
قرآنی معاشرے کی تشکیل کی ضرورت اور طریق کار
ابو فہد، نئی دلی
اگر کسی انسانی معاشرے کو قرآنی معاشرہ کہا جا سکے تو وہ ایک ایسا مثالی معاشرہ ہوگا جہاں ہر فرد کے دل میں اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہو۔ حتیٰ کہ غیر مسلموں کے دلوں میں بھی خوف صرف اس وقت پیدا ہو جب وہ کسی قابلِ مؤاخذہ جرم کا ارتکاب کریں اور یہ خوف صرف قانون کا ہو۔ اگر وہ مسلمان ہیں تو ان کے دل میں موت کے بعد میدانِ حشر میں اعمال کے حساب کا خوف بھی موجود ہو۔ یہ دونوں قسم کے خوف انسان کو نیکی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں اور خیر کی جانب رہنمائی کرتے ہیں، جبکہ ان میں سے کوئی بھی خوف انسان کی شخصیت پر منفی اثر نہیں ڈالتا۔
اگر کسی مسلم بستی میں قرآنی معاشرہ قائم کیا جائے گا تو اس معاشرے میں شاید سب سے اچھی اور مثبت چیز یہ ہوگی کہ وہاں فرقہ پرستی کی شدت اور زور نہیں ہوگا، اس معاشرے میں ہر فرقے اور ہر مسلک کا آدمی اپنے عقیدے اور مسلک کے ساتھ بھی پورے اطمینان کے ساتھ رہ سکے گا بلکہ ممکن ہے کہ مسالک سرے سے ختم ہی ہوجائیں گے، اور اگر ختم نہ بھی ہوں تو ان کے اندر سے شدتیں اور انتہا پسندیاں نکل جائیں گی، پھر بس نظریاتی اختلافات رہ جائیں گے اور انہیں آسانی کے ساتھ انگیز کیا جا سکے گا۔
کسی بھی مسلم ملک کا قرآنی معاشرہ ایسا معاشرہ ہوگا جس میں قانون کی حکم رانی بھی ہوگی اور اخلاقیات کی فراوانی بھی۔ اس معاشرے کی بنیاد ایسی خلافت پر یا طرز حکومت پر قائم ہوگی جس کا نظم اجتماعی بیک وقت قدیم بھی ہوگا اور جدید بھی، یہ نظام موجودہ جمہوری نظام حکومت سے بھی فائق اور اعلیٰ و برتر ہوگا، اس میں جمہوریت کی تمام خوبیاں موجود ہوں گی اور اس کی تمام برائیاں اور بیماریاں منہا ہوجائیں گی، کیونکہ اس معاشرے کے ہر فرد بشر کے اندر آخرت میں جواب دہی کا احساس زندہ ہوگا جو اسے خلوت و جلوت کے خفیہ اور علانیہ گناہوں سے باز رکھے گا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی اس معاشرے کی روح کی غذا کی طرح ہوگی، کیونکہ قرآن میں کہا گیا ہے: وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللہِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللہ يَعْلَمُهُمْ (الأنفال: ٦٠)” اے مسلمانو! اپنے دشمنوں سے مقابلے کے لیے تم جتنی بھی حربی قوت جمع کر سکتے ہو جمع کر رکھو اور ہتھیار بند گھوڑے بھی تیار رکھو تاکہ تم اپنے اور اللہ کے دشمنوں کے دلوں میں ڈر پیدا کر سکو اور ایسے دشمنوں کے دلوں میں بھی جن کے بارے میں تم نہیں جانتے (کہ وہ در پردہ تمہارے دشمن ہیں اور تمہیں مٹا دینا چاہتے ہیں) مگر اللہ جانتا ہے۔”
اس لیے اس معاشرے کے افراد کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ دنیا میں کسی بھی معاشرے اور قوم سے کسی بھی میدان میں پیچھے نہ رہیں، کیونکہ قرآن نے انہیں مامور کیا ہے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے طاقت وقوت حاصل کریں اور دنیا میں سر بلند ہوکر رہیں۔ قرآن میں ہے: وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمران: ١٣٩)” اے ایمان والو! کم زور نہ پڑو اور غم نہ کرو، یقیناً تم ہی سر بلند رہو گے اگر تم سچے مومن ہو” ایمان و یقین، علم و عمل اورجدید ٹیکنالوجی اور دیگرعلوم و فنون میں مہارتیں، اس معاشرے کو زر خیز اور پائیدار بنائیں گی۔
ذیل میں ان چند خصوصیات کا ذکر کیا جاتا ہے جو کسی بھی قرآنی معاشرے کی بنیادی خصوصیات ہوسکتی ہیں، ان کے بغیر اعلیٰ ترین ثقافت و کلچر کے حامل اور مادی اعتبار سے دنیا کے ٹاپ کے معاشروں میں شمار ہونے والے کسی مسلم معاشرے کو بھی قرآنی معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔
عدل اور انصاف کا قیام:
اگر کسی بھی مسلم بستی میں یا کسی بھی مسلم ملک میں کوئی معاشرہ قرآنی معاشرہ کہلانے کا صحیح معنیٰ میں مستحق قرار دیا جاسکے گا تو شاید سب سے پہلی اور سب سے قیمتی چیز یا بنیادی بات یہی ہوگی کہ اس میں عدل و انصاف اپنی انتہائی صورت میں قائم ہوگا، ذات برادریاں ختم ہوجائیں گی اور ان کی بنیاد پر برتے جانے اور روا رکھے جانے والے تعصبات اپنے آپ مر جائیں گے۔اس معاشرے میں جب انصاف قائم ہوگا تو نہ کوئی ظالم ہوگا اور نہ کوئی مظلوم۔ لوگ کنگھی کے دانوں کی طرح یکساں عزت وتکریم اور اہمیت کے حامل ہوں گے۔ البتہ جو لوگ علم وتقویٰ میں فائق ہوں گے ان کی عزت و اہمیت فائق تر ہوگی۔ قرآن میں ہے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہو سکتے: هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (الزمر: ٩) اور قرآن نے کہا ہے کہ ایک انسان کے مقابلے میں دوسرے انسان کی برتری اور عظمت تقویٰ و احسان کی وجہ سے قائم ہوتی ہے: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (الحجرات: ١٣) "اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ قابل عزت وہ مومن ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے”۔
اخلاقی و روحانی اقدار کا فروغ:
اس معاشرے میں اخلاقی اور روحانی قدروں کو فروغ ملے گا اور بہیمی اقدار کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ہر شخص ایمان دار ہو گا اور اسے اپنے آپ پر اور اپنے نفس پر پورا کنٹرول ہوگا۔ اللہ سے تعلق مضبوط ہوگا اور لوگوں کی آپس میں ایک دوسرے سے متعلق آرزوئیں اور امیدیں کم ہو جائیں گی، دینی علوم وفنون کے ماہرین کی کثرت ہوگی اور ہر آدمی دین سے اس قدر واقفیت ضرور رکھتا ہوگا کہ وہ حرام و حلال کو سمجھ سکے اور کسی معاملے میں اللہ کی جو منشا اور قرآن کی جو اسپرٹ اور روح ہے اس کو سمجھ سکے۔
خواتین کے حقوق اور عزت کا تحفظ:
قرآنی معاشرے میں خواتین کو ان کے پورے حقوق دیے جائیں گے، ان کے ساتھ مساوات اور رواداری کا برتاؤ کیا جائے گا، طلاق کا تناسب گر جائے گا، رحم مادر میں لڑکیوں کو مار دینے کا مزاج ختم ہو جائے گا، کیونکہ قرآن کا حکم اس معاشرے کے افراد کے پیش نظر ہوگا: وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ،بِأَيِّذَنبٍ قُتِلَتْ(التكوير:9-8) زندہ درگور کی گئیں یا رحم مادر میں قتل کی گئیں بچیوں کے گناہ گاروں کا اس دن کیا حال ہو گا جب ان کے سامنے ان سے پوچھا جائے گا کہ آخر انہیں کس جرم کی سزا دی گئی تھی؟ عورتیں اس معاشرے میں اپنے حقوق پوری طرح ادا کرنے والی ہوں گی، خواہ وہ گھر گرہستی سے متعلق ہوں یا بچوں کی پرورش اور تعلیم وتربیت اور ان کی شادی بیاہ کے معاملات ہوں، خواتین اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گی، اس سماج سے ساس، بہو اور نند کے جھگڑے ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے اور شادی بیاہ میں فضول کی رسمیں، جہیز و تلک کے جوڑوں کی رسمیں ختم ہو جائیں گی۔ اس معاشرے کی بہو اپنی ساس اور سسر کو اپنی حقیقی ماں اور باپ کی طرح سمجھے گی۔ اور ساس و سسر اپنی بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھیں گے اور اس کے ساتھ بیٹی کی طرح کا ہی معاملہ کریں گے۔ اس سماج میں میاں بیوی کے درمیان اصل رشتہ محبت وخیر خواہی کا رشتہ ہوگا نہ کہ سماج اور فطرت کے قوانین سے مجبور ہو کر ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور جھیلتے رہنے کا رشتہ۔ اس سماج میں رشتوں کی اہمیت ہوگی اور چھوٹے بڑے سب کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
امن اور رواداری :
اس معاشرے میں ہر جگہ امن و سلامتی ہو گی۔ تشدد کا خاتمہ ہو جائے گا، چوری ڈکیتی اور راہ میں لوٹ لیے جانے کا ڈر اور خوف دلوں سے نکل جائے گا۔ اس معاشرے میں غیر مسلموں کے دلوں میں مسلمانوں کا کوئی خوف نہیں ہوگا، بلکہ وہ ان کے محافظ و مددگار ہوں گے۔ اس معاشرے میں حکومتی کام کاج قرآن پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہوگا اور حکومت اور حکومتی ادارے لوگوں کی بھلائی اور خیر خواہی کے لیے ہوں گے، سیاسی انتقام جیسی کوئی چیز نہیں ہوگی، سیاسی چال بازیاں اور جعل سازیاں نہیں ہوں گی، الیکشن میں دھاندلیاں نہیں ہوں گی اور وسائل و مواقع کی تقسیم منصفانہ ہوگی۔ جیلیں ہوں گی مگر وہ خالی پڑی ہوں گی کیونکہ جرائم اور مجرم ہی نہیں ہوں گے، پولیس کا کام بس نظر رکھنے اور محض انتظام کرنے بھر تک رہ جائے گا۔ لوگوں کو سیکوریٹی کی بھی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہوگی۔ حاکموں کو بے شک پروٹوکول دیا جائے گا مگر موجودہ جمہوری طرز کی حکومتوں کی طرح حاکموں کی سیکوریٹی اور ٹھاٹ باٹ کے لیے اربوں روپیہ خرچ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ حاکم خود اس بات کو جرم سمجھیں گے اور قوم کا پیسہ ”مال مفت دل بے رحم” کی طرح برباد نہیں کریں گے۔
زکوٰۃ کا مربوط نظام:
اس معاشرے میں زکوٰۃ کے تمام اصول اور پورا سسٹم کار فرما ہوگا، جن پر زکوٰۃ واجب ہوگی وہ خود اپنی فکر سے زکوۃ ادا کریں گے، اور اس معاشرے کے سب سے اعلیٰ سربراہ کے ذریعہ اور اس کے نظام اور سسٹم کے ذریعہ زکوٰۃ وصول کی جائے گی اور مستحقین تک پہنچائی جائے گی۔ ایسا نہیں ہوگا کہ کوئی بھی زکوٰۃ وصول کرنے آگیا اور کسی کو بھی زکوۃ دے دی یا زندگی بھر زکوٰۃ کبھی ادا نہیں کی۔ جو مال دار ہیں انہوں نے کبھی اپنی ذات اور آل اولاد کے جھمیلوں سے باہر نکل کر قوم وملت کے احوال کو کبھی دیکھا ہی نہیں، ایسا کچھ بھی اس معاشرے میں نہیں ہوگا۔ کیونکہ مال داروں کو پتہ ہوگا کہ ان کی خون پسینے کی کمائی میں غریب غربا کی بھی حصہ داری ہے اور وہ ہر قیمت پر واجب الادا ہے، کیونکہ انہوں نے قرآن میں پڑھا ہوگا: وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاريات: ١٩) اس معاشرے میں اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ دولت کا ارتکاز نہیں ہوگا بلکہ دولت کی منصفانہ تقسیم ہوگی۔اس معاشرے میں امیر وغریب تو ہوں گے مگر کوئی آدمی اتنا امیر نہیں ہوگا کہ اس کے پاس ملک کی کل پیداوار کی نصف دولت آجائے اور کوئی آدمی اتنا غریب ومجبور نہیں ہوگا کہ اس کے پاس کھانے کے لیے کھانا، پہننے کے لیے کپڑے اور رہنے کے لیے مکان نہ ہو۔
وراثت کی تقسیم کا اسلامی نظام:
اس معاشرے میں وراثت اسلامی اصولوں کے اعتبار سے تقسیم کی جائے گی، خاص کر بہنوں کا حق پورا پورا دیا جائے گا، ایسا نہیں ہوگا جیسا کہ آج کل ہوتا ہے کہ بہنوں کا حق بھائی کھا جاتے ہیں، بلکہ بھائیوں کا حق بھی دوسرے چھوٹے بڑے بھائی کھا جاتے ہیں۔ جب وراثت درست طور پر تقسیم ہوگی تو بیوائیں بھی عزت کی زندگی گزار سکیں گی اور وہ بھی صاحب مال ہوں گی۔
ہر آدمی ذمہ دار اور ہر آدمی مسئول:
قرآنی معاشرے میں ہر آدمی کی دہری حیثیت ہوگی، بعض حیثیوں سے وہ ذمہ دار بھی ہوگا اور بعض حیثیوں سے وہ مسئول بھی ہوگا۔ یعنی حکم راں بھی جواب دہ اور مسئول ہوں گے اور رعایا بھی ذمہ دار اور حاکموں کے مثل ہوگی۔ حدیث شریف کے الفاظ ہیں: كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ۔ حاکم آخرت میں تو جواب دہ ہوں گے ہی دنیا میں بھی جواب دہ ہوں گے، وہ اپنی من مانی نہیں کر سکتے اور موجودہ زمانے کے مسلم ممالک میں قائم شہنشاہیت کی طرح حکومت کا کام کاج نہیں چلا سکتے۔ اس معاشرے میں جس آدمی کی ذمہ داریاں جتنی زیادہ ہوں گی اس کی جواب دہی بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ اس معاشرے کا عام آدمی زیادہ چین اور سکون میں ہوگا، جبکہ حکم رانوں کے سر پر جواب دہی کا بوجھ رہے گا۔ اس معاشرے کے امیر لوگ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں سے بے شک فائدہ اٹھائیں گے اور فراخی کے ساتھ زندگی بسر کریں گے مگر جسے عیش کوشی کہتے ہیں اور بے فکری کی زندگی کہتے ہیں، انہیں ایسی زندگی میسر نہیں ہوگی۔ اس معاشرے کے حاکموں کی زندگیاں کم از کم خلفائے راشدین کی زندگیوں کے مثل تو ہوں گی ہی، یا وہ وقت اور حالات کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خود کی زندگی ایسی رکھنی چاہیں گے اور اپنی سی کوشش کریں گے۔
جب ہم قرآنی معاشرے کی بات کریں گے تو لازمی طور پر اس مثالی ماڈل پر بھی بات کریں گے جو پہلے سے ہم مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ اور یہ ماڈل نبی ﷺ کی مثالی زندگی کا ماڈل ہے۔ قرآن نے اسے مثالی اسوہ کا نام دیا ہے۔ سورہ احزاب میں ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ(الأحزاب: ٢١)
رسول اللہ ﷺ نے جو معاشرہ تشکیل دیا تھا وہ یقیناً قرآنی معاشرہ تھا۔اور اس معاشرے نے جو افراد پیدا کیے تھے وہ انبیاء کے بعد انسانی تاریخ میں سب سے بہتر انسان ثابت ہوئے۔ قرآن ان کے لیے سب سے پہلی اور ترجیحی چیز تھی جسے اس معاشرے کا ہر فرد اپنے گھر، مسجد اور بازار، مجلس وتخلیہ اور کھیت کھلیان ہر جگہ اپنے سامنے رکھتا تھا۔ اس معاشرے کے بیشتر افراد کے سینوں میں مکمل قرآن یا اس کا اکثر حصہ محفوظ تھا اور ان کی زبانوں پر قرآن جاری و ساری تھا، بالکل اسی طرح جس طرح قرآن سے پہلے کے زمانے میں اشعار و قصائد ان کے ورد زباں رہتے تھے۔ وہ قرآن کو اسی طرح سمجھتے تھے جس طرح وہ اپنے اشعار و قصائد کو سمجھتے تھے۔ قرآن چونکہ ان کی موجودگی میں نازل ہوا تھا اس لیے انہیں قرآن کی ہر سورت اور ہر آیت کے نزول کا پس منظر بھی معلوم تھا، نہ صرف پس منظر معلوم تھا بلکہ اس وقت کے اہل کفر وشرک کے سرغنہ افراد کس آیت کے جواب میں کیا تبصرہ کیا کرتے تھے اور پھر اللہ کی طرف سے اس کا کیا جواب دیا جاتا تھا وہ سب بھی ان کے علم میں تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ یہود ونصاریٰ نے رسول واصحاب رسول سے کب اور کیا کیا سوالات کیے تھے اور قرآن نے ان سوالات کے کیا جواب دیے تھے۔
ان میں بہت سے افراد اگرچہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے مگر وہ بولی کی سطح پر اپنی زبان میں مہارت تامہ رکھتے تھے، اس معاشرے میں یہ عین ممکن تھا کہ ان میں سے کوئی شعر وقصائد کہنے پر قدرت رکھنے کے باوجود عربی زبان لکھنے پر قدرت نہ رکھتا ہو، کیونکہ لکھنا پڑھنا بذات خود الگ فن اور صلاحیت ہے۔ ان کی طلاقت لسانی کا حال یہ تھا کہ وہ غیر عربی داں کو عجمی کہا کرتے تھے، یعنی ایسے لوگ جنہیں اظہار ما فی الضمیر پر قدرت حاصل نہیں ہوتی۔ وہ لغت کے بھی ماہر تھے اور ان کے دیہات کے لوگ بھی یہاں تک کہ ان کے غلام اور کنیزیں بھی عربی زبان وادب میں کامل دست گاہ رکھتی تھیں، بلکہ ان میں سے بعض تو حیران کن حد تک بھی تھیں۔ اس معاشرے کے لوگوں کا ادبی ذوق اعلیٰ ترین تھا، اسی لیے ایسا ہوا کہ قرآن کی اعلیٰ درجے کی ادبیت و جاذبیت کے سامنے اور مروجہ نثر وشعر کے اسالیب و سخن کے بر خلاف قرآن کے بالکل ہی الگ اور مختلف نوعیت کے اسلوب بیان کے سامنے ان کے دل پہلے پہل مسحور ہوئے اور پھر سر بسجود ہو گئے۔
قرآنی معاشرے کے قیام کا طریقہ کار:
قرآنی معاشرہ قائم کرنے کے لیے زمینی سطح پر کام کرنا ناگزیر ہے۔ قرآن سیکھنے اور سکھانے کا ماحول پیدا کرنا ہوگا، اداروں کے نظام اور نصاب کی اصلاح کرنا ہوگی اور ان افراد کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ان کی معاشی حالت مستحکم بنانا ہوگا جو قرآن کی خدمت میں مصروف ہیں۔
قرآن کی تعلیم جتنی زیادہ سادہ، آسان اور کم فیس میں مہیا کی جائے گی، وہ اتنی ہی تیزی سے فروغ پائے گی۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی بنیادی ضروریات، جیسے ہوا اور پانی کو ہر ایک کی دسترس میں رکھا ہے، قرآن کی تعلیم بھی مسلمانوں کی بنیادی ضرورت ہے۔ اسے عام اور فطری طور پر آسان بنانا ہوگا تاکہ کوئی بھی یہ عذر نہ پیش کر سکے کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے قرآن نہیں سیکھ سکا۔
مدارس اور اس کے ذمہ داروں نے اس ضرورت کو پہلے ہی سمجھ لیا تھا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے قرآن، سنت اور دینیات کی تعلیم کو اسکولوں اور کالجوں کی طرح مہنگا نہیں ہونے دیا۔ اگر وہ چاہتے تو ایسا کر سکتے تھے مگر اس صورت میں مسلمانوں کے غریب گھرانے اس نعمت سے محروم رہ جاتے۔ لیکن اس کے باوجود آج بھی مسلم معاشرے میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو ناظرہ قرآن بھی نہیں پڑھ سکتے، ترجمے کے ساتھ پڑھنا تو دور کی بات ہے۔
ہمارے ملک میں اگرچہ قرآن کی اعلیٰ تعلیم اتنی عام نہیں ہو سکی جتنی مطلوب ہے لیکن حفظ، ناظرہ اور دینیات کی بنیادی تعلیم کو عام کرنے میں مکاتب اور مدارس کا نیٹ ورک بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ان کی کوششوں نے امت کو قرآن و سنت سے جوڑے رکھا ہے اور ابتدائی تعلیم ہر مسلمان کے گھر تک پہنچا دی ہے۔
مگر آج کے دور میں یہ کوششیں ناکافی ہیں۔ قرآن کی تعلیم کے جدید اور مؤثر طریقے اپنانے ہوں گے تاکہ کم وقت، مناسب فیس اور منظم انداز میں اس علم کو عام کیا جا سکے۔ موجودہ حالات میں جز وقتی مدارس اور مکاتب کی اہمیت کئی گنا بڑھ چکی ہے کیونکہ آج کل زیادہ تر بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور دینی تعلیم کی ذمہ داری انہی مکاتب پر آ گئی ہے۔
عربی زبان کی تعلیم کو بھی آسان، عام فہم اور مؤثر بنانا ضروری ہے۔ اس کے لیے جدید طریقے اپنائے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ قرآن کو براہ راست سمجھنے کے قابل ہو سکیں۔
مدارس کے ساتھ ساتھ اسکول، کالج اور دیگر پیشہ ورانہ شعبوں کے طلبہ، جیسے ڈاکٹر، انجینئر، ادیب، صحافی اور بزنس مین وغیرہ کے لیے مختصر مدت کے آف لائن اور آن لائن کورسز متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگ جو دینی رجحان رکھتے ہیں لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے زیادہ علم حاصل نہیں کر پاتے، ان کے لیے یہ نصاب بڑا سہولت بخش ثابت ہوگا۔
مسلم بستیوں میں موجود نجی اسکولوں میں قرآن کی تفہیم پر مبنی کورسوں کو نصاب میں شامل کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایسے اسکول کم ہیں، اور جو موجود ہیں ان میں اسلامی تعلیم کے انتظامات ناقص ہیں۔ ہمیں ایسے اسکول قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے جہاں بچے معیاری عصری علوم کے ساتھ ساتھ ضروری دینی علوم بھی سیکھیں اور ان کی اعلیٰ اخلاقی و دینی تربیت کی جائے۔ ان اسکولوں میں وہ ہندی، انگریزی اور دیگر مقامی زبانوں کے ساتھ عربی اور اردو بھی سیکھیں گے جو ان کی زندگی میں آگے چل کر بے حد کار آمد ثابت ہوں گی۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 جنوری تا 01 فروری 2025