راہل اور پرینکا کی بنگال سے دوری سیاسی سوجھ بوجھ کی علامت

انڈیا محاذ سے اتحاد کی صورت میں مل سکتا تھا ممتا کو مزید فائدہ

شبانہ جاوید

ممتا بنرجی کی شاندار کامیابی ۔لیفٹ و کانگریس کامظاہرہ مایوس کن رہا۔بی جے پی کو قابل لحاظ سیٹوں کا نقصان
بنگال کی سیاست میں 2011 کا سال سب سے اہم رہا تھا کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب ممتا بنرجی نے ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے شاندار کامیابی حاصل کی تھی اور بایاں بازو کے مضبوط قلعے کو مسمار کرتے ہوئے سرکار بنانے کی راہ ہموار کی تھی۔2011 کے بعد 2024 میں بھی ممتا بنرجی نے شان دار جیت کا سلسلہ برقرار رکھتے ہوئے ایک بار پھر بنگال کی 42 لوک سبھا سیٹوں میں سے 28 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ وہ سیٹیں ہیں جہاں ممتا بنرجی کی پارٹی ترنمول کانگریس نے شان دار مظاہرہ کیا ہے۔ پچھلے لوک سبھا الیکشن میں ممتا بنرجی کو 22 سیٹیں ملی تھیں جبکہ اس بار اسے مزید سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جبکہ کانگریس اور لفٹ کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے اور بی جے پی کو بھی کئی سیٹوں پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بی جے پی نے پچھلے لوک سبھا الیکشن میں یہاں 18 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ شمالی بنگال میں بی جے پی نے جیت کا سلسلہ برقرار رکھا ہے جہاں وہ مالدہ شمال کی سیٹ بچانے میں کامیاب رہی ہے جبکہ بہرام پور سیٹ سے کانگریس کے مضبوط لیڈر اور ریاستی صدر ادھیر رنجن چودھری چھٹی بار لوک سبھا الیکشن جیتنے میں ناکام رہے۔ انہیں پہلی بار ترنمول کانگریس کی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے کرکٹر یوسف پٹھان نے شکست دی۔ ادھیر رنجن چودھری پانچ بار بہرام پور لوک سبھا سیٹ سے ایم پی رہے ہیں۔
2009 میں ہونے والی حد بندی میں مغربی بنگال کی مالدہ لوک سبھا سیٹ کو شمال اور جنوب دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ مالدہ کو انگریزی بازار بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مغربی بنگال کی ریاست کا چھٹا بڑا شہر ہے۔ اس میں دو میونسپلٹیاں شامل ہیں۔ یہ شہر دریائے مہانند کے کنارے واقع ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق مالدہ میٹروپولیٹن سیٹی کی کل آبادی 324,237 تھی۔ اس کی آبادی کی اکثریت 86.96 کے ساتھ ہندو تھی، اس کے بعد مسلمان 11.02 فیصد اور سکھوں اور عیسائیوں کی چھوٹی آبادی تھی۔ مالدہ لوک سبھا حلقہ 7 اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے – حبیب پور (ST)، رائے ڈنگا، مالدہ (SC)، انگلش بازار، مانیک چک، سوجاپور، اور کالیاچک۔
یہ حلقہ ہمیشہ کانگریس کا گڑھ رہا ہے
مالدہ آم، جوٹ اور ریشم کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ یہ ضلع بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل ہے جہاں قبائلی اور مسلم ووٹروں کی تعداد خاصی ہے۔
2019 میں کانگریس کے ابو ہاشم خان چودھری نے 4,44,270 ووٹ حاصل کیے تھے اور ترنمول کانگریس کے ایم ڈی معظم حسین کو 4,36,048 ووٹ ملے تھے۔ ابو ہاشم خان چودھری کے بیٹے عیسی خان چودھری نے اس بار کامیابی حاصل کی ہے جبکہ ترنمول کانگریس نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ شاہنواز ریحان جو ایس آئی او سے بھی وابستہ رہے تھے انہیں پارٹی میں شامل کیا اور جنوبی مالدہ سے امیدوار بنایا تھا تاہم اس سیٹ پر مرحوم غنی خان چودھری کے بھتیجے عیسی خان چودھری نے کانگریس کی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی ہے ۔ مالدہ غنی خان چودھری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ غنی خان چودھری بنگال میں کانگریس کا مضبوط چہرہ رہے ہیں آج بھی مالدہ ان کے نام و کام سے جانا جاتا ہے ۔
مالدہ شمالی لوک سبھا حلقہ 7 اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے حبیب پور (ST)، گاجول (SC)، چانچل، ہریش چندر پور، مالتی پور، رتوا اور مالدہ (SC)۔2019 میں بی جے پی کے کھوگن مرمو نے 5,09,524 ووٹوں سے جیت حاصل کی تھی اور ترنمول کانگریس کے عیسی خان چودھری کو 3,05,270 ووٹ ملے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب بی جے پی نے بنگال کے کسی اکثریتی لوک سبھا حلقے سے کامیابی حاصل کی تھی بی جے پی اس بار بھی اپنی یہ سیٹ بچانے میں کامیاب رہی ہے۔
بشیر ہاٹ لوک سبھا حلقہ
بنگال کا شہر بشیر ہاٹ لوک سبھا حلقہ ہے۔ یہ ایچهامتی ندی کے کنارے واقع ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، بشیر ہاٹ میونسپلٹی کی آبادی 125,254 تھی۔ جس میں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی آبادی بالترتیب 18.94 فیصد اور 0.41 فیصد ہے۔ اس کی آبادی کا صرف 12.96 فیصد شہری علاقوں میں اور 87.04 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتا ہے۔جب 1952 میں ملک میں پہلے عام انتخابات ہوئے تو یہ سیٹ دو رکنی لوک سبھا حلقہ تھی۔ 1952 کے عام انتخابات میں رینو چکرورتی نے یہاں سے سی پی آئی (ایم) کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کے بعد کانگریس کی پرتیما رائے ایم پی بنیں۔ 1957 کے عام انتخابات میں سی پی آئی (ایم) کی رینو چکرورتی دوبارہ جیتنے میں کامیاب ہوئیں۔ ان کے بعد کانگریس کے پاریش ناتھ کیال ایم پی بنے۔ کانگریس امیدوار
ہمایوں کبیر 1962 کے انتخابات جیت کر پارلیمنٹ پہنچے۔ 1967 کے عام انتخابات میں بنگلہ کانگریس نے یہ سیٹ جیتی اور ہمایوں کبیر ایم پی بنے۔ 1970 کے انتخابات میں بنگلہ کانگریس نے دوبارہ یہ سیٹ جیتی اور سردار امجد علی لوک سبھا انتخابات جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچے۔
2019 کے لوک سبھا انتخابات میں، ٹی ایم سی نے بنگالی اداکارہ نصرت جہاں کو بشیر ہاٹ سیٹ سے سی پی آئی کے پلو سین گپتا کے مقابلے میں کھڑا کیا تھا۔ سیانتن باسو بی جے پی کے امیدوار تھے جبکہ قاضی عبدالرحیم کانگریس کے امیدوار تھے۔ نصرت جہاں نے یہ سیٹ جیتی تھی، انہیں 7,82,078 ووٹ ملے تھے۔ جبکہ بی جے پی کے سیانتن باسو 4,31,709 ووٹوں کے ساتھ دوسرے اور کانگریس کے قاضی عبدالرحیم 1,04,183 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے تھے۔ بشیر ہاٹ لوک سبھا سیٹ پر 85.42 فیصد ووٹنگ ہوئی تھی تاہم اس بار لوک سبھا الیکشن میں ترنمول کانگریس نے سابق ایم پی حاجی نور الاسلام کو اپنا امیدوار بنایا۔ حج کمیٹی کے سابق چیئرمین حاجی نور الاسلام کو ایسے وقت میں امیدوار بنایا گیا جب بشیر ہاٹ کے سندیش کھالی میں فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی کوشش کی گئی۔ سندیش کھالی میں شیخ شاہجہاں کی گرفتاری کے بعد ہونے والے خواتین کے احتجاج نے ملک بھر کی توجہ حاصل کی۔ ہاتھوں میں جھاڑو و ڈنڈا اٹھائے احتجاج کرتی ہوئی خواتین نے ترنمول کانگریس لیڈروں پر مقامی لوگوں کے املاک پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا۔ یہ معاملہ سامنے آتے ہی بی جے پی نے خواتین کے ساتھ کھڑے ہو کر معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔ بی جے پی کے عام لیڈروں سمیت وزیر اعظم مودی نے بھی فرقہ وارانہ بیانات ہی دیے، یہاں تک کہا گیا کہ ایک مسلم لیڈر نے غیر مسلم خواتین کے ساتھ زیادتی کی جبکہ گرفتار ہونے والوں میں شیخ شاہجہاں کے ساتھ اتم سردار، شيبو پرساد ہاجر بھی شامل تھے۔ فرقہ وارانہ بیانات کو یہاں کے لوگوں نے رد کرتے ہوئے ممتا بنرجی کی قیادت پر اعتماد ظاہر کیا نتیجے میں ترنمول کانگریس کے امیدوار حاجی نور الاسلام کو کامیابی ملی۔
جنگی پور لوک سبھا حلقہ
مغربی بنگال کا حلقہ لوک سبھا جنگی پور ایک VIP سیٹ ہے۔ یہ لوک سبھا سیٹ 1967 میں چوتھے عام انتخابات میں وجود میں آئی تھی۔ کانگریس کے لطف الحق 1967 اور 1971 کے عام انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ 1977 کے لوک سبھا انتخابات میں سی پی آئی (ایم) کے ساسانکا شیکھر سانیال نے کامیابی حاصل کی تھی۔ سی پی آئی (ایم) کے زین العابدین نے 1980، 1984، 1989 اور 1991 کے عام انتخابات میں مسلسل کامیابی حاصل کی تھی۔ 1996 کے انتخابات میں کانگریس نے دوبارہ واپسی کی اور محمد ادریس علی ایم پی منتخب ہوئے۔ سی پی آئی (ایم) کے ابوالحسنات خان نے 1998 اور 1999 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ 2004 اور 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے اپنے سینئر لیڈر پرنب مکھرجی کو میدان میں اتارا تھا۔ پرنب مکھرجی نے دونوں بار الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ 2012 میں صدر منتخب ہونے کے بعد پرنب مکھرجی نے لوک سبھا کے رکن کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ نشست ان کے صدر بننے کے بعد خالی ہوئی، جس پر 10 اکتوبر 2012 کو ووٹنگ ہوئی۔ اس کے بعد ہونے والے ضمنی انتخاب میں پرنب مکھرجی کے بیٹے ابھیجیت مکھرجی نے کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا تھا۔
جنگی پور لوک سبھا حلقہ 7 اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے – فراکا، اورنگ آباد، سوتی، ساگردیگھی (ایس سی)، جنگی پور (اسمبلی حلقہ نمبر 54)، نبوگرام، کھرگرام (ایس سی)۔
2019 میں کانگریس نے اس سیٹ سے ابھیجیت مکھرجی کو ٹکٹ دیا تھا۔ ترنمول کانگریس نے اس سیٹ سے خلیل الرحمن کو ٹکٹ دیا تھا۔ بی جے پی نے بھی اس سیٹ سے مسلم امیدوارہ مفضہ خاتون کو اپنا امیدوار بنایا تھا۔ سی پی ایم نے اس سیٹ سے محمد ذوالفقار علی کو ٹکٹ دیا، جبکہ شمیم الاسلام نے بی ایس پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا تھا 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ترنمول کانگریس کے خلیل الرحمن نے یہ سیٹ جیتی تھی، انہیں 5,62,838 ووٹ ملے تھے۔ بی جے پی امیدوار مفضہ خاتون 3,17,056 ووٹوں کے ساتھ دوسرے اور کانگریس کے ابھیجیت مکھرجی 2,55,836 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ اس بار بھی ترنمول کانگریس امیدوار خلیل الرحمان نے کامیابی درج کی ہے۔
مرشد آباد، حلقہ لوک سبھا
مرشدآباد مغربی بنگال کا تاریخی ضلع ہے۔ نوابوں کی نگری کہے جانے والا مرشد آباد دریائے گنگا کے کنارے واقع ہے۔ یہ ملک کا نواں سب سے زیادہ آبادی والا ضلع ہے۔ برہم پور اس ضلع کا صدر مقام ہے۔مرشد آباد بنگال کے نوابوں کا گڑھ تھا۔ ایک زمانے میں پورے بنگال پر اس شہر کی حکومت تھی۔ پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ کی انگریزوں کے ہاتھوں شکست کے چند سال بعد کلکتہ کو بنگال کا دار الحکومت بنا دیا گیا۔ اس ضلع کا نام نواب مرشد قلی خان کے نام پر رکھا گیا تھا۔
ضلع میں 22 اسمبلی حلقے ہیں۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ضلع کی آبادی 7,103,807 تھی۔ مرشد آباد لوک سبھا سیٹ سے 1952 میں پہلی بار کانگریس کے محمد خدا بخش نے کامیابی حاصل کی تھی۔ 1957 میں بھی محمد خدا بخش نے کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا تھا۔ انڈیپنڈنٹ ڈیموکریٹک پارٹی (انڈیا) کے امیدوار سعید بدرالدجیٰ نے بالترتیب 1962 اور 1962 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ 1971 میں انڈین یونین مسلم لیگ کے ابو طالب چودھری پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوئے۔ لیکن ان کا 15 مارچ 1972 کو انتقال ہو گیا جس کے بعد کانگریس کے محمد خدا بخش ضمنی انتخاب میں ایم پی منتخب ہوئے۔ 1977 میں ایمرجنسی کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں کاظم علی مرزا جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ سی پی آئی (ایم) کے سید مسعودالحسین 1980، 1984، 1989، 1991، 1996 اور 1998 میں انتخاب جیتتے رہے۔ 1998 اور 1999 میں سی پی آئی (ایم) نے معین الحسن کو میدان میں اتارا، جو دونوں بار جیت گئے۔ عبدالمنان حسین 2009 اور 2004 کے عام انتخابات میں کانگریس کے ٹکٹ پر لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ 2019 میں سی پی ایم نے بدرالدجیٰ خان کو اس حلقے سے ٹکٹ دیا تھا۔ ٹی ایم سی نے یہاں سے ابو طاہر خان کو میدان میں اتارا تھا جبکہ کانگریس نے ابو حنا کو ٹکٹ دیا تھا۔ بی جے پی نے اس سیٹ سے ہمایوں کبیر کو میدان میں اتارا تھا۔
2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ترنمول کانگریس کے ابو طاہر خان نے یہ سیٹ جیتی تھی، انہیں 6,04,346 ووٹ ملے۔ جبکہ کانگریس کے ابو حنا 3,77,929 ووٹوں کے ساتھ دوسرے اور بی جے پی کے ہمایوں کبیر 2,47,809 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے تھے۔ اس بار بھی ترنمول کانگریس کے ابو طاہر خان نے یہ سیٹ جیتی ہے جبکہ سی پی ایم نے سابق ایم پی محمد سلیم کو امیدوار بنایا تھا۔
بنگال میں کانگریس اور لفٹ نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ سیاسی ماہرین ربیع الاسلام کے مطابق بی جے پی کا مسلمانوں کے خلاف جو نگیٹیو ایجنڈا تھا وہ بنگال میں کام نہیں آیا۔ مثال کے طور پر سندیش کھالی کا واقعہ جہاں زمینوں پر قبضہ کرنے کا الزام سچ تو ہو سکتا ہے لیکن یہ سچ نہیں ہو سکتا تھا کہ مسلمان مرد وہاں کی ہندو خواتین کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنا رہے تھے جس پر بی جے پی بہت زیادہ فوکس کر رہی تھی۔ لیکن پر لوگوں کو یقین نہیں ارہا تھا، ساتھ ہی وہ او بی سی ریزرویشن معاملے پر بھی سیاسی کھیل کھیل رہی تھی جس کا اندازہ بنگال کے ووٹروں کو بھی ہو چکا تھا۔ ایک سماجی کارکن سنیل پرساد نے کہا کہ بی جے پی کے پاس بنگال کے لیے کوئی ترقیاتی کاموں کا ایجنڈا نہیں تھا جبکہ ممتا بنرجی ترقیاتی کام پر فوکس کر رہی تھیں۔ ہندو مسلم نفرت کی سیاست کو بنگال میں جگہ نہیں ملی۔ ممتا بنرجی نے خواتین کو دی جانے والی لکشمی بھنڈار اسکیم میں اضافہ کرتے ہوئے ان کو ماہانہ پانچ سو تا ایک ہزار روپے دیے جانے کا اعلان کیا جو ان کی پارٹی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا۔ سنیل پرساد نے بنگال میں بی جے پی کی سیٹوں میں آنے والی کمی کے لیے لفٹ کے نوجوان لیڈروں کے رول کو اہم بتاتے ہوئے کہا کہ اگر ممتا بنرجی بنگال میں کانگریس و لفٹ کے ساتھ سیٹوں پر سمجھوتہ کرتیں تو بی جے پی کی سیٹیں مزید کم ہو سکتی تھیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 جون تا 15 جون 2024