رگِ مینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں

سعودی امریکی تعلقات میں روایتی گرمجوشی ماند پڑنے لگی

مسعود ابدالی

ولی عہد محمد بن سلمان جدید اور محفوظ ترین ٹیکنالوجی سے لیس ’پرامن جوہری پروگرام‘ کے لیے پرعزم
بیجنگ اور ماسکو سے سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی قربت کےدرمیان امریکی وزیرخارجہ کا دورہ ریاض
جوہری بموں سے ہیروشیما اور ناگا ساکی کو ریت کا ڈھیر بنانے والے امریکہ کو جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ پھیلاوپر شدید تشویش ہے۔ چنانچہ واشنگٹن یورینیم کی افزددگی پر کڑی نظر رکھنا چاہتا ہے۔ صدر بائیڈن کئی بار کہہ چکے ہیں کہ جوہری عدم پھیلاؤ ہر امریکی انتظامیہ کی کلیدی و تزویراتی ترجیح ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن تین روزہ دورہ مکمل کرکے وطن واپس پہنچ گئے۔ اس دوران انہوں نے خلیج تعاونی کونسل (GCC) کے انسدادِ دہشت گردی اجلاس میں بھی شرکت کی۔ واپسی پر امریکی وزیر خارجہ نے دورے کو بہت کامیاب، ملاقاتوں کو دلچسپ اور گفتگو کو انتہائی دوستانہ قرار دیا، لیکن سیانے کہہ رہے ہیں کہ سعودیوں کا رویہ سرد تھا۔ ایک ماہ پہلے قومی سلامتی کے لیے صدر بائیڈن کے مشیر جیک سولیون بھی سعودی یاترا کرچکے ہیں۔
ادھر کچھ عرصے سے سعودی امریکی تعلقات کی روایتی گرم جوشی ماند پڑتی نظر آ رہی ہے۔ شکایات کی فہرست بہت طویل ہے لیکن چند اہم معاملات کچھ اس طرح ہیں۔
سعودی عرب نے امریکہ کو اعتماد میں لیے بغیر چین کی ثالثی میں ایران سے سفارتی تعلقات بحال کرلیے
یمن میں حوثیوں سے کشیدگی ختم کرنے کے معاملے پر واشنگٹن سے مشورہ نہیں کیا گیا
شام سے تعلقات کی بحالی بھی بالا ہی بالا کرلی گئی اور امریکہ کو اس اہم پیش رفت کی اطلاع ذرائع ابلاغ سے ہوئی
تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے امریکہ اور یورپ کی معیشتوں پر شدید دباو ہے اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان المعروف MBS امریکہ سے تعاون کے بجائے پیداوار میں مسلسل کٹوتی کر رہے ہیں۔
سعودی عرب کے چین اور روس سے تعلقات میں گرم جوشی آرہی ہے اور اب ریاض اسلحے کے لیے بھی بیجنگ اور ماسکو سے مول تول کر رہا ہے
سعودی عرب چین اور روس باہمی تجارت مقامی سِکوں یعنی روسی روبل، چینی یووان اور سعودی ریال میں کرنے پر رضامند نظر آرہے ہیں۔
سعودی عرب، اسرائیلی کمرشل طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود تو کھول دی ہیں، لیکن MBS متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرح تل ابیب سے سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے تیار نہیں
مغرب میں سعودی، ایران، ترکیہ، روس اور چین تجارتی اتحاد کی بازگشت سنائی دے رہی ہے
سعودی عرب جوہری توانائی کے حصول میں سنجیدہ ہے اور تعاون کے لیے اس کی نظریں بیجنگ کی طرف ہیں۔
امریکیوں کا خیال ہے کہ جنوری 2015 میں MBS کے نائب ولی عہد کا عہدہ سنبھالنے کے وقت سے سعودی تیور کا تیکھا پن نمایاں ہے۔ غیر جانب دار سیاسی مبصرین واشنگٹن کے اس تجزیے کو تسلیم نہیں کرتے اور ماہرین کا خیال ہے کہ ابتدا میں نائب ولی عہد واشنگٹں کے مخلص دوست تھے لیکن انہوں نے اگلی دہائی تک مملکت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذمہ داریاں سنبھالتے ہی انہوں نے ماہرین کی ٹیمیں بنا کر ‘جدید سعودی’ کی تعمیر کا آغاز کیا اور اپریل 2016 کو رویۃ السعودیہ یا Vision 2030 کا اعلان کیا گیا۔
وژن 2030 کا کلیدی نکتہ سعودی معیشت میں تنوع ہے۔ وہ خام تیل پر دارومدار کم سے کم کرنا چاہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ انہوں نے نجی شعبوں کے تعاون و مشارکت سے صحت و تعلیم، بنیادی ڈھانچے (Infrastructure) تفریح اور سیاحت کے شعبوں کو ترقی دینے کاخیال پیش کیا جس میں حکومت کا سرمایہ، حصہ اور مداخلت کم سے کم ہو۔ منصوبے کے مطابق 2030 تک سعودی عرب کو عرب اور اسلامی دنیا کا قلب، بین الاقوامی سرمایہ کاری کا مرکز اور تین بر اعظموں ایشیا، افریقہ اور یورپ کا طاقتور اقتصادی سنگم بننا ہے۔
ان اہداف کے حصول کے لیے وہ چینی تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ بیجنگ کی توجہ گزشتہ کئی دہائیوں سے معاشی ترقی پر ہے۔ عالمی تنازعات پر بیجنگ دوٹوک اور جان دار موقف اختیار کیے ہوئے ہے اور امریکہ سے جاری ہونے والے قابل اعتراض بیانات کا ترکی بہ ترکی جواب بھی فی الفور دے دیا جاتا ہے لیکن جارحانہ عسکری پیش قدمی سے گریز اس کی سفارتکاری کا بنیادی جزو ہے۔
سعودی عرب نے بھی وژن 2030 کی طرف یکسوئی کے لیے علاقائی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی راہ اختیار کر لی ہے اور چین کی ثالثی میں ایران سے مذاکرات بھی شروع ہوئے۔ امریکہ و یورپ کی عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے ایران کی اقتصادی صورتحال بہت اچھی نہیں ہے اور سعودی عرب سے کشیدگی کی بنا پر یمن، شام و لبنان میدانِ جنگ بنے ہوئے ہیں۔ ان تینوں محاذوں پر کسی جانب کوئی پیش رفت بھی نہیں ہو رہی ہے، چنانچہ ایران اس دلدل سے نکلنا چاہتا ہے۔ چینیوں نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان اعتماد پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ان ملکوں کے سفارتی تعلقات بحال ہو گئے۔ چین کا کہنا ہے کہ ’’جب دو دوست مسکراتے چہروں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آگئے تو باقی متنازعہ امور بھی بات چیت کے ذریعے طے ہو ہی جائیں گے‘‘ عرب و عجم کشیدگی کم ہونے کے خوش گوار اثرات ہر جگہ محسوس کیے گئے۔ یمن میں بمباری کا خاتمہ اور قیدیوں کے تبادلے سے تناو کم ہوا تو دوسری جانب سعودی عرب اور شام کے
سفارتی تعلقات بھی بحال ہو گئے۔ اس معاملے میں امریکہ کا نظر انداز کیے جانے کا شکوہ اس لحاظ سے غیر ضروری ہے کہ ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں لہذا واشنگٹن کے لیے ثالثی ممکن ہی نہیں تھی۔
وژن 2030 کے منصوبوں کی سرمایہ کاری زیر زمین ابلتے سیاہ سونے ہی سے ہو گی، چنانچہ تیل کی قیمتوں میں استحکام MBS کی اولین ترجیحِ ہے۔ ساری دنیا میں تیل کی پیداوار کا ایک تہائی امریکہ، روس اور سعودی عرب سے حاصل ہوتا ہے۔ ماضی میں روس خود کو تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کا مسابقت کار سمجھتا تھا اس لیے پیداوار کے معاملے میں روس کی ترجیحات اوپیک سے مختلف تھیں۔ یوکرین کی جنگ اور یورپ کی جانب سے روسی تیل کے بائیکاٹ نے ماسکو کو اوپیک کا اتحادی بنا دیا ہے جس کی وجہ سے بازار پر سعودی عرب کی گرفت مضبوط ہو گئی ہے۔
جوہری پروگرام سے دلچسپی کی وجہ بھی یہی ہے کہ سعودی عرب توانائی کی ضرورت کے لیے تیل پر انحصار کم سے کم کرکے متبادل ذرائع تلاش کر رہا ہے جس میں جوہری توانائی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
امریکہ اور سعودی عررب کے درمیان شدید کشیدگی کا آغاز اکتوبر 2018 میں ہوا جب ممتاز سعودی صحافی اور واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جناب جمال خاشقجی کو انقرہ کے سعودی قونصل خانے میں قتل کر کے ان کی لاش ٹھکانے لگا دی گئی۔ مرحوم اپنے دستاویزات کی تصدیق کے لیے قونصل خانے گئے تھے۔ اس واقعے سے صرف 16 ماہ قبل محمد بن سلمان نے ولی عہد کا منصب سنبھالا تھا۔ صدر بائیڈن ان لوگوں میں شامل ہیں جن کا خیال ہے کہ جناب خاشقجی MBS کے حکم پر قتل کیے گئے۔ اپنی 2020 کی انتخابی مہم میں جناب بائیڈن نے اس معاملے کو خوب اچھالا اور کہا اگر انتخاب جیت گئے تو وہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک غیر جانب دار کمیشن بنانے کی سفارش کریں گے۔ ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وہ یہاں تک کہہ گئے کہ ’برسر اقتدار ہو کر وہ ریاض کے ساتھ Pariah (اچھوت) کا سا برتاو کریں گے جو وہ (مہذب دنیا کے لیے) ہیں‘۔ جنوری 2021 میں اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے امریکی خفیہ ایجنسیوں کی ایک رپورٹ اشاعتِ عام کے لیے جاری کردی جس میں بہت صراحت سے کہا گیا ہے کہ ’جمال خاشقجی کو MBS کے حکم پر سعودی خفیہ ایجنسی اور شاہی گارڈ کے صریع الحرکت دستے فرقہ النمر نے قتل کیا ہے۔ اسی کے ساتھ سعودی محکمہ سراغرسانی کے نائب سربراہ احمد العصیری سمیت 76 سعودی اہلکاروں پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ ان اقدامات سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج کو پہنچی۔
سعودی عرب سے تعلقات میں آنے والی سلوٹوں کو دورکرنے کا ہدف لے کر امریکی وزیر خارجہ 6 جون کو ریاض پہنچے۔ سعودیوں کی سرد مہری ایرپورٹ پر ہی عیاں ہو گئی جب مملکت آمد پر امریکی وزیر خارجہ کا استقبال سعودی عرب میں امریکہ کے سفیر اور سعودی وزرات خارجہ کے ایک عام افسر نے کیا۔ امریکی وزیر باتدبیر کے دورے سے ایک دن قبل سعودی ارامکو نے پیداوار میں دس لاکھ بیرل کمی کا مژدہ سنا کر تیل کی قیمت کو سفارتی اصطلاح میں مذاکرات سے off the table کر دیا۔ ایک ہفتہ قبل اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے بارے میں سعودی وزارت خارجہ اپنے اس موقف کا اعادہ کرچکی تھی کہ خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے سفارتی تعلقات ممکن نہیں۔
سعودی ولی عہد سے ملاقات میں جناب بلنکن نے سوڈان کے امریکی شہریوں کے انخلا میں مدد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ سعودی عرب سے اپنے تعلقات کو بے حد اہمیت دیتا ہے اور ساتھ ہی بقراطی بھی جھاڑ دی کہ ’’انسانی حقوق پر پیش رفت سے ہمارے تعلقات کو تقویت ملے گی‘‘۔ ایم بی ایس نے اس بات کا جواب نہیں دیا کہ جناب بلنکن ان کے ہم منصب نہیں لیکن وزرائے خارجہ کے درمیان بات چیت کے بعد مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جناب بلنکن کے سعودی ہم منصب نے کہا کہ ان کا ملک تمام امور پر کھلے دل سے بات چیت کا خواہش مند ہے اور کوئی نکتہ بھی ایسا نہیں جس پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں کسی قسم کی جھجھک محسوس ہو لیکن سعودی عرب دھمکی اور دباو میں آنے والا نہیں اور نہ اخلاقیات پر لیکچر کی ہم کوئی ضرورت ہے۔
امریکہ اور جی سی سی ممالک کی تزویراتی) اسٹرٹیجک (شراکت یا التحالف الدولی (Global Coalition) کے موضوع پر وزارتی اجلاس 7 جون ہوا کو جس میں اہم علاقائی امور بشمول یمن، سوڈان، شام اور فلسطینی کے معاملات زیر بحث آئے۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جناب انٹونی بلنکن نے کہا کہ’ امن و استحکام کی خواہش لیے امریکہ تمام و سائل اور عزم کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں موجود ہے اور ہم آپ کے ساتھ گہری شراکت قائم کیے ہوئے ہیں۔ مستحکم، محفوظ اور خوشحال مشرق وسطی ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ترین ہدف ہے جس کے حصول کے لیے امریکہ اپنے قابل احترام و معزز خلیجی دوستوں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا‘۔ اتحاد و یکجہتی کی بات کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے ایران کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار ضروری سمجھا اور بولے ’بین الاقوامی
پانیوں میں ٹینکروں پر قبضے سمیت اشتعال انگیر ایرانی رویے کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم کام جاری رکھے ہوئے ہیں‘۔علاقائی تنازعات کے باب میں جناب بلنکن نے کہا کہ’ امریکہ یمن اور شام تنازعات کے ایسے با وقار سیاسی حل کا خواہش مند ہے جو ان ممالک کے اتحاد و سالمیت کی ضمانت اور عوامی امنگوں کے مطابق ہو۔
اس اجلاس کا سب سے اہم نکتہ دہشت گردی تھا، چنانچہ داعش کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے، دہشت گردی کو کچلنے اور انتہا پسند نظریات کی بیخ کنی کے لیے مختلف اقدامات پر غور کیا گیا۔ اس دوران امن و استحکام کے لیے جی سی سی امریکی کوششیں تیز کرنے اور مختلف علاقائی وبین الاقوامی مسائل میں تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ وزرائے خارجہ نے مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر کو درپیش بحرانوں کے ممکنہ حل تک رسائی کے لیے کی جانے والی کوششوں اور مختلف نقطہ ہائے نظر پر تبادلہ خیال کیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے سوڈان میں لڑائی کے خاتمے کے لیے امریکہ کا مخلصانہ تعاون جاری رکھنے کا یقین دلایا۔
وزارتی اجلاس کے بعد جناب انٹونی بلنکن کے ہمراہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ نے اپنے جوہری پروگرام کا تفصیل سے ذکر کیا۔ شہزادہ فیصل بن فرحان نےکہا کہ سعودی عرب کا جوہری منصوبہ پرامن مقاصد کے لیے ہے اور ہماری جوہری سرگرمیاں شفاف ہیں۔ ریاض امریکہ سمیت ساری دنیا کو تعاون کی دعوت دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ہم امریکہ سے تعاون کو ترجیح دیں گے۔ سعودی شہزادے نے بتایا کہ کئی ممالک نے تعاون کی پیشکش کی ہے اور ہم اپنے پروگرام کے لیے دنیا کی جدید اور محفوظ ترین ٹکنالوجی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘سعودی جوہری پروگرام کے کچھ نکات پر امریکہ ہم سے متفق نہیں ہے، اس لیے ہم ایک ایسا طریق کار وضع کرنا چاہتے ہیں جس کے ذریعے دونوں ملک مل کر کام کر سکیں‘ ۔ امریکی وزیر خارجہ کو مخاطب کر کے شہزادہ صاحب نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہم اس پروگرام پر آگے بڑھنے کے لیے پرعزم ہیں‘
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ کہہ کر سعودی وزیر خارجہ، اپنے امریکی ہم منصب کو باور کرانا چاہتے تھے کہ اگر جوہری پروگرام کے لیے امریکہ نے تعاون نہ کیا تو ریاض کے پاس چین، روس یا فرانس کی طرف جانے کا راستہ کھلا ہے
اگرچہ کہ جوہری پروگرام پر سعودی حکومت کی جانب سے یہ پہلی سرکاری وضاحت ہے لیکن اس معاملے پر امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان کافی عرصے سے گفتگو ہو رہی ہے۔ شہزدہ فیصل بن فرحان کی اس دو ٹوک گفتگو سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ صاف توانائی یعنی Clean and Green Energy کے حصول میں سعودی عرب سے تعاون کرے گی، جس میں پرامن جوہری پروگرام بھی شامل ہے۔ تاہم فاضل ترجمان نے یہ نہیں بتایا کہ یورینیم افزودگی کے منصوبوں کے لیے امریکہ کی شرائط کیا ہوں گی؟
جوہری بموں سے ہیروشیما اور ناگا ساکی کو ریت کا ڈھیر بنانے والے امریکہ کو جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ پھیلاو پر شدید تشویش ہے۔ چنانچہ واشنگٹن یورینیم کی افزودگی پر کڑی نظر رکھنا چاہتا ہے۔ صدر بائیڈن کئی بار کہہ چکے ہیں کہ جوہری عدم پھیلاؤ ہر امریکی انتظامیہ کی کلیدی و تزویراتی ترجیح ہے۔
دورے کے بعد وطن واپسی پر جب ان کا خصوصی طیارہ اسرائیل کی فضائی حدود میں تھا، جناب بلنکن نے وزیر اعظم اسرائیل نتن یاہو (بی بی) کو فون کیا اور تنازعہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر زور دیتے ہوئے بی بی سے تعاون کی درخواست کی۔ جناب بلنکن کا کہنا تھا آزاد و خود مختار فلسطین، تنازعے کے پرامن حل کی بنیادی شرط ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ امریکی وزارت خارجہ نے یہ نہیں بتایا کہ جناب بلنکن کی درخواست پر اسرائیلی وزیر اعظم نے کیا کہا، لیکن ماضی میں جناب نتن یاہو اور ان کے اتحادی آزاد فلسطینی رہاست کو یکسر مسترد کرچکے ہیں۔ سعودیوں سے ملاقات کے فوراً بعد اسرائیلی وزیر اعظم کو فون سے اندازہ ہوتا ہے کہ بات چیت کے دوران سعودی ولی عہد نے فلسطینی ریاست کے قیام کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بنیاد قرار دیتے ہوئے مملکت کے موقف میں نرمی سے انکار کر دیا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سعودی امریکی تعلقات میں در آنے والی خلیج کو پُر کرنے کا جو مشن لے کر امریکی وزیر خارجہ ریاض آئے تھے، اس میں انہیں بس اتنی ہی کامیابی ہوئی کہ سعودی عرب تمام امور پر بات چیت جاری کے لیے تیار ہے تاہم، سعودی چین قربت، اسرائیل کو تسلیم کرنے، ابھرتے ہوئے روس، چین، سعودی اور ترکیہ تعاون، سعودی جوہری پروگرام اور عرب و عجم مفاہمت سمیت کسی بھی اہم معاملے پر ریاض اپنا موقف تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دوسری طرف امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ کے مخالفین قیام ریاض کے دوران جناب بلنکن کے کمزور اور مدافعانہ انداز پر انہیں تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ انسانی حقوق کے امریکی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ملاقاتوں میں جناب بلنکن نے اشاروں کنایوں میں بھی جمال خاشقجی کا ذکر نہیں کیا۔ امریکی وزیر خارجہ نےریاض میں انسانی حقوق کی خاتون کارکنوں سے ملاقات کی لیکن مہمان وزیر خارجہ سے ملنے والے وفد کا انتخاب سعودی حکومت نے کیا تھا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران امریکی و سعودی تعقات میں جس تیزی سے رخنہ بلکہ زوال آیا ہے اس کا خلاصہ بقولِ احمد فراز کچھ اس طرح ہے
اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں
آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہی
رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سعودی امریکی تعلقات میں در آنے والی خلیج کو پُر کرنے کا جو مشن لے کر امریکی وزیرخارجہ ریاض آئے تھے، اس میں انہیں بس اتنی ہی کامیابی ہوئی کہ سعودی عرب تمام امور پر بات چیت جاری کے لیے تیار ہے تاہم، سعودی چین قربت، اسرائیل کو تسلیم کرنے، ابھرتے ہوئے روس، چین، سعودی اور ترکیہ تعاون، سعودی جوہری پروگرام اور عرب و عجم مفاہمت سمیت کسی بھی اہم معاملے پر ریاض اپنا موقف تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دوسری طرف امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ کے مخالفین قیام ریآض کے دوران جناب بلنکن کے کمزور اور مدافعانہ انداز پر انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 جون تا 24جون 2023