راہل گاندھی کا حالیہ دورہ امریکہ،ایک جائزہ
ملک میں رائج ‘جدید دو قومی نظریے’ اور فلسفہ عروج و زوال
محمد آصف اقبال، نئی دہلی
بڑھاپے کے بعد موت کی طرح قوموں کےحتمی عروج کے بعد زوال یقینی
نظریہ وہ مستحکم سوچ ہے جو انسان کو عملی زندگی میں قدم اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔ یعنی کسی بھی جانب اٹھنے والے قدم یا اقدامات کے پس منظر میں مخصوص سوچ،فکر اور نظریہ موجود ہوتا ہے، اور اقدامات واضح کرتے ہیں کہ عوام و خواص دونوں کے لیے بیک وقت نظریہ کس قدر قابل عمل و قابل قبول ہے۔نظریہ کو بدقسمتی سے عموماً دوحصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ایک مذہبی اور دوسرا سیاسی۔ اس کے باوجود ہر سیاسی نظریہ کے پس پشت مخصوص مذہب کے ماننے والے ، ان کی تہذیب،تمدن ،ثقافت اور شعوری کیفیات موجود ہوتی ہیں۔یہاں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ مذہب کی بنیاد عقیدہ پر ہے، لہذا مذہب ،سیاست اور نظام کسی نہ کسی عقیدہ سے لازماً وابستہ ہوتے ہیں اورنظریہ مذہبی ہو یا سیاسی،دونوں کے پس پشت ‘مخصوص عقیدہ ‘کارفرماہوتا ہے۔دوسری جانب نظریہ طب کی روشنی میں جب ہم بیماری کی فطری وجوہات سمجھے بغیر افراد کو صحتمند بنانے کا عمل شروع کردیتے ہیں یابعض اوقات مریض پر تحقیق کے بغیر ہی دوا تشخیص کردی جاتی ہے، اس کے باوجود کہ بیماری اس کی وجوہات اور مریض،تینوں باہم مربوط ہیں،تو کوششیں ناکام ثابت ہوتی ہیں اور مرض بڑھتا جاتا ہے۔کچھ یہی معاملہ قوموں اوران کے درمیان متضاد نظریات کا بھی ہے۔ایک زمانے میں متحدہ بھارت میں دوقومی نظریہ متعارف ہوا تو اس کے پیچھے ایک طویل داستان درج تھی۔جہاں باہم متضاد عقائد کے ماننے والے اور حالات موجود تھے۔لیکن سوئے اتفاق کہ آزاد بھارت کے پچھتّر سال گزرنے کے باوجود ’جدید دو قومی نظریے ‘شدت کے ساتھ محسوس کیے جارہے ہیں۔اور حیرت کی بات یہ ہے کہ آزاد بھارت میں ‘جدید دو قومی نظریے’ جن کا تذکرہ سنہ 2024میں کیا جا رہا ہے وہ دو متضاد مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان نہیں بلکہ ملک کے ایک ہی اکثریتی مذہب کے ماننے والوں کے درمیان پوری شدومد کے ساتھ ظاہر ہو رہے ہیں۔ یعنی متحدہ بھارت ، جدوجہد آزادی اور آزاد بھارت کے ابتدائی سالوں میں جس دو قومی نظریہ کی مخالفت مخصوص گروہ یا پارٹی کی جانب سے کی جارہی تھی آج آزاد بھارت میں وہ خود ’جدید دو قومی نظریے‘ کو بیان کر رہے ہیں اورعوام کو اس کے نقائص سے آگاہ کر رہے ہیں۔
کانگریس لیڈر اور حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی گزشتہ دنوں تین روزہ امریکہ کے دورے پر گئے تھے۔لیکن یہ دورہ اس لیے اہم بن گیا کیونکہ ابھی حال میں ہی بھارت میں لوک سبھا الیکشن ہوئے، نئی حکومت تشکیل دی گئی ،حزب اختلاف گزشتہ دس سالوں کے مقابلے میں مضبوط ہوا،ساتھ ہی راہل گاندھی حزب اختلاف کے لیڈر منتخب ہوئے۔ دوسری جانب بی جے پی کی حکومت گزشتہ دس سالوں میں جس قدر مستحکم رہی ہے اس کے مقابلے میں 2024کے لوک سبھا الیکشن نتائج کے بعدکافی کمزور ہوئی ہے ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت ان دو بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے جو کبھی بھی اندر سے کھوکھلی ہوکر کمزور پڑسکتی ہیں بلکہ ٹوٹ بھی سکتی ہیں۔ راہل گاندھی کے غیر سرکاری تین روزہ دورہ امریکہ کو اسی پس منظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ملک کے موجودہ حالات بھی دورے اور اس کے درمیان اٹھنے والے سوالات و جواب کے عکاس ہیں۔
8؍ستمبر بروز اتوار راہل گاندھی ٹیکساس پہنچے جہاں انہوں نے یونیورسٹی کے طلباء سے ملاقات کی ۔ گفتگو کے دوران راہل گاندھی نے بھارت میں بڑھتی بے روزگاری، چین کی پیداواری طاقت اور نفرت کی سیاست جیسے نکات اٹھائے۔راہل گاندھی نے کہا کہ ملک میں نفرت کی سیاست کا ماحول ہے، لیکن محبت اور بھائی چارے کی سیاست بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ شروع کی گئی ہے۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ اس یاترا نے ملک کو دیکھنے کا ان کا نظریہ بالکل بدل دیاہے۔ اوراس یاترا سے سب سے طاقت ور چیز جو قدرتی طور پر ہم سب کو جو حاصل ہوئی اور جس کی ہم نے منصوبہ بندی بھی نہیں کی تھی، وہ سیاست میں محبت کے آئیڈیا کو متعارف کرانا تھا۔یہ اس وقت ہوا جب کہ نہ صرف بھارت بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی سیاست میں سب سے زیادہ پروان چڑھنے والی چیز نفرت ہی ہے۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں محبت کا لفظ مشکل سے ملے گا۔ برخلاف اس کے نفرت، غصہ، ناانصافی، بدعنوانی سب الفاظ مل جائیں گے لیکن لفظ’محبت’ کم ہی نظر آئے گا۔ ورجینیا کے ہرنڈن میں انڈین اوورسیز کانگریس سے وابستہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ 2024 میں ہونے والے انتخابات مکمل طور پر آزاد نہیں تھے بلکہ کنٹرولڈ تھے۔ وہیں ملک کے غریبوں کو سمجھ میں آ گیا ہے کہ اگر آئین کو ختم کر دیا گیا تو سارا کھیل ختم ہو جائے گا۔ غریب نے یہ بھی سمجھ لیا ہے کہ اصل لڑائی آئین کو بچانے والوں اور آئین کو تباہ کرنے والوں کے درمیان ہے۔ اس کے علاوہ ذات پات کی مردم شماری کا مسئلہ بھی بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
مجھے نہیں لگتا کہ اگر2024میں منصفانہ لوک سبھا انتخابات ہوتے تو بی جے پی 240 سیٹیں بھی حاصل کر پاتی، اس جماعت کو بہت زیادہ مالی فوائد حاصل ہوئے جبکہ ہمارے بینک اکاؤنٹس سیل کر دیے گئے۔راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن صرف اتنا ہی کر رہا ہے جتنا بی جے پی چاہتی ہے، پوری مہم اس طرح سے تیار کی گئی تھی کہ پی ایم مودی اپنا کام آرام سے کر سکیں۔ میں اس الیکشن کو آزاد الیکشن کے طور پر نہیں دیکھتا بلکہ میں اسے کنٹرولڈ الیکشن سمجھتا ہوں۔
واشنگٹن ڈی سی میں راہل گاندھی نے کہا کہ ہمیں بی جے پی اور آر ایس ایس کے ذریعہ اپنے اداروں کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنا ہوگا۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ بھارت میں ایک ایسا ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے جو اپوزیشن پر حملہ کرتا ہے۔ جس طرح سے تفتیشی اداروں اور امن و امان کا نظام چل رہا ہے اسے روکنا ہو گا۔ سب سے بڑا چیلنج اداروں کو پہلے کی طرح غیر جانب دار بنانا ہے۔ایک دوسرے پروگرام میں راہل گاندھی نے کہا کہ ‘ہم بھارتی اتحاد ‘کے لوگ مانتے ہیں کہ آئین کی حفاظت ہونی چاہیے۔ ہم میں سے بیشتر ذات پات کی مردم شماری کے حق میں ہیں۔ صرف دو لوگ اڈانی اور امبانی ملک کے تمام کاروبار چلا رہے ہیں۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘جب آپ مالیاتی اعداد و شمار دیکھیں تو قبائلیوں کو سو روپے میں سے دس پیسے ملتے ہیں۔ دلتوں کو سو روپے میں سے پانچ روپے ملتے ہیں اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے لوگوں کو بھی اتنی ہی رقم ملتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انہیں مناسب شرکت نہیں مل رہی۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کی نوے فیصد آبادی سیاست میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہے۔ بھارت کے ہر ‘بزنس لیڈر’ کی فہرست دیکھیں، میں نے یہ کیا ہے۔ مجھے قبائلی نام دکھائیں۔ مجھے دلت نام دکھائیں۔ مجھے او بی سی کے نام دکھائیں۔ میرے خیال میں ٹاپ دو سو میں سے ایک او بی سی ہے۔ وہ بھارت کی آبادی کا پچاس فیصد ہیں۔ لیکن ہم بیماری کا علاج نہیں کر رہے ہیں۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ اس وقت چینی فوجیوں نے لداخ میں اتنی ہی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے جتنا دہلی میں، میں اسے ایک بڑی تباہی کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔ میڈیا اس بارے میں زیادہ لکھنا پسند نہیں کرتا۔ لیکن تصور کریں کہ اگر امریکہ کو پتہ چل جائے کہ اس کے پڑوسی نے اس کی چار ہزار مربع کلومیٹر زمین پر قبضہ کر لیا ہے تو اس کا ردعمل کیا ہو گا؟ کیا کوئی صدر یہ کہہ کر بھاگ سکتا ہے کہ اس نے حالات کو بہتر طریقے سے سنبھالا ہے؟ مجھے بالکل بھی یقین نہیں ہے کہ پی ایم مودی نے چین کے معاملے کو ٹھیک طریقے سے ہینڈل کیا ہے۔ مجھے کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی کہ چینی فوجی ہماری سرزمین پر کیوں بیٹھے ہیں۔دوسری جانب چین کے حوالے سے راہل گاندھی کا مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہنا کہ چینی فوجیوں نے بھارتی سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے، اس تعلق سے بھارتی فوجیوں سے لے کر مودی حکومت تک کئی مواقع پر اس کی تردید کی ہے لیکن راہل گاندھی اپنے موقف پر قائم ہیں۔ اب ان کی جانب سے امریکی سرزمین سے بھی ایسا ہی دعویٰ کیا گیا ہے تو جاننے کی بات یہ ہے کہ حقیقت کیا ہے اور کون سی بات صحیح اور کون سی غلط ہے؟
امریکی دورے کے دوران راہل گاندھی نے امریکہ کے ارکان پارلیمنٹ کے ایک وفد سے بھی ملاقات کی۔ملاقات واشنگٹن ڈی سی میں رے برن ہاؤس کے دفتر کی عمارت میں ہوئی ہے۔ اس میٹنگ کی میزبانی کانگریس مین بریڈلی جیمز شرمین نے کی۔ وفد میں سینیٹر جوناتھن جیکسن، سینیٹر رو کھنہ، سینیٹر راجہ کرشنامورتی، سینیٹر باربرا لی، سینیٹر شری تھانیدار، جیسس جی، گارسیا، سینیٹرز ہانک جانسن،الہان عمر اور جان سکاکوسکیاور تھے۔ اگرچہ راہل گاندھی نے وفد میں شامل تمام لوگوں سے ملاقات کی لیکن بی جے پی حکومت اوراس کے ترجمان، الہان عمر سے ملاقات پر سوال اٹھارہے ہیں۔تو سوال یہ ہے کہ الہان عمر کون ہیں؟الہان عمر ایک امریکی رکن پارلیمنٹ ہے۔ 2019 سے امریکی کانگریس کی ڈیموکریٹک رکن ہیں۔پہلی افریقی مہاجر ہیں جو الیکشن جیت کر امریکی پارلیمنٹ میں پہنچی ہیں۔ پارلیمانی نشست پر الیکشن جیتنے والی پہلی سیاہ فام خاتون بھی ہے۔ امریکی پارلیمنٹ میں پہنچنے والی پہلی دو مسلم امریکی خواتین میں شامل ہیں اور امریکہ میں اپنے اسرائیل مخالف موقف کی وجہ سے مشہور ہیں۔الہان عمر کوبھارت مخالف خیالات کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ انہوں نے امریکی پارلیمنٹ میں پی ایم مودی کی تقریر کا بائیکاٹ کیا تھا۔ الہان عمر کئی بار غیر ملکی فورموں سے بھارت کو تنقید کا نشانہ بنا چکی ہیں۔ انہوں نے بھارت کو اقلیت مخالف بھی قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں بائیڈن انتظامیہ کو نشانہ بناتے ہوئے الہان عمر نے کہا تھا کہ بھارت میں مسلم اقلیتوں کے خلاف ایک طویل عرصے سے مہم چل رہی ہے۔ انہوں نے تب بھی کہا تھا کہ بھارت میں مسلمان ہونا جرم کے مترادف ہے۔وہیں راہل گاندھی نے اپنے دورے کے درمیان بھارت ہی نہیں مغربی ممالک میں پھیلی بے روزگاری کا حوالہ دیتے ہوئے بھی کہا کہ چین نے عالمی پروڈکشن پر قبضہ کرلیا ہے۔ ہمارا ملک بھارت اس کا مقابلہ کرسکتاہے۔بی جے پی، وزیراعظم مودی اورآر ایس ایس کو نشانہ بناتے ہوئے بھی انہوں نے دعویٰ کیا کہ لوک سبھا الیکشن کے بعد بی جے پی اور مودی کا خوف ختم ہو گیا ہے۔ ٹیکساس میں بھارتی نژاد افراد سے خطاب میں راہل گاندھی نے آر ایس ایس کے نظریہ کو تنقید کا نشانہ بنایااورکہا کہ وہ بھارت کو ایک رنگ میں رنگ دینے میں یقین رکھتا ہے جبکہ کانگریس پارٹی ملک کی تکثیریت میں یقین رکھتی ہے۔یہیں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہےکہ آج ملک کے اندر’جدید دو قومی نظریے ‘برسرپیکار ہیں۔
راہل گاندھی کے تین روزہ دورے کے مختلف پروگرام اور ان میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب کے پس منظر میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ راہل گاندھی نے اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ من جملہ ملک کی اکثریت کے مسائل کو اٹھائے بغیر وہ عوام کی نظر میں مقبول نہیں ہوسکتے۔کیونکہ جن مسائل کے جوابات دیے گئے ان سے ہرکسی کو اتفاق ہو یا نہ ہو، اس بات سے ضرور اتفاق ہوگا ہے کہ بھارتی عوام گزشتہ دس سالوں میں مختلف حیثیتوں سے پریشانی سے دوچار ہیں۔چاہے وہ اہل سیاست ہوں،جرنلسٹ ہوں،رائٹرس ہوں،کھیل سے وابستہ افراد ہوں،نوجوان اور طالب علم ہوں ،خواتین یا سماج کے کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد ہوں۔دوسری طرف بے روزگاری اور مہنگائی نے سب کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کا سوچنے سمجھنے والا طبقہ، مسائل کو بزور قوت اٹھانے والے افراد اور سیاسی پارٹیاں،حکومت وقت سے اپنے حق کے لیے لڑتے رہے ،جوجھتے رہے ۔نتیجہ میں وہ کبھی جیلوں میں تو کبھی دیگر طریقوں سے آزمائے گئے اور غالباً ان حالات کی وجہ یہی رہی ہوگی کہ سابقہ 2014سے 2024تک کی دس سالہ حکومت کو ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اُس نے ملک میں حزب اختلاف کو مکمل طور پر ختم کردیا ہے لہذا اب اس کے سامنے سوال اٹھانے والا کوئی نہیں رہا۔لیکن شاید وہ یہ بات بھول گئے کہ عوام ہی جمہوریت میں حکومتوں کو لانے اور ختم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس کے باوجو دکہ غلط طریقوں سے الیکشن میں کامیابی اور اپنے حریف کو ناکامی دلائی جاتی رہی ہے۔لیکن ظلم و زیادتیاں اور عدل و قسط کا خون فی زمانہ ایک نئی تاریخ رقم کررہا ہوتا ہے۔وہیں تاریخ اس بات پر شاہد ہے اور خود گزشتہ پچھتّر سالہ آزاد بھارتی سیاست کی کہانی بھی یہی کہتی ہے کہ طاقت کا بے جا استعمال آپ کے وجود کو اندر سے ختم کررہا ہوتا ہے وہیں طاقت کا نشہ سرچڑھ کے بولتا ہے۔اس متضاد صورت میں انسانی عقل کام نہیں کرتی یہاں تک کہ وہ رسوائی اور ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔
گفتگو کے پس منظر میں خوب اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ متضاد نظریات ،ایک کامن فریق کے ہوتے ہوئے زیادہ دیر تک باہم چل نہیں سکتے اور اگر وہ چلتے ہیں تو طاقت ور نظریہ مخالف کو پہلے اندر سے کھوکھلا اور پھر دھیرے دھیرے باہر سے بھی اس کے وجود کو ختم کرنے کے درپے ہوجاتاہے۔کچھ یہی معاملہ بھارتی سیاست میں گاندھی جی کے قاتلوں کے سیاسی نظریات میں دیکھے جاسکتے ہیں۔انسانی تاریخ کی اسی حقیقت کو ابن خلدون نے قوموں کے عروج و زوال کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے انسانی زندگی سے تشبیہ دی ہے۔جس طرح ایک انسان بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے درجات طے کرکے موت سے ہم آغوش ہوجاتا ہے، اسی طرح قومیں بھی ان مرحلوں سے گزر کر زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ موت سے دوچار ہونا ہر قوم کی تقدیر میں لکھا ہوا ہے ۔ وہیں اوسوالڈ اشپنگلز، اور آرنلڈ ٹوائن بی اشپینگلز نے اپنی کتاب "زوال مغرب” میں تہذیبوں کے عروج و زوال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک تہذیب جن مرحلوں سے گزرتی ہے اس کی مثال موسموں کی طرح ہے یعنی گرمی، سردی، بہار اور خزاں۔ جب تہذیب خزاں کے موسم میں داخل ہوتی ہے تو اس کے بعد موت اس کا مقدر ہوجاتا ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب ایک تہذیب اپنا طے شدہ اعلیٰ کلچر تخلیق کرلیتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی تخلیقی قوتیں ختم ہوجاتی ہیں اور وہ خستگی کے اس مرحلہ پر پہنچ جاتی ہے کہ جہاں موت ہی اس کے لیے نجات کا ذریعہ بن کر آتی ہے۔کیونکہ جب کوئی تہذیب اپنے عروج پر پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے، تو زوال کے دور میں اس کی زندگی انتہائی تلخ ہوتی ہے۔ عزت و توقیر کے بعد ذلت و خواری قوموں کو نفسیاتی مرض میں مبتلا کردیتی ہیں۔ ایک طرف اس کا ماضی ہوتا ہے تو دوسری طرف حال، ایسی صورت میں قومیں کبھی ماضی کی شان و شوکت میں ڈوب جاتی ہیں تو کبھی حال کی پس ماندگی میں۔ ان کے لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ خود کو اس دلدل سے نکال کر اپنے لیے کوئی نئی راہ تلاش کریں۔برخلاف اس کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "پھر یہ ان کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کر دیے”(المائدہ:13)اور کہا کہ:”آخرکار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی وبدحالی ان پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔ یہ نتیجہ تھا اس کاکہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے”(البقرہ:61)۔
لہذا قوموں کے عروج و زوال کے پیچھے اصل کارفرما محرک اخلاقی قوت ہوتی ہے۔ جس نے برائی کمائی اس کے حصے میں برائی آئے گی، جس نے بھلائی کمائی اس کے حصے میں بھلائی آئے گی۔ فرد کے حصے میں تو موت کے بعد آئے گی لیکن قوموں کو جزا و سزا اِسی دنیا میں مل جائے گی۔ یہی اِن کے عروج و زوال کا اصل سبب ہے اور یہی قرآن کا قانون ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 ستمبر تا 28 ستمبر 2024