رام مندر کا افتتاح سیکولر بھارت کا زوال

ایک سنگین منصوبہ بند جرم کو ‘ہندوفخر’ کی علامت باورکرانے کی کوشش!

نور اللہ جاوید، کولکاتا

ظلم وناانصافی سے حاصل کردہ زمین پربنائی گئی عمارت سے کیا تقدس کا مصنوعی احساس پیدا کیا جاسکتا ہے؟
مسلم مخالف اشتعال انگیزی کا مقابلہ صبروحکمت سے ہی ممکن۔ انصاف پسند برادران وطن کے ساتھ مل کر ماحول کو سازگار بنانے کی ضرورت
2024 کی شروعات ایک ایسے ماحول میں ہو رہی ہے جہاں صرف ایک ہی خبر موضوع بحث ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ ٹی وی نیوز چینلوں سے لے کر اخبارات اور سوشل میڈیا تک اس ایک خبر کو مختلف پہلوؤں سے شائع اور نشر کیا جا رہا ہے۔ رام مندر، ایودھیا، وزیر اعظم کی شرکت، سیاسی جماعتوں کو دعوت، سیاسی لیڈروں کا رد عمل، ایودھیا کا ہوائی اڈہ، ایودھیا کا ریلوے اسٹیشن، ہر گھر دیوالی منانے کا اعلان اور مسلمانوں سے بھی شامل ہونے کی اپیل جیسی خبریں ہرطرف چھائی ہوئی ہیں۔دوسری جانب شدت پسند ہندو لیڈر مسلمانوں سے مزید مساجد چھیننے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ نومبر 2019 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کورونا وبا کے دوران اگست 2020 میں رام مندر کے سنگ بنیاد سے لے کر اس کے افتتاح تک گزشتہ تین سالوں میں رام مندر کی تعمیر اور ایودھیا کی تزئین و آرائش میں حکومت کی جس طریقے سے شرکت ہو رہی ہے اس نے ملک اور آئین کے سامنے کئی چیلنجز کھڑے کردیے ہیں۔ مذہبی تقریب میں وزیر اعظم کو شرکت کرنا چاہیے یا نہیں؟ یہ سوال اب بہت چھوٹا ہوچکا ہے۔اب تو کئی اہم سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ مگر المیہ ہے کہ یہ سوال بھی غائب ہوتے جارہے ہیں جنہیں کوئی نہیں پوچھ رہا ہے۔ یہ سوالات پوچھنا جن کی ذمہ داری تھی وہ ایودھیا ریلوے اسٹیشن کی خوبصورتی اور تزئین کاری کی خبریں کوریج کرنے میں مشغول ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے ہندوؤں میں جس طریقے سے مسلم دشمنی کو فروغ دے کر مسلمانوں کو خوف زدہ کیا جارہا اور اس کام میں جس طرح سے حکومتی مشنریاں لگی ہوئی ہیں کیا اس سے ملک آئینی ڈھانچہ کی بنیاد پر استوار رہے گا یا پھر ہندوؤں کی منشا اور خواہش کے تابع رہے گا۔
نومبر 2019 میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اگرچہ بنچ کا متفقہ فیصلہ تھا مگر ملک کے سینئر قانون داں اور ماہرین یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ثبوتوں اور شواہد کی بنیاد پر نہیں بلکہ ہندوؤں کے جذبات کے احترام میں سنایا گیا تھا۔ مقدمہ ملکیت کا تھا۔سوال یہ تھا کہ بابری مسجد قانونی تھی یا غیر قانونی۔ کیا مندر توڑ کر بابری مسجد بنائی گئی تھی۔ سالہا سال کی طویل سماعت کے بعد سپریم کورٹ اس نتیجے پر پہنچی کہ بابری مسجد اس جگہ پر 500 سال سے زیادہ عرصے سے کھڑی ہے، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مسجد کسی مندر کو گرا کر تعمیر کی گئی ہے اور مسلمان 1949 تک تسلسل کے ساتھ اس میں نماز پڑھتے آئے ہیں۔جہاں تک سوال دسمبر 1949میں بابری مسجد کے اندرونی حصے میں رام کی مورتی کی برآمدگی کا ہے تو بابری مسجد کی شہادت کے واقعے کی جانچ کے لیے قائم کردہ لبرہن کمیشن نے کئی سالوں کی جانچ اور تحقیق کے بعد واضح کیا کہ بابری مسجد میں کوئی بھی مورتی نمودار نہیں ہوئی ہے بلکہ دسمبر 1949کی نصف رات کو چند شرپسند عناصر نے مقامی پولیس انتظامیہ کی مدد سے مسجد میں داخل ہوکر مورتی رکھی تھی۔ کمیشن نے اس جرم میں ملوث کئی افراد کی نشان دہی بھی کی ہے۔ خود سپریم کورٹ نے اس کو تسلیم کیا کہ مسجد میں مورتی رکھنا سنگین جرم تھا۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ 6 دسمبر 1992 کو مسجد کو منہدم کرنا ایک سنگین جرم تھا۔ ان حقائق کے باوجود سپریم کورٹ نے مسجد کے حق میں فیصلہ دینے کے بجائے اتفاق رائے سے مندر کی تعمیر کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
آزاد بھارت میں عدالتوں میں حق و انصاف کے خون کی طویل تاریخ ہے۔بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ نوآبادیاتی دور کا ہی تسلسل ہے جو ابھی تک جاری ہے۔ اس ملک میں انصاف کا حصول آسان نہیں ہے۔ بابری مسجد کی ملکیت کے معاملہ میں سپریم کورٹ کی بنچ نے اپنے فیصلے میں حقائق و شواہد کو بری طرح نظر انداز کرکے ہندوؤں کے جذبات وامنگوں کو ملحوظ رکھا ہے۔ یہ فیصلہ اس لحاظ سے بھی نادر ہے کہ اسے لکھنے والے کسی جج نے اپنا نام درج نہیں کیا حالانکہ سپریم کورٹ کی روایت رہی ہے کہ فیصلہ لکھنے والے جج صاحبان فیصلوں میں اپنا نام ررج کرتے ہیں۔فیصلے سے اتفاق کرنے والے بنچ میں شامل دیگر جج صاحبان واضح کرتے ہیں کہ انہوں نے اس فیصلے کی تائید کی ہے۔چیف جسٹس آف انڈیا چندر چوڑ، جو بابری مسجد ملکیت کا فیصلہ سنانے والی بنچ کا حصہ تھے، چاہے اس کی کچھ بھی وضاحت کریں مگرحقیقت یہ ہے کہ کسی رکن نے اس میں شامل عدالتی چالوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی ہمت نہیں کی۔ فیصلہ لکھنے والے جج صاحبان کا اپنا نام نہ لکھنا انکساری اور عاجزی نہیں تھی بلکہ کوئی جج نہیں چاہتا تھا کہ اس فیصلے کے مصنف کے طور پر اسے یاد رکھا جائے، کیوں کہ اس فیصلے نے عدالتی اخلاقیات اور انصاف کے ہر تقاضے اور ثبوت و شواہد کا قتل کیا تھا۔ 80 کی دہائی رام جنم بھومی کی تحریک کوئی مندر کی بازیافت کی تحریک نہیں تھی بلکہ اس تحریک کی قیادت کرنے والے لال کرشن اڈوانی خود اس کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ان کی پوری تحریک سیاسی تھی اور سیاسی مقاصد کے تحت ہی خونی رتھ یاترا نکالی گئی تاکہ منڈل کی سفارش کے تحت ملک بھر میں ناانصافی اور طبقاتی مظالم کے شکار افراد میں حق لینے کا جو شعور اور بیداری پیدا ہوئی ہے اس کا رخ موڑ دیا جائے۔ رام جنم بھومی کی پوری تحریک قتل وغارت گری اور فرقہ وارانہ فسادات سے بھری ہوئی ہے۔ چنانچہ اس وقت بھی رام مندر کے افتتاح کو لے کر جو ہنگامہ برپا ہے اس کے بھی سیاسی مقاصد ہیں۔ مندر کے افتتاح کے لیے وقت کا انتخاب، گھر گھر جاکر دیوالی منانے کی اپیل، ہندو فخر کے احساسات کو پیدا کرنے کی کوشش اور میڈیا کے تعاون سے ہائپر نیشنلزم اور ہندوؤں میں مسلمانوں سے بدلہ لینے کے احساسات کو تقویت دینے کا صرف ایک مقصد ہے، اور وہ ہے ہندوتو کی اقتدار پر گرفت کو مضبوط کرنا۔ اقتدار اور اکثریتی بالادستی کے علاوہ اس کا دوسرا کوئی مقصد نہیں ہے۔جہاں تک رام مندر کے تقدس اور روحانیت کا سوال ہے تو معروف دانشور اور ہندوتو کے سخت ناقدوں میں ایک پروفیسر اپوروانند یہ سوال کھڑا کرتے ہیں ’’کیا جرم، بزدلی اور چالاکی سے حاصل کی گئی زمین کے ٹکڑے پر واقعی کوئی مقدس احساس پیدا ہو سکتا ہے؟ یقیناً یہ ناممکن ہے کہ رام مندر جس کا 22 جنوری 2024 کو افتتاح ہونے جا رہا ہے ان شیطانی انسانی حرکتوں کی یاد دہانی کراتا ہے تو جو اس کی تعمیر کا باعث بنے ہیں۔ یہ یقینی طور پر ایسی جگہ نہیں ہے جو ایک عقیدت مند کو روحانی سکون دے سکے۔ یہ مندر منصوبہ بند جرم کا گواہ ہے۔ ایک ایسا جرم جس میں ریاست کے تقریباً تمام اداروں نے حصہ لیا یا تعاون کیا۔ 9 نومبر 2019 تک ایک امید تھی کہ شاید بھارت 6 دسمبر 1992 کو ہونے والی ناانصافی کو تسلیم کر لے گا لیکن 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے انصاف کی اس امید کو توڑ دیا اور ایودھیا ناانصافی کی علامت بن گیا‘‘۔
پروفیسر اپوروانند رام مندر کی تحریک کے سیاسی اور ملک کی سیکولر سیاسی جماعتوں بشمول کانگریس کی رام مندر کے افتتاحی تقریب میں شرکت کو لے کر ہچکچاہٹ کے سوال پر کہتے ہیں ’’ ٹویوٹا ٹرک جس کے ساتھ اڈوانی نے اپنا ناپاک سفر شروع کیا تھا اس نے شمالی ہندوستان میں خون کی ہولی کو جنم دیا۔ اس ساری مہم میں جو خون بہایا گیا اس کا آج تک کوئی حساب نہیں ہوا۔ اس کا ذمہ دار کون تھا؟ رام نہیں بلکہ بی جے پی، جس کے لیے رام محض سیاسی طور پر فائدہ مند نام تھا۔اس بار بھی رام صرف ایک ذریعہ ہے۔ ایودھیا میں اس تازہ ترین رام مندر یگیہ کے مرکزی یجمن یا مرکزی ہوٹا کے طور پر ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا گیا ہے جس کی زندگی جھوٹے الفاظ، جھوٹے طرز عمل، نفرت اور تشدد کی تشہیر کی بنیاد پر تعمیر ہوئی ہے۔ یہ یگیا کس مقدس جذبے کو جنم دے گا؟ جو بھی اس یگیہ میں حصہ لیتا ہے، جو ان لوگوں کے ذریعہ منعقد کیا جاتا ہے جن کے لیے رام ایک آلہ کار ہے اور اس کی صدارت ایک ایسا آدمی کرتا ہے جو پیتھولوجیکل جھوٹا ہے، جھوٹ اور تشدد کو جائز قرار دیتا ہے۔جہاں مندر بنایا گیا ہے اس زمین کو جھوٹ، فریب، تشدد اور بزدلی سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے جس کے ساتھ اسے بالآخر حاصل کیا گیا تھا۔ کیا اب کسی سیاسی جماعت میں یہ کہنے کی ہمت ہے؟ بھارت کو اجتماعی توبہ کا قومی دن منانے کی ضرورت ہے۔ کانگریس کی بزدلی کے بغیر یہ مندر نہیں بن سکتا تھا۔ کانگریس کے کئی سینئر لیڈران صحیح دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے بغیر یہ مندر ممکن نہیں تھا۔ لیکن یہ فخر کی نہیں بلکہ شرم کی بات ہے۔کانگریس کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 15 اگست 1947 کو بے معنی بنانے کی سازش اسی لمحے سے شروع ہو گئی تھی۔ اب 22 جنوری 2024 کا 15 اگست 1947 سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ کیا کانگریس یہ سمجھ سکتی ہے کہ فرقہ وارانہ فریب اور تشدد کا مقابلہ کرنے میں اس کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے ہی ملک اس حال میں پہنچا ہے۔رام مندر کے افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت کو کیا وہ یہ کہہ کر مسترد کرسکتی ہے کہ گاندھی اور نہرو کی پارٹی کے لیے یہ خود احتسابی کا لمحہ ہے۔ کانگریس میں یہ کہنے کی ہمت ہونی چاہیے کہ 1949 اور 1992 میں بابری مسجد کے حوالے سے کیے گئے جرائم کی سزا نہ دینے کا خمیازہ بھارت اب بھی بھگت رہا ہے۔
سی پی آئی ایم کو چھوڑ کر ملک کی دیگر تمام سیاسی جماعتیں جنہیں شرکت کی دعوت ملی ہے وہ سب پولرائزیشن اور سیاسی نفع و نقصان کی وجہ سے سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے رام مندر کے استعمال کرنے کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا یہ نظریاتی بحران سیکولر بھارت کے زوال کی کہانی بیان کرتا ہے۔ سیاسی مفادات اور مقاصد کے لیے مذہب کے استعمال کے خلاف آواز بلند کرنے سے نہ صرف سیاسی جماعتیں بلکہ سول سوسائٹی کی وہ آوازیں بھی خاموش ہیں جو بی جے پی کی سخت نظریاتی مخالف رہی ہیں، جبکہ بی جے پی اور آر ایس ایس ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کا استعمال ایک جامع اور سیکولر ثقافت کو کمزور کرنے کے لیے کر رہے ہیں جسے اس ملک نے صدیوں سے دیکھا ہے۔بی جے پی اور اس کی مادر تنظیم آر ایس ایس اس موقع کا استعمال سیکولرازم کے ہر ٹکڑے کو منہدم کرنے، ملک کے مندروں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے، اقتدار پر آمرانہ کنٹرول کو سخت کرنے اور ملک گیر ہسٹریا پیدا کرنے کے لیے کر رہی ہے۔بی جے پی اور آر ایس ایس کا یہ احساسِ جرم ہی ہے کہ اس نے ایودھیا کے جشن میں مسلمانوں کو شامل کرنے کی مہم شروع کردی ہے۔یہ جانتے ہوئے کہ اس ملک کے مسلمانوں نے صبر و تحمل کے ساتھ بابری مسجد کی ملکیت اور اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور قانونی لڑائیاں لڑیں۔ سپریم کورٹ کے ناگوار فیصلے کے باوجود مسلمانوں نے اسے خاموشی کے ساتھ قبول کر لیا۔ دہلی میں جامع مسجد، حضرت نظام الدین اولیا کے مزار کو 22 نومبر کو چراغاں کرنے کی اپیل کی جارہی ہے۔ آر ایس ایس نے اپنی ونگ مسلم راشٹریہ منچ کو ایودھیا میں مسلمانوں کو لانے کی مہم سپرد کی ہے۔ دراصل بی جے پی کا یہ احساسِ جرم ہی ہے جو وہ دنیا کو پیغام دینا چاہتی ہے کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے جشن میں بھارت کے مسلمان بھی شامل ہیں۔دوسری طرف مسلمانوں کو ڈرایا اور دھمکایا بھی جا رہا ہے۔ ایسے میں اگر مسلم تنظیمیں خدشات کا اظہا کر رہی ہیں تو اس میں کوئی غلط نہیں ہے۔ مسلم تنظیموں جماعت اسلامی ہند، جمعیۃ علمائے ہند، جمعیۃ اہل حدیث اور امارت شرعیہ بہار کے قائدین نے جہاں مسلمانوں سے صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے وہیں کہا ہے کہ رام مندرکے افتتاح میں حکومت کی شراکت داری، ہائپر نیشنلزم کے ذریعہ مسلمانوں کو ایودھیا کے جشن میں شامل ہونے پر مجبور کیا جانا نہ صرف آئین و قانون مخالف ہے بلکہ سیاسی مقاصد کی خاطر ملک کی سلامتی اور اتحاد کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف بھی ہے۔
ایودھیا شہر تاریخی طور پر اپنی ہم آہنگی کی ثقافت کے لیے مشہور رہا ہے ۔تاہم چار پانچ دہائیوں میں شہرکا کردار تیزی سے تبدیل ہوگیا ہے۔اب یہ شہر ہندوتو کے عروج کا علامتی مظہر ہوگیا ہے۔ایک دور تھا جب عظیم شاعر علامہ اقبال نے رام کو امام الہند قرار دیا تھا:
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
آج رام کو ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔رام کے نام پر مسلمانوں پر حملے کیے جاتے ہیں ۔رام مندرکے لیے ایودھیا شہر کو اس طرح سے تبدیل کردیا گیا کہ اس شہر کی دیگر یادگار عمارتیں اور تہذیب و ثقافت کی علامتیں ختم ہونے کے قریب ہیں۔ ایودھیا کا تاریخی ورثہ صرف رام اور سیتا کی رسوئی اور رام کی جائے پیدائش کے لیے مشہور نہیں ہے۔بلکہ ایودھیا یہ وہ شہر ہے جسے نواب شجاع الدولہ نے لکھنو کے بجائے اپنا دارالسلطنت بنایا اور یادگار عمارتیں تعمیر کروائیں۔ شجاع الدولہ اور ان کے والد صفدر جنگ نے ہنومان گڑھی مندر کی تعمیر کے لیے نہ صرف گرانٹ جاری کے بلکہ اس کی آمدنی کے لیے خصوصی انتظامات بھی کیے۔ ایودھیا کے عین مرکز میں ایک ایسا ڈھانچہ ہے جو اپنے نام کی وجہ سے تجسس کو جنم دیتا ہے۔ اس ڈھانچے کا نام ہے ’’افیم کوٹھی‘‘ یعنی افیون کی حویلی۔ یہ اودھ کے تیسرے مغل نواب شجاع الدولہ (1732-75) کا محل ہے۔ مقامی روایات کے مطابق اس کا نام افیم کوٹھی انگریزوں نے نواب کو نیچا دکھانے کے لیے رکھا تھا اور افیون فروخت کرنا شروع کر دیا تھا۔ مغلیہ دور کے عظیم الشان ڈھانچے کے علاوہ، سیکڑوں بے نام قبریں اور نامعلوم مقبرے شہر میں موجود ہیں۔شجاع الدولہ کے دور سے ہی ایک عرصے تک دونوں مذہبی برادریاں شہر کے روزمرہ کے معاملات میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں۔ مندروں کے قریب پھول فروشوں میں بہت سے مسلمان ہیں، اور ہندو جلوسوں میں استعمال ہونے والے زیادہ تر گھوڑوں کے مالک مسلمان ہیں۔
ایودھیا سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر دریا کے کنارے چھوٹی مندروں کا ایک سلسلہ ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق آزادی سے قبل ایودھیا میں ایک اصلاحی تحریک شروع کی گئی تھی جس کا مقصد مندروں کے دروازے تمام ہندوؤں کے لیے کھولنا تھا جس کی برہمنوں نے شدید مخالفت کی تھی۔اس کے جواب میں دیگر ذات کے لوگوں نے اپنی اپنی مندروں کی تعمیر کی۔ چنانچہ یہاں ایک نشاد مندر، ایک دھوبی مندر، ایک ٹھاکر مندر اور ایک پٹنہ مندر موجود ہے جو الگ الگ شناختوں کے مظہر ہیں۔ لیکن اب ان مندروں کے پجاریوں کو ڈر ہے کہ رام مندر کی تعمیر کی وجہ سے کہیں ان کا وجود ہی خطرے میں نہ پڑجائے۔
2018 میں ایودھیا سے تعلق رکھنے والے بدھسٹ ونیت کمار موریہ نے عدالت میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی جس میں کہا گیاتھا کہ متنازعہ رام جنم بھومی کا مقام نہ تو ہندوؤں کا ہے اور نہ ہی مسلمانوں کا بلکہ بدھ مت کا ہے۔ موریہ کے مطابق بدھ مندروں کو ہندو دیوتاؤں کے بتوں سے بدل کر ہندو پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ ہنومان گڑھی سمیت کئی موجودہ ہندو مندروں میں پوشیدہ بدھ نوادرات موجود ہیں۔ چینی سیاحوں، فاہیان اور ہیون سانگ کی تحریروں میں ایودھیا کا ذکر بدھ مت کے مرکز کے طور پر ہے جس میں تقریباً ایک سو خانقاہیں اور منادر ہیں۔ آج جین اور بدھ ایودھیا کی آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم ہیں، اور ان کی یادگاریں ختم ہو چکی ہیں۔
مسلمان پولرائزیشن کا مقابلہ کیسے کریں؟
سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔ملک کی دیگر مساجد بالخصوص گیانواپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟ جہاں تک سوال ہندوتو کے آگے خودسپردگی اور رام مندر کے جشن میں شامل ہونے کا سوال ہے تو یہ مسلمانوں کے لیے خود کشی کے مترادف ہوگا۔ یہ نہ صرف ان کے ایمان سے جڑا ہوا مسئلہ ہے بلکہ تہذیبی و ثقافتی شناخت کے تحفظ کے پہلو سے بھی نہایت اہم ہے۔اس معاملے میں مسلم تنظیموں، بالخصوص جماعت اسلامی ہند نے جس طریقے سے مسلمانوں کی رہنمائی کی ہے وہ بروقت ہے۔ان حالات میں اشتعال انگیزی سے گریز کرتے ہوئے صبر وتحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ بابری مسجد کی تاریخ اور ہندوتو طاقتوں کی سازشوں کو فراموش کردیا جائے؟ بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس امانت کو آنے والی نسلوں میں منتقل کیا جائے۔یہ عزم کیاجائے کہ ملک کی دوسری مساجد کے ساتھ اس طرح کے واقعات کو دہرانے نہیں دیا جائے گا۔ ماضی میں بابری مسجد کے تحفظ کے دوران چند غلطیاں ہوئیں، چند مسلم قائدین نے اس پورے مسئلے کو سیاسی مسئلہ بنا دیا۔ اس کوشش نے ہندوتو تنظیموں کو پولرائزیشن کا موقع فراہم کیا اور بالآخر اس کا نتیجہ بابری مسجد کی شہادت پر منتج ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت ملک کی عدالتوں سے انصاف کی توقع ماند پڑگئی ہے۔ اس کے باوجود گیانواپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ کے مسئلے کو سیاسی مسئلہ بنانے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے اور حتیٰ الامکان قانونی طور پر اس مسئلے سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔خدشہ ہے کہ ملک کی دیگر تاریخی مساجد کو متنازع بنانے کی کوشش کی جائے گی اور الجھانے کے لیے مساجد پر دعوے کیے جائیں گے ۔اس لہر سے نمٹنے اور قانونی چارہ جوئی اور سیاسی رائے عامہ ہموار کرنے اور ساتھ ہی برادران وطن کے ساتھ ماحول کو سازگار بنانے کی سمت قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔
***

 

***

 آر ایس ایس نے اپنی ونگ مسلم راشٹریہ منچ کو ایودھیا میں مسلمانوں کو لانے کی مہم سپرد کی ہے۔ دراصل بی جے پی کا یہ احساسِ جرم ہی ہے جو وہ دنیا کو پیغام دینا چاہتی ہے کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے جشن میں بھارت کے مسلمان بھی شامل ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کو ڈرایا اور دھمکایا بھی جا رہا ہے۔ ایسے میں اگر مسلم تنظیمیں خدشات کا اظہا کر رہی ہیں تو اس میں کوئی غلط نہیں ہے ۔مسلم تنظیموں جماعت اسلامی ہند، جمعیۃ علمائے ہند، جمعیۃ اہل حدیث اور امارت شرعیہ بہار کے قائدین نے جہاں مسلمانوں سے صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے وہیں کہا ہے کہ رام مندر کے افتتاح میں حکومت کی شراکت داری، ہائپر نیشنلزم کے ذریعہ مسلمانوں کو ایودھیا کے جشن میں شامل ہونے پر مجبور کیا جانا نہ صرف آئین و قانون مخالف ہے بلکہ سیاسی مقاصد کی خاطر ملک کی سلامتی اور اتحاد کو خطر ے میں ڈالنے کے مترادف بھی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جنوری تا 20 جنوری 2024