ریلوے ٹریک پر موت کا ننگاناچ۔ ذمہ دارکون؟
جوابدہی طے کی جائے۔ ریلوے کے بنیادی ڈھانچہ میں اصلاح ضروری
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
آج آزادی کے ستر سالوں کے بعد بھی ہم ’امرت کال‘ میں ریلوے سسٹم میں حفاظتی نظام ’ کووچ‘ لگانے کے قابل نہیں ہوئے اور دوسری طرف ہم روزانہ تیز رفتار بلیٹ ٹرینوں کو ہری جھنڈی دکھانے سے نہیںچوکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں اڈیشہ کے بالاسور اسٹیشن پر ایک مال گاڑی اور دو مسافر ٹرینوں میں زبردست ٹکر ہوگئی، اس اندوہ ناک حادثہ نے ملک کے ہر شہری کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ ہم سائنس اور ٹکنالوجی کے اعتبار سے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے پیچھے نہیں ہیں۔ خواہ کوانٹم کا میدان ہو یا آرٹیفیشل انٹلیجنس کا یا چاند یا مریخ اور مشتری پر کمندیں ڈالنے کا۔ مگر اس کے باوجود محض سگنل کی وجہ سے خامی سے ہمیں 288 سے زائد انسانی جانوں کو گنوانا پڑا جبکہ 1135 افراد زخمی ہوگئے جو کہ سرکاری ڈیٹا ہے جبکہ اس سے کہیں زیادہ لوگ شدید زخمی ہو کر ہمیشہ کے لیے اپاہج ہوگئے ہیں اور دواخانوں میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اتنا بڑا دل دوز حادثہ انسانی چوک کی وجہ سے ہوا ہے۔ حکومت چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ جو بھی اس ریل حادثہ کا ذمہ دار ہوگا اسے بخشا نہیں جائے گا اور سخت ترین سزا دی جائے گی اور دوسری طرف وزارت ریل اپنی جواب دہی سے فرار اختیار کر سکتی ہے کہ وزیر ریل کو فوری اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ اگر اس حادثہ کے پس پردہ کسی طرح کی سازش کا شک ہے یا دہشت گردوں کا ہاتھ ہے تو سوال یہ ہے کہ ہم ریل گاڑیوں کو حمل و نقل کے لیے محفوظ رکھنے سے کیوں قاصر ہو گئے ہیں۔ اس طرح بھیڑ والے سیکشن میں حفاظتی ’کووچ سسٹم‘ کا استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟ کووچ سسٹم کسی طرح کی بھول سے ٹرین سگنل کو توڑتی ہے تو متحرک ہوجاتا ہے اور حادثہ ہونے سے پہلے آگاہی ہو جاتی ہے۔ اب تو سی بی آئی کی جانچ کے علاوہ کئی طرح کے اعلانات بھی کیے جا رہے ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کا ریل حادثہ غیر معمولی نوعیت کا حادثہ ہے۔ لیکن کیا ہم لال بہادر شاستری جیسے وزیر ریل سے سبق لیتے ہوئے اپنی جواب دہی طے کرسکتے اور استعفی دے سکتے ہیں؟ آزادی کے ستر سالوں کے بعد بھی ہم ’امرت کال‘ میں ریلوے سسٹم میں حفاظتی نظام ’کووچ‘ لگانے کے قابل نہیں ہوئے اور دوسری طرف ہم روزانہ تیز رفتار بلیٹ ٹرینوں کو ہری جھنڈیاں دکھا رہے ہیں۔ آخر ریلوے میں حفاظت کا معیار کیا ہوگا؟ اس کا جواب آج تک ہم جواب دینے سے قاصر ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سنگھی حکومت جو تقریباً ایک دہائی سے ملک پر حکمرانی کر رہی ہے عام شہریوں کو جان و مال کا تحفظ دینے میں ناکام ثابت ہو چکی ہے۔ ہمارے ملک میں زیادہ تر غربا اور مزدور ریل سے سفر کرتے ہیں اس لیے امید تھی کہ بھگوا حکومت جملہ بازی چھوڑ کر سیمی ہائی اسپیڈ ٹرینوں کو ہری جھنڈی دکھانے کو پس پشت ڈال کر مسافر ٹرینوں کے تحفظ پر توجہ مرکوز کرے گی۔ دوسری طرف ہم ریلوے کی نجکاری کرکے ملک کے غریب عوام کا اور نہ ہی مزدوروں کا بھلا کر سکتے ہیں۔ ہم ریلوے میں بدعنوانی پر قدغن لگائے بغیر اور اس طرح کے دردناک تجربوں سے بار بار گزرتے ہوئے سسٹم کو بہتر نہیں بنا سکتے ہیں۔ ریلوے میں مجوزہ نجکاری سے خراب اثر کا پڑنا یقینی ہے۔ اس لیے پہلی ترجیح محفوظ ریل سسٹم ہونا چاہیے تبھی ہم ایسے دل دوز حادثات کو ٹال سکیں گے۔ حادثہ کے بعد بطور راحت زخمیوں اور میتوں کے ورثا کو معاوضہ دینے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں، مگر ہماری ترجیحات ایسے ریلوے سسٹم کی ہونی چاہیے جس میں چھوٹے بڑے حادثات کی کسی طرح کی گنجائش باقی نہ رہے اور مجرموں کو ایسی سزا ملے کہ وہ عبرت نشان بن جائے۔ سستی ریل خدمت کے بجائے ایسا فول پروف تحفظ ہونا چاہیے کہ تمام مسافروں کی زندگی، مال و اسباب محفوظ و مامون رہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ریلوے کے نظم کو لاپروائی اور غیر ذمہ دارانہ کلچر سے آزاد کیا جائے۔
اس حادثے کے بعد اب یہ سوال اٹھانا ضروری ہے کہ ہمارے ریلوے کا نظام کتنا محفوظ ہے۔ وقتاً فوقتاً ماہرین حکومت کو متوجہ کرتے آرہے ہیں کہ بہت زیادہ ٹریفک بڑھنے کی وجہ سے ریلوے کے بنیادی ڈھانچہ میں اصلاح ناگزیر ہے۔ زیادہ تر حادثات میں بنیادی ڈھانچہ کا نقص ہی نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر عوامل بھی ہو سکتے ہیں مثلاً غلط سگنل کا دیا جانا یا دہشت گردوں اور سماج دشمن عناصر کا حملہ اور پھاٹکوں کا کھلا رہنا وغیرہ۔ کچھ چھوٹے موٹے واقعات ریل گاڑیوں کے پٹری سے اترجانے کے سبب بھی ہوتے ہیں، مثلاً 13 جنوری 2022 کو بیکانیر اور گوہاٹی اکسپریس کے 12 ڈبے پٹری سے اتر گئے جس میں نو لوگوں کی موت ہوئی۔ مہاراشٹرا کے ناسک میں جے نگر اکسپریس کے بارہ ڈبے پٹری سے اترگئے۔ اسی طرح دادر۔ پڈوچری اکسپرس کے تین ڈبے پٹری سے اتر گئے، جس سے پتہ چلتا ہے ریلوے کا نظم و نسق چست و درست نہیں ہے۔ اس پر غور و خوض کرنے کے لیے 2015 میں وزارت ریل نے ایک قرطاس ابیض شائع کیا تھا اور ریلوے میں جدید کاری کی ضرورت شدت سے محسوس کی تھی۔ اس کے مد نظر میکانیکل سگنل سسٹم کو ہٹا کر الکٹرو میکانیکل ریلے اور مائیکرو پرسیسر انٹرلنکنگ کو قائم کیا گیا۔شمالی ریلوے میں کل 40 روٹ ریلے انٹرلنکنگ سسٹم کام کررہے ہیں۔ جن میں دلی مین پر لگائی گئی روٹ ریلے انٹرلنکنگ سسٹم کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی حیثیت سے دنیا کی سب سے بڑی روٹ ریلے سسٹم کی شکل میں تسلیم کیا گیا ہے۔ انجن کے فیل ہونے اور وقتاً فوقتاً کمپریسر پائپ میں بہت زیادہ حرارت ہونے کی وجہ سے لوکو میں آتشزنی کی وارداتوں کو کم کرنے کے لیے جدید سسٹم کو بہتر طریقے سے نصب کیا گیا ہے۔
یہ ایک بڑی تشویشناک حقیقت ہے کہ ریلوے میں ملازمین کی بھی بے حد کمی ہے جس میں ریلوے سسٹم کی دیکھ ریکھ کرنے والے بھی شامل ہیں۔ ملازمین کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور کام کے دباو کی وجہ سے غلطیوں کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ نیتی آیوگ کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ 2012 کے بعد سے دس میں سے چھ ریل حادثات ریلوے ملازمین کی غلطیوں سے ہوئے ہیں۔ ریلوے نے 67368 کیلو میٹر ٹریک کو 1219 سیکشنس میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ان میں تقریباً 500 سیکشنس میں سو فیصد صلاحیت سے کام ہوتا ہے۔ کہیں کہیں تو اپنی صلاحیت سے زیادہ ٹرینیں بھی چلائی جا رہی ہیں۔ زیادہ ٹرین حادثات انہیں سیکشنس میں رونما ہوتے ہیں۔ اب تو عوام الناس کے دلوں میں ٹرین کی حفاظت پر تشویش بڑھ رہی ہیں۔ اب یہ ریلوے کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے دلوں سے ایسے تمام تر خدشات دور کرے اور اپنی غلطی کی فوری اصلاح کرے۔ یاد رہے کہ ابھی جملہ تین ہزار ٹرینیں سسٹم میں دوڑ رہی ہیں اور دو کروڑ پچاس لاکھ مسافر بہت زیادہ بھیڑ میں سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جنرل کوچ میں تو کسی طرح کی ضروری سہولتیں دستیاب ہی نہیں ہوتیں۔ وہاں جدید کاری کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ ریل حادثات دراصل سسٹم کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ایک یاد دہانی ہوتے ہیں۔ سی اے جی کی رپورٹ کے مطابق 2018-19 اور 2019-20 کے درمیان جدید کاری کے لیے جو فنڈ مختص کیے گئے اسے پوری طرح استعمال نہیں کیا گیا۔ 2017-21 کے درمیان پٹری سے اترنے کے واقعات دراصل جدید کاری سے جڑے ہوئے ہیں۔
ریل حادثہ پر کَوچ (Anti-Collision) پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ انڈیا ٹو ڈے کی رپورٹ کے مطابق جنوب مشرق ریلوے کو ملکی ٹکنالوجی سے کَوچ تیار کرنے کے لیے بجٹ تفویض کیا گیا تھا مگر گزشتہ تین سالوں میں اس میں سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ بالاسور اسی کے تحت آتا ہے۔ کم حجم والے ریلوے نیٹ ورک (1563KM) پر کَوچ (Kawach) کے لیے 468.9 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی تھی لیکن مارچ 2022 تک اس میں سے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا۔ یہی حالت 2022-23 کی بھی ہے۔ مذکورہ ٹرین حادثہ میں اصل وجہ الکٹرانک انٹر لاکنگ سسٹم میں گڑبڑ بتائی گئی ہے۔ 2021-22 میں ایس ای آر کے لیے 62.29 کروڑ روپے منظور کئے گئے۔ یہ رقم آٹومیٹک بلاک سگنلنگ، سنٹرلائزڈ ٹریفک کنٹرول اور ہائی ڈینسیٹی نیٹ ورک روٹس کے بیلنس سیکشن پر ٹرین حادثات کو ٹالنے کے نظم کے لیے منظور کی گئی تھی مگر آج تک اس رقم کا استعمال نہیں ہوا۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے وزیر ریلوے نے ریلوے بورڈ کو حکم دیا ہے کہ ہر حال میں ریل حادثات پر قابو پایا جائے۔ اس کے لیے ریلوے ملازمین کی ٹریننگ کے ساتھ آڈٹ کی جائے۔ اس میں ریلوے کَوچ اور ریلوے لائن کی جانچ، مینٹیننس اور ڈرائیورز کی خدمات کا حصول بھی شامل ہے۔
***
***
یہ ایک بڑی تشویشناک حقیقت ہے کہ ریلوے میں ملازمین کی بھی بے حد کمی ہے جس میں ریلوے سسٹم کی دیکھ ریکھ کرنے والے بھی شامل ہیں۔ ملازمین کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور کام کے دباو کی وجہ سے غلطیوں کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ نیتی آیوگ کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ 2012 کے بعد سے دس میں سے چھ ریل حادثات ریلوے ملازمین کی غلطیوں سے ہوئے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 جون تا 24جون 2023