قرآنی مباحث

قرآنی علوم و افکار کے اہم پہلوؤں پر مطالعہ کے لیے مفید کتاب

ابو سعد اعظمی

تحریک اسلامی نے روز اول سے اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ اپنے کارکنوں میں مطالعہ قرآن کا ذوق پروان چڑھائے۔ چنانچہ اس سے وابستہ افراد نے مختلف سطح پر دروس قرآن اور مطالعہ قرآن پروگرام کے ذریعہ اس ذوق کو جلا بخشا ہے اور ترجمہ وتفسیر میں بھی گہری بصیرت حاصل کی ہے۔ مولانا محمد فاروق خاں بھی تحریک اسلامی کی ایک ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیت کا نام ہے جنہوں نے نہ صرف یہ کہ عربی زبان سیکھی بلکہ ذاتی محنت سے اس میں اس حد تک مہارت حاصل کی کہ مصادر اسلامی سے استفادہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرلی اور قرآن وحدیث کا سلیس اور شستہ ترجمہ کرنے کی سعادت پائی۔ ہندی زبان میں ترجمہ قرآن ان کا غیر معمولی کارنامہ ہے۔ ان کا آسان اردو ترجمہ قرآن بھی خوب ہے۔ ان کی شخصیت عبقریت کا حقیقی مصداق تھی۔ انہوں نے ترجمہ وتفسیر قرآن، حدیث، تصوف وتزکیہ نفس، مطالعہ مذاہب اور خواتین پر اہم اور گراں قدر لٹریچر تیار کیا ہے۔ کلام نبوت کے عنوان سے احادیث کا ترجمہ بھی اپنی نوعیت کا منفرد اور بے مثال کام ہے۔ اس مجموعہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی مختلف جلدوں میں اسلام کو مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مولانا محمد فاروق خاں کی شخصیت عصری علوم کی تحصیل کرنے والے طلبا کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی تھی۔ ان کی زندگی سے یہ سبق حاصل ہوتا تھا کہ ذاتی محنت اور مقصد پر نظر ہو تو زندگی میں کسی بھی چیز کا حصول ناممکن نہیں۔ آپ کی زندگی سادہ، لباس سادہ لیکن شخصیت جاذبیت اور جمال وجلال کا دلکش مجموعہ تھی۔ امیر جماعت اسلامی ہند انجینئر سید سعادت اللہ حسینی کے الفاظ میں:
’’خدا نے ان کی شخصیت میں بڑی دل آویزی پیدا کردی تھی۔ ان کے لہجے کی لطافت، سخن کی دل نوازی اور ان کے پورے وجود میں پنہاں اخوت کی جہاں گیری اور محبت کی فراوانی نے ان کے وجود کو مقناطیس بنادیا تھا۔ لیکن دوسری طرف مزاج کی فطری بے نیازی نے ان کے اندر غیر معمولی جرات بھی پیدا کردی تھی‘‘۔(ماہنامہ رفیق منزل، اگست ۲۰۲۳، ص۲۲۰)
افسوس کہ گزشتہ چند سالوں میں تحریک اسلامی نے اپنی کئی اہم شخصیات کو کھودیا ہے۔ مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ، مولانا سید جلال الدین عمریؒ، مولانا نظام الدین اصلاحیؒ، پروفیسر نجات اللہ صدیقیؒ اور اب مولانا محمد فاروق خاںؒ بھی اللہ تعالیٰ کی جوار رحمت میں جاچکے ہیں اور امید ہے کہ تحریک اسلامی کے فروغ اور دین اسلام کی نشر واشاعت کے لیے ان کی جو گراں قدر خدمات رہی ہیں اس کے اجر سے شاد کام ہو رہے ہوں گے۔ اللہ ان کی ہر کوشش کو شرف قبولیت سے نوازے اور انہیں اعلیٰ علیین میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی معیت نصیب فرمائے۔
مولانا محمد فاروق خاں نے بیسویں صدی کے عظیم مفسر قرآن حمیدالدین فراہیؒ کے افکار و نظریات کا بخوبی مطالعہ کیاتھا اس لیے انہوں نے قرآن کریم کو اپنے مطالعہ کا اصل موضوع بنایا۔
پیش نظر کتاب ان کے ان قرآنی مضامین کا مجموعہ ہے جو پہلے مختلف رسائل میں شائع ہو چکے تھے۔ اس مجموعہ کے اہم ابواب یہ ہیں: تاویل آیات، اسالیب قرآن، تعلیمات قرآن، تدبر قرآن کی خصوصیات۔ کتاب کے شروع میں فہرست مضامین دی گئی ہوتی تو اس کتاب سے استفادہ میں مزید آسانی ہوتی۔
ہر دور میں منافقین اور دشمنان حق کی طرف سے قرآن کے استناد کو مجروح کرنے کی سازشیں و ناپاک کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور انہوں نے اس سلسلے میں ایسی روایتوں پر اعتماد کیا ہے جن سے قرآن کے استناد پر حرف آتا ہے۔ کتاب کے اولین باب میں انہیں روایات کا علمی اور تحقیقی انداز میں جائزہ لیا گیا ہے اور مدلل انداز میں قرآن کے استناد کا ثبوت فراہم کیا گیا ہے۔ مولانا محمد فاروق خاں لکھتے ہیں کہ جہاں تک حقیقت پسندی کا تعلق ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اغیار نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ قرآن اسی شکل میں آج موجود ہے جس شکل میں پیغمبر خدا نے اسے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ جتنی بھی روایتیں اور ایسے تذکرے پائے جاتے ہیں جن سے قرآن کی حفاظت مشکوک ہوجاتی ہے وہ ہرگز لائق اعتناء نہیں ہے۔ وہ محض اس لیے وضع کیے گئے ہیں کہ قرآن جس کے مستند اور محفوظ ومکمل ہونے پر امت کو فخر ہے اسے مجروح کیا جائے۔
کسی فصیح و بلیغ کلام کے نظم و ترتیب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ فصاحت و بلاغت کے اصول و اسالیب سے بخوبی واقفیت حاصل ہو۔ کنایہ، استعارہ، تشبیہ، تمثیل، حذف و تکرار، لف و نشر، احتباک، ایجاز و اطناب وغیرہ کا علم بالکل واضح ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ ان سے کلام کے محاسن میں کس طرح کا اضافہ ہوتا ہے اور نظم کلام پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ادب کی ایک خاص صنف لف و نشر ہے یعنی چند چیزوں کا اجمالا ًیا بالتفصیل تذکرہ ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کے متعلقات کو بیان کر دیا جاتا ہے اور اس بات کا تعین نہیں کیا جاتا کہ کون کس سے متعلق ہے بلکہ اسے مخاطب کے فہم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ قرآن کریم کی آیات شروع تا آخر انتہائی منظم ہیں اور اس کی سورتوں میں ربط و تسلسل پایا جاتا ہے ہر سورہ کا اپنی ما سبق و مابعد سورہ سے ایک خاص ربط ہوتا ہے نیز، اس میں بعض ایسے صنائع کا استعمال ہے جو خاص قرآن کی وضع کردہ ہیں اور دنیائے ادب میں ان کی مثالیں ملنی مشکل ہیں۔ قرآن فہمی کے لیے ضروری ہے کہ بلاغت کی معروف و مشہور اصطلاحوں اور صنعتوں سے بخوبی واقفیت ہو۔ کتاب کے دوسرے، تیسرے اور چوتھے باب میں انہیں اصطلاحات کا جائزہ لیا گیا ہے اور قرآن کریم سے اس کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ سورہ سبا آیت 50 نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’یہ ایک حسین احتباک کی مثال ہے۔ اس میں گمراہی اور ہدایت کا ذکر تقابل کے ساتھ فرمایا گیا ہے۔ بتایا گیا کہ گمراہی خود اہل ضلالت کے لیے وبال ہے۔ مگر راست روی کا راست رو کے حق میں مفید ہونا حذف کردیا گیا۔ حالانکہ اصل مقصود یہی ہے لیکن صنعت احتباک نے اس کے اظہار کے لیے لفظوں کا سہارا لینے سے بے نیاز رکھا ہے۔ پھر آیت میں اس کا ذکر تو فرمایا گیا کہ راست روی کا دار و مدار اصلاً وحی رب پر ہے۔ مگر اس کا ذکر نہیں کیا کہ گمراہی اور ضلالت کا سبب اصلاً وحی رب سے انحراف ہے۔ کیوں کہ تقابل سے یہ بات خود عیاں ہوجاتی ہے‘‘۔ (ص۳۵)
قرآن کریم کے ترجمے میں الفاظ قرآن کے صحیح مفہوم و معنیٰ کی تعیین ضروری ہے اس کے علاوہ عربی زبان او رخاص طور سے قرآن کے اسالیب سے آشنا ہونا بھی لازمی ہے اس میں اگر تساہلی سے کام لیا گیا تو ترجمہ اغلاط سے پاک نہیں ہوسکتا۔ ایک باب میں ترجمہ قرآن کی راہ میں پیش آنے والے مسائل و مشکلات سے بحث کی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’کسی ادبی شہ پارے اور شعر وسخن کا ترجمہ نثر کے مقابلے میں انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ترجمہ میں ادبی محاسن، صوتی آہنگ اور نغمگی وغیرہ کو منتقل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ قرآن کلام الٰہی ہے۔ اس میں جو ادبی محاسن، صوتی جمال، آہنگ، ردم اور روانی پائی جاتی ہے اور اس کے الفاظ اور فقروں میں معانی ومعارف کی جو وسعتیں پائی جاتی ہیں۔ ترجمہ کی زبان میں ان سب کو منتقل کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے۔ پھر بھی کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ قرآنی آیات کا ترجمہ سپاٹ اور بے جان نہ ہو‘‘۔ (ص۶۰)
اس کتاب کا ایک اہم باب تدبر قرآن کی بعض امتیازی خصوصیات کے جائزہ پر مشتمل ہے۔ مصنف گرامی نے نظم قرآن یعنی قرآنی آیات میں پائے جانے والے گہرے ربط و تعلق کو قرآن فہمی کی کلید قرار دیا ہے نیز صاحب تفسیر کی وسعت فکر اور ہر قسم کی ذاتی یا گروہی عصبیت سے بالا تری کو لائق تحسین گردانا ہے۔ اصول تفسیر کے تعلق سے امام فراہیؒ کی آراء کو ان کے مختلف رسائل اور مقدمہ تفسیر سے اخذ کرکے خالد مسعود صاحبؒ نے انہیں ایک اردو کتاب کی شکل میں مرتب کیا تھا۔ ایک مستقل باب میں اسی کتاب پر تبصرہ اور تفسیر کے ان بنیادی اصولوں کی خصوصیات کا ذکر ہے۔ علامہ فراہی کے تفسیری اصول کی معنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قرآن کے موضوعات پر علامہ حمید الدین فراہیؒ نے جو کام شروع کیا تھا وہ بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ افسوس کہ علامہ کا کام پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا، پھر بھی وہ اس سلسلہ میں جتنا بھی کام کرسکے ہیں وہ نہایت معیاری، سائنٹفک اور قابل قدر ہے۔ علامہ چونکہ کبر، انانیت اور عصبیت وغیرہ بیماریوں سے محفوظ ایک خدا ترس انسان تھے اس لیے ان کی تحریریں بے اعتدالیوں سے پاک دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان سے علمی اختلافات نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ (ص۹۱)
ایک دوسرے باب میں مولانا اختر حسن اصلاحی کے قرآنی مضامین کے مجموعہ ’’مباحث القرآن‘‘ پر تبصرہ ہے۔ مصنف گرامی نے اس اہم مسئلہ سے بھی بحث کی ہے کہ سائنس اور قرآن میں کہیں تضاد نہیں پایا جاتا قرآن سائنسی ترقی کا مخالف نہیں بشرطیکہ اس کی تحقیقات کا مقصد تعمیری ہو، تخریبی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ علوم اور سائنس کی دنیا میں تجرباتی طریق کار پیش کرنے والے اولین سائنس داں مسلمان ہی تھے۔
آخری ابواب میں توحید، اس کی عظمت نیز، مسائل حیات میں توحید کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسی طرح تزکیہ اور اس کے وسائل و ذرائع پر قرآن کی روشنی میں گفتگو کی گئی ہے اور یہ نتیجہ پیش کیا گیا ہے کہ تزکیہ کے بعد علم و فکر اور عمل و کردار کے لحاظ سے آدمی کے اندر کیسی عظیم تبدیلی آتی ہے، وہ خدا پرستی کے مقابلہ میں خود پرستی کو اور حق پسندی کے مقابلہ میں مفاد پرستی کو کبھی اختیار نہیں کرسکتا۔ قرآنی علوم و افکار کے متعدد اہم پہلوؤں پر مطالعہ کے لیے یہ کتاب ان شاء اللہ مفید ثابت ہوگی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 دسمبر تا 30 دسمبر 2023