
راجستھان میں تبدیلی مذہب مخالف بل کی منظوری، بین مذہبی جوڑوں میں تشویش کی لہر
’ گھر واپسی‘ کو استثنیٰ مگر دیگر مذاہب کی تبدیلی پر سخت سزائیں۔ عمر قید اور ایک کروڑ روپے جرمانہ تجویز
جے پور: (دعوت نیوز نیٹ ورک)
غیر جمہوری طرز پر سوالات۔ اپوزیشن کا واک آؤٹ۔ پی یو سی ایل کا گورنر اور صدر جمہوریہ سے بل مسترد کرنے کا مطالبہ
راجستھان اسمبلی نے نو ستمبر کو مذہبی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے ایک سخت بل منظور کیا ہے جس میں جبر، دھوکے یا لالچ کے ذریعے کی جانے والی تبدیلیِ مذہب کو سنگین جرم قرار دیتے ہوئے بھاری سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ یہ بل بنیادی آئینی حقوق پر اثر انداز ہونے والا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کی عدم شرکت کے باوجود ایوان میں پاس کیا گیا۔
حکم راں پارٹی بی جے پی کے قائدین اور وزراء نے دعویٰ کیا کہ یہ قانون ’’لو جہاد‘‘ اور عیسائی مشنریوں کی جانب سے مبینہ طور پر کرائی جانے والی ’’جبری تبدیلیوں‘‘ کو روکنے میں معاون ثابت ہو گا۔ اس کے برعکس، اپوزیشن کانگریس نے اس بل پر بحث کا بائیکاٹ کیا اور واک آؤٹ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے معاشرتی ہم آہنگی مجروح ہوگی اور سماج میں کشیدگی بڑھے گی۔
اس سے قبل رواں سال فروری میں اسمبلی میں اسی نوعیت کا بل پیش کیا گیا تھا جو واپس لے کر اس نئے مسودے کی شکل میں پیش کیا گیا۔ اس سلسلے کی بی جے پی حکومت کی یہ تیسری کوشش ہے۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد راجستھان ملک کی بارہویں ریاست بن جائے گی جہاں ایسا قانون موجود ہوگا۔
فی الوقت جن ریاستوں میں اس نوعیت کے قوانین نافذ ہیں ان میں اڈیشہ، اروناچل پردیش، گجرات، چھتیس گڑھ، کرناٹک، جھارکھنڈ، ہریانہ، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش شامل ہیں۔ بغیر کسی تفصیلی بحث کے بل کی منظوری نے یہ تاثر دیا ہے کہ اسپیکر نے کسی بھی قیمت پر اسے پاس کرانے کا تہیہ کر رکھا تھا جو جمہوری شفافیت کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔
شہری حقوق کے اداروں نے نشاندہی کی ہے کہ یہ بل آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ اس میں ’’تبدیلیِ مذہب‘‘ کی جو تعریف بیان کی گئی ہے وہ ماہرین کے لیے غور طلب ہے۔ جو لوگ اپنے ’’آبائی مذہب‘‘ (یعنی ہندو مذہب) میں واپس آئیں گے ان پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔ بل کی دفعہ تین میں واضح کیا گیا ہے ’’اگر کوئی شخص اپنے اصل مذہب یعنی آبائی مذہب میں دوبارہ داخل ہو تو یہ اس قانون کے تحت تبدیلیِ مذہب شمار نہ ہوگا۔‘‘
یہ بل جس کا عنوان ’’راجستھان پروہیبیشن آف ان لافل کنورژن آف ریلیجن بل، 2025‘‘ ہے، آبائی مذہب کو اس مذہب کے طور پر بیان کرتا ہے جس پر اس شخص کے آبا و اجداد نے آزادانہ طور پر عمل کیا تھا۔ یہ شق دراصل سنگھ پریوار کے ’’گھر واپسی‘‘ پروگرام سے ہم آہنگ ہے جس کے تحت مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ہندو مذہب میں واپس لانے کی مہم چلائی جاتی ہے، یہ دلیل دے کر کہ تمام بھارتی ابتدا میں ہندو تھے۔
اس قانون میں عمر قید تک کی سزا، ایک کروڑ روپے تک جرمانہ اور اجتماعی تبدیلیِ مذہب کی صورت میں جائیداد کی ضبطی اور انہدام تک کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ ایسے تمام مقامات جو اس عمل میں ملوث قرار پائیں مسمار بھی کیے جا سکیں گے۔ عدالت کی طرف سے دیے جانے والے معاوضے کے علاوہ عائد کردہ جرمانہ متاثرین کو ادا کیا جائے گا۔
2006 میں اس وقت کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے نے ایسا قانون لانے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت کی صدر جمہوریہ پربھا دیوی سنگھ پاٹل نے کانگریس، انسانی حقوق تنظیموں اور اقلیتی اداروں کے احتجاج کے بعد اسے واپس لوٹا دیا تھا۔ 2008 میں ترمیم شدہ بل بھی مرکزی حکومت میں اٹک گیا تھا۔
راجستھان ہائی کورٹ نے 2017 میں ’’جبری تبدیلی‘‘ روکنے کے لیے رہنما اصول جاری کیے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ تبدیلی مذہب صرف بالغ افراد کے لیے ممکن ہوگی اور اس کے لیے ضلع مجسٹریٹ کو پیشگی اطلاع اور عوامی اعلان ضروری ہوگا۔ یہ ہدایت اس وقت دی گئی تھی جب ایک حبیس کارپس درخواست میں الزام لگایا گیا تھا کہ ایک خاتون کو اغوا کر کے جبراً مذہب تبدیل کرا کے شادی پر مجبور کیا گیا۔
اسمبلی میں بی جے پی کے ارکان نے بل کی تعریف میں تقریریں کیں۔ وزیر مملکت برائے داخلہ جواہر سنگھ بیدھم نے کہا کہ یہ قانون ’’معاشرتی امن و آشتی‘‘ قائم کرنے میں سنگِ میل ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا: ’’ہماری سناتن تہذیب ہمیشہ روادار رہی ہے جس کا عکس آئین کی دفعہ پچیس میں ملتا ہے لیکن دھوکے، خوف یا فریب کے ذریعے مذہب کی تبدیلی کو یہ برداشت نہیں کرتی۔‘‘
وزیر نے کہا کہ مذہب شخصی معاملہ ہے، لیکن اس کے ذریعے سماجی بد نظمی پھیلانا تشویش کا باعث ہے۔ ’’مذہب تبدیل کرنے والے اکثر کمزور طبقات کو نشانہ بناتے ہیں۔ درج فہرست ذاتوں اور قبائل، معاشی طور پر پسماندہ طبقات اور خواتین کو زیادہ تر ایسے عناصر اپنی سرگرمیوں کا ہدف بناتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا ’’سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹوں نے جبری تبدیلیوں کو غیر قانونی اور سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ یہ سرگرمیاں قومی شناخت اور سناتن تہذیب دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔‘‘ اسپیکر واسودیو دیونانی نے ووٹ کے ذریعے بل کی منظوری کا اعلان کیا۔
اس قانون کے تحت جرائم ناقابل ضمانت ہوں گے اور ان کی سماعت سیشن عدالت میں ہوگی۔ ایسے نکاح جو صرف مذہب کی تبدیلی کے لیے کیے گئے ہوں گے عدالت کے حکم پر کالعدم قرار دیے جائیں گے اور اس سے قبل یا بعد میں کی گئی تبدیلیاں غیر قانونی مانی جائیں گی۔
رضاکارانہ تبدیلیِ مذہب کے لیے بھی طویل کارروائی لازمی ہوگی۔ اس مقصد کے لیے متعلقہ فرد کو کم از کم نوے دن قبل ضلع مجسٹریٹ کو درخواست دینی ہوگی، اس کے بعد عوامی اعلان کیا جائے گا، اعتراضات طلب کیے جائیں گے اور سماعت کے بعد ہی اجازت دی جائے گی۔
بحث کے دوران بی جے پی کے رکن اسمبلی گوپال شرما کا یہ بیان کہ ’’مسلم کانگریسی رہنما اپنے اصل مذہب میں لوٹ آئیں‘‘ تنازع کا باعث بنا۔ کانگریس کے ایم ایل اے رفیق خان نے ایک شعر اور تیز تبصرہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ ’’اگر جبری تبدیلی روکنے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو آغاز گوپال شرما سے کریں۔‘‘
ریاست کی شہری حقوق تنظیموں نے اس بل کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ظالمانہ قانون ہے جس کی آئینی حیثیت مشکوک ہے کیونکہ یہ ضمیر کی آزادی کے بنیادی حق کو سلب کرتا ہے۔ عوامی اتحاد برائے شہری آزادی (PUCL) نے کہا کہ اس قانون میں دی گئی سزائیں عدالت میں قائم نہیں رہ سکتیں۔
پی یو سی ایل کے ریاستی صدر بھنور میگھوانشی نے کہا کہ انسانی حقوق کا یہ ادارہ حسب سابق گورنر اور صدر جمہوریہ سے اپیل کرے گا کہ وہ اس بل پر دستخط نہ کریں۔ انہوں نے کہا ’’یہ دفعات آزادیِ اظہار، بین المذاہب مکالمہ، حقِ انتخاب اور آزاد مرضی کے منافی ہیں، بے جا سختیاں عائد کرتی ہیں اور ایک مخصوص مذہب کی پالیسیوں کو تقویت دیتی ہیں۔‘‘
بل کی وسعت اس کے سیکشن دو میں دی گئی تعریفوں سے ظاہر ہے جو کئی صورتوں میں مبہم، سخت اور غیر معقول ہیں اور ان کی جانچ ناگزیر ہے۔ ’’الورمنٹ‘‘ (لالچ) کی تعریف گیارہ دیگر ریاستی قوانین سے زیادہ وسیع رکھی گئی ہے۔
بل کے مطابق ثبوت کا بار اس شخص پر ہوگا جو تبدیلیِ مذہب کا سبب بنا یا اس میں سہولت فراہم کی۔ میگھوانشی نے کہا کہ یہ غیر آئینی ہے کیونکہ ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ہمیشہ استغاثہ پر ہوتی ہے۔ 2005 اور 2008 میں پی یو سی ایل نے آئینی دلائل کے ذریعے گورنروں کو قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا کہ یہ قوانین غیر قانونی ہیں۔
پی یو سی ایل نے کہا کہ ریاست میں آج تک ایسا قانون اسی عوامی دباؤ کے باعث نافذ نہ ہو سکا۔ 2018 میں 2008 کا بل دوبارہ ریاست میں لایا گیا لیکن کئی دفعات کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھے۔ میگھوانشی نے کہا کہ پی یو سی ایل ایک بار پھر گورنر اور صدر جمہوریہ سے اس بل پر دستخط نہ کرنے کی اپیل کرے گا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اگست تا 27 اگست 2025