھارے گا اور دعوت و عزیمت کے راستے کا زادِ راہ بنے گا ۔
***
***
رمضان میں نیکیاں ۷۰گنابڑھادی جاتیں ہیں جس سے ثواب حاصل کرنے کا جذبہ پیداہوتا ہے ۔لیکن روزوں کے مقاصد کواگر سمجھا نہ جائے اور محض ثواب حاصل کرنے کا جذبہ ہوتو رمضان ایک ایسا مذہبی بوجھ بن جاتا ہے جو بادلِ ناخواستہ برداشت کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ اس انتظارمیں ہوتے ہیں کہ جلدازجلد رمضان کا اختتام ہو۔وہیں کچھ لوگ اس غم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ رمضان کی بابرکت گھڑیوں کو الوداع کرنے والے ہیں اوروہ اس تشویش میں رہتے ہیں بھلا اگلا رمضان ملے گا یا نہیں ۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ امت ِ مسلمہ کے افراد حقیقی ایمان سے محروم ہیں ۔وہ مسلم خاندان میں پیدائش کی وجہ سے روایتی ایمان کے تو حامل ہیں لیکن انہوں نے قرآن کو سمجھتے ہوئے پڑھ کر شعوری ایمان حاصل نہیں کیا ہے ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کے مقاصد کو انہوں نے نہیں سمجھا ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 مارچ تا 08 مارچ 2025