رمضان کے روزوں میں متعدد مسائل کا حل موجود

روزوں کے ذریعہ ضبطِ نفس، صبروتحمل اور ہمدردی کا جذبہ پروان چڑھانے کی مشق ہوتی ہے

0

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

اللہ تعالیٰ نےاہل ایمان پر رمضان کے روزوں کو فرض کیا ہے اور اس کا حقیقی مقصد یہ بیان کیا گیا ہے رمضان میں اس ایک ماہ کے روزے تقویٰ کی صفت پیداکرتےہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ(سورۃ البقرۃ ۱۸۵)۔’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم پر روزے فرض کر دیے گئے ، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔
تقویٰ کیا ہے ؟ تقویٰ ایک جامع صفت ہے جو انسان کو حساس بناتی ہے اس احساس کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ بندہ پر نگران ہے ۔متقی بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے بچنے کے لیے گناہوں سے اجتناب کرتا ہے اور اس کی نافرمانی سے بچتے ہوئے اس کے احکام پر عمل کرتا ہے۔ بندے کو یقین ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔وہ نہیں چاہتا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوکر کسی نعمت کو چھین لے یا کوئی مصیبت اس پر نازل کردے ۔وہ اس پر ایمان رکھتا ہے کہ آخرت میں فیصلے کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہوں گے۔وہ اپنی اخروی زندگی کے بارے میں بھی فکرمند رہتا ہے۔تقویٰ کی صفت انسان کے اندر ایسا زوردار محرک پیداکردیتی ہے جو بندے کو اللہ کی کامل اطاعت کرنے اورمعصیت سے بچنے پر ابھارتی رہتی ہے۔تقویٰ کے بغیر زندگی ایک ایسی کار ہے جس میں بریک نہ ہو، اس کو جو بھی چلائے گا وہ یقیناً حادثوں کا شکار ہو گا۔تقویٰ اللہ کے نگران ہونے کا ایسا زندہ شعورہے جو ایمان کو عمل میں ڈھالنے کی استعداد پیداکرتا ہے۔معصیت سے روکتا ہے اور نیکی کے کاموں پر ابھارتا ہے۔دنیا میں روحانیت کے کئی تصورات پائے جاتےہیں جو ذہنی سکون کے لیے اختیار کیے جاتے ہیں لیکن حقیقی مفہوم سے خالی ہوتے ہیں ۔روحانیت کا مطلب ہے تعلق باللہ یعنی بندے کا رب کائنات کے ساتھ تعلق پیداہونا جو خالقِ کائنات ہے۔اس کے دو مراتب ہیں :
تقویٰ اور احسان ۔تقویٰ بندے کے اس احساس کا نام ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔یہ احساس اسے اللہ کے احکام پر عمل کرنے کا محرک بن جاتا ہے۔احسان یہ ہے کہ بندہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ بندہ اللہ کو دیکھ نہیں سکتا لیکن وہ اللہ کواس کی ذات کے بجائے اس کی صفات کے آئینہ میں دیکھ کر ان صفات کے شایانِ شان، اللہ سے قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ فرائض سے بڑھ کر نوافل کے ذریعے اللہ کی خوشنودی کے حصول کا حریص ہوتا ہے۔روزہ ایسی عبادت ہے جو بندے کے اندر تقویٰ جیسی جامع صفت کو پیداکرنے کا موثر ترین ذریعہ ہے۔تقویٰ کے معاشرہ پر ہمہ گیر اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔تقویٰ کی صفت انسانیت کے بڑے بڑے مسائل کا حل اپنے اندر رکھتی ہے۔تقویٰ نہ صرف فرد کی روحانیت کو پروان چڑھاتا ہے بلکہ معاشرے کی مجموعی ترقی اور فلاح پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔جب لوگوں میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوتی ہے تو وہ جھوٹ، دھوکہ دہی، چوری اور رشوت جیسے برے کاموں سے بچتے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ ان کے دک میں اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس ہوتا ہے۔ایسا فرد معاشرہ کے لیے سراسر رحمت بن جاتا ہے۔جب افرادایک دوسرے کو ایذانہ پہنچائیں بلکہ ایک دوسرے کے خیرخواہ بن جائیں تو اس معاشرہ میں عدل و انصاف خودبخود قائم ہونے لگتاہے۔ قانون کے نفاذ اور انسدادِ جرائم کے ادارے جیسے پولیس ،عدلیہ اورجیلوں کے بہت سارے مصارف میں کمی واقع ہوتی ہے۔ آپسی ہمدردی اور مواسات کا ماحول پیداہوتا ہے جس سے خاندانوں میں محبت، عزت اور تعاون کی فضاء قائم ہوتی ہے جوایک مضبوط اور صالح معاشرہ کی بنیاد ہے۔تقویٰ افراد کو صدقہ، زکوٰۃ اور دوسروں کی مدد کی طرف مائل کرتا ہےجس سے ایک فلاحی معاشرہ وجودمیں آتا ہے۔ معاشرے میں خودغرضی اور مفاد پرستی کے مقابلے میں غریبوں، یتیموں اور محتاجوں کے لیے غم گساری پیداہوتی ہے۔اللہ کی سنت ہے کہ جب کسی ملک کی اکثریت تقویٰ کی صفت سے متصف ہووہاں ایک فلاحی معاشرہ وجود میں آ تا ہے۔اللہ تعالیٰ ایسی صورت میں صالح قیادت کے لیے راہیں ہموار کرتا ہے۔جہاں عوام کی اکثریت فسق و فجور میں مبتلا ہوتو وہاں اللہ تعالیٰ ظالم حکم رانوں کو ان پر مسلط کردیتا ہے۔
رمضان کا روزہ صرف کھانے پینے سے پرہیز کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مکمل طرزِ عمل ہے جومادہ پرستی کے بجائے روحانیت ، خواہشات نفس کے مقابلے میں ضبطِ نفس، خودغرضی کے بجائے ہمدردی اورناانصافی کی جگہ عدل وقسط کو فروغ دیتا ہے۔ رمضان میں روزوں کا اہتمام عالمی مسائل جیسے بھوک، منشیات ، تشدد، رشوت ، فحش اور مادہ پرستی کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
۱۔بھوک اور غربت کا حل :
روزہ دار چونکہ خود بھوک کا تجربہ کرتے ہیں اس لیے ان کے اندر بھوکے لوگوں کے لیے ہمدردی و غم گساری پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ بھوکوں کو کھلانے کے لیے صدقہ و خیرات، زکوٰۃ اور عطیات دینے کا اہتمام کرتے ہیں ۔رمضان میں اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ روزہ داروں کوکھلائیں جس سےکھلانے والے کو روزہ دار کے روزے کا ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ روزہ دارکے ثواب میں کوئی کمی واقع ہو۔مخیر حضرات اور فلاحی ادارے خصوصی طور پر رمضان کے دوران افطاری اور سحری کے دسترخوان لگاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے زمین میں رزق کے لامحدود خزانے رکھے ہیں لیکن رزق کی تقسیم میں عدل وانصاف نہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں غربت و بھکمری کے حالات پیداہوتےہیں ۔اگر لوگ سادہ اور متوازن غذا پر اکتفا کریں اور فضول خرچی سے بچیں اور خوراک کی منصفانہ تقسیم ہو تو دنیا سے بھکمری کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ رمضان میں روزوں سے جو تربیت حاصل ہوتی ہے اس کواگر بڑے پیمانے پر دنیا میں اختیارکیا جائے تو عالمی بھوک کے مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے ۔بھارت Global Hunger Index(GHI)میں دنیا کے ۱۲۷ بھوک سے متاثرہ ممالک میں ۱۰۵ویں مقام پر ہے جو تشویشناک ہے۔ اسلام میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کی بہت اہمیت ہے ۔اللہ کا شکر اداکرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ معاشرہ کے مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کی جائے اوربھوکوں کو کھاناکھلایا جائے۔رمضان میں روزہ افطارکروانے میں سبقت کا ماحول پایا جاتا ہے جس سے رمضان کے بعد بھی بھوکوں کو کھانا کھلانے کا رواج عام ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے”(مسند احمد)۔اہل جہنم کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ بھوکوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے(سورۃ المدثر۴۴)۔
۲۔منشیات اور نشے کی لت سے نجات :
چونکہ رمضان میں روزے پورے ایک ماہ کے لیے رکھے جاتے ہیں اس لیے رمضان کامہینہ بری عادتوں اور لتوں addictions جیسے منشیات، سگریٹ نوشی اور شراب نوشی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا زرین موقع فراہم کرتا ہے۔ روزہ انسان کو خواہشات پر قابو پانے کی عملی مشق کراتا ہے۔جب کوئی فرد اللہ کے ڈرسے غذا اور پانی جیسی بنیادی ضروریات پر قابو پا سکتا ہے تو وہ دیگر بری عادتوں اور منشیات سے بھی دور رہنے کی طاقت حاصل کر سکتا ہے۔منشیات کے استعمال سے انسانی صحت ، خاندانی نظام اور معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اورمنشیات کا جرائم سے گہرارشتہ ہے۔روزہ منشیات کے اثرات کو زائل کرنے میں بہت اہم رول اداکرتا ہے ۔ جو لوگ منشیات کے عادی ہوتے ہیں وہ رمضان میں کم از کم دن کے اوقات میں جب ان سے دور رہتے ہیں تو یہ نشے کو مکمل طور پر ترک کرنے کا پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ رمضان میں عبادات، دعا اور تلاوتِ قرآن سے روحانی قوت ملتی ہے جو نشے کے عادی افراد کو ذہنی سکون فراہم کرتی ہے۔روزہ رکھنے کی وجہ سے منشیات کے عادی لوگوں کو بری صحبت سے بھی نجات مل جاتی ہے اور نیک لوگوں کے ساتھ نیک اعمال میں مشغول رہنے کا موقع ملتا ہے۔ اپنے خاندان کے افراد کے درمیان میں رہنا اور نیک صحبت اختیارکرنا منشیات کو ترک کرنے میں مددگار اور rehabilitationکا ذریعہ بن جاتا ہے ۔فی زمانہ فحش فلموں کی لت نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کا سبب بنی ہوئی ہے۔یہ لت نوجوانوں کی جنسی طاقت پر بری طرح اثرانداز ہورہی ہے، رمضان کا مہینہ اس لت سے نوجوانوں کو آزادکروانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ماہرین کی بھی یہ رائے ہے کہ اس لت سے چھٹکارا پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایسی فلموں سے ایک عرصہ تک مکمل اجتناب کیا جائے۔
۳۔زنااور جنسی جرائم کا سدباب:
روزہ کی حالت میں کھانے پینے پر پابندی کے ساتھ زوجین کے مابین جنسی تعلقات پر بھی پابندی ہوتی ہے۔جب حلال رزق اور حلال جنسی تعلق کو روزہ کی حالت میں ممنوع قرارجائے توروزہ حرام تعلقات سے بچنے کی بہترین تربیت فراہم کرے گا ۔ رمضان میں ہر طرف نیکی کا ماحول ہوتا ہے اور شیاطین کی اکساہٹیں بھی رمضان میں معطل ہوجاتیں ہیں ۔اس لیے رمضان میں برائیوں کا ارتکاب مشکل اور نیک اعمال کو انجام دینا آسان ہوجاتا ہے۔اسلام نے زنا کے قریب پھٹکنے سے بھی منع کیا ہےاور اس کو براراستہ قراردیا گیا ہےیعنی انجام کے اعتبارسے زنا برے نتائج تک لے جاتا ہے۔اکثر قتل کی وارداتیں ناجائز تعلقات سے وابستہ ہوتیں ہیں ۔جب انسان کے اندر برائیوں سے بچنے کا محرک باقی نہیں رہتا تو وہ شتر بے مہار یا بے لگام گھوڑا بن جاتا ہےجو اس کو کسی بھی کھائی میں لے جاکر پھینک دے گا۔اس وقت بھارت میں گلیڈن کی رپورٹ کے مطابق ۵۳فیصدشادی شدہ خواتین اور ۴۳فیصد شادی شدہ مرد ناجائز تعلقات قائم کرتے ہیں ۔ ناجائز تعلقات کے ظاہر ہونے کا جب ڈر لاحق ہوتا ہے تو وہ قتل کا محرک بن جاتا ہے۔۱۹۲۱کی National Crime Records Bureau (NCRB)کے مطابق ہر روز عصمت دری کے ۸۷واقعات درج ہوتے ہیں اور جو واقعات درج نہیں ہوتے وہ اس سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ عصمت دری کے بعض واقعات میں جرم کو چھپانے کی غرض سے قتل کیا جاتا ہے۔ اسلام آخرت کی کامیابی کا راستہ دکھاتا ہے اور ساتھ میں دنیا میں امن و سلامتی اور عدل و قسط کی بھی ضمانت دیتا ہے۔اسلام خواتین پر ظلم کے سلسلے میں جو سب سے پہلی ہدایت دیتا ہے وہ یہ ہے کہ نظروں کی حفاظت کی جائے اور خلوت میں غیرمحرم مرد و خواتین ملاقاتیں نہ کریں ۔ خواتین کو حجاب کا حکم دیا گیا ہے جس سے عریانیت کا سدباب ہو تاکہ مرد وں کے جذبات میں ہیجان پیدانہ ہو۔ حجاب کا دوسرافائدہ یہ ہے کہ اس سے عورتوں کی عصمت کی حفاظت ہو ۔روزہ جنسی جذبات پر قابو پانے کے لیے بہت موثّر ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اے نوجوانو! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو وہ نکاح کر لے، کیونکہ یہ نظر اور شرم گاہ کی حفاظت کے لیے بہتر ہے اور جو اس کی طاقت نہیں رکھتا، تو وہ روزہ رکھے، کیونکہ روزہ اس کے لیے ڈھال ہے”(بخاری و مسلم)۔مزید یہ بات قابل ِ غورہے کہ ناجائز تعلقات انجام کے اعتبارسے دردناک ثابت ہوتے ہیں ۔ ناجائز تعلقات جنسی بیماریوں اور ایچ آئی وی جیسے خطرناک امراض کا سبب بنتے ہیں۔
۴۔غصے پر قابو اور گھریلو تشدد
روزہ رکھنے سے افراد کو اپنے غصے پر قابو پانے اور تحمل اختیارکرنے کی تربیت ملتی ہے۔مزید یہ کہ اسلام خاندان کے افراد کے ساتھ حسن سلوک اختیارکرنے اور عزت سے پیش آنے پر زور دیتا ہے۔ حدیثِ شریف میں ہےکہ:’’روزہ ڈھال ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو نہ فحش بات کرے اور نہ ہی شور شرابہ کرے، اور اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو کہہ دے: میں روزے سے ہوں‘‘(بخاری و مسلم)۔رمضان کا مہینہ انسان کو صبر، برداشت، ہمدردی اور غصہ پر قابو رکھنے کی عملی تربیت دیتا ہے۔ غصہ تشدد پر ابھارتا ہے جو جان و مال کے نقصان کا ذریعہ بنتا ہے۔ رمضان میں عبادات، ذکر، دعا اورتلاوت کرنے سے روحانی سکون حاصل ہوتا ہے، جو غصے اور نفرت جیسے جذبات کو کم کرتا ہے۔رمضان ہمیں معاف کرنے اور دوسروں کو درگزر کرنے کا درس دیتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص رمضان میں کسی کو معاف کر دے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی بخشش فرما دے گا‘‘۔معافی اور درگزر کے ذریعے معاشرے میں محبت اور امن قائم کیا جا سکتا ہے، جو تشدد اور انتقامی جذبات کو ختم کرنے میں مددگارہوتا ہے۔
۵۔جرائم کی روک تھام:
جرائم کی حسب ذیل صورتیں ہیں : چوری اور ڈکیتی ،لڑکیوں اور خواتین پر حملے،لین دین میں تنازعات کی بنیاد پر حملے اور نفرت و عداوت کی بدولت تشدداور قتل ۔چونکہ روزہ تقویٰ کی صفت پیداکرتا ہے اور روح کو جسم کے حیوانی تقاضوں پر قابو پانے کی زبردست طاقت پیداکرتاہے جس سے گناہوں،ناجائز کاموں اورجرائم سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔تقویٰ کی صفت حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کے معاملےمیں انسان کو محتاط بنادیتی ہے ۔جب اللہ کا خوف پیداہوتا ہے اور آخرت میں جواب دہی کا احساس پیدا ہوتا ہے تو مجرم نہ صرف اپنے جرم سے بازآتے ہیں بلکہ وہ معاشرہ کے محافظ بن جاتے ہیں ۔حالت روزہ میں معافی پر ابھارا گیا جس سے تشدد کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور تنازعات کے پرامن حل کو فروغ ملتا ہے۔
۶۔ناجائزکمائی کے ذرائع :رشوت،چوری اور دھوکہ دہی :
روزوں کے ذریعے خوفِ خداپیداہوتا ہے جس سے معاشرہ میں ناجائز کمائی کےاسباب جیسے رشوت،چوری اور دھوکہ دہی کے امکانات کم ہونے لگتے ہیں ۔روزہ ،حرص و مادہ پرستی کے مقابلے میں حلال پر قناعت سکھاتا ہے۔ ناجائز طریقے سے دولت جمع کرنے کی خواہش اور دولت کا لالچ انسان کو جرائم کی طرف بھی لے جاتا ہے۔اگر ایک شخص روزہ رکھتے ہوئے جھوٹ، فریب اور رشوت سے بچے تو یہ عادت رمضان کے بعد بھی اس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ کو اس کے کھانے پینے سے رکنے کی کوئی حاجت نہیں‘‘(بخاری)۔ ایک حدیث میں آیا ہے:’’ایمان والے اور چور ایک ساتھ نہیں ہو سکتے، اور ایمان والے اور جھوٹے ایک ساتھ نہیں ہو سکتے ‘‘(بخاری و مسلم)۔ ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جو حرام مال سے پلا بڑھا ہو‘‘(ترمذی)۔ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”جو شخص جھوٹ، بد گوئی اور برے اعمال کو نہ چھوڑے، تو اللہ کو اس کے بھوکے اور پیاسے رہنے کی کوئی پروا نہیں” (بخاری)۔ ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ روزہ رکھنا صرف ظاہری عبادت نہیں بلکہ اخلاقی اور عملی اصلاح کا ذریعہ بھی ہے۔آج ہمارے ملک کی عدم ترقی کی سب سے اہم وجہ رشوت خوری اور دھوکہ دہی ہے جس سے غریب ،غریب تراور امیر امیر تر بنتے چلے جارہے ہیں ۔لوگ نمودونمائش کےلیے فضول خرچی کرتےہیں اوریہ پہلو بھی ناجائزدولت کمانےکا ایک محرک ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: ” اور کھاؤ، پیو اور فضول خرچی نہ کرو، بے شک اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا”(سورۃ الاعراف۳۱)۔ اسلام مادہ پرستی کے مقابلے میں انفاق ،صدقات اورزکوٰۃ پر ابھارتا ہے جس سے مال پاک ہونے کے ساتھ انسان کا نفس بھی پاک ہوتا رہتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا بلکہ اللہ اس میں برکت عطا فرماتا ہے ‘‘ (مسلم)۔ اللہ سے تعلق ہی سے قلبی سکون حاصل ہوتا ہےنہ کہ مال و دولت کی کثرت سے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:’’بے شک دلوں کا اطمینان اللہ کی یاد سے ہے‘‘(سورۃ الرعد ۲۸)۔
۷۔خاندانی نظام کا درہم برہم ہونا:
آج کل بھارت میں بھی مغربی تہذیب کو اختیار کیا جارہا ہے جس سے خاندانی نظام انتشارکا شکارہے۔مرد وخواتین نکاح کے بغیر ایک ساتھ رہنے لگے ہیں ۔شادی سے پہلے اور شادی کے بعد ناجائز تعلقات سے نکاح کا ادارہ بے معنی ہونے لگاہے۔شادی کے بعد لڑکیوں کی طرف سے جھوٹے مقدمات نے شادی کرنے سے ہی نوجوانوں کو خوف زدہ کردیا ہے۔میاں بیوی کے درمیاں اعتماد رخصت ہورہا ہے ۔طلاقوں کی کثرت ہورہی ہےجس سے بچوں کی پرورش پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ناجائز تعلقات کی وجہ سےبے چینی اور ذہنی دباؤبڑھتا ہے جس سے نفسیاتی صحت متاثر ہوتی ہے ۔رمضان میں روزے انسان کے اندر تقویٰ اور خدا کا خوف پیدا کرتے ہیں جو اسے حرام تعلقات، دھوکہ دہی اور خیانت سے دور رکھتے ہیں ۔ رمضان کی روحانی تربیت کو اپنانے کی صورت میں ناجائز تعلقات سے پرہیز شادی شدہ افراد میں اعتماد بحال کرسکتا ہےجس سے خاندانی نظام مضبوط ہوسکتا ہے۔روزوں سے تقویٰ کی جب صفت پیداہوگی تو لوگ خودبخود فحش و منکرات سے بچنے کی فکرکریں گے اوراپنی نظروں کی حفاظت کریں گے۔
۸۔روزے سے انسانی صحت پر بہترین اثرات :
روزہ رکھنے سے میٹابولک ریٹ (metabolism rate) میں بہتری آتی ہے، جس سے جسم زیادہ کیلوریز کو جلاتا ہے۔ یہ میٹابولک عمل جسم میں چربی کو کم کرنے کا سبب بن جاتا ہے ۔جب جسم میں چربی کی کمی ہوتی ہے تو موٹاپے میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔رمضان کے روزے موٹاپے کو کم کرنے کے لیے ایک قدرتی اور موثرذریعہ ہیں۔ روزہ رکھنے کے نتیجے میں جب پیٹ خالی ہوتا ہے اس وقت معدہ جسم کے زہریلے مادوں (toxins) کو ختم کرنے میں لگ جاتا ہے ۔سائنس داں کہتے ہیں کہ روزوں کی وجہ سےdetoxification کا عمل کینسر کے اسباب کو بھی ختم کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

 

***

 رمضان المبارک جہاں مسلمانوں کے لیے اپنے اندر تقویٰ، صبر اور احسان جیسی اعلیٰ مومنانہ صفات پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، وہیں یہ دیگر مذاہب کے لوگوں کے سامنے اسلام کی عملی شہادت پیش کرنے کا ایک زرین موقع بھی ہے۔ اس مبارک مہینے میں مسلمانوں کے اندر پیدا ہونے والی تبدیلی اور شب و روز کے معمولات کو دیکھنے سے برادرانِ وطن میں مسلمانوں کی اس کسر نفسی کو سمجھنے کے تعلق سے تجسس پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا داعیِ امت ہونے کے ناطے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم انہیں ماہِ قرآن کے پیغام سے واقف کروانے کے ساتھ ساتھ انہیں روزوں کی مقصدیت و افادیت سے بھی روشناس کروائیں۔ اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دعوتی نقطہ نظر سے یہ مضمون تحریر کیا گیا ہے۔ اسے تلگو زبان میں حاصل کرنے کے لیے حیدرآباد سے شائع ہونے والے رسالے ’گیٹورائی‘ کا رمضان اسپیشل ایڈیشن ملاحظہ کریں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 فروری تا 01 مارچ 2025