رات کی معیشت :مثبت اور منفی پہلو بیک نظر

جی ڈی پی میں اضافہ ممکن لیکن صحت و ماحولیات پر منفی اثرات پڑسکتے ہیں

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

یہ بات عام ہے کہ شہر کبھی سوتا نہیں ہے یعنی بڑے شہر ہمیشہ جاگتے رہتے ہیں۔ وہاں لوگ کسی نہ کسی حیثیت میں مصروف رہتے ہیں، خاص طور پر آئی ٹی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد رات کے وقت بھی کام کرتے ہیں، کیونکہ وہ دیگر ممالک کے پروجیکٹ کرتے ہیں اور چونکہ وہاں دن ہوتا ہے اور یہاں رات تو اس مناسبت سے نائٹ شفٹ کا کام ہوتا ہے۔ پھر اسی طرح ہوٹلیں ہوں یا نائٹ کلبس، ہسپتال ہوں کے کھیل کود کے میدان، راتوں کے اوقات میں اپنی کارکردگی انجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شہروں کی یہ صورت حال نہ صرف ہمارے ہی ملک میں پائی جاتی ہے بلکہ دنیا کے ہر بڑے شہر کا کم و بیش یہی حال ہے، چاہے وہ امریکی شہر نیویارک ہو یا آسٹریلیا کا شہر سڈنی ہو، یا پھر دلی ہو کہ بنگلورو، ممبئی ہو کہ کولکاتہ غرض دنیا کا ہر بڑا شہر رات کو جاگتا ہے۔ یہ رات کو جاگنے والے شہر اپنے ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اسی لیے اس کو رات کے وقت کی معیشت سے تعبیر کیا جانے لگا ہے اور بڑے شہروں میں اس معیشت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسرو انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے مطابق ہمارے ملک کے بڑے شہروں میں بھی رات کے وقت روشنی کے استعمال یعنی ’’لیمنوسٹی‘‘ میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے وقت معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا کے بڑے شہر جیسے سڈنی، برلن، بیجنگ، لندن اور بھی دیگر بڑے شہروں میں رات کے وقت کی معیشت کا حساب دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان شہروں میں جملہ روزگار کا ایک تہائی حصہ ہے، یعنی حصول روزگار کا ایک بڑا حصہ رات کے وقت کی معاشی سرگرمیوں سے پورا ہوتا ہے۔ پھر اسی طرح سے اگر ان بڑے شہروں کے ممالک کی جی ڈی پی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ بڑے شہر اپنے ملک کی جی ڈی پی میں تقریباً دس فیصد حصہ ادا کر رہے ہیں۔
اب ہمارے ملک میں بھی شہری طرزِ زندگی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ لوگ دیہات اور قریوں سے بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں، بڑے شہروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جہاں بڑے شہر ہوں گے وہاں معاشی سرگرمیاں زیادہ ہوں گی۔ آپ دیکھیں گے کہ گاوؤں کے مقابلے شہروں میں معاشی سرگرمیاں زیادہ ہوتی ہیں، اسی لیے عوام بھی شہری طرزِ زندگی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایک دور تھا جب شہری طرزِ زندگی کو منفی رجحان کے طور پر دیکھا جاتا تھا، شہر کاری کی مخالفت کی جاتی تھی، لیکن ماضی قریب میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ شہری طرزِ زندگی کو فخریہ اور با عزت زندگی کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے، اور عوام میں بھی یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ شہری زندگی میں خوشی حالی زیادہ ہے، سہولتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ انہیں یہ یقین ہو چلا ہے کہ شہری زندگی زیادہ بہتر ہوتی ہے برعکس گاؤں کی زندگی کے، یہی وجہ ہے کہ لوگ شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ حکومت نے بھی شہر کاری کو فروغ دیا ہے۔ حکومتوں کی ساری توجہ بڑے شہروں کو فروغ دینے پر ہے۔ یہ رجحان دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔ اگر ہمارے ملک کی مثال لیں تو پتہ چلتا ہے کہ شہروں والی ریاستیں معاشی ترقی میں آگے ہیں، برعکس اس ریاست کے جہاں شہر کم ہیں۔ یہ فرق عالمی سطح پر پائے جانے والے فرق سے کہیں زیادہ ہے، ہمارے ملک میں سب سے زیادہ شہر والی ریاست تمل ناڈو ہے، یہاں عوام شہروں میں زیادہ آباد ہیں، وہیں سب سے کم شہروں والی ریاست بہار ہے۔ بہار میں بڑے شہر کم پائے جاتے ہیں۔ ان ریاستوں کا موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ تمل ناڈو کی فی کس آمدنی ریاست بہار کی فی کس آمدنی سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ ریاستوں میں پایا جانے والا یہ فرق ترقی یافتہ ممالک میں کم ہے، جب کہ ہمارے ملک میں یہ فرق بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر امریکی ریاست ’میساچوسٹس‘ کو دیکھ لیجیے یہ ریاست امریکہ کی دولت مند ریاست ہے اس کی فی کس آمدنی ریاست مسیسیپی جو امریکہ کی غریب ریاست ہے اس کی فی کس آمدنی سے صرف دو گنا زیادہ ہے، یعنی امیر ترین ریاست اور غریب ریاست میں فی کس آمدنی کا فرق بہت کم ہے، جبکہ ہمارے ملک میں زیادہ شہروں والی ریاستوں میں اور کم شہروں والی ریاستوں میں فی کس آمدنی کا فرق بہت زیادہ ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شہر ملک کی معیشت میں زیادہ کردار ادا کرتے ہیں، اور شہروں میں رات کے وقت کی معاشی سرگرمیاں معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ماہرین کا خیال بھی یہی ہے کہ رات کے وقت کی معاشی سرگرمیاں جتنی زیادہ ہوں گی اتنی معاشی ترقی زیادہ ہوگی۔
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کی معیشت کا مجموعی حجم تین کھرب ڈالر تین لاکھ کروڑ ڈالر ہے۔ اس میں دس بڑے شہروں کا حصہ پانچ سو بلین ڈالر ہے، یعنی ملک کو پچاس ہزار کروڑ ڈالرز کی آمدنی دس بڑے شہروں سے ہوتی ہے، ملک کی جملہ آمدنی کا 1/6 حصہ انہیں دس بڑے شہروں سے ہوتا ہے۔ سوچیے کہ ملک کی معیشت میں شہر کتنا بڑا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ملک کے بڑے شہروں میں رات کے وقت کی معاشی سرگرمیوں کو مزید فروغ دیا جائے تو ملک کو کم از کم تیس بلین ڈالر یعنی تین ہزار کروڑ ڈالر کی آمدنی ہوگی۔ اس طرح ملک کی جی ڈی پی میں دس فیصد کا اضافہ ہو گا اور روزگار میں بھی اضافہ ہوگا اور امکان ہے کہ یہ اضافہ تقریباً پچیس تا تیس فیصد تک ہوگا۔ شہروں میں روزگار کے مواقع، شاپنگ مالز، ہوٹلس، سینما گھروں کو دیر رات تک کھلی رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوں گے۔ آئی ٹی شعبہ کی وجہ سے سڑکوں کے کنارے کھانے پینے کی اشیاء کی فروخت بھی ہوں گی جس سے خود روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ رات کے وقت کی معاشی سرگرمیاں یقینی طور پر روزگار میں اضافہ کرے گی۔ اس وقت ہمارے شہر عالمی معیشت کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، مثال کے طور پر کال سنٹرز قائم ہو رہے ہیں، بی پی او بزنس پروسیس آؤٹ سورسنگ پر کام ہو رہا ہے، کے وی پی او نالیج پروسیس آؤٹ سورسنگ کے مراکز قائم ہو رہے ہیں، بین الاقوامی ڈیٹا سنٹر قائم ہو رہے ہیں، مزید آئی ٹی شعبے قائم ہو رہے ہیں، ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے مراکز قائم کر رہی ہیں، اسی سے مون لائٹنگ کا تصور بھی چل پڑا ہے یعنی دن کے وقت ایک کمپنی میں ملازمت اور رات کے وقت دوسری کمپنی میں ملازمت۔ پھر اسی سے گیگ معیشت میں بھی اضافہ ہوا ہے، یعنی ایک کمپنی کام کرتے ہوئے کسی چیز کی ترسیل کا کام وغیرہ، مشترکہ دفاتر، مشترکہ طور پر سفر یعنی دو افراد کو کسی ایک ہی مقام جانا ہو تو ایک ہی گاڑی پر جانا۔ ایک دفتر میں دو کمپنیوں کے الگ الگ دفاتر رکھنا وغیرہ نئے طریقے ایجاد ہو رہے ہیں، اور ان پر کام بھی ہو رہا ہے۔ پھر اسی طرح دن میں ملازمت کرنے کے بعد رات کو اپنے شوق پورے کرنا کا ایک نیا رواج پروان چڑھ رہا ہے۔ یہ ساری کی ساری معاشی سرگرمیاں ہی ہیں، ان کو مثبت انداز میں لے کر اپنی معیشت کو استحکام بخشا جا سکتا ہے۔
رات کے وقت کی معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنے سے متعلق ایک اور پہلو بھی یہاں غور طلب ہے وہ یہ کہ بڑے شہروں میں جو انفراسٹرکچر تعمیر ہو رہا ہے اس کا استعمال بھی بڑھے گا، مثال کے طور پر اگر کسی شہر میں میٹرو ریل یا کوئی فلائی اوور بنا ہوا ہے اس کا تعمیری خرچ تو ہوا ہوگا، جو بھی تعمیری خرچ ہے اس کا فائدہ اب صرف بارہ گھنٹے ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ فرض کیجیے کہ اگر اس کا استعمال چوبیس گھنٹے ہوتا ہے تو اس کے استعمال کی کثافت بڑھنے سے فی کس خرچ کم ہو جائے گا۔ اگر میٹرو ریل رات میں بھی چلتی ہے تو آمدنی کی شرح میں اضافہ ہوگا اور جو سرمایہ کاری کی گئی ہے اسی مقدار سے اس میں منافع حاصل ہوگا۔
لیکن رات میں معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنے میں بڑے چیلنجز بھی ہیں ان کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پہلی بات یہ کہ ذرائع حمل و نقل کی سہولتیں ہونی چاہئیں۔ دوسرے ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے خاص طور پر خواتین کا تحفظ ہو۔ تیسرے نظم و ضبط مضبوط ہونا چاہیے ورنہ غیر سماجی عناصر ان کا استحصال کرسکتے ہیں اور سماج میں بد امنی پھیلا سکتے ہیں، کیوں کہ اکثر جرائم راتوں کو ہی انجام دیے جاتے ہیں۔ چوتھی بات سڑکوں پر روشنی کا اچھا انتظام ہونا چاہیے۔ پانچویں بات اشیائے خوردونوش کا حصول آسان ہونا چاہیے، اور چھٹی سب اہم بات یہ کہ جو لوگ رات کے اوقات میں کام کرتے ہیں ان کی صحت کا خیال بھی ہو۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ رات میں کام کرنے سے ان صحت پر منفی اثرات تو مرتب نہیں ہو رہے ہیں؟ تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ طبعی اوقات یعنی (دن میں کام اور رات کو آرام) اگر اس سے مختلف کام کیا جاتا ہے تو انسانی زندگی پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونا لازمی ہیں۔ جب انسان طبعی اوقات کے خلاف کام کرتا ہے تو اسے ذیابطیس، بلند فشار خون، نیند کی کمی اور دیگر مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے، اس کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ ایک طرف رات کے اوقات میں معاشی سرگرمیوں سے معیشت میں استحکام تو پیدا ہوتا ہے لیکن وہیں ان سرگرمیوں سے انسانی صحت پر مضر اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ ساتویں چیز، ملازمین کے استحصال کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ ذہنیت کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ ملازمین کا جتنا استحصال کیا جاسکتا ہے کیا جائے، وہ ملازمین کو آٹھ گھنٹوں سے بڑھ کر سولہ گھنٹے بھی کام کرواسکتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔آٹھویں بات یہ ہے کہ فضائی آلودگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ رات کے اوقات میں سڑکوں پر گاڑیوں کی آمد ورفت سے فضائی آلودگی بڑھے گی، اسی طرح صوتی آلودگی میں بھی اضافہ ہوگا، بجلی اور توانائی کا زیادہ استعمال ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنے گا۔ جب تک ان باتوں کا تشفی بخش جواب نہیں مل جاتا اس وقت تک رات کے وقت کی معاشی سرگرمیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اگر رات کی معیشت سے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہو تو ایسی سرگرمیوں کا کوئی فائدہ نہیں۔
***

 

***

 رات میں معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنے میں بڑے چیلنجز بھی ہیں ان کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پہلی بات یہ کہ ذرائع حمل و نقل کی سہولتیں ہونی چاہئیں۔ دوسرے ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے خاص طور پر خواتین کا تحفظ ہو۔ تیسرے نظم و ضبط مضبوط ہونا چاہیے ورنہ غیر سماجی عناصر ان کا استحصال کرسکتے ہیں اور سماج میں بد امنی پھیلا سکتے ہیں، کیوں کہ اکثر جرائم راتوں کو ہی انجام دیے جاتے ہیں۔ چوتھی بات سڑکوں پر روشنی کا اچھا انتظام ہونا چاہیے۔ پانچویں بات اشیائے خوردونوش کا حصول آسان ہونا چاہیے، اور چھٹی سب اہم بات یہ کہ جو لوگ رات کے اوقات میں کام کرتے ہیں ان کی صحت کا خیال بھی ہو۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ رات میں کام کرنے سے ان صحت پر منفی اثرات تو مرتب نہیں ہو رہے ہیں؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 فروری تا 04 مارچ 2023