راج دیپ سردیسائی کی کتاب؛ حکومت کے ’میڈیا مینجمنٹ‘ سے پردہ اٹھ رہا ہے

کپل سبل کی وقف ایکٹ پر گفتگو اور ’ایکس‘پر ششی تھرور کا شکوہ نئے سوالات کو جنم دینے کا باعث

0

شہاب فضل، لکھنؤ

پرسار بھارتی کا او ٹی ٹی پلیٹ فارم لانچ۔عرب خاتون صحافی کی امریکہ میں عزت افزائی
سینئر صحافی راج دیپ سردیسائی کی 2024ء کے لوک سبھا انتخابات پر انگریزی میں ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے جس میں حالات حاضرہ پر میڈیا کی رپورٹنگ کے طریقوں، میڈیا اداروں کو تحویل میں لینے کی حرکات اور میڈیا میں حکومت کے مفاد کے مطابق بیانیہ پیش کرنے کے لیے اندرون خانہ کیسے کام کیا جاتا ہے، ان تمام امور پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔‘‘2024 :دی الیکشن دَٹ سرپرائزڈ انڈیا’’ کے عنوان والی اس کتاب میں بطور خاص پی ایم نریندر مودی کی شبیہ بنانے اور ان کے یا ان کی حکومت کے لیے منفی خبروں کو کنارے کرنے کی حکمت عملیوں سے پردہ فاش کیا گیا ہے۔ راج دیپ سردیسائی، این ڈی ٹی وی میں رہے، نیوز 18 کے ایڈیٹر انچیف تھے اور اب وہ ٹی وی ٹوڈے گروپ سے جڑے ہوئے ہیں ۔
صحافی اور یوٹیوبر اجیت انجم نے اپنے یو ٹیوب چینل پر اس کتاب پر تقریباً 41 منٹ کا ایک شو کیا ہے جس میں انہوں نے اس کتاب کے حوالے سے وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) میں تعینات ہیرین جوشی پر کافی گفتگو کی ہے جو میڈیا مالکین کے رابطہ میں رہتے ہیں اور جن کا بھیجا گیا پیغام کسی بھی میڈیا مالک یا ایڈیٹر انچیف کے لیے پتھر کی لکیر ہوتا ہے۔ ان کے پیغام کو بی جے پی کے کئی وزرائے اعلیٰ اور پی ایم مودی کی کابینہ میں شامل وزراء بھی بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اجیت انجم کے بقول ‘‘مسٹر جوشی ریموٹ کنٹرول سے ملک کے درجنوں چینلوں اور اخباروں کو چلانے کی قوت رکھتے ہیں۔ مطلب یہ کہ مودی کے بارے میں کس چینل پر کیا خبر چلے گی کیا نہیں چلے گی، کس چینل پر مودی جی کا انٹرویو کیسے ہوگا، کون انٹرویو کرے گا، کسے انٹرویو نہیں دینا ہے یہ سب وہی طے کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی طے کرتے ہیں کہ کس کا انٹرویو کب اور کیسے چلے گا۔ مثال کے طور پر اگر اروند کیجریوال کا انٹرویو کوئی کررہا ہے تووہ پرائم ٹائم پر چلے گا یا نہیں۔ جوشی وزیر اعظم مودی کا پورا میڈیا مینجمنٹ دیکھتے ہیں اور ان کا اتنا دبدبہ ہے کہ وہ کسی چینل پر کسی کو آف ایئر بھی کراسکتے ہیں’’۔ یعنی یہ کہ اسے کچھ دنوں کے لیے چینل پر اینکرنگ سے روک دیا جائے گا۔
اس بارے میں سردیسائی نے اپنی کتاب میں کئی قصے لکھے ہیں جس سے میڈیا پر حکومت کے ‘کنٹرول’ کا اندازہ ہوتا ہے۔ حالانکہ کچھ میڈیا ادارے ‘کنٹرول’ میں نہیں آتے اور وہ اپنی آزادی برقرار رکھتے ہوئے ایسی معمول کی خبریں، تفتیشی خبریں اور مضامین شائع یا نشر کرتے رہتے ہیں یا ان کے اینکرز اور رپورٹرز ایسی باتیں عوامی پلیٹ فارم پر لکھ دیتے ہیں جن سے حکومت کٹہرے میں کھڑی ہوتی ہے اور معاملہ کی حقیقت سامنے آتی ہے یا وزیر اعظم کا ایک ایسا چہرہ سامنے آتا ہے جو انہیں خود پسند نہیں ہوتا۔ حکومت کی مرضی کی خلاف ورزی کرنے والے اداروں کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ اس سلسلہ میں راج دیپ نے اکنامک ٹائمز کے ایک گلوبل بزنس سمّٹ کی مثال دی ہے جس میں ایک بات پر ناراض ہوکر وزیر اعظم نریندر مودی یا ان کی کابینہ کے سینئر وزراء نے شرکت سے انکار کردیا تھا۔ دراصل روہنی سنگھ نام کی ایک صحافی ان دنوں اکنامک ٹائمز میں تھیں۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں انہوں نے اکھلیش یادو کے حق میں کچھ ٹویٹ کیے تھے۔ اس ٹویٹ سے پی ایم او ناراض ہوا اور اکانک ٹائمز کے گلوبل بزنس سمّٹ کا غیر سرکاری طور سے بائیکاٹ کیا گیا۔ پھر الیکشن کے بعد ایسے حالات پیدا کردیے گئے کہ روہنی سنگھ کو اکنامک ٹائمز سے استعفیٰ دینا پڑا۔
اجیت انجم نے اس پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ مسٹر جوشی کی جانب سے مودی کی حمایت میں بیانیہ چلانے کی ہدایت کس طرح آتی ہے اور کس طرح سے اپوزیشن کے رہنماؤں بشمول راہل گاندھی، تیجسوی یادو، ممتا بنرجی، اروند کیجریوال وغیرہ کو نشانہ پر لینے کی ہدایت دی جاتی ہے۔
ہیرین جوشی 2008ء میں سس وقت نریندر مودی سے جڑے جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور تبھی سے وہ نریندر مودی کے کمیونیکشین کا کام دیکھتے ہیں۔ اس وقت فیس بک اور ٹویٹر بھارت میں نیا نیا آیا تھا۔ سیاست دانوں کو اس کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں تھا۔ اس کا استعمال نریندر مودی نے سب سے پہلے شروع کیا، جس کا انتظام و انصرام ہیرین جوشی نے سنبھالا۔
راج دیپ نے اپنی کتاب میں اپنی صحافتی زندگی کے کئی ایسے واقعات کا ذکر کیا ہے جس سے بھارت میں صحافت کی ماہیت و ہیئت پر روشنی پڑتی ہے ۔ اس میں این ڈی ٹی وی کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے کہ اس کے مالکوں کے لیے ایسی صورت حال پیدا کردی گئی کہ انہیں این ڈی ٹی وی کو صنعتکار اڈانی کے حوالے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔
اجیت انجم نے اپنے شو میں یہ واضح کیا ہے کہ ہیرین جوشی صحافیوں، اینکروں اور ایڈیٹروں کو پیغام بھیجتے ہیں کہ آج کیا خبر کیسے چلنی ہے، جو پینل ڈسکشن ہوگا اس کی لائن کیا ہونی چاہیے، اپوزیشن کو آج فلاں موضوع پر کیسے گھیرا جاسکتا ہے اور اس پر مودی نے کیا ‘تاریخی فیصلے’ کیے ہیں۔ ان کے بقول ‘‘اسی لیے کئی دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی طرح کے ٹویٹ بی جے پی کے لیڈر، حکومت کے وزیر، آئی ٹی سیل اور درجنوں اینکروں اور رپورٹروں کی طرف سے آنے لگتے ہیں اور اس میں یکسانیت کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ دراصل ایک مخصوص بیانیہ بنانے کے لیے ایک منصوبہ کے تحت یہ کیا جاتا ہے’’۔
اروند کیجریوال حال ہی میں جب جیل سے رہا ہوئے تو وہ ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دینا چاہتے تھے۔اس میں کیسے رکاوٹ پیدا کی گئی یا لوک سبھا انتخاب کے وقت مودی کا انٹرویو کیسے پلان کیا گیا، کیسے کچھ انٹرویو وزیر اعظم دفتر میں ہوئے، کیمرہ، لائٹ، ساؤنڈ، ریکارڈسٹ، کیمرہ مین، ایڈیٹنگ، یہاں تک کہ پرومو اور ٹیزر بھی وہیں سے بن کر آئے۔ ایڈیٹیڈ ٹیپ وہیں سے ملا اور چینلوں پر ٹیلی کاسٹ ہوا، ان سارے امور پر راج دیپ سردیسائی کی کتاب کے حوالے سے اجیت انجم نے روشنی ڈالی ہے۔
اس کتاب میں راج دیپ نے ایک چشم دید اور ایک صحافی کے طور پر بہت سے انکشافات کیے ہیں اور پس پردہ کی کہانی بیان کی ہے، جس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اکثر و بیشتر مین اسٹریم میڈیا کا بیانیہ یک طرفہ کیوں ہوتا ہے، اکثر اوقات حکومت یا مودی کی شان میں قصیدے کیوں پڑھے جاتے ہیں یا صحافتی اخلاقیات کو طاق پر رکھ کر نیوز چینلوں پر نفرت انگیز، یک طرفہ اور جانب دارانہ ڈبیٹ کیوں چلائی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر رکن پارلیمنٹ ششی تھرور کا شکوہ
اخبار، ریڈیو اور ٹیلیویژن میں جو لکھا، بولا یا دکھایا جاتا ہے وہ قارئین، سامعین و ناظرین کے سامنے جوں کا توں آتا ہے مگر سوشل میڈیا کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ یوٹیوب اور سوشل میڈیا سائٹ ‘ایکس’ اور فیس بک جیسے پلیٹ فارم، مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشیل انٹلی جنس – اے آئی) کے تابع ہوتے ہیں۔ ہم ان پلیٹ فارموں پر جس طرح کا مواد بار بار دیکھتے ہیں عموماً اسی طرح کا مواد ہماری سامنے آتا ہے۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے سامنے ایسا مواد آجائے جس قسم کے مواد کو ہم نے کبھی دیکھا ہی نہ ہو۔ یہ سوشل میڈیا کا پُش فیکٹر ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہمارے سامنے ایسا مواد لایا جاسکتا ہے جسے ہم نہ دیکھتے ہیں اور نہ دیکھنا چاہیں گے۔ اس عمل کو کمپیوٹر سائنس اور انٹرنیٹ کی اصطلاح میں الگورتھم کہا جاتا ہے جو احکامات اور اعداد و شمار کا ایک پیچیدہ جال ہے، جس کا استعمال سوشل میڈیا پلیٹ فارم کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا الگورتھم اس طریقہ سے ڈیزائن کیا جاسکتا ہے کہ کسی شخص کے سوشل میڈیا نیٹ ورک پر کوئی مخصوص مواد یا فیڈ نہ آئے یا کسی قسم کا مخصوص فیڈ بار بار آئے۔ اس کا مفہوم یہ بھی ہوا کہ کسی فیڈ یا پوسٹ کو چھپایا اور لوگوں کے سامنے آنے سے روکا جاسکتا ہے۔
اِدھر کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘‘ایکس’’ کے الگورتھم کو سیاسی و کارپوریٹ مفادات کے مطابق طے کرنے یا ڈائریکٹ کیے جانے کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔ کانگریس کے لوک سبھا رکن ششی تھرور نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں اس مسئلہ کو شدت کے ساتھ اٹھایا ہے جس کی تائید صحافی برکھا دت اور دیگر نے بھی کی ہے۔
ششی تھرور نے سترہ نومبر کو ایکس پر یہ طویل پوسٹ لکھی: ‘‘یہ چار سال سے ہو رہا ہے! پرانے ٹویٹر انڈیا سے وابستہ ایک شخص نے مجھے بتایا کہ ایک مسئلہ تھا جسے وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا: اس نے چھ ماہ تک میرے اکاؤنٹ کے روزانہ کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا، اسے ایک عجیب بات دیکھنے کو ملی -97 میرے ایکس فالوورز کی تعداد میں روزانہ ایک ہزار سے زیادہ کا اضافہ ہوا، جب کہ تقریباً ساٹھ سے ستّر نے مجھے فالو کرنا بند کر دیا لیکن میرے کل فالوورز کی تعداد 8.495 ملین سے زیادہ نہیں ہوئی۔
اس نے سوچا کہ یہ الگورتھم کا کوئی مسئلہ ہوگا۔ چونکہ میرے اکاؤنٹ کو کبھی بھی کسی کو فالو کرنے کے لیے ‘تجویز’ نہیں کیا جا رہا اور میرے بہت سے فالوورز اپنی ٹائم لائن پر میری زیادہ تر پوسٹ موصول نہ ہونے کی شکایت بھی کرتے ہیں، اس لیے میں سوچتا تھا کہ کیا مجھ پر ‘بالواسطہ پابندی’ لگا دی گئی ہے۔ (مجھے معلومات دینے والا شخص اب ایکس چھوڑ چکا ہے)۔
مجھے یہ سب دیکھتے ہوئے تین سال سے زیادہ ہوگئے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو میں نے ایلون مسک (ایکس کے مالک) کو اس بارے میں انکوائری کرنے کے لیے لکھا۔ جواب میں ایک وکیل کا خط موصول ہوا جس میں صاف انکار کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے! یہ تو ہوئی کارپوریٹ کے توجہ کی بات۔
میری انکوائری کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب میرے فالوورز کی تعداد ہر روز گر رہی ہے۔ سب سے زیادہ 8.495 ملین سے آج یہ تعداد گھٹ کر 8.429 ملین ہے۔
یہاں واضح طور سے کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے جس پر ایکس کورپ انڈیا کے ذمہ داران کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگوں نے اسے محسوس کیا ہے اور وہ مجھ سے پوچھ رہے ہیں، چنانچہ میں نے اس کے بارے میں عوامی سطح پر بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہماری عوامی زندگی میں اس سے زیادہ کئی اہم مسائل ہیں اور یہ ایک چھوٹی سی بات ہے۔ البتہ یہ دانستہ ہے یا اتفاقیہ، مجھے امید ہے کہ جو لوگ سوال پوچھ رہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ کچھ مسئلہ تو ضرور ہے۔ شاید یہاں ذکر کرنے سے ایکس کورپ انڈیا میں کوئی ذمہ دار اس پر توجہ دے۔ تاہم مجھے امید نہیں کہ بہت جلد کچھ ہوگا’’
میٹا کمپنی کی ملکیت والے فیس بُک، انسٹاگرام اور تھریڈس کی بھی یہی کہانی ہے جس کے حکومتِ وقت کے اشاروں پر مخصوص طریقہ سے کام کرنے کے امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ششی تھرور ‘ایکس’ پر بہت سرگرم ہیں اور مختلف موضوعات پر اپنی آراء اور خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ان کی شکایت کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
ایلون مسک کا امریکی انتخابات پر اثر
معروف امریکی انٹریپرینئر اور الیکٹرک کار بنانے والی کمپنی ٹیسلا اور راکٹ کمپنی اسپیس ایکس کے مالک ایلون مسک نے ٹوئٹر کو خرید کر اس کانام ‘ایکس’ رکھا۔ حال ہی میں امریکہ کے صدارتی انتخاب میں انہوں نے ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کی حمایت کی اور ان کی بھرپور مالی معاونت بھی کی۔ مسک کی سوپر پولیٹیکل ایکشن کمیٹی (پی اے سی) نے ٹرمپ کی مدد کے لیے تقریباً دو سو ملین امریکی ڈالر خرچ کیے، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی ارب پتی انتخابات کو وسیع پیمانے پر متاثر کرسکتا ہے۔ فلوریڈا میں اپنی جیت کے جشن کے موقع پر ٹرمپ نے کہا ’’ہمارے پاس ایک نیا ستارہ ہے- ایلون‘‘۔
ایلون مسک نے صرف مالی مدد ہی نہیں کی بلکہ وہ ٹرمپ کے ساتھ بارہا عوامی اسٹیج پر نظر آئے، جس سے ان نوجوان امریکی ووٹروں پر بہت فرق پڑا جن کے لیے ایلون مسک کئی اعتبار سے ایک رول ماڈل ہیں۔
ایکس کی ملکیت ایلون مسک کے ہاتھوں میں جانے سے بھی ٹرمپ کو کافی فائدہ ہوا۔ ایلون مسک، سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر غلط معلومات کو روکنے کی کوششوں کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے حکومتی سنسرشپ کی ایک شکل قرار دیتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ایلون مسک کی راکٹ کمپنی امریکی محکمہ دفاع اور خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور ٹرمپ انہیں صدارت سنبھالنے کے بعد اہم عہدہ دینے جارہے ہیں۔ ان سب واقعات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ کوئی ارب پتی صنعت کار معلومات کے ترسیل و ابلاغ میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے اور اپنی تائید و حمایت سے انتخابات کو متاثر کر سکتا ہے ۔
اتر پردیش میں بھرتی اسکینڈل کو انڈین ایکسپریس نے اجاگر کیا
معروف انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے اتر پردیش قانون ساز اسمبلی اور کونسل میں 186 ایڈمنسٹریٹیو عہدوں پر بھرتی میں دھاندلی کا انکشاف کیا ہے۔ اخبار کی ایک تفتیشی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2020-21ء میں ہونے والے بھرتی امتحان میں سینئر اہلکاروں کے رشتہ داروں کو کامیاب کرانے کے لیے ان کے امتحان کے نمبر بڑھائے گئے ۔جن امیدواروں کو پاس کیا گیا ان میں ایک وزیر کا بھتیجا، کونسل سکریٹریٹ انچارج کا بیٹا، محکمہ پارلیمانی امور کے انچارج کا بیٹا اور بیٹی، نائب لوک آیوکت کا بیٹا اور بھرتی امتحان منعقد کرنے والے دو فرموں کے مالکین سے تعلق رکھنے والے کم از کم پانچ امیدوار شامل تھے۔ دیگر امیدواروں نے جب اس سلسلہ میں ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تو عدالت نے ابتدائی شواہد کو دیکھنے کے بعد اس معاملہ کی سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ بعد میں یو پی قانون ساز کونسل کی اپیل پر سپریم کورٹ نے سی بی آئی جانچ پر روک لگا دی تاہم عدالت عظمیٰ میں اس پر سماعت جاری ہے۔ اس اسکینڈل سے اتر پردیش میں سرکاری بھرتیوں میں سنگین بے ضابطگیوں کا اشارہ ملتا ہے اور یہ بھی کہ ریاست میں بے روزگاری کی شرح بڑھتی جارہی ہے کیونکہ 186 عہدوں کے لیے تقریباً ڈھائی لاکھ درخواستیں آئی تھیں۔
اس معاملہ پر 16 نومبر 2024 کو انڈین ایکسپریس نے اپنے اداریہ میں لکھا کہ بے ضابطگیوں کی فوری جانچ ہونی چاہیے۔ حال ہی میں اتر پردیش پبلک سرویس کمیشن کے ایک فیصلے کے خلاف پریاگ راج میں نوجوانوں کے مظاہرے ہو چکے ہیں جس پر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ اخبار کے مطابق پچھلے پانچ برسوں میں ملک کی پندرہ ریاستوں میں پیپر لیک کے 41 معاملات سامنے آ چکے ہیں۔اس سال کی ابتدا میں نیٹ کے امتحان میں بھی گڑبڑی سامنے آچکی ہے اور امتحان کرانے والی نیشنل ٹسٹنگ ایجنسی کا اعتبار بری طرح مجروح ہوا ہے۔ ایسی بے ضابطگیوں سے سسٹم پر نوجوانوں اور عوام کا اعتبار ختم ہوگا، جس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔
انڈین ایکسپریس میں اس عوامی مسئلہ پر تفتیشی خبر اور اداریہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مین اسٹریم میڈیا میں وقتاً فوقتاً عوام کے مفاد کی ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جن سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ پورا مین اسٹریم میڈیا ابھی نہیں مرا اور کچھ میڈیا ادارے حقیقی صحافت کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔
وقف پر کپل سبل کے یوٹیوب چینل پر معلوماتی گفتگو
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جی پی کے دفتر پر پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے وقف کے سلسلہ میں بڑی گمراہ کن باتیں کہیں۔ انہوں نے کہا ’’جھوٹے سیکولرزم کے نام پر کانگریس نے تشٹی کرن (منھ بھرائی) کا بیج بویا ، دہائیوں تک کانگریس نے یہی کیا، جس کی ایک مثال وقف بورڈ ہے۔دہلی کے لوگ تو چونک جائیں گے۔ 2014 میں ان لوگوں نے سرکار سے جاتے جاتے دلی کے آس پاس کی بے شمار املاک وقف بورڈ کو سونپ دی تھیں۔ بابا صاحب امبیڈکر جی نے جو سمویدھان (آئین) ہمیں دیا ہے، اس سمویدھان کی رکشا کے لیے ہم پر عزم ہیں۔ سمویدھان میں وقف قانون کی کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی کانگریس نے تشٹی کرن کے لیے وقف بورڈ جیسا نظام بنا دیا۔ یہ اس لیے کیا گیا تا کہ کانگریس کے پریوار کا ووٹ بینک بڑھ سکے۔ سچی پنتھ نرپیکشتا کو کانگریس نے ایک طرح سے مارنے کا کام کیا ہے‘‘۔
بی جے پی کے رہنماؤں کے لیے وقف کے سلسلہ میں عوام کو گمراہ کرنا اس لیے بھی آسان ہے کیوں کہ وقف کے سلسلہ میں غیر مسلم کیا، عام مسلمان بھی درست معلومات نہیں رکھتے۔ اس پس منظر میں سپریم کورٹ کے معروف وکیل کپل سبل نے اپنے یوٹیوب چینل ’’دل سے وِد کپل سبل‘‘ پر کافی معلوماتی گفتگو کی ہے۔ انہوں نے نئے وقف قانون سمیت اس سے متعلق امور پر سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، نامور ماہر قانون پروفیسر فیضان مصطفیٰ اور کمال فاروقی کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ گفتگو کے تمام شرکاء نے وقف کے سلسلہ میں گمراہ کن پروپیگنڈے کو سنگین نتائج کا حامل قرار دیا اور کہا کہ اس پروپیگنڈے سے غیر مسلموں کو خوب ورغلایا جا رہا ہے۔ متبادل میڈیا پلیٹ فارم یو ٹیوب پر اس کارآمد گفتگو سے اشارہ ملتا ہے کہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے مسلمانوں کو اس متبادل میڈیا کا وسیع پیمانے پر استعمال کرنا چاہیے۔
اپوزیشن رہنما پر ممبئی پریس کلب کا احتجاجی بیان
اپوزیشن رہنما راہل گاندھی نے مہاراشٹر میں ایک انتخابی ریلی کے دوران مین اسٹریم میڈیا کے صحافیوں کو حکومت کے اشارے پر کام کرنے کا الزام لگایا اور ان کے ابتر حالات پر بھی اظہار افسوس کیا۔ اس پر ممبئی پریس کلب نے ایک احتجاجی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ورکنگ جرنلسٹس کے سلسلہ میں راہل گاندھی کا انداز تخاطب اور رویہ انتہائی پریشان کن اور باعث تشویش ہے۔
پریس کلب کے مطابق صحافیوں کو ‘‘اپنے مالکوں کا غلام’’ قرار دینا ان کی توہین ہے۔ کیا مسٹر گاندھی نے کبھی ہندوستان میں کام کرنے والے صحافیوں کو درپیش چیلنجوں کی بنیادی وجوہات اور مجموعی طور پر صحافت کی صورت حال پر غور کیا ہے؟ آج صحافیوں کی حالت بڑے پیمانے پر ٹھیکے پر کام کرنے کی وجہ سے خراب ہوئی ہے، جس کی ابتدا 1980 کی دہائی کے آخر اور 1990 کے اوائل میں کانگریس کی زیر قیادت حکومت کے دور میں ہوئی، جب کامگاروں کے سلسلہ میں نیو لبرل پالیسیوں کا نفاذ ہوا اور ٹھیکہ نظام شروع ہوا۔اس وقت تک صحافیوں نے اپنی یونین کے ذریعہ جدوجہد کرکے اپنے لیے کچھ بہتر کام کے حالات حاصل کر لیے تھے۔ تاہم، کانٹریکٹ نظام نے میڈیا اداروں کو صحافیوں کو اپنی مرضی سے برطرف کرنے کی اجازت دے دی، یونینوں کو کمزور کیا اور صحافیوں کی حالت بدتر کردی۔
‘‘اگر مسٹر گاندھی واقعی صحافیوں کی حالت زار پر توجہ دینا چاہتے ہیں تو ان کی تنقید میڈیا کے مالکین اور میڈیا انڈسٹری کے ڈھانچہ جاتی مسائل کی طرف ہونی چاہیے۔ نامساعد حالات میں کام کرنے والے صحافیوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنے ذاتی خسارے پر سسٹم کے خلاف بغاوت کریں گے، غیر حقیقی بات ہے’’۔
‘‘اگرچہ ہم میڈیا کے تئیں موجودہ حکومت کے آمرانہ رویہ کے باعث درپیش بے پناہ چیلنجوں کو تسلیم کرتے ہیں لیکن مسٹر گاندھی کی جانب سے صحافیوں کو بار بار نشانہ بنائے جانے کا رویہ بھی اتنا ہی پریشان کن ہے۔ اس بیان بازی سے اس بارے میں جائز خدشات پیدا ہوتے ہیں کہ اگر ان کی پارٹی اقتدار میں واپس آئی تو وہ پریس سے کیسا معاملہ کرے گی۔ اگر وزیر اعظم نریندر مودی کو کھلی پریس کانفرنسوں سے گریز کرنے پر بجا طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو مسٹر گاندھی کی جانب سے صحافیوں کی بار بار تضحیک بھی سرزنش کی مستحق ہے’’۔
ممبئی پریس کلب کے بیان پر کئی متضاد رد عمل سامنے آئے ہیں جو بھارت میں میڈیا کی صورت حال پر عوامی تشویش اور فکر مندی کی عکاسی کرتے ہیں ۔
مہاراشٹر کے انتخابات میں پیسہ کا بے تحاشا استعمال
مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات میں پیسہ کے بے تحاشا استعمال کا معاملہ کافی گرم رہا ہے ۔صحافی راج دیپ سردیسائی نے بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری ونود تاوڑے کی ایک ویڈیو اپنے ایکس ہینڈل سے شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ انتخابات کیسے ایماندارانہ اور آزادانہ ہو سکتے ہیں جب ووٹ خریدے جائیں گے؟ کیا الیکشن کمیشن اس کی جانچ کرے گا، اس پر کوئی کارروائی کرے گا یا ایک بار پھر خاموش رہے گا؟
صحافی سوہت مشرا نے بھی اپنے ایکس ہینڈل پر اسے شیئر کیا اور ونود تاوڑے کو پیسوں کے ساتھ ایک ہوٹل میں بہوجن وکاس اگھاڑی کے نیتاؤں کے ذریعہ پکڑے جانے اور الیکشن کمیشن کے اہلکاروں کے غائب رہنے پر طنز کیا۔
بی جے پی نے ایکس پر فرضی اے آئی آڈیو شیئر کیے
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں پولنگ شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل بی جے پی نے اپنے ایکس ہینڈل سے اپوزیشن مہاوکاس اگھاڑی کی لیڈر سوپریہ سولے (این سی پی شرد پوار) نانا پٹولے (کانگریس) آئی پی ایس امیتابھ گپتا اور آڈٹ فرم سارتھی ایسوسی ایٹس کے ملازم گورو مہتا کی مبینہ ریکارڈ شدہ بات چیت کے چار آڈیو کلپ شیئر کیے جن میں کم از کم تین آڈیو کلپ اے آئی سے تیار کیے گئے تھے یعنی وہ فرضی ہیں۔ بی جے پی نے الزام لگایا کہ یہ ریکارڈنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ اپوزیشن کے مذکورہ بالا رہنماؤں نے 2018 کے ایک کرپٹیو کرنسی فراڈ سے بِٹ کوائن جمع کیے، تاکہ اس سے حاصل ہونے والی رقوم کو ریاستی انتخابات میں استعمال کرسکیں۔ بی جے پی کے قومی ترجمان سمبت پاترا نے اس پر ایک پریس کانفرنس بھی کی اور ان الزامات کو دہرایا ہے۔
فیکٹ چیک ویب سائٹ ’’بوم‘‘ نے ٹرو میڈیا ڈاٹ او آر جی کے ڈیپ فیک ڈٹیکشن ٹول کا استعمال کرکے چاروں آڈیو کلپ کی جانچ کی اور پایا کہ چار میں سے تین آڈیو کلپ اے آئی سے بنائے گئے ہیں، جب کہ چوتھا آڈیو کلپ محض پانچ سکنڈ کا ہے اور مختصر ہونے کے باعث اس میں کسی چھیڑ چھاڑ کا پتہ نہیں چل سکا۔
میڈیا کی ملکیت کا سوال اور ایک خاص طبقہ کی اجارہ داری
پانچویں کلدیپ نیر صحافتی اعزازی تقریب 15 نومبر کو نئی دلی میں منعقد ہوئی جس سے خطاب کرتے ہوئے معروف صحافی اور مصنف ارملیش نے کہا کہ ’’بھارتی میڈیا کا ایک بڑا حصہ صرف ‘گودی’ ہی نہیں ہے بلکہ اس پر اعلیٰ ذاتوں کا غلبہ ہے۔ میڈیا کی ملکیت اور اس کی ادارت و مینجمنٹ میں صرف اعلیٰ ذات کے ہندو (سوورن) حاوی ہیں۔ میڈیا کے ایک بڑے حصہ کا جمہوریت اور آئین کے تئیں کوئی گہرا لگاؤ نہیں ہے۔میڈیا کا یہ ڈھانچہ اسے جمہوری قدروں کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہونے سے روکتا ہے۔شمالی اور وسطی ہند میں یہ بہت صاف صاف نظر آتا ہے‘‘۔ ارملیش کا کہنا تھا کہ بھارتی سماج کا تنوع میڈیا کے ڈھانچے میں بھی نظر آنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا ملکیت کے سوال پر پارلیمنٹ میں 2013ء میں وزارت اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی پارلیمانی عبوری کمیٹی نے ایک بہت عمدہ رپورٹ پیش کی تھی لیکن اس کی سفارش کے مطابق حکومتوں نے اصلاحی اقدامات نہیں کیے ۔
دوردرشن پر اڈانی کی دلالی کا الزام اور پرسار بھارتی کا اوٹی ٹی پلیٹ فارم
صنعت کار گوتم اڈانی کے خلاف رشوت کے معاملہ میں امریکی حکومت کی جانچ اور امریکی عدالت میں ان پر چارج شیٹ سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں اس پر گفتگو ہو رہی ہے ۔اسکائی نیوز، بی بی سی، بلومبرگ، الجزیرہ، نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ سے لے کر امریکہ اور یوروپ و ایشیا کی میڈیا میں اس پر خبریں اور تجزیے کیے جا رہے ہیں جس سے اڈانی کے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کینیا سمیت کئی ملکوں میں اڈانی کے کاروباری مفادات پر ضرب لگی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی سے گہری قربت کا پہلو بھی تجزیہ کا ایک نکتہ بنا ہوا ہے۔اس پس منظر میں دوردرشن کا ایک ٹیزر موضوع گفتگو بن گیا جس میں بڑے بھونڈے طریقہ سے اڈانی کے بہانے اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
دوردرشن ایک سرکاری چینل اور حکومت ہند کی براڈ کاسٹنگ کمپنی پرسار بھارتی کا ایک حصہ ہے، پبلک سروس براڈکاسٹر ہے جو بھارتی عوام کے ٹیکس کے پیسہ سے چلتا ہے۔ دوردرشن کے مبینہ شو کے ٹیزر نے غیر جانب دار حلقوں میں کہرام برپا کر دیا، جسے ڈی ڈی نیوز نے اپنے ایکس ہینڈل سے شیئر کیا جس میں اڈانی اور راہل گاندھی کی تصویر کے ساتھ ‘‘ودیشی ٹول کِٹ، تھرکتے راہل!’’ وغیرہ لکھا گیا ہے۔
ایکس کے ایک یوزر آدتیہ گوسوامی نے اپنی پوسٹ میں اس پر حیرت ظاہر کرتے ہوئے لکھا ’’دوردرشن سرکاری چینل ہے یا اڈانی کا دلالی چینل؟ ملک کے کروڑوں ٹیکس دہندگان کا پیسہ ایک صنعت کار کے بچاؤ میں لگا کر الٹا اپوزیشن کے لیڈر پر ہی الزام لگایا جا رہا ہے! نریندر مودی نے کیسے ملک کے سارے سرکاری اداروں کو ایک صنعت کار کے ہاتھوں گِروی رکھ دیا ہے!‘‘
پرسار بھارتی سے ہی متعلق ایک دوسری خبر یہ ہے کہ اس نے ویوز کے نام سے اپنا اوور دی ٹاپ (اوٹی ٹی) پلیٹ فارم لانچ کیا ہے۔ ویوز کے موبائل ایپ پر فی الوقت 65 لائیو ٹی وی چینلوں سمیت ریڈیو چینلز اور دیگر قسم کے مواد کو مفت میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اردن کی خاتون صحافی کو اعزاز
انٹرنیشنل سنٹر فار جرنلسٹس (آئی سی ایف جے) نے واشنگٹن میں حال ہی میں اپنی چالیسویں سالگرہ پر دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے تین صحافیوں کی عزت افزائی کی اور انہیں آئی سی ایف جے نائٹ ایوارڈ 2024 سے نوازا۔ ان میں سے ایک کینیا کی خاتون صحافی جون ایلن نامو، یوکرین کی ولیریا یوگوشینا اور اردن کی رعنا صباغ ہیں۔ رعنا صباغ ’’آرگنائزڈ کرائم اینڈ رپورٹنگ پروجیکٹ‘‘ کی علاقائی ایڈیٹر ہیں، جنہوں نے اپنا ایوارڈ بہادر عرب صحافیوں کو معنون کیا جو مشرق وسطیٰ میں دشوار کن حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور ان میں سے بہت سے غزہ یا لبنان میں اپنے گھروں کے کھنڈرات میں رہ کر اور اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر کام کر رہے ہیں، اپنے اہل خانہ کی شہادت کا غم منا رہے ہیں اور جو زندہ ہیں ان کے لیے غذا اور پانی کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں ۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 دسمبر تا 7 دسمبر 2024