قربانی پر اعتراضات کا جائزہ
مولانا ابو الاعلی مودودی ؒ
قربانی کا مسئلہ متفق علیہ مسائل میں سے ہے۔ پہلی صدی ہجری کے آغاز سے آج تک مسلمان اس پر متفق رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ کی پوری پونے چودہ صدیوں میں آج تک اس کے مشروع اور مسنون ہونے میں اختلاف نہیں پایا گیا ہے۔ اس میں آئمۂ اربعہ اور اہلِ حدیث متفق ہیں۔ اس میں قدیم زمانے کے مجتہدین بھی متفق تھے اور آج کے سب گروہ بھی متفق ہیں۔ اب یہ تفرقہ و اختلاف کا شیطانی ذوق نہیں تو اور کیا ہے کہ کوئی شخص ایک نرالی بات لے کر اُٹھے اور اس متفق علیہ اسلامی طریقے کے متعلق بیچارے عام مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرے کہ یہ تو سرے سے کوئی اسلامی طریقہ ہی نہیں ہے۔ (مسئلہ قربانی، ص ۴)
اب ذرا اقتصادی اعتراضات کو بھی جانچ لیجیے۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ اضاعت مال ہے۔ مگر قرآن کہتا ہے: لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ اور فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [الحج ۲۲:۳۶] ’’اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے‘‘ اور ’’اس سے میں خود بھی کھاو اور مانگنے والے غریب اور مانگنے والے سائل کو بھی کھلاو‘‘۔ آج آپ کے اپنے ملک میں لاکھوں اللہ کے بندے ایسے ہیں جنہیں ہفتوں اور مہینوں اچھی قوت بخش غذا نصیب نہیں ہوتی۔ کیا ان کو صدقہ اور ہدی اور نُسک کے ذریعے سے گوشت بہم پہنچانا آپ کی راے میں اصولِ معیشت کے خلاف ہے؟ لاکھوں انسان اور گلہ بان ہیں جو سال بھر تک جانور پالتے ہیں اور بقرعید کے موقع پر اُن سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیا ان کی روزی کا دروازہ بند کرنا آپ کے نزدیک بے روزگاروں کو روزگار مہیا کرنا ہے؟ ہزارہا غریب ہیں جن کو قربانی کی کھالیں مل جاتی ہیں اور ہزارہا قصائی ہیں جن کو ذبح کرنے کی اجرت مل جاتی ہے۔ کیا یہ سب آپ کی قوم سے خارج ہیں کہ آپ ان کی رزق رسانی کو فضول بلکہ مُضر اور داخلِ اسراف سمجھتے ہیں؟
پھر یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ کو تمام قومی ضروریات اور سارے فوائد و منافع صرف اسی وقت یاد آتے ہیں جب خدا کے کسی حکم کی پابندی میں روپیہ صرف ہو رہا ہو؟ گویا کہ بنکوں کا قیام اور قومی ادارات کا فروغ اور اعتقاد و اخلاق کی اصلاح اور یتیموں اور بیواوں کی پرورش کا سارا کام صرف قربانی ہی کی وجہ سے رُکا پڑا ہے۔ اِدھر یہ بند ہوئی اور اُدھر قومی اداروں پر روپیہ برسنا شروع ہوجائے گا۔
اور اگر آپ کی قومی تنظیم ایسی ہی مکمل ہے کہ سارے [ملک] کا روپیہ جمع کرکے آپ ہر سال ایک تجارتی بینک کھول سکتے ہیں تو ذرا سی تکلیف گوارا کرکے پہلے ملک بھر کے سینما ہالوں اور قحبہ خانوں اور بدکاری و اسراف کے دوسرے اڈوں پر تو اپنے ایجنٹ مقرر فرمائیے تاکہ مسلمانوں کا جس قدر روپیہ وہاں ضائع ہوتا ہے وہ قومی فنڈ میں وصول ہونا شروع ہو جائے۔ اس طرح آپ ہر سال نہیں ہر روز ایک تجارتی بنک کھول سکیں گے۔
پھر اگر آپ میں کچھ تعمیری قوت ہے تو قربانی کی تخریب کے بجائے آپ اسے زکوٰۃ کی تعمیر ہی میں کیوں نہیں صرف فرماتے کہ تنہا اسی ایک چیز سے آپ وہ تمام قومی ضروریات پوری کرسکتے ہیں جن کی خاطر قربانی بند کرنے کی تبلیغ آپ نے شروع کی ہے۔
آخری گزارش یہ ہے کہ اگر ایک دفعہ مسلمانوں میں یہ ذہنیت پیدا ہوگئی کہ جن جن مذہبی مراسم میں روپیہ صرف ہوتا ہے اُن کو بند کر کے وہ روپیہ قومی اداروں اور تجارتی بنکوں پر صرف ہونا چاہیے تو معاملہ صرف قربانی ہی پر رُکا نہ رہ جائے گا، کل کوئی اور بندۂ خدا اٹھ کر کہے گا کہ یہ حج، جس پر کروڑوں روپیہ ہر سال خرچ ہور ہا ہے اور جس کا کوئی فائدہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا اِسے بند ہونا چاہیے اور اس روپے سے تجارتی بینک کھلنے چاہئیں! سارا معاملہ اصل میں اقدار ہی کا ہے۔ جب ایک دفعہ معیارِ قدر بدل گیا، پھر آج قربانی بند ہوگی اور کل خواہ آپ چاہیں یا نہ چاہیں حج کی باری آکر رہے گی۔
(تفہیمات، دوم، ص ۲۴۱- ۲۴۲)
دراصل اس وقت قربانی کی جو مخالفت کی جا رہی ہے اس کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ کسی نے علمی طریقے پر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا ہو اور اس میں قربانی کا حکم نہ پایا جاتا ہو، بلکہ اس مخالفت کی حقیقی بنیاد صرف یہ ہے کہ اس مادہ پرستی کے دور میں لوگوں کے دل و دماغ پر معاشی مفاد کی اہمیت بری طرح مسلط ہوگئی ہے اور معاشی قدر کے سوا کسی چیز کی کوئی دوسری قدر ان کی نگاہ میں باقی نہیں رہی ہے۔ وہ حساب لگا کر دیکھتے ہیں کہ ہر سال کتنے لاکھ یا کتنے کروڑ مسلمان قربانی کرتے ہیں اور اس پر اوسطاً فی کس کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ اس حساب سے ان کے سامنے قربانی کے مجموعی خرچ کی ایک بہت بڑی رقم آتی ہے اور وہ چیخ اٹھتے ہیں کہ اتنا روپیہ محض جانوروں کی قربانی پر ضائع کیا جا رہا ہے، حالانکہ اگر یہی رقم قومی اداروں یا معاشی منصوبوں پر صرف کیا جاتا تو اس سے بے شمار فائدے حاصل ہوسکتے تھے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ ایک سراسر غلط ذہنیت ہے جو غیر اسلامی اندازِ فکر سے ہمارے اندر پرورش پا رہی ہے۔ اگر اس کو اسی طرح نشو ونما پانے دیا گیا تو کل ٹھیک اسی طریقے سے استدلال کرتے ہوئےکہا جائے گا کہ ہر سال اتنے لاکھ مسلمان اوسطاً اتنا روپیہ سفرِحج پر صرف کر دیتے ہیں جو مجموعی طور پر اتنے کروڑ روپیہ بنتا ہے، محض چند مقامات کی زیارت پر اتنی خطیر رقم سالانہ صرف کر دینے کے بجاے کیوں نہ اسے بھی قومی اداروں اور معاشی منصوبوں اور ملکی دفاع پر خرچ کیا جائے۔ یہ محض ایک فرضی قیاس ہی نہیں ہے بلکہ فی الواقع اسی ذہنیت کے زیر اثر ترکیہ کی لا دینی حکومت نے پچیس سال تک حج بند کیے رکھا ہے۔ پھر کوئی دوسرا شخص حساب لگائے گا کہ ہر روز اتنے کروڑ مسلمان پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں اور اس میں اوسطاً فی کس اتنا وقت صرف ہوتا ہے جس کا مجموعہ اتنے لاکھ گھنٹوں تک جا پہنچتا ہے۔ اس وقت کو اگر کسی مفید معاشی کام میں استعمال کیا جاتا تو اس سے اتنی معاشی دولت پیدا ہو سکتی تھی، لیکن برا ہو ان ملّاوں کا کہ انہوں نے مسلمانوں کو نماز میں لگا کر صدیوں سے انہیں اس قدر خسارے میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ بھی کوئی فرضی قیاس نہیں ہے بلکہ فی الواقع سوویت روس [سابق سوویت یونین] میں بہت سے ناصحین مشفقین نے وہاں کے مسلمانوں کو نماز کے معاشی نقصانات اِسی منطق سے سمجھائے ہیں۔ پھر یہی منطق روزے کے خلاف بھی بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کی جاسکتی ہے۔ اور اس کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان نری معیشت کی میزان پر تول تول کر اسلام کی ایک ایک چیز کو دیکھتا جائے گا اور ہر اس چیز کو ’ملّاوں کی ایجاد‘ قرار دے کر ساقط کرتا چلا جائے گا جو اس میزان میں اس کو بے وزن نظر آئے گی۔ کیا فی الواقع اب مسلمانوں کے پاس اپنے دین کے احکام کو جانچنے کے لیے صرف ایک یہی معیار رہ گیا ہے؟
(ایضاً، ص ۲۶۰-۲۶۲)
(مسئلہ قربانی اور تفہیمات سے ماخوذ )
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جولائی تا 08 جولائی 2023