‘ردع العدوان’

بیت المقدس کی فتح کے لیے ملکِ شام اور آس پاس کے دیگر ممالک کلیدی اہمیت کے حامل

محمد اکمل علیگ

عرب بہار سے شام تک :2011 کے عوامی احتجاج سے 2024تک کے بدلتے حالات
شامی حریت پسندوں نے 27 نومبر 2024 کو شام کے شمال مغربی علاقے میں ظالم بشار الاسد کی فوج ، قابض روسی فوج ، حزب اللہ اور ایرانی شیعہ ملیشیاؤں کے خلاف ایک فوجی آپریشن کا آغاز کیا ۔ اور اس فوجی آپریشن کا نام ’’ ردع العدوان‘‘ رکھا ( یعنی ایسا آپریشن جو جارحیت اور زیادتیوں کو روک دے) ۔
در اصل شام کی کہانی اس وقت شروع ہوئی ، جب 17 دسمبر 2010 میں تیونس سے عرب حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاج کا آغاز ہوا ، جسے بعد میں ’’عرب بہار‘‘کا نام دیا گیا ، تو بڑی بڑی مضبوط حکومتیں اس عوامی احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئیں ۔ چنانچہ تیونس سے ڈکٹیٹر زین العابدین ، لیبیا سے معمر قذافی ، مصر سے حسنی مبارک اور یمن سے علی عبد اللہ صالح کی حکومتوں کا خاتمہ ہوا ، لیکن جب عرب بہار کی چنگاری شام پہنچی اور شامی عوام ڈکٹیٹر بشار الاسد کی حکومت سے ظلم و زیادتی ، ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے ، عوام کی آزادی اور عزت و وقار کے تحفظ کا مطالبہ کیا تو بشار الاسد نے اس عوامی احتجاج کو کچلنے کے لیے پوری قوت کا استعمال کیا ۔
اس کا آغاز فروری 2011 میں اس وقت ہوا ، جب شام کے ایک شہر ’’درعا‘‘ میں اسکول کے بچوں میں سے ایک چھوٹے بچے حمزہ الخطیب نے اپنے اسکول کی دیوار پر یہ عبارت لکھ دی ’’عوام حکومت کا خاتمہ چاہتی ہے اور اے ڈکٹیٹر ( بشار الاسد) اب تمہاری باری ہے‘‘ اس پر درعا کی پولیس نے ان بچوں کو گرفتار کرلیا اوران کے ساتھ بدترین وحشیانہ سلوک کیا ، جب گھر والوں نے اپنے بچوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تو پولیس افسر نے جواب دیا :’’ واپس چلے جاؤ ، اپنے بچوں کو بھول جاؤ اور دوسرے بچے جنو اور اگر اس کی صلاحیت نہیں ہے تو اپنی عورتوں کو ہمارے پاس بھیج دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اس جواب نے درعا کی باغیرت عوام کے جذبات کو بھڑکا دیا اور جمعہ کے دن 18 مارچ 2011 کو حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کا اعلان کر دیا ۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ احتجاج شام کے دوسرے شہروں حمص ، حماہ ، دمشق ، دیر الزور ، رقہ ، حلب اور ادلب تک پہنچ گیا اور پوری شامی عوام نے پرامن احتجاج کے ذریعے حکومت کے خاتمے اور آزادی کا مطالبہ کردیا ، لیکن بشار الاسد نے اپنی فوج کو پوری قوت کا استعمال کر کے اس عوامی احتجاج کو کچلنے کا حکم دے دیا ۔ فوج نے نہتے شہریوں پر فائرنگ شروع کردی ، نوجوانوں کو گرفتار کیا اور ان پر وحشیانہ ظلم و زیادتی کا آغاز کر دیا ۔
بعض فوجیوں نے عوام پر ہتھیار کے استعمال سے انکار کر دیا اور فوج سے نکل کر عوامی احتجاج کا حصہ بننے لگے ۔ 3 اگست 2011 کو بشار الاسد کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے عوامی تعاون سے ” Free Syrian Army ” کی بنیاد رکھی اور طاقت کا جواب طاقت سے دینے کے لیے مسلح بغاوت کا آغاز کر دیا اور 2011 کے آخر تک ادلب ، حلب ، حماہ ، حمص ، غوطہ اور درعا پر قبضہ کر لیا ۔
علوی بشار الاسد کے ہاتھ سے ملک کی باگ ڈور کو نکلتا دیکھ کر مختلف ملکوں کی شیعہ ملیشیاؤں نے بشار کی مدد کے لیے اپنے لوگوں کو شام بھیجنا شروع کر دیا اور شامی عوام کے ساتھ آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی جسکی تفصیل بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ تاہم ان سب کو شکست دے کر 2013 تک آدھے سے زیادہ شام کے علاقے پر ” FSA ” نے قبضہ کرلیا ، لیکن اچانک 2014 میں داعش کا ظہور ہوا اور اس نے بشار کی فوج کا مقابلہ کرنے کے بجائے "FSA ” کے خلاف مورچہ کھول دیا اور دیر الزور اور رقہ کے علاقے کا کنٹرول حاصل کر لیا ۔
2015 میں ایسا لگ رہا تھا کہ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن اس نے روس سے فوجی مدد مانگی ۔ چنانچہ روس کی فوجی مداخلت نے شام کا نقشہ بدل دیا اور ادلب کے علاوہ وہ تمام شہر جو ” FSA ” کے کنٹرول میں تھے ، اس کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا گیا ، دوسری طرف امریکہ کی مدد سے شامی کردوں کی ” Syrian Democratic Force ” نے داعش کے خلاف مورچہ کھول دیا اور ان تمام شہروں پر قبضہ کر لیا ، جس پر اس کا کنٹرول تھا ۔ ” SDF ” چونکہ ترکی کی نگاہ میں ایک شدت پسند گروپ ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ شام کے کسی علاقے پر اس گروپ کا کنٹرول ہو ۔ لہذا اس نے FSA کی مدد سے SDF کے خلاف شام میں فوجی مداخلت شروع کردی ۔
27 نومبر 2024 تک کی صورت حال یہ تھی کہ شام کے شمال مشرقی علاقے قامشلی ، حسکہ ، رقہ اور دیر الزور پر امریکی تعاون سے SDF کا کنٹرول تھا ، شمالی علاقے ادلب اور حلب کے چھوٹے سے علاقے پر ترکی کے تعاون سے FSA اور مختلف Opposition Groups کا کنٹرول تھا (ان علاقوں کو شام کی عوام آزاد شام کے نام سے پکارتی تھی) اور دمشق ، حمص ، حماہ ، حلب ، سویدا ، لاذقیہ اور طرطوس پر روسی فوج اور مختلف شیعہ ملیشیاؤں کے تعاون سے بشار الاسد کا کنٹرول تھا ۔ لیکن شامی حریت پسندوں کے موجودہ حملے نے اس نقشے کو بدل دیا ہے ۔ تادمِ تحریر قامشلی ، حسکہ ، رقہ اور دیر الزور پر امریکی تعاون سے کرد ملیشیاؤں کا کنٹرول ہے اور باقی شام کے علاقے پر حریت پسند جماعتوں کا کنٹرول ہے ۔
اس جنگ کے نتیجے میں Syrian Network For Human Rights کے مطابق 2,31,495 شہری قتل ہوئے ، 1,57,634 شہری بشار الاسد کی مختلف جیلوں میں قید تھے اور بدترین تعذیب اور تشدد کا شکار تھے ، اور اس کے نتیجے میں 1,5,393 قیدی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اور تقریباً 14 ملین لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ، جس میں سے ایک بڑی تعداد نے ترکی اور مختلف یورپی اور عربی ممالک میں پناہ لی اور ایک بڑی تعداد نے شام ترکی سرحد پر FSA کے کنٹرول شدہ علاقے میں خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور تھی ۔
شام کے وہ علاقے جو حریت پسندوں کے قبضے میں تھے ، اس میں دو اتحاد کی حکومت تھی ، کچھ علاقے پر ’’ ہیئۃ تحریر الشام‘‘ ( HTS ) اور اس سے وابستہ کئی ساری مسلح جماعتوں کی حکومت تھی ، اس حکومت کا نام انہوں نے’’حکومۃ الانقاذ السوریۃ‘‘ رکھا تھا ۔ اور کچھ دوسرے حصے پر FSA اور اس سے وابستہ کئی ساری مسلح جماعتوں کی حکومت تھی اور اس کا نام انہوں نے ’’الحکومۃ السوریۃ المؤقتۃ‘‘ رکھا تھا ۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ وقتا فوقتاً ان دونوں کے درمیان بھی لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں اور آپس میں کشیدگی رہتی تھی ۔
2020 میں شام کے سلسلے میں روس اور ترکی کے درمیان معاہدے کے بعد سے جنگ ختم ہو گئی تھی لیکن اس معاہدے کے باوجود حزب اللہ اور بشار الاسد کی فوجیں وقتا فوقتاً ان علاقوں پر حملے کرتی رہتی تھیں ، جس سے لگاتار ان علاقوں کی عوام موت کا شکار اور زخمی ہوتی رہتی تھیں جسکی وجہ سے حریت پسندوں میں کافی بے چینی رہتی تھی ۔ چنانچہ جب لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا تو حزب اللہ کو شام سے اپنے فوجیوں کو لبنان بلانا پڑا ، دوسری طرف یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کی وجہ سے روس کی فوجی طاقت شام میں برائے نام بچی تھی اور اسی طرح ایران، فلسطین اور لبنان کے معاملے میں الجھا ہوا تھا ، اس سے شام کی فوجی طاقت کافی کمزور ہو گئی تھی اور بشار الاسد عملاً اکیلا رہ گیا تھا ، چنانچہ اس موقعے کو حریت پسندوں نے غنیمت جانا اور خاص طور سے حلب کو فتح کرنے کے لیے تیاریاں شروع کردیں اور اچانک 27 نومبر 2024 کو حلب کی آزادی کے لیے کوچ کرنا شروع کر دیا ، اس اچانک حملے کا بشار الاسد کی فوج مقابلہ نہ کر سکی اور پیٹھ پھیر کر بھاگنا شروع کردیا اور حریت پسندوں نے بلا کسی مقابلے کے حلب کو فتح کر لیا اور پھر شہر در شہر فتح کرتے ہوئے دمشق تک پہنچ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے صرف 12 دنوں میں حلب ، سراقب ، معرۃ النعمان ، خان الشیخون ، حماہ ، حمص ، درعا ، سویدا ، طرطوس ، لاذقیہ اور شام کی راجدھانی دمشق پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ۔
ان فتوحات سے شامی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ، کیونکہ یہ فتح انہیں 13 سال کی مسلسل جد وجہد اور قربانیوں کے بعد ملی ہے ۔ آل اسد کی ان 54 سالہ دور حکومت میں شامی عوام مسلسل ظلم و زیادتی ، گرفتاریاں اور پھر اس کے بعد جیلوں میں مسلسل تعذیب و تشدد اور قتل و غارتگری کو برداشت کرتی رہی ، لیکن آخر کار اللہ تعالٰی نے انہیں اس فتح عظیم سے نوازا اور پہلی بار کھلی فضاؤں میں انہیں سانس لینے کا موقع ملا ، ان کے قیدیوں کو رہائی ملی اور ظالم بشار الاسد اور اس کی فیملی کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا ۔
دنیا کا سب سے خطرناک قید خانہ ’ صیدنایا جیل ‘جو کہ دمشق میں موجود ہے ، جب ان کے قیدیوں کو رہائی کی خوشخبری سنائی گئی تو انہیں یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ، کیونکہ اس جیل میں جانے کے بعد رہائی تقریباً ناممکن ہو جاتی تھی ۔

 

***

 دنیا کا سب سے خطرناک قید خانہ ’ صیدنایا جیل ‘جو کہ دمشق میں موجود ہے ، جب ان کے قیدیوں کو رہائی کی خوشخبری سنائی گئی تو انہیں یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ، کیونکہ اس جیل میں جانے کے بعد رہائی تقریباً ناممکن ہو جاتی تھی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس جیل میں اور شام کی دوسری جیلوں میں بند مرد و خواتین ، نوجوانوں اور بچوں کو رہائی نصیب فرمائی ۔ یہ شام کے لوگوں کے لئے اتنی بڑی فتح ہے کہ اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 دسمبر تا 21 دسمبر 2024