قرآنی بیانیے پر سخت کلامی کا الزام۔ایک غلط فہمی
کلام الٰہی سراسر رحمت و ہدایت پر مبنی ۔ انداز بیاں میں شفقت کا پہلو غالب
ابو فہد، نئی دہلی
مجھے سب سے زیادہ مشکل اپنے ہم عمر دوستوں کو یہ سمجھانے میں پیش آتی ہے کہ قرآن کا اسلوبِ بیان جیسا کہ وہ خیال کرتے ہیں کرخت،سخت اور گالی نما نہیں ہے، بلکہ علمی وادبی، فکری وعملی اورمنطقی وسائنسی ہے۔ دوسری بات تو وہ تسلیم کرتے ہیں مگر پہلی بات نہیں مانتے، وہ اپنی تمام تر نیک نیتی، رسوخ فی العلم اور بلند خیالی کے باوجود یہ خیال کرتے اور سمجھتے ہیں کہ قرآن کا بیانیہ بہت سخت ہے اور اس میں گھنگھور گھٹاؤں کی سی گھن گرج اور بجلی کی سی چمک اور کڑک ہے۔ ان کی سمجھ کے اعتبار سے قرآنی بیانیے کا مزاج شبنمی اور ریشمی نہیں ہے اور نہ ہی ایسی روشنی کی طرح ہے جس کی روشنی تیز توہو مگر اس میں تپش اور حدت نہ ہو اور جسے قرآنی تعبیر کے مطابق ’’نور علیٰ نور‘‘ کہہ سکیں۔ پھر وہ حد سے گزرنے لگتے ہیں اورخود اپنے بیانیے کی سختی، شدت اور خود اپنی منفعل مزاجی،اشتعال انگیزی، ہیجانی کیفیت اور تلخ نوائی کے لیے قرآنی آیات سے استدلال بھی کرنے لگتے ہیں۔مزید آگے بڑھ کر وہ قرآن وحدیث کے حربی اور جوابی والزامی بیانیے کے حوالے دینے لگتے ہیں اور بعض ایسی آیات پیش کرنے لگتے ہیں جو ابولہب، ابو جہل اور ولید بن المغیرہ جیسے دشمنان اسلام کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔سورۂ القلم میں ولید بن المغیرہ کے بارے میں ہے:
وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ، هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ ، مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ، عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ، أَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ﴿القلم: ١٣-۱۰﴾
’’ اے نبی! تم ہر گز کسی ایسے شخص کی بات نہ مانو جو بہت قسمیں کھانے والاہے، ذلیل ہے،نکتہ چینی کرنے والا اور آخری درجے کا چغل خور ہے، خیر اور بھلائی کے کاموں سے روکنے والاہے، ظلم وزیادتی میں حدسے گزرجانے والا اور سخت گناہگار ہے، پھر مستزاد برآں نہایت سخت مزاج اور بد اصل بھی ہے۔‘‘
یہ آیات ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور اتنے سخت الفاظ قرآن میں کسی اور متعین شخص کے لیے نہیں آئے ہیں اور اس کی وجوہات معلوم ہیں۔پھروہ اسی حوالے سے ’’تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ‘‘ ،’’ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا‘‘ اور ’’ قَاتَلَهُمُ اللَهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ‘‘ جیسی آیات کے حوالے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھیے قرآن کی زبان اور لب ولہجہ یہ ہے، جیسے ٹین کی چھت پر اولے برس رہے ہیں، بادو باراں کا کوئی طوفان اٹھ رہا ہے یا جیسے سنسان جنگل میں کوئی نر شیر دھاڑ رہا ہے۔ پھر حضرت نوح علیہ السلام کی اپنی قوم کے خلاف جو سخت دعا ہے، اسے کوٹ کرتے ہیں جو قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے :
وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا ، إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا ﴿النوح: ٢۶-۲۷﴾
’’اور پھر نوح نے اپنے رب سے دعا کی کہ اے میرے رب! ان کفار میں سے کسی کو بھی زمین پر زندہ نہ چھوڑ،اگر تو انہیں زندہ رہنے دے گا تو یہ تیرے بندوں کو بھی گمراہ کریں گے اور ان کی نسلوں میں بھی بدکاراور منکرین حق ہی پیدا ہوں گے‘‘
اسی کے ساتھ وہ دیگرآیتیں بھی لے آتے ہیں جن میں اللہ نے نافرمانوں کے لیے آخرت کے عذاب کی وعیدیں سنائی ہیں:
وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَكَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا ﴿الجن:١٥﴾
’’ اور جو نافرمان ہوں گے وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے‘‘
گوکہ اس طرح کی بہت سی آیات آخرت سے متعلق ہیں تاہم وہ انہیں بھی دنیاوی معاملات کے پس منظر میں پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ کے کوڑے اور دُرّےکا بھی ذکرکرتے ہیں اور حضرت ابوبکرؓ کے اس فقرے کا بھی جو کسی وقت سخت کلامی کے موقع پر انہوں نے بطور گالی استعمال کیا تھا۔
اور وہ یہ سب محض اس لیے کرتے ہیں تاکہ انہیں اپنے بے قابو منفعل مزاج اور بےلگام زبان کو قرآن وسنت کی دلیلوں کا سہارا مل جائے۔ پھر ان کا یہ لب ولہجہ اور سخت کلامی صرف اللہ اور رسول کے دشمنوں تک ہی محدودنہیں رہتی بلکہ وہ مسلمانوں میں بھی ان تمام لوگوں کے لیے بھی وہی لب ولہجہ، نازیبا اسلوب اور سخت کلامی کا رویہ اختیار کرتے ہیں جن کا تعلق ان کے مسلک سے نہیں ہوتا اور جو مسلمان ان کے ہم خیال نہیں ہوتے ۔کیونکہ ہر مسلک والے دوسرے تمام مسلک والوں کو کافر ومشرک خیال کرتے ہیں تو ان کا لب ولہجہ غیر مسلک کے لوگوں کے بارے میں بھی وہی ہوتا ہے جو دشمنان اسلام کے بارے میں ہوسکتا ہے۔
لیکن قرآن ان کے دعوے اوراستدلال کے برعکس انتہائی مشفقانہ اورمحبت آمیزلب ولہجے میں بات کرتا ہے۔ قرآن میں بیسیوں جگہ نبی ﷺ کو صبر کی تلقین کی گئی ہے اور کفارومشرکین سے اعراض کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔فی الوقت دو تین مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ قرآن میں ہے:
فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ ﴿طه: ١٣٠﴾
’’اے نبی! ان کفار ومشرکین کی تکلیف دہ باتوں پر صبر کیاکرو‘‘
وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّهُ ﴿يونس: ١٠٩﴾
’’اے نبی! وحی کی پیروی کرو اور صبر کرتے رہو، یہاں تک کہ اللہ کوئی فیصلہ فرمادے‘‘
قرآن میں جس طرح صبر کا بیانیہ ہے اسی طرح اعراض کا بیانیہ بھی ہے۔ اور یہ دونوں بیانیے کوئی ایک دو جگہ نہیں ہیں بلکہ بیسیوں مقامات پرآئے ہیں اور بار بار دہرائے گئے ہیں۔ اعراض کی چند مثالیں ملاحظہ کریں:
اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ﴿الأنعام: ١٠٦﴾
’’اے پیغمبر! اپنے اس رب کے احکامات کی پیروی کرو، جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور مشرکین کی تکلیف دہ باتوں اور رویوں سے اعراض کرو‘‘
خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴿الأعراف: ١٩٩﴾
’’اے نبی! عفو و درگزر کی روش اپناؤ، بھلائی کا حکم دیتے رہو اور نادانوں کی باتوں سے اعراض برتو‘‘
پھر قرآن میں اہل ایمان کو یہ ہدایت بھی ہے:
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ﴿الأنعام: ١٠٨﴾
’’اے مؤمنو! یہ مشرکین اللہ کے علاوہ جن کو پکارتے ہیں، تم انہیں گالیاں نہ دو، مبادا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھی پلٹ کرمحض نادانی کی وجہ سے اللہ کو گالیاں دینے لگ جائیں‘‘
اسی طرح قرآن کے عمومی تخاطب کا پیرایہ بھی بڑا ہی مشفقانہ اور محبت آمیز پیرایہ ہے۔ قرآن کا عام لوگوں سے تخاطب کا انداز ملاحظہ کریں: يَا أَيُّهَا النَّاسُ﴿البقرة: ١٦٨﴾ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ ﴿البقرة: ١٩٧﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ﴿البقرة: ١٧٢﴾ اور يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ ۔۔ ﴿البقرة: ٤٧﴾ یہ قرآن کا عمومی تخاطب ہے اور یہ پیرایہ اور لب ولہجہ اپنی نہاد میں محبت آمیز لب ولہجہ اور پیرایہ بیان ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر قرآن کے اسلوب میں یہ لحاظ بھی اپنے عروج پر ہے کہ قرآن جب لوگوں کو نصحیت کرتا ہے تو لوگوں کو خاص نہ کرکے، ان کا نام لیے بغیر اور ان کے عیوب کی پردہ داری رکھتے ہوئے لوگوں سے عمومی تخاطب کے ساتھ بات کرتا ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ ﴿البقرة: ٢٠٤﴾
’’ اے نبی! ہوسکتاہے کہ دنیا وی زندگی میں کسی کی باتیں تم کو بہت بھلی معلوم ہوں اور خاص کر اس وقت جب وہ بات بات پر اللہ کی قسمیں بھی اٹھاتا جاتا ہو، ایسا شخص بہت ممکن ہے کہ فی الواقع تمہارا سخت دشمن ہو ‘‘
قرآن میں نبیﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ ﴿آل عمران: ١٥٩﴾
’’اے نبی! تم پر اللہ کی یہ بڑی مہربانی ہوئی کہ تم اپنے احباب کے لیے نرم دل واقع ہوئے ہو،اس کے برعکس اگر تم تندخو اور سخت دل ہوتے تو تمہارے احباب تمہارے پاس سے چھٹ جاتے۔ لہذا ، ان کے ساتھ عفو ودرگزر کا معاملہ رکھو، ان کے لیے استغفار کرتے رہو اور دنیاوی معاملات میں ان سے مشورہ بھی کرتے رہو‘‘
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قرآن کا حربی بیانیہ اس کے عمومی اور اصل بیانیے سے الگ ہے۔ حربی بیانیہ بارش کی پھوار اور شبنمی قطروں کے گرنے کی طرح نہیں ہوسکتا۔ جنگ کے میدان میں اخلاقی اصول تو بیان نہیں کیے جاتے،حالانکہ اسلام نے جنگ کے میدان کے بھی اخلاقی اصول بیان کیے ہیں، پھر یہ بیانیہ قرآن میں بہت کم ہے اور یہ کسی بھی طرح سے قرآن کے مین اسٹریم کا بیانیہ نہیں ہے، قرآن کا اصل بیانیہ محبت ورحمت پر مبنی ادبی وتخلیقی نوعیت کا ہےاور اگر کہیں کہیں الزامی بھی ہے تب بھی اس میں ادبیت و تخلیقیت کا عنصر نمایاں ہے۔
بے شک قرآنی بیانیے کا بعض حصہ جوابی، الزامی اور حربی بیانیہ بھی ہے ، تاہم یہ قرآن کا مرکزی بیانیہ نہیں ہے ۔اس کے برعکس مرکزی دھارے کا بیانیہ وہی ہے جس سے ہم قرآن کے بالکل ابتداہی میں متعارف ہوتے ہیں۔ قرآن کی ابتدائی آیات ہیں:
الْحَمْدُ لِلَهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
’’اللہ تمام جہانوں کاپالنہار ہے اور رحمان ورحیم ہے‘‘
بسم اللہ ..‘‘ سے بھی ہم بالکل ابتدا ہی میں متعارف ہوجاتے ہیں اور یہ ایسا کلمہ ہے جو ہر مسلمان کی زبان پر ہمہ وقت جاری وساری رہتا ہے۔ اور اس کا مطلب یہی ہے کہ ایک مسلمان وحدانیت کے اثبات کے بعد اللہ کی جس صفت کا وِرد اور اثبات سب سے زیادہ کرتا ہے وہ یہی صفتِ رحمت ہے۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ قرآن کا یہی بیانیہ قرآن کے مین اسٹریم کا بیانیہ ہے۔ جو محبت ورحمت کے معانی پر مشتمل ہے۔
دیکھیے کتنی خوبصورت بات ہے کہ اللہ نے خود کو ’’رب العالمین‘‘ کہا اور نبی ﷺکو ’’رحمۃللعالمین‘ ‘۔ ان دونوں کی معنویت پر غورکریں ، کس قدر اہم خوبصورت بات ہے، پھر لفظی اور صوتی اعتبار سے بھی یہ دونوں ترکیبیں ایک دوسری سے کس قدر مماثل ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول دنیا کے تمام انسانوں کے لیے از اول تا آخر رحمت ہی رحمت ہیں۔ اور وہ جب رحمت ہیں تو ان کا بیانیہ بھی اور اسلوبِ خطاب بھی رحمت بھرا ہوا ہونالازمی ہے۔
بلا شبہ موجودہ دنیا کے حالات تو ایسے ہیں کہ ایک سنجیدہ اور فکرمند آدمی اگران حالات پر کڑھے،چیخے چلائےاور ان حالات کے ذمہ دار افراد کو یعنی حکم راں ٹولے کواور علمائے سُو کو کوسنے دے اور ان کے لیے بددعائیں کرے تب بھی اس کا غم غلط نہیں ہوگا۔ حالات تو ایسے ہیں کہ اگر آدمی ان حالات پر بہت زیادہ غورکرے گا تو شاید پاگل ہوجائے اوربے بسی کے عالم میں خود اپنا ہی لباس تارتار کرڈالے۔ مگر اس سب کے باوجود لعن طعن اور کوسنے وگالی پر مبنی بیانیہ،اسلوب اور طریقہ کسی طرح بھی عقلمندی اور ہوشمندی کا طریقہ، اسلوب اور بیانیہ نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ اس کے کچھ بھی مفید نتائج نکلنے والے نہیں ہیں۔ آخر گالی دینے سے جنگ تو نہیں رک جائے گی اور لعنت ملامت سے کوئی شخص اپنا رویہ تبدیل تو نہیں کرلے گا۔ اگر ایسا ہوتا تو سیاسی اور مذہبی لوگ اور گروہ جو رات دن ایک دوسرے کو صلواتین سناتے رہتے ہیں اور لعن طعن کرتے رہتے ہیں، یہ سب کب کے سدھر گئے ہوتے ۔
پوری مذہبی تاریخ اور تمام آسمانی کتابیں اس بات کی گواہ ہیں کہ دنیا میں جتنے بھی انسانی گروہ گزرے ہیں ان میں سب سے زیادہ مشکل اور ناخوش گوار حالات کا سامنا انبیاء کرام کو کرنا پڑا ہے ۔ خود نبی ﷺ کو کیسے کیسے سخت ترین حالات پیش آئے؟ ہفتہ دس دن نہیں بلکہ پورے تین سال تک آپؐ نے اورآپ کے اصحاب نے اہل مکہ کا بائیکاٹ سہا اورناقابل برداشت تکلیفیں اٹھائیں ۔ کفار ومشرکین کے آزار اور سختیاں اس حد کو پہنچ گئیں کہ سراپا حلم اور عفو وکرم کا پیکر ہونے کے باوجود آپؐنے ان کے لیے بددعائیں بھی کیں اور ان پر لعن وطعن بھی کیا۔ یہاں تک کہ آپ بعض دلخراش واقعات کے بعد نماز میں قنوت نازلہ بھی پڑھنے لگے، مگر پھر جب وہ حالات گزرگئے تو آپ نے قنوت نازلہ ترک فرمادی۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی زبان پر دشمنان اسلام کے لیے بد دعا اور لعن طعن پر مبنی کلام انتہائی سخت اور ناقابل برداشت حالات میں جاری ہوا۔اس کے برعکس آپ کی عمومی اور دائمی صفت وہی تھی جوقرآن نے جابجا بیان کی ہے اور جس کی بعض مثالیں اوپر گزر چکی ہیں۔ ترمذی شریف میں آپ کی ایک دائمی صفت اس طرح بیان ہوئی ہے: ’’رسول اللہﷺ فحش گو نہیں تھے، حتیٰ کہ مذاقاً بھی فحش کلامی نہیں کرتے تھے، بازارمیں بہت بلند آوازسے بھی نہیں بولتے تھے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے، اس کے برعکس آپ بہت زیادہ معاف کرنے والے اور درگزر فرمانے والے تھے۔‘‘
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے خلاف سخت ترین بد دعا کی۔ جب نوح علیہ السلام کو یقین ہوچلا کہ اب ان کی قوم کے اندر قبول حق کے لیے امید کی کوئی کرن بھی باقی نہ رہی توبالآخر ان کی زبان پر ان کی زندگی بھر کا کرب اوردرد الفاظ بن کرمعرض اظہار میں آہی گیا، قرآن کے الفاظ میں:
وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى ٱلْأَرْضِ مِنَ ٱلْكَٰفِرِينَ دَيَّارًا ،إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا۟ عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوٓا۟ إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا ﴿نوح : ٢٧﴾
’’بالآخرنوح نے اپنے رب کے حضوراپنی قوم کے بے ایمانوں کے لیے یوں بد دعا کی۔ اے میرے رب! اب اِن منکرین حق میں سے کسی کو بھی روئے زمین پر باقی نہ رکھ، اے میرے رب! اگر تو انہیں باقی رکھتا ہے تو یہ تیرے بندوں کو حق سے پھیر دیں گے اور (اے اللہ تو جانتا ہے کہ) ان کی نسلوں میں بھی انہی کی طرح بے ایمان اور فاجر ہی پیدا ہوں گے‘‘
ممکن ہے کہ نوح علیہ السلام کی اس بدعا کے پیچھے یہ حقیقت کارفرما ہو کہ جب حضرت نوح علیہ السلام کو سوفیصد یقین ہوگیا اور انہیں غیبی اشارے مل گئے کہ اب یہ ہلاک کیے جانے والے ہیں کیونکہ اب ان پر حجت تمام ہوچکی ہے اور یہ کسی بھی قیمت پرسدھرنے والے اور ایمان لانے والے نہیں ہیں تو انہوں نے ان کے لیے بد دعا کی کہ ہاں! میرے رب یہ ایسے ہی ہیں، ان سے خیر کی امید نہیں کی جاسکتی، یا اللہ اب انہیں صفحۂ ہستی سے مٹاہی دے۔
قرآن کے بیانات کے مطابق انبیاء کرام کو سخت ترین اور بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ ابنیاء اوران کے ساتھی اللہ کی مدد کے لیے تڑپ اٹھے اور پکارنے لگے کہ آخراللہ کی مدد کب آئے گی؟ قرآن نے بھی اس حقیقت کو محفوظ کیا ہے، ارشاد ہے :
حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَعَهُۥ مَتَىٰ نَصْرُ ٱللَّهِ ۗ أَلَآ إِنَّ نَصْرَ ٱللَّهِ قَرِيبٌ ﴿البقرة: ٢١٤﴾
’’ یہاں تک کہ پیغمبراوراہل ایمان اللہ کو پکار کرفریاد کرنے لگے کہ آخر مدد کب آئے گی، اللہ نے ان کی فریاد رسی کرتے ہوئے فرمایا کہ مدد بس پہنچنے ہی والی ہے‘‘
لیکن اس کے باوجود انبیاء کرام ہمیشہ صبروضبط اورعفوودرگزرکا معاملہ کرتے رہے اورانہوں نے اپنے قول وعمل سے ہمیشہ اپنے سنجیدہ ہونے کا ثبوت دیا۔ قرآن نے خود ان کی صفات بیان کیں،حتیٰ کہ اہل ایمان کی صفات بھی یبان کیں۔فرمایا:
وَعِبَادُ الرَّحْمَـٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ﴿الفرقان: ٦٣﴾
’’رحمان کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر شریفانہ چال چلتے ہیں اور اگرضدی اور ہٹ دھرم انسان ان کے منہ لگتے ہیں تووہ ان سے اعراض کرتے ہیں اورکترا کر نکل جاتے ہیں‘‘
قرآن اہل کفر کو اور ظالم قوموں، شہنشاہوں اور بدخصال لوگوں کو جب ان کی بداعمالیوں اور ظلم وزیادتی کی وجہ سے انہیں جنہم کی اور جنہم کی سختیوں کی وارننگ دیتا ہے تو یہ فی الواقع ایک حقیقت کا بیان ہوتا ہے نہ کہ فی نفسہ لعن طعن۔
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا ﴿النساء: ١٤٥﴾۔
’’منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اوراے پیغمبر تم ان کے لیے کوئی حامی ومددگار بھی نہ پاؤ گے‘‘
یہ منافقین پر لعنت نہیں ہے بلکہ ان کی سزا کا اعلان ہے اوردوسرے پہلو سے یہ ان کے لیے وارننگ ہے کہ وہ وقت رہتے راہ راست پر آجائیں۔ساتھ ہی یہ اہل ایمان کے لیے تحذیر بھی ہے کہ وہ بھی نفاق وشرک سے بچتے ہوئے زندگی گزاریں۔ اسی طرح قرآن میں ہے۔
إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ﴿الأحزاب: ٧٢﴾
’’یقینا انسان اپنے آپ پر بڑا ظلم کرنے والا اور بہت ہی نادان ہے‘‘
یہ بیان بھی انسان (من حیث الجنس) کےلیے گالی نہیں ہے بلکہ حقیقتِ واقعہ کا اظہار ہے کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اور اس کے باوجود کہ وہ احسن تقویم پر پیدا کیا گیا ہے اور اسے قوت گویائی اور ممتاز عقل سے متصف کیا گیا ہے، ان صفات سے کسی اور مخلوق کو متصف نہیں کیا گیا، اس کے باوجود بھی انسان کے وجود میں نسیان،ظلم وعدوان اور جہل بھی رکھ چھوڑے گیے ہیں اور یہ آزمائش کے لیے ہیں۔ وکان الانسان ظلوما جہولا میں اسی حقیقت کو واشگاف کیا جارہا ہے۔ خاص کر جب خالق کی صفت عدل ورحمت سے موازنہ کریں تو انسان سر تا بقدم جہل ونسیان اور ظلم وعدوان کا پُتلا ہی نظر آتا ہے۔
اس کے علاوہ قرآن میں جو سزائیں بیان ہوئی ہیں، ان میں سے بیشتر کا تعلق تو آخرت سے ہے اور وہ جن کا تعلق دنیا سے ہے وہ بھی اپنے انتہائی معنیٰ میں رحمت ہی کا مظہر ہیں، کیونکہ سزائیں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہوتی ہیں اور انسانی معاشروں میں امن وامان قائم کرنے اور دائم رکھنے کے لیے ہوتی ہیں۔
جب صورت حال یہ ہے اور پھر بھی اگر کوئی اپنی بدزبانی اوریاوہ گوئی کے لیے قرآن سے استدلال کرتا ہے تو یہ سب سے معیوب ترین استدلال ہو گا۔ اور قرآن کے پورے بیانیے کو سامنے رکھنے کے بجائے ایک دو آتیں یہاں وہاں سے لے اُڑنا اور شور کرنا کہیں سے کہیں تک بھی درست مزاج نہیں ہوسکتا۔
***
***
بسم اللہ ..‘‘ سے بھی ہم بالکل ابتدا ہی میں متعارف ہوجاتے ہیں اور یہ ایسا کلمہ ہے جو ہر مسلمان کی زبان پر ہمہ وقت جاری وساری رہتا ہے۔ اور اس کا مطلب یہی ہے کہ ایک مسلمان وحدانیت کے اثبات کے بعد اللہ کی جس صفت کا وِرد اور اثبات سب سے زیادہ کرتا ہے وہ یہی صفتِ رحمت ہے۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ قرآن کا یہی بیانیہ قرآن کے مین اسٹریم کا بیانیہ ہے۔ جو محبت ورحمت کے معانی پر مشتمل ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024