رام مندر کے افتتاح کے ساتھ بی جے پی کی انتخابی مہم کا آغاز
رام مندر اور نیائے یاترا کا نچوڑ ہی لوک سبھا انتخابات کا اہم موضوع ہو سکتا ہے
شبانہ جاوید، کولکاتا
22؍ جنوری 2024 ایک ایسا دن ہے جو ملک کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ اسی دن کو سامنے رکھ کر بی جے پی 2024 کے لوک سبھا انتخابات جیتنا چاہتی ہے جبکہ کانگریس نے مقابلے کے لیے بھارت جوڑو نیائے یاترا کے نام سے نئی تحریک شروع کی ہے۔ ایسے میں 22؍ جنوری کو رام مندر کے افتتاح سے بی جے پی، جہاں رام رتھ پر سوار ہو کر ملک بھر میں سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی وہیں کانگریس کی نیائے یاترا ایک مضبوط جواب کے طور پر سامنے آسکتی ہے۔
سب کا ساتھ سب کا وکاس، بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ اور کالا دھن واپس لانے جیسے کئی اہم نعروں کے ساتھ 2014 میں بی جے پی نے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ کامیابی کا یہ سلسلہ 2019 میں بھی جاری رہا اور اب 2024 کا لوک سبھا کے انتخابات سامنے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کے سیکولر امیج کو بہت بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ ماہرین کے مطابق بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں جس روایت نے تیزی سے زور پکڑنا شروع کیا وہ تھی آپسی بھید بھاؤ اور نفرت کی سیاست۔ ملک میں نفرت کی سیاست نے تیزی سے زور پکڑا اور گائے کے گوشت کے نام پر ہزاروں لوگوں کی جانیں لی گئیں، کئی لوگوں کے گھر اجاڑے گئے، لوگوں کو در بدر کیا گیا۔ ملک میں ہر طرف افراتفری کا ماحول دیکھا گیا۔ اگرچہ بی جے پی سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سماج کے ہر طبقے کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سماج اضطراب و بے چینی کا شکار ہے۔ نفرت کی سیاست کا یہ حال ہے کہ لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے پریشان ہیں۔ ٹرینوں میں سفر کرنے سے کترا رہے ہیں۔ سیاست میں دھرم کو اتنا ملایا جا رہا ہے کہ جمہوریت کی جگہ دھرم تانتر کا بول بالا ہو گیا ہے۔ جمہوریت کی تصویر دھندلی ہو گئی ہے۔ حال یہ ہے کہ وہ سیاسی پارٹیاں جو خود کو دھرم سے دور رکھتی تھیں اب وہ بھی دھرم کے نام پر آگے جانا اور لوگوں کے بیچ رہنا چاہتی ہیں۔ ان کے مطابق دھرم کو سامنے رکھ کر ہی الیکشن جیتا جا سکتا ہے۔ آج ترقی کی باتیں بھی دھرم کو سامنے رکھ کر ہی کی جا رہی ہیں۔ اس طرح 2024 کا الیکشن ایسا الیکشن ہوگا جو دھرم کی چادر میں لپیٹ کر لڑا جائے گا اور بی جے پی 22؍ جنوری کے رام مندر کے افتتاح کے ساتھ ہی مہم کی شروعات بھی کر چکی ہے۔ ملک کے ایک شنکر آچاریہ نے بھی بی جے پی پر مندر کے نام پر سیاست کرنے کا الزام لگاتے ہوئے رام مندر کے افتتاحی تقریب سے خود کو دور رکھا ہے لیکن ان سب سے بے پروا بی جے پی رام مندر کی لہر سے اپنے کارکنوں و بھکتوں کو ساتھ لے کر الیکشن کے لیے ماحول بنانے کے اپنے مشن پر لگی ہوئی ہے۔ جبکہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پچھلی یاترا سے سبق لیتے ہوئے راہل گاندھی نے بھارت جوڑو نیائے یاترا شروع کی ہے۔ نیائے یاترا 14 جنوری کو منی پور سے شروع ہوئی۔ اس کا اختتام 20 مارچ کو ممبئی میں ہوگا۔ کانگریس اس یاترا کے ذریعے عام لوگوں سے جڑنے کے ساتھ ساتھ اہم مسائل کو بھی منظر عام پر لانا چاہتی ہے۔
منی پور آج بھی اپنے مسائل سے ابھر نہیں پایا ہے۔ میزورم الیکشن میں منی پور ایک اہم موضوع رہا ہے۔ اسی منی پور سے یاترا کا آغاز کرکے راہل گاندھی نے عام لوگوں کو ساتھ لینے اور مسائل کو سامنے لانے کی شروعات کی ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق رام مندر کے شور میں نیائے یاترا کی ہلکی سی گونج بھی سنائی دے رہی ہے خاص کر شمالی ہند کے دورے کے دوران جب راہل گاندھی آسام پہنچے تو سیاسی ہنگامہ خوب دیکھنے کو ملا۔ آسام کے وزیر اعلی ہیمنت بسوا سرما نے نیائے یاترا کو میاں یاترا کا نام دیا۔ جبکہ راہل گاندھی نے آسام کے وزیر اعلی کو سب سے کرپٹ وزیر اعلی قرار دیتے ہوئے اپنی یاترا جاری رکھنے اور لوگوں سے اس میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے۔ آسام میں راہل گاندھی کے جلسے میں توڑ پھوڑ اور ہنگامہ بھی دیکھا گیا۔ ایف آئی آر بھی درج کی گئی۔ ساتھ ہی آسام کے وزیر اعلی نے بوفورس معاملے پر گاندھی پریوار کو کرپٹ بتایا۔ منی پور میں بھی نیائے یاترا کو لے کر رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی، کہا گیا کہ راہل گاندھی کو آسام میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا، وہ اگر وہاں گئے تو فساد ہوگا۔ لیکن یہ یاترا منی پور سے نکالی گئی، اس کے بعد آسام میں ہنگامہ دیکھنے کو ملا۔ آسام کے وزیر اعلی نے صاف کہا کہ آسام میں یاترا کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ یاترا کی وجہ سے عام لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آسام کے سیاسی ماہر محمد آزاد نے کہا کہ وزیر اعلی کے اس بیان سے خود وزیر اعلی سوالات کے گھیرے میں ہیں کہ آخر ان کی پارٹی جو بدعنوانی کے خلاف لڑنے کا دعویٰ کرتی ہے وہ راہل گاندھی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی؟ انہوں نے کہا کہ آئندہ الیکشن میں یہ ایک بڑا موضوع ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آسام کبھی کانگریس کا گڑھ ہوا کرتا تھا آج اسی کے خلاف طاقت کا استعمال افسوسناک ہے۔ اس یاترا سے جہاں راہل گاندھی کا قد بڑھا ہے وہیں موجودہ حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے میں بھی وہ کامیاب ہوئے ہیں۔ اس یاترا میں سب کے لیے انصاف کی بات کی جارہی ہے۔ راہل گاندھی کی نیائے یاترا ان ریاستوں سے بھی گزرے گی جہاں کانگریس حاشیے پر ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق جب تنظیم کمزور ہو تو پیغام لوگوں میں بڑا کام کر سکتا ہے۔ وہیں رام مندر کے افتتاح سے ملک بھر میں سیاسی ماحول بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی بی جے پی کے لیے ملک کی چند ریاستوں کے علاوہ دیگر ریاستوں میں ووٹروں کو لبھانا آسان نہیں ہوگا۔ بہار اور بنگال کی بات کریں تو یہاں رام مندر کو لے کر بی جے پی لوگوں کے قریب تو جا رہی ہے لیکن ووٹنگ کے لیے بنگال میں ممتا بنرجی اور بہار میں لالو یادو فیملی اور نتیش کمار کا مقابلہ آسان نہیں ہے۔ جبکہ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی لوک سبھا انتخابات بی جے پی کے لیے آسان نہیں ہوں گے۔ اس سلسلے میں سماجی کارکن وریندر کمار نے کہا ہے کہ مسائل سے منہ موڑنا سیاسی کھیل ہے جبکہ مسائل اپنی جگہ برقرار ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ ان مسائل کا حل لیڈروں سے ہی مانگیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے رام مندر کو سامنے رکھ کر ملک کے اہم مسائل کو پیچھے دھکیل دینے کی سیاسی چال چلی ہے۔ راہل گاندھی نے لوگوں سے منی پور سے نیائے یاترا کا آغاز کرکے لوگوں کو انصاف دلانے کی مہم میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے سوال یہ ہے کہ انصاف کس کس کو ملے گا؟ مسلمانوں کو دلتوں کو یا ہندوؤں کو؟ کیونکہ خود ہندو بھی عجب کشمکش کی حالت میں ہیں۔ان کے سامنے بھی روزی روٹی اور تعلیم و روزگار جیسے ہزاروں مسائل ہیں جو دھرم کی ہوا میں اڑ گئے ہیں۔
بہرحال لوک سبھا انتخابات سامنے ہیں۔ اب ان میں کون کس پر کتنا بھاری پڑےگا یہ کہنا مشکل ہے لیکن اتنا تو صاف نظر آرہا ہے کہ رام مندر اور نیائے یاترا کا نچوڑ ہی لوک سبھا الیکشن کا اہم موضوع ہوگا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 3 فروری 2024