رام نومی جلوس کے شرکا نے ہی رشرا میں تشدد بھڑکایا، بنگال پولیس نے ہائی کورٹ میں کہا
نئی دہلی، اپریل 8: ریاستی حکومت نے کلکتہ ہائی کورٹ کو بتایا کہ 2 اپریل کو مغربی بنگال کے ہُگلی ضلع کے رشرا میں رام نومی کے جلوس کے دوران تشدد کو جلوس میں شامل لوگوں نے اکسایا تھا۔
چندر نگر سٹی پولیس نے، جس کے دائرۂ اختیار میں رشرا آتا ہے، جمعہ کی شام کو عدالت میں تشدد کے بارے میں اپنی تفصیلی رپورٹ پیش کی۔
دی مسلم مرر کی خبر کے مطابق رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے کہ جلوس میں شرکت کرنے والے جلوس کے آغاز سے ہی ’’بدزبانی اور جارحانہ زبان‘‘ استعمال کر کے مقامی لوگوں کو مسلسل ’’بھڑکا‘‘ رہے تھے۔
رپورٹ کے مطابق اگرچہ ابتدائی طور پر جلوس میں شریک افراد کے ایک حصے نے خود کو اشتعال انگیز زبان استعمال کرنے تک محدود رکھا، لیکن بعد میں ان میں سے کچھ نے مقامی لوگوں پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ جلوس میں پولیس کی اجازت کے بغیر ڈی جے کا استعمال کیا گیا اور کچھ شرکا نے مہلک دھار دار ہتھیار بھی لہرائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی جارحانہ زبان کے استعمال اور پتھراؤ نے مقامی لوگوں کو اکسایا، جنھوں نے جوابی پتھراؤ کیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جب پولیس نے دونوں فریقوں کو روکنے کی کوشش کی تو پولیس اہلکاروں کے خلاف حملے کیے گئے اور پولیس کی کچھ گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔
2 اپریل کی شام کو رام نومی کے جلوس کو لے کر رشرا میں جھڑپیں ہوئی تھیں۔ زخمی ہونے والوں میں بی جے پی کے رکن اسمبلی بیمن گھوش اور کچھ پولیس افسران بھی شامل تھے۔ بعد ازاں کشیدگی اس وقت بڑھ گئی اور 3 اپریل کی رات تک جاری رہی، جب پرتشدد ہجوم نے رشرہ میں گزرنے والی ٹرینوں پر پتھراؤ شروع کر دیا۔
کلکتہ ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی پولیس رپورٹ میں بھی 3 اپریل کو جاری کشیدگی پر حالات کی تفصیل دی گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق اس شام جب پولیس دستہ رشرا ریل گیٹ علاقے میں گشت کر رہا تھا، تقریباً 500 لوگوں کے ایک گروپ نے اچانک لاٹھیوں، پتھروں اور اینٹوں سے پولیس پر حملہ کر دیا۔
انہوں نے وہاں سے گزرنے والی ٹرینوں پر بھی پتھراؤ شروع کر دیا۔ پولیس کو حالات پر قابو پانے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا سہارا لینا پڑا۔