رب سے جڑنے کا سفر۔ایک اصلاحی ناول
کتاب کا نام:رب سے جڑنے کا سفر
مصنفہ:ام ہریرہ
صفحات: 303:
قیمت: 350 روپے
ناشر: دوات پبلیکیشن
مبصر:سہیل بشیر کار، بارہمولہ
ام ہریرہ کی 303 صفحات پر مشتمل کتاب فاطمہ کی ایمان افروز کہانی ہے۔ فاطمہ ایک امیر گھرانے کی لڑکی ہے۔ایسا گھرانہ جہاں بس ظاہری اور رسمی اسلام تھا ۔ فاطمہ خود چنچل اور ضدی قسم کی لڑکی ہے۔ اس کی ملاقات کالج میں قرۃ العین سے ہوتی ہے جو ہمیشہ پردہ میں ہوتی ہے۔پردہ کی وجہ سے اس کے اکثر کلاس فیلو اس کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن اللہ کی یہ بندی کبھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتی۔ فاطمہ کو تجسس ہوتا ہے کہ آخر قرۃ العین میں اس قدر سکون کیسے ہے؟ وہ دیکھتی ہے کہ صبر حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس قرآن پاک کا نسخہ موجود ہے۔ وہ اس کو بطور گائیڈ بک استعمال کرتی رہتی ہے۔ فاطمہ کے لیے قرآن تو محض ثواب کی کتاب تھی لیکن اس کتاب کی چند آیات کا ترجمہ ہی اس کی دنیا بدل دیتا ہے، کالج میں اس کا ایک بوائے فرینڈ سفیان ہوتا ہے۔ فاطمہ آہستہ آہستہ اس کے ساتھ تعلق ختم کرتی ہے اور جواب میں سفیان اس کی تصویروں کو ایڈٹ کرکے اس کو بدنام کرنا شروع کرتا ہے۔
اس واقعے کے بعد فاطمہ کا رب سے جڑنے کا سفر شروع ہوتا ہے۔ اس کے افراد خانہ حتی کہ اس کے والدین بھی اس سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں اور فاطمہ کے لیے کالج کے دروازے بند کیے جاتے ہیں۔ اس سارے سفر میں اگر اس کا کوئی ساتھ دیتا ہے تو وہ قرۃ العین ہے۔ مصنفہ نے اس رشتہ کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے :
’’کتنے پیارے اور انمول ہوتے ہیں نا ایسے لوگ جن کا آپ سے کوئی خون کا رشتہ نہیں ہوتا مگر وہ آپ کے کچھ کہے بغیر، آپ کے چہرے کے بدلتے رنگ سے اپ کی آنکھوں میں ٹھہری نمی سے، آپ کی مسکراہٹ میں چھپے پھیکے پن سے آپ کے دل کی ہے حالت پہچان لیتے ہیں۔ یہ محبت ہی تو ہوتی ہے نا جو دل کو دل سے جوڑ دیتی ہے کہ سامنے والے سے نکلنے والی لہریں آپ کو بتا دیتی ہیں کہ کچھ تو گڑ بڑ ہے۔ فاطمہ خوش قسمت تھی کہ اللہ نے اسے اپنی اتنی پیاری بندی دی تھی۔ ایک لمحے کے لیے اسے اللہ پر بہت پیار آیا کہ بن مانگے اسے قرت جیسی دوست دی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکلے اور اس کے گالوں پر پھسل گئے۔ ‘‘ (صفحہ 40) اس کے بعد فاطمہ کسی طرح اپنے افراد خانہ کو مائل کرتی ہے کہ وہ اسے مدرسہ میں داخل کرائے۔ یہاں مصنفہ نے کالج اور مدرسہ کے ماحول میں فرق کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے، فاطمہ جوں ہی پردہ کرنا شروع کرتی ہے، ایک طوفان برپا ہوتا ہے۔ گھر کا ہر فرد اس سے نالاں تھا لیکن فاطمہ چونکہ رب کے راستے پر چل رہی ہوتی ہے اس کو قدم قدم پر اللہ رب العزت قران کریم کی آیات سے گائیڈ کرتا رہتا ہے اور اس طرح وہ ہر طعنہ برداشت کرتی ہے، اس دوران ان کے بھائی کی شادی ہونے والی ہے لیکن یہاں سب کو پرابلم فاطمہ کے پردہ سے ہے لیکن فاطمہ نے بھی اللہ کا راستہ چن لیا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ اپنی ماں کو بھی اس کے لیے تیار کرتی ہے۔فاطمہ جوں جوں اسلام کی تعلیمات سے آگاہ ہوتی ہے ویسے ویسے اس کے اندر حلم، بردباری آتی ہے اور وہ اپنے کردار اور باتوں سے لوگوں کے دل جیتتی ہے۔
لیکن اب اصل امتحان شروع ہوتا ہے ۔فاطمہ اب بیمار رہنے لگی اور جب اس کی تشخیص ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ فاطمہ کا لیور خراب ہے، اس دوران قرۃ العین کی شادی ایک دین دار لڑکے سے طے پاتی ہے۔ یہاں مصنفہ نے دکھایا ہے کہ جب شادی دو دینداروں کے درمیان ہوتی ہے تو لائف کس قدر پرسکون ہو جاتی ہے، فاطمہ کو علاج معالجہ کے لیے اس کے والدین کینیڈا لے جاتے ہیں، دوران علاج معالجہ فاطمہ کس طرح صبر کرتی ہے کہ ہر ایک متاثر ہوتا ہے، فاطمہ کی سرجری ہو جاتی ہے۔ اب 21 دن اس ریسٹ کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران وہ غیر مسلموں کے لیے ایک خوبصورت پمفلٹ لکھتی ہیں اور طبیعت تھوڑی بہتر ہونے کے بعد اس پمفلٹ کو چھپوا کر غیر مسلموں میں تقسیم کرنا شروع کرتی ہے لیکن اچانک فاطمہ کی طبیعت دوبارہ بگڑ جاتی ہے، وہ درد سے گزر جاتی ہے لیکن اللہ کی یہ بندی ہر غم سہ جاتی ہے بالآخر اس کی موت واقع ہوجاتی ہے، لیکن اس دوران وہ اپنے نقوش چھوڑ جاتی ہے۔ مصنفہ لکھتی ہیں کہ رب سے جڑنے کے سفر کا آغاز بظاہر کتنا ہی کھٹن اور اذیت ناک کیوں نہ ہو مگر اختتام بہت حسین ہوا کرتا ہے! رب سے جڑنے کے اس حسین سفر کی حسین ترین منزل، رب سے ملاقات ہی ہوتی ہے، اس حال میں ملاقات۔۔۔۔ کہ بندہ بھی راضی۔۔۔۔ اور رب بھی راضی۔ مصنفہ یہ دکھانے میں کامیاب رہی ہے کہ فاطمہ کا رب سے جڑنے کا سفر ایسا تھا کہ وہ اللہ سے راضی اور بظاہر رب بھی اس سے راضی تھے۔
دیکھنے میں یہ عام سی کہانی لگتی ہے لیکن اس کہانی میں مصنفہ نے ایسی باتیں لکھی ہیں جسے پڑھ کر قاری کو سکون قلب ملتا ہے۔ حقیقی سکون، کہانی پڑھتے پڑھتے مصنفہ بڑی پیاری باتیں سکھاتی ہے، ہم سب ہدایت کے طالب ہوتے ہیں۔ لکھتی ہیں: "فاطمہ تمہیں پتہ ہے یہ ہدایت ایسی چیز ہے جس کے لیے جب تک تم تڑپ نہیں دکھاؤ گی وہ نہیں ملے گی۔ تم اللہ کے آگے سجدوں میں گڑ گڑاؤ کہ اللہ مجھے ہدایت دے، مجھے اپنی محبت کے لیے چن لے۔ اللہ کو دکھاؤ اپنی تڑپ‘‘(صفحہ 8) اللہ رب العزت کے ساتھ تعلق کے حوالے سے لکھتی ہیں:’’ فاطمہ دیکھو نماز فرض ہے، یہ ہماری روح کی ضرورت ہے مگر صرف نماز پڑھنا کافی نہیں ہے۔ تم خود بتاؤ ہم سارا دن صرف کھانا کھائیں لیکن پانی نہ پئیں، کیا اس سے ہماری ضرورت پوری ہو گی؟ فاطمہ نے نفی میں سر ہلایا۔ بالکل اسی طرح ہمارے لیے نماز کے ساتھ اور بھی بہت سے کام ہیں جو ہماری روح کی ضرورت پوری کریں گے۔ نماز میں تم اللہ سے سرگوشی کرتی ہو مگر کیا تمہیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تم سے کیا چاہتا ہے؟ فاطمہ نے پھر سے اداسی کے ساتھ سر نفی میں ہلا دیا، یہی وجہ ہے۔ کوئی بھی تعلق تب تک فائدہ مند نہیں جب تک یک طرفہ ہو۔ تمہیں اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنا ہے تو سب سے پہلے خود پر کام کرنا ہوگا“ (صفحہ 21) سکون دل کا تعلق نظروں کی پاکیزگی کے ساتھ ہے۔ لکھتی ہیں :’’اسی لیے کہ ہمارے دل کا سکون ہمارے اختیار میں رہے۔ دل اللہ کے ہاتھ میں ضرور ہیں مگر اس معاملے میں ہم اتنے بے بس بھی نہیں ہیں۔ نظروں کی حفاظت سب سے پہلا عمل ہے جس سے انسان یا تو دل کا سکون بچا سکتا ہے یا اسے برباد کر سکتا ہے۔ اس لیے پہلے تو اس بات کو مائنڈ سے نکالو کہ تمہارا خود پر کوئی اختیار نہیں ہے۔“(صفحہ 28) حقیقی سکون کیسے ملتا ہے مصنفہ لکھتی ہیں: "وہ اکثر لیٹے لیٹے اللہ کے متعلق سوچ کر آنسو بہانے لگتی۔ انسان جب باہر کی دنیا سے بے زار ہو کر تھک جاتا ہے نا پھر اس کی روح اسے اپنے خالق کی طرف کھینچتی ہے، تب اندر ایک بے چینی سی پیدا ہو جاتی ہے کہ انسان کسی طرح اس رب کے قریب ہو جائے ۔ پھر اسے کہیں اور سکون نہیں ملتا۔ مگر بہت سے لوگ خود کو اس دھوکے کی دنیا سے بے زار نہیں ہونے دیتے۔ ہر وقت خود کو انٹرٹینمنٹ میں مشغول رکھتے ہیں۔ ایک سے نکلے تو دوسرے میں بس ہر چیز میں شغل اور بس شغل کبھی شاپنگ، کبھی پارٹیز، کبھی پکنکس تو کبھی انٹرنیٹ پر آوارہ گردی، غرض شیطان نے ڈھیروں رستے بجھا دیے ہیں کہ انسان کسی طرح وہ اپنے اندر کی آواز سے، روح کی بے چینی سے غافل ہو کر اس کی طرف توجہ ہی نہ کرے اور اب تو ایسا ہی ہو رہا تھا کہ انسان چلتی پھرتی لاش بن چکا تھا، جس جسم کو مٹی میں مل جانا تھا اسے سنوارنے بنانے میں لگا تھا اور جس روح نے رب کے پاس جانا تھا وہ خواہ کتنی ہی گندی ہو، اس کی پروا نہیں تھی‘‘(صفحہ 45) رب العزت سے جڑنے کے سفر میں جو چیز مانع ہوتی ہے وہ ہے تکبر مصنفہ لکھتی ہیں:’’ ہاں!یہ تکبر شیطان کی طرف سے ہوتا ہے نا اسی لیے انسان اندر سے جلائے رکھتا ہے۔ تکبر کرنے والا کبھی پر سکون نہیں ہوسکتا‘‘۔
چہرہ کے پردہ کے بارے میں قرن اول سے اختلاف رہا ہے۔ مصنف نے اس ناول میں چہرہ کے پردے کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ میرے نزدیک ناول میں نہیں ہونا چاہیے۔ کل ملا کر یہ کتاب اس روح کے لیے باعثِ تسکین ہے جو رب سے جڑنا چاہتی ہے۔ یہ کتاب صبر سکھاتی ہے، اس سے اللہ کے راستے پر چلنا آسان لگتا ہے اور بندہ کو پرسکون زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ کتاب ’دوات پبلیکیشن‘ اورنگ آباد مہاراشٹر نے شائع کی ہے۔ کتاب کی قیمت 350 روپے ہے جو کہ مناسب ہے۔
کتاب وہاٹس ایپ نمبر 9960778991سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
مبصر سے رابطہ : 9906653927
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 فروری تا 11 فروری 2023